عنوان دیجیے
ظلمت کا دورانیہ جتنا طویل ہوتا ہے، ذہنی و جسمانی طور پر محکوم سماج اتنا ہی بدتر ہو جاتا ہے
آج میں آپ کی خدمت میں ایک ایسا منظرنامہ پیش کر رہا ہوں جو 700 سال قدیم ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ آج کے پاکستان کا منظر نامہ بھی ہے۔ یہ منظرنامہ ابن خلدون کی تحریروں کے چند اقتباسات کو ملا کر تشکیل دیا گیا ہے۔
ایک یمنی مصنف، رائد الحجازی نے اسے مضمون کی شکل دی ہے۔ اس تحریر کو پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ تحریر سات صدی پرانی نہیں بلکہ پاکستان کی موجودہ صورتحال پر لکھی گئی ہے۔ ابن خلدون عالم اسلام کے مشہور و معروف مورخ، فقیہ، فلسفی اور سیاستدان تھے۔ وہ تیونس میں پیدا ہوئے اور تعلیم سے فراغت کے بعد تیونس کے سلطان ابوعنان کے وزیر مقرر ہوئے، تاہم درباری سازشوں سے تنگ آ کر حاکم غرناطہ کے پاس چلے گئے۔
یہ سر زمین بھی راس نہ آئی تو مصر آ گئے اور جامعہ الازہر میں درس و تدریس پر مامور ہوئے۔ مصر میں انھیں فقہ مالکی کا منصب قضا تفویض کیا گیا۔ اسی عہدے پر انھوں نے وفات پائی۔ان کی وفات سن 1406میں 74 سال کی عمر میں ہوئی۔آج سے سات سو سال قبل لکھی گئی، ابن خلدون کی یہ تحریر مخلوب قوموں مستقبل کے تصور کا منظر نامہ ہے۔ سماجیات کی ماہرین اس تحریر کو ایک شاہکار مانتے ہیں۔
ابن خلدون کہتے ہیں کہ مغلوب قوم کو ہمیشہ فاتح کی تقلید کا شوق ہوتا ہے، فاتح کے طور طریقے، اس کے حالات، رسم و رواج ، اس کے ماضی کو اپنی تاریخ سے جوڑ لیتے ہیں، حتیٰ کہ مغلوب قوم فاتح کی چال ڈھال کی بھی پیروی کرنے لگتی ہے، مغلوب اقوام جس طاقتور سے شکست کھاتے ہیں، اس کی کمال مہارت پر آنکھیں بند کر کے یقین رکھتے ہیں۔
محکوم معاشرہ اپنی اخلاقی اقدار سے دستبردار ہو جاتا ہے، ظلمت کا دورانیہ جتنا طویل ہوتا ہے، ذہنی و جسمانی طور پر محکوم سماج اتنا ہی بدتر ہو جاتا ہے، ایک وقت آتا ہے کہ محکوم صرف روٹی کے لقمے اور جنسی جبلت کے لیے زندہ رہتا ہے۔
جب ریاستیں ناکام اور قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو ان میں نجومی، بھکاری، منافق، ڈھونگ رچانے والے، چغل خور، کھجور کی گٹھلیوں کے قاری، درہم و دینار کے عوض فتویٰ فروش فقیہہ، جھوٹے راوی، ناگوار آواز والے متکبر گلوکار، بھد اڑانے والے شاعر، غنڈے، ڈھول بجانے والے، خود ساختہ حق سچ کے دعویدار، زائچے بنانے والے، خوشامدی، طنز اور ہجو کرنے والے، موقع پرست سیاست دانوں اور افواہیں پھیلانے والے مسافروں کی بہتات ہو جاتی ہے۔
ہر روز جھوٹے روپ کے نقاب آشکار ہوتے ہیں مگر یقین کوئی نہیں کرتا، جس میں جو وصف سرے سے نہیں ہوتا وہ اس فن کا ماہر مانا جاتا ہے، اہل ہنر اپنی قدر کھو دیتے ہیں، نظم و نسق ناقص ہو جاتا ہے، گفتار سے معنویت کا عنصر غائب ہوجاتا ہے ، ایمانداری کو جھوٹ کے ساتھ، اور جہاد کو دہشت گردی کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے۔
جب ریاستیں برباد ہوتی ہیں، تو ہر سو دہشت پھیلتی ہے اور لوگ گروہوں میں پناہ ڈھونڈنے لگتے ہیں، عجائبات ظاہر ہوتے ہیں اور افواہیں پھیلتی ہیں، بانجھ بحثیں طول پکڑتی ہیں، دوست دشمن اور دشمن دوست میں بدل جاتا ہے، باطل کی آواز بلند ہوتی ہے اور حق کی آواز دب جاتی ہے، مشکوک چہرے زیادہ نظر آتے ہیں اور ملنسار چہرے سطح سے غائب ہو جاتے ہیں، حوصلہ افزا خواب نایاب ہو جاتے ہیں اور امیدیں دم توڑ جاتی ہیں، عقلمند کی بیگانگی بڑھ جاتی ہے، لوگوں کی ذاتی شناخت ختم ہوجاتی ہے اور جماعت، گروہ یا فرقہ ان کی پہچان بن جاتے ہیں۔
مبلغین کے شور شرابے میں دانشوروں کی آواز گم ہو جاتی ہے۔ بازاروں میں ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے، قوم پرستی، حب الوطنی، عقیدہ اور مذہب کی بنیادی باتیں ختم ہو جاتی ہیں اور ایک ہی خاندان کے لوگ خونی رشتہ داروں پر غداری کے الزامات لگاتے ہیں۔بالآخر حالات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ لوگوں کے پاس نجات کا ایک ہی منصوبہ رہ جاتا ہے اور وہ ہے ''ہجرت''، ہر کوئی ان حالات سے فرار اختیار کرنے کی باتیں کرتا ہے، تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہونے لگتا ہے، وطن ایک سرائے میں بدل جاتا ہے، لوگوں کا کل سازو سامان سفری تھیلوں تک سمٹ آتا ہے۔ وطن یادوں میں، اور یادیں کہانیوں میں بدل جاتی ہیں!
ابن خلدون کے بیان کردہ اس سماجی منظر نامے کو اگر اج ہم پاکستان کے حالات پر منطبق کریں تو ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے یہ تحریر اج کے پاکستان کو دیکھ کر لکھی ہے۔کف افسوس کہ ہم نہ تو اپنی تاریخ سے سبق سیکھتے ہیں اور نہ ہی حالات کی نزاکت سے۔ ہم تو بس ''کبوتر'' کی طرح آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہیں کہ ''بلی'' حملہ اور نہ ہوگی اور حالات خود بخود درست ہو جائیں گے۔آج پاکستان جس قحط الرجال کا شکار ہے اس پر تو یہی کہا جا سکتا ہے۔
''در قفس خود نگاہ اٹھتی ہے... گلستان میں جب کوئی رہبر نظر نہیں آتا۔''
ایک یمنی مصنف، رائد الحجازی نے اسے مضمون کی شکل دی ہے۔ اس تحریر کو پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ تحریر سات صدی پرانی نہیں بلکہ پاکستان کی موجودہ صورتحال پر لکھی گئی ہے۔ ابن خلدون عالم اسلام کے مشہور و معروف مورخ، فقیہ، فلسفی اور سیاستدان تھے۔ وہ تیونس میں پیدا ہوئے اور تعلیم سے فراغت کے بعد تیونس کے سلطان ابوعنان کے وزیر مقرر ہوئے، تاہم درباری سازشوں سے تنگ آ کر حاکم غرناطہ کے پاس چلے گئے۔
یہ سر زمین بھی راس نہ آئی تو مصر آ گئے اور جامعہ الازہر میں درس و تدریس پر مامور ہوئے۔ مصر میں انھیں فقہ مالکی کا منصب قضا تفویض کیا گیا۔ اسی عہدے پر انھوں نے وفات پائی۔ان کی وفات سن 1406میں 74 سال کی عمر میں ہوئی۔آج سے سات سو سال قبل لکھی گئی، ابن خلدون کی یہ تحریر مخلوب قوموں مستقبل کے تصور کا منظر نامہ ہے۔ سماجیات کی ماہرین اس تحریر کو ایک شاہکار مانتے ہیں۔
ابن خلدون کہتے ہیں کہ مغلوب قوم کو ہمیشہ فاتح کی تقلید کا شوق ہوتا ہے، فاتح کے طور طریقے، اس کے حالات، رسم و رواج ، اس کے ماضی کو اپنی تاریخ سے جوڑ لیتے ہیں، حتیٰ کہ مغلوب قوم فاتح کی چال ڈھال کی بھی پیروی کرنے لگتی ہے، مغلوب اقوام جس طاقتور سے شکست کھاتے ہیں، اس کی کمال مہارت پر آنکھیں بند کر کے یقین رکھتے ہیں۔
محکوم معاشرہ اپنی اخلاقی اقدار سے دستبردار ہو جاتا ہے، ظلمت کا دورانیہ جتنا طویل ہوتا ہے، ذہنی و جسمانی طور پر محکوم سماج اتنا ہی بدتر ہو جاتا ہے، ایک وقت آتا ہے کہ محکوم صرف روٹی کے لقمے اور جنسی جبلت کے لیے زندہ رہتا ہے۔
جب ریاستیں ناکام اور قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو ان میں نجومی، بھکاری، منافق، ڈھونگ رچانے والے، چغل خور، کھجور کی گٹھلیوں کے قاری، درہم و دینار کے عوض فتویٰ فروش فقیہہ، جھوٹے راوی، ناگوار آواز والے متکبر گلوکار، بھد اڑانے والے شاعر، غنڈے، ڈھول بجانے والے، خود ساختہ حق سچ کے دعویدار، زائچے بنانے والے، خوشامدی، طنز اور ہجو کرنے والے، موقع پرست سیاست دانوں اور افواہیں پھیلانے والے مسافروں کی بہتات ہو جاتی ہے۔
ہر روز جھوٹے روپ کے نقاب آشکار ہوتے ہیں مگر یقین کوئی نہیں کرتا، جس میں جو وصف سرے سے نہیں ہوتا وہ اس فن کا ماہر مانا جاتا ہے، اہل ہنر اپنی قدر کھو دیتے ہیں، نظم و نسق ناقص ہو جاتا ہے، گفتار سے معنویت کا عنصر غائب ہوجاتا ہے ، ایمانداری کو جھوٹ کے ساتھ، اور جہاد کو دہشت گردی کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے۔
جب ریاستیں برباد ہوتی ہیں، تو ہر سو دہشت پھیلتی ہے اور لوگ گروہوں میں پناہ ڈھونڈنے لگتے ہیں، عجائبات ظاہر ہوتے ہیں اور افواہیں پھیلتی ہیں، بانجھ بحثیں طول پکڑتی ہیں، دوست دشمن اور دشمن دوست میں بدل جاتا ہے، باطل کی آواز بلند ہوتی ہے اور حق کی آواز دب جاتی ہے، مشکوک چہرے زیادہ نظر آتے ہیں اور ملنسار چہرے سطح سے غائب ہو جاتے ہیں، حوصلہ افزا خواب نایاب ہو جاتے ہیں اور امیدیں دم توڑ جاتی ہیں، عقلمند کی بیگانگی بڑھ جاتی ہے، لوگوں کی ذاتی شناخت ختم ہوجاتی ہے اور جماعت، گروہ یا فرقہ ان کی پہچان بن جاتے ہیں۔
مبلغین کے شور شرابے میں دانشوروں کی آواز گم ہو جاتی ہے۔ بازاروں میں ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے، قوم پرستی، حب الوطنی، عقیدہ اور مذہب کی بنیادی باتیں ختم ہو جاتی ہیں اور ایک ہی خاندان کے لوگ خونی رشتہ داروں پر غداری کے الزامات لگاتے ہیں۔بالآخر حالات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ لوگوں کے پاس نجات کا ایک ہی منصوبہ رہ جاتا ہے اور وہ ہے ''ہجرت''، ہر کوئی ان حالات سے فرار اختیار کرنے کی باتیں کرتا ہے، تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہونے لگتا ہے، وطن ایک سرائے میں بدل جاتا ہے، لوگوں کا کل سازو سامان سفری تھیلوں تک سمٹ آتا ہے۔ وطن یادوں میں، اور یادیں کہانیوں میں بدل جاتی ہیں!
ابن خلدون کے بیان کردہ اس سماجی منظر نامے کو اگر اج ہم پاکستان کے حالات پر منطبق کریں تو ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے یہ تحریر اج کے پاکستان کو دیکھ کر لکھی ہے۔کف افسوس کہ ہم نہ تو اپنی تاریخ سے سبق سیکھتے ہیں اور نہ ہی حالات کی نزاکت سے۔ ہم تو بس ''کبوتر'' کی طرح آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہیں کہ ''بلی'' حملہ اور نہ ہوگی اور حالات خود بخود درست ہو جائیں گے۔آج پاکستان جس قحط الرجال کا شکار ہے اس پر تو یہی کہا جا سکتا ہے۔
''در قفس خود نگاہ اٹھتی ہے... گلستان میں جب کوئی رہبر نظر نہیں آتا۔''