کھیل ہے کیا

آج سماج میں نسل کی کمزور سیاسی تربیت یا سوچ واضح طور سے دیکھی جاسکتی ہے

Warza10@hotmail.com

ملک میں موجودہ جاری سیاسی کشمکش جہاں نوجوان نسل کی سیاسی تربیت یا تلخ حقائق جاننے کا سبب بن رہی ہے،وہیں یہ معلومات سیاسی تربیت یا سیاسی تاریخ جاننے کے اصول کے تحت نہیں بلکہ سوشل میڈیا کے پروپیگنڈے کے نتیجے میں ''ادھورے سچ '' کی طرح ہماری نسل تک پہنچ رہی ہیں،جو کسی طور مثبت رجحان ہرگز نہیں،جب تک تلخ سچ کو ملکی سیاسی تاریخ کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش نہ ہوگی،اس وقت تک ہماری نوجوان نسل ہمارے ملک کی جمہوریت کونہ تو سمجھے گی اور نہ ہی اپنے سیاسی ، جمہوری اورآئینی حقوق اشرافیہ کے پنجوں سے آزاد کرواپائے گی۔

یہ ہماری سیاسی تاریخ کی بدقسمتی رہی کہ آمر کو صرف اس واسطے اس ملک پر غیر آئینی طور سے اسلام کے جہادی روپ میں پیش کیا گیا کہ وہ ''سماجی بربادی'' کو پورا کرسکے اور ملک کے نوجوانوں میں سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے کے ذریعے ''طلبہ یونین'' پر پابندی لگاکر نوجوانوں کی ذہنی اور سیاسی تربیت کی درسگاہ بند کرکے نوجوان نسل کی ذہنی نس بندی کردے،اورآمر ضیا الحق نے یہ کام مذہب کے لبادے میں نہایت ڈھٹائی اور تمامتر طاقت کے ساتھ کیا،جس میں ان کی آلہ کار وہ جماعتیں سر فہرست تھیں جنھوں نے مذہب کے نام پر نوجوانوں میں سیاسی شعورکے مقابل ''اسلامی جہاد'' کی تربیت دی اور سیکڑوں نوجوانوں کو قربان کرکے ''افغان جہاد'' کی آڑ میں نہ صرف اربوں ڈالر کمائے بلکہ خطے کے امن کو تباہ و برباد کرنے کے لیے''دہشت گرد'' کی ایک ایسی نسل تیار کی جس نے ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگوں کو ''جہاد'' کے نام پر قتل کیا اور اب تک یہ خطے میں دہشت و وحشت کا کاروبار قائم رکھتے ہوئے ''جتھے'' کی حکمرانی ریاست کی ایما پرآج تک قائم رکھے ہوئے ہیں۔

''جتھے کی سیاست'' کا اہم ثبوت 2017 کا دھرنا اور عدالتی فیصلے کے اصل حقائق کے بعد پی ٹی آئی حکومت کا فیصلے پر عمل درآمد نہ کروانا وہ مجرمانہ عمل ہے ،جس کا تعین اعلیٰ عدلیہ ہی کر سکتی ہے۔ ہمارے ملک میں کچھ روشن خیال اور جمہوریت پسند دکھائی دینے اور سمجھے جانے والے افراد آمرانہ جبر کو نسل جدید میں ایک''توازن'' اور اظہار کی آزادی دینے والی حکومت قرار دیتے ہوئے،ان کے ہم رکاب بھی رہے ہیں اور کچھ اب بھی '' اشرافیہ'' کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کا ہیرو جہادی سوچ کے حامل تحریک انصاف کے چیئرمین کو سمجھتے ہیں،ہم ان کی رائے کا احترام کرتے ہوئے صرف یہی گذراش کرسکتے ہیں کہ جنرل مشرف اور تحریک انصاف کے چیئرمین کی عوام دوستی اور جمہوریت دوستی کے چند کارنامے مکمل سچ کے ساتھ عوام کے سامنے ضرور لائیں تاکہ عوام ان مذکورہ شخصیات کے عوام دوست کارناموں سے فیضیاب ہوسکے۔

نہ بھولا جائے کہ جنرل پرویز مشرف نے ''دہشت گردوں''کی سرکوبی کے بجائے انھوں نے امریکا سے صرف جہادیوں کی خرید و فروخت جاری رکھی اور 9/11کے واقعہ کو کمائی کا ذریعہ بنایا۔ جنرل ایوب اور جنرل ضیا کے بعد سماج اور صحافت کو برباد کرنے کا وہ کام کیا گیا تھا،جس کے لیے ایک منتخب وزیراعظم کو غیر آئینی طور سے قید کرکے اقتدار پر قبضہ کروایا گیا اور سماج کی نسل کو ہاتھ میں''کتے پکڑنے'' کے بہانے روشن خیال سماج بنانے کی دلیل پیش کی گئی،حالانکہ جنرل مشرف کو لانے کی وجہ باقی ماندہ بچ جانے والی وہ جمہوریت اور صحافتی آزادی تھی، جس کے ذریعے یہ سماج جمہوری سانس لے رہا تھا ،جس کو ختم کرنے کے لیے جنرل مشرف نے صحافت کو مشن کی سوچ سے ہٹا کر سرمایہ داروں کے لیے منافع بخش کاروبار بنایا جس نے صحافتی قدروں سے نابلد غیر تربیت یافتہ چینل صحافیوں کی ایک ایسی نسل پیدا کی ،جس کا کام خبر میں ہیجان اور پروپیگنڈہ کرنا تھا،جس سے ریاست کے طاقتور عناصر فائدہ اٹھا سکیں،اور یہی چینل زدہ نسل بعد کو ''ہائیبرڈ نظام'' اور تحریک انصاف کے چیئرمین کے بیانیے کو شہرت دینے کے لیے استعمال کی گئی،جس کے نتیجے میں آج سماج میں نسل کی کمزور سیاسی تربیت یا سوچ واضح طور سے دیکھی جاسکتی ہے۔


مذکورہ وجوہات اور منصوبہ بندی کا واحد مقصد یہ تھا کہ جنرل ایوب کی ''جمہوریت دشمن'' سوچ کا تسلسل برقرار رکھ کر نہ صرف نسل کو سیاسی اور سماجی طور سے بانجھ رکھا جائے بلکہ ملک میں جمہوری سوچ اور آئین و قانون کی بالادستی کو بے توقیر کرکے نئی نسل کے ذہن میں طاقت کی غلام سوچ پیدا کرکے سماج میں بدعنوانی اور پیسے کی ریل پیل کو ہی سب کچھ سمجھ لیا جائے،جس کا اظہار برملا تحریک انصاف کے چیئرمین نے اپنے ہائیبرڈ نظام کے تحت کیا اور سیاسی جماعتوں کی مشترکہ جدوجہد سے آئین میں اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے کی سر توڑ کوشش کی اور ہر تقریر میں ''جنرل ایوب'' کے آمرانہ اور جمہوریت دشمن دور کو '' سنہری دور'' قرار دے کر اپنے2014 کے دھرنے اور ''جتھے'' کی سیاست کو درست قرار دیا،یہی وہ وجہ رہی کہ ہائیبرڈ نظام کے تسلسل کے لیے ''فیض آباد دھرنا'' کے مرکزی کردار تحریک انصاف کے چیئرمین کی حکومت میں کسی بھی احتساب سے بچے رہے۔

16ماہ کی پی ڈی ایم حکومت نے ''فیض آباد دھرنے'' کا مسئلہ کیوں حل نہیں کیا یا کرنا چاہا،پی ڈی ایم کی حکومت کا ایسا نہ کرنے میں غالب امکان یہ نظر آتا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت اس بارے میں یکسو تھی کہ جمہوریت کی راہ میں جو خرابی یا بے راہ روی '' اشرافیہ'' نے پھیلائی ہے وہ اسے خود صاف کریں،یہی پی ڈی ایم حکومت کی وہ مرکزی سوچ تھی جس کے تحت انھوں نے سولہ ماہ کی حکومت میں کوئی بنیادی کام نہ کیے ،بس صرف خود کو وقتی آکسیجن پہنچانے تک محدود رکھا،طاقت کے مقابلے میں سیاست کی ان ادائوں پر مزید غور کیا جا سکتا ہے،مگر سیاسی جماعتوں کی اس چال کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ''فیض آباد دھرنے''کی نظر ثانی کارروائی کو سپریم کورٹ کا اہم اور اعلیٰ عدلیہ کی سمت درست کرنے کے طور پر قدم سمجھا جا رہاہے۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے درست ہی تو کہا ہے کہ ''جرمنی کی فاشسٹ حکومت جب اپنی غلطیوں کا اعتراف کر سکتی ہے تو اسلامی جمہوریہ کہلانے والی ریاست اپنی غلطیوں کا اعتراف کیوں نہیں کرتی ؟یا قاضی فائز کا یہ سوال کہ نظر ثانی کی اپیلیں پہلے کس کے کہنے پر دائر کی گئیں اور اب کس کے کہنے پر دھڑا دھڑ واپس کی جارہی ہیں،یہ اور اس کارروائی کے نتیجے میں دیگر ریمارکس طاقتور عناصر کے لیے وہ سبق ہیں جس کے بعد طاقتور قوتوں اور عوام کی جمہوری آزادی کو تاراج کرنے والی قوتوں کو طے کرنا پڑے گا کہ تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ رہنا چاہتی ہیں یا تاریخ میں سرخرو ہونا ان کا مقصد ہے،بس یہ یاد رہے کہ تاریخ بہت بے رحم اور جذبات سے عاری ہوتی ہے۔بقول شاہ محمد پیرزادو ؎

یہ سب پرانے اوراق جن میں صرف جھوٹ ہے

لوگ جلا ڈالیںگے ترے گڑھے فریب کومیاں
Load Next Story