سردار الانبیاء حضور صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم کا اسوہ حسنہ
رسول اللہﷺ کا معاملہ یہ ہے کہ ان کی گفتار جتنی پاکیزہ ہے
نبی آخرا لزماں ﷺ کی حیاتِ طیبہ ہر ایک کے لیے ایسا روشن نمونہ ہے کہ جس پر چل کر اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل ہو سکتی ہے اور انسان دونوں جہانوں کی کامیابیوں سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔
نمونہ اس چیز کو کہا جاتا ہے جسے سامنے رکھ کر دوسری چیز کو اْس کے سانچے میں ڈھالا جائے۔ بہترین نمونہ ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ کو اپنے سامنے رکھ کر اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالا جائے اور ہر معاملے میں آپ ﷺ کی اطاعت و فرماں برداری کی جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ''حقیقت میں تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ (کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونہ (حیات) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے'' (سورۃ الاحزاب، آیت:21) قرآن کریم کی اس آیت میں وجہ تخلیق کائنات، فخر موجودات محمد مصطفی احمد مجتبیٰﷺ کی حیاتِ طیبہ اور آپ ﷺ کے بے مثال اسوہ ء حسنہ کو بہترین نمونہ قرار دیا گیا ہے۔
حضرت انس ﷺ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جس جوان نے کسی بوڑھے شخص کی اس کے بڑھاپے کی وجہ سے تعظیم وتکریم کی تو اللہ تعالیٰ اس کے بڑھاپے کے وقت ایسے شخص کو مقرر کرے گا جو اس کی تعظیم کرے گا (رواہ الترمذی) ترمذی شریف میں ایک جگہ نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ ''تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اخلاق کے اعتبار سے سب سے اچھا ہو'' چنانچہ عظمت اخلاق آخری نبی کریمﷺ کا امتیاز ہے، سارے انبیاء اخلاق کی تعلیم دینے کے لیے دنیا میں آ ئے، مگر آپﷺ اس ہدایت کے آخری رسول ہیں، یا یوں سمجھئے کہ قرآنی نظریہ اخلاق ہے اور رسول نمونہ اخلاق ہیں۔
رسول اللہﷺ کا معاملہ یہ ہے کہ ان کی گفتار جتنی پاکیزہ ہے، کردار اتنا ہی پاکیزہ نظر آتا ہے، تعلیم جتنی روشن نظر آتی ہے، سیرت اتنی خوبصورت دکھائی دیتی ہے، کہیں پر کوئی جھول یا کسی قسم کا کھوٹ نہیں، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ واقعی اس اعزاز کے مستحق تھے، کیونکہ وہ کون سا خلق حسن ہے جو آپ کی ذات گرامی میں نہیں تھا، حیاء جس کو تمام اخلاق میں سب سے افضل اور عظیم ترین خلق قرار دیاگیا ہے۔
آپﷺ کی عملی زندگی میں اس کے دخل کا یہ حال تھا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک باکردار اور بے نکاح لڑکی اپنے پردے میں جس قدر حیا کرتی ہے اس سے کہیں زیادہ رسول اکرم ﷺ حیا دار تھے۔ غصہ کو دبانا اور ضبط کرنا بڑی اعلیٰ صفت ہے جو برسوں کی ریاضت کے بعد کسی کو حاصل ہوتی ہے، اس کے فضائل بیان کر دینا تو آسان ہے مگر اس پر عمل کرنا بڑا مشکل ہے لیکن آپﷺ کے اندر یہ اعلیٰ صفت کوٹ کوٹ کر بھی ہوئی تھی۔
اگر سیرت کا مطالعہ غور سے کیا جائے تو اس کی مثالیں قدم قدم پر ملیں گی، وحشی بن حرب جن کی ذات سے اسلامی تاریخ کے تلخ ترین حادثہ کی یاد وابستہ ہے، کہ جنھوں نے رسول اکرمﷺ کے محبوب و مشفق چچا کو قتل کیا تھا لیکن جب وہ اسلام لاکر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے ان کا اسلام تسلیم فر ما لیا، پھر آپ ﷺ نے ان سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل کی کیفیت دریافت فرمائی، جب انھوں نے واقعہ بیان کیا تو آپﷺ پر گریہ طاری ہوگیا اور فرمایا وحشی! تمہارا قصور معاف ہے، لیکن تم میرے سامنے نہ آیا کرو، تمہیں دیکھ کر پیارے شہید چچا کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ میں ایک اخلاق یہ بھی ہے کہ آپ ہمیشہ وفا کرتے تھے، حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ مجھے قریش نے رسول اکرمﷺ کی خدمت میں کسی کام سے بھیجا ( یہ اس وقت کی بات ہے جب میں اسلام سے محروم تھا) جب میں نے آپﷺ کی زیارت کی تو فوراً میرے دل میں اسلام کی محبت بیٹھ گئی، چنانچہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! خدا کی قسم اب میں یہاں سے واپس نہیں جاؤں گا ، مگر آپ ﷺ نے فرمایا ''نہ تو میں وعدہ خلافی کرتا ہوں اور نہ عہد شکنی کرتا ہوں اور نہ ہی غلاموں کو روکتا ہوں۔
فی الوقت تم واپس چلے جاؤ البتہ اگر تمہارے دل میں یہی جذبہ، یہی ارمان، یہی تمنا، یہی خواہش رہی تو پھر واپس چلے آنا'' چنانچہ میں اس وقت تو چلا گیا لیکن بعد میں خدمت اقدس میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے اپنے اخلاق حسنہ کی دولت سے تڑپتی انسانیت کی غمخواری کی ، اپنے ازلی وابدی دشمنوں کو پتھر کے جواب میں پھولوں کا گلدستہ پیش کیا، نفرت کے اندھیروں میں الفت و محبت کی شمع روشن کی، آپسی تفرقہ بازی اور دائمی بغض و عداوت کی بیخ کنی کر کے بھائی چارگی اور الفت ومحبت کے چشمے بہائے، یہی نہیں بلکہ ذرا دو قدم آگے بڑھ کر فتح مکہ کی تاریخ کے اوراق کو الٹ کر دیکھئے کہ آپ ﷺ مکہ میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوتے ہیں، صحابہ کرام کی دس ہزار جمعیت آپ کے ساتھ ہے۔
صحابہ اعلان کرتے ہیں آج بدلے کا دن ہے، آج جوش انتقام کو سرد کرنے کا دن ہے، آج شمشیروسناں کا دن ہے، گذشتہ مظالم کی بھڑکتی چنگاری کو ان کے لہو سے بجھائیں گے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے اور زمین و آسمان گواہی دیتے ہیں کہ ایساکچھ نہیں ہوا، رحمت نبوی جوش میں آئی اور زبان رسالت کی صدائیں لوگوں کے کانوں سے ٹکراتی ہیں کہ جاؤ تم سب آزاد ہو، تم لوگوں سے کسی قسم کا بدلہ نہیں لیا جائیگا۔
یہ تھاآپ کا اخلاق کریمانہ، یہ تھا آ پ کے اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ، جس کی مثال سے دنیا قاصر ہے چنانچہ آپﷺ نے عالم انسانیت کو اخلاقیت کا وہ اعلیٰ نمونہ پیش کیا جس کی گواہی باری تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں بے شک آپ اعلیٰ اخلاق کے پیکر ہیں۔
ایک جگہ خود نبی پاکﷺ اپنی اخلاقیت کی گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہیں مجھے تو اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ میں نیک خصلتوں اور مکارم اخلاق کی تکمیل کروں ، اسی کو سراہتے ہوئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی آپ کے اخلاق حسنہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں جو مکارم اخلاق آپ کو خالق کونین کی طرف سے مرحمت ہوئے تھے اور جن کی تکمیل کے لیے آپ کو اس دنیا میں بھیجا گیا تھا وہ مکلف مخلوق کی فطرت کے جملہ مقتضیات کے عین مطابق تھے اور جن کا مقصد صرف یہی نہ تھا بلکہ ان کے ذریعہ روحانی مریضوں کو ان کے بستروں سے اٹھایا جائے اور اٹھنے والوں کو چلایا جائے اور چلنے والوں کو تیزی سے دوڑایا جائے اور دوڑنے والوں کو روحانی کمال اور اخلاقی معراج کی بلندیوں تک اور سعادت دنیوی ہی نہیں بلکہ سعادت دارین کی سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچایا جائے،بیشک نبی پاکﷺ کی زندگی اخلاق حسنہ سے بھری پڑی ہے۔
جسے آج ہمیں اس نازک ترین حالات میں اپنانے کی ضرورت ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اخلاق کی تعلیم دوسروں کو دیں اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں اور نبی کریمﷺ کے طرز عمل پر اپنی زندگی کو سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں کیونکہ نبی کریم ﷺ کے اخلاق حسنہ کو اپنانے کے بعد ہمارے لیے بھی اخلاقیت کی بلند اور دشوار گزار گھاٹی پر چڑھنا آسان ہو جائے گا، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں جناب نبی کریمﷺ کے اخلاق عالیہ اپنانے کی توفیق نصیب فرمائے ۔آمین