رحمۃ للعالمینخاتم النبیین حضرت محمد مصطفی
آپﷺ کے بعد اس دنیا میں کوئی نبی نہیں آئے گا
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت کی برکت اور آنحضرت ﷺ کی شان ختم المرسلینی کے توسط سے امت مسلمہ کو رب کریم کی طرف سے ایسی بے پایاں رحمتیں حاصل ہوئیں جن کی گنتی کرنے سے اعدادوشمار کے آلات قاصر ہیں۔
چنانچہ ارشاد ربانی ہے تم بہترین امت ہو یہ منفرد اعزاز بھی ختم نبوت کے مرہون منت ہے، حضور اکرمﷺ سید الرسل اور خاتم الانبیاء ہیں۔
آپﷺ کے بعد اس دنیا میں کوئی نبی نہیں آئے گا اور آپ دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت، راہنمائی اور زندگی گزارنے کا پورا پورا سامان اور تعلیمات لے کر آئے جو رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے مشعل راہ اور کامیابی وکامرانی کا معیار، زینہ اور ضامن ہیں۔
اْمت پر آپﷺ کے حقوق و فرائض میں آپ پر ایمان لانا،آپ سے محبت وعقیدت رکھنا، آپ کی تعظیم وتوقیر، اطاعت وفرماں برداری اور آپ کی اتباع وپیروی شامل ہے، حضورﷺ کی عالمگیر اور ہمہ جہت نبوت، زمین و زماں اور مکین ومکاں پر محیط رسالت اور قیامت تک کی انسانیت پر مسلمہ سیادت آپ ﷺ کی خصوصیات،امتیازات اوراعزازات میں سے ہے جس کا تذکرہ کرتے ہوئے رب کریم نے وماارسلنک الاکافۃ للناس اور وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین کے محبوبانہ انداز تخاطب سے آپ سے خطاب کیا اور خودآنحضرت ﷺ نے بھی ا رسلت الی الخلق کافہ کے جامع کلمات سے حق جل مجدہ کی اس نعمت غیرمترقبہ کا اظہار فرمایا۔ آپﷺ کی نبوت کی طرح آپﷺ کی سیرت بھی عالمی وآفاقی ہے جس نے تمام شعبہ ہائے زندگی کے لئے ایسے اصول فراہم کیے ہیں جو نظام عالم کی بقاء کے ضامن، انسانی و معاشرتی قدروں کا حسن اور تمام انسانیت کے لئے نجات دہندہ ہیں۔ آپﷺ کا بے داغ بچپن، باکردار جوانی اور حسن عمل کاحامل بڑھاپا صرف عالم اسلام ہی نہیں، تمام اقوام عالم کے لئے مشعل راہ ہے۔
یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف منصف مزاج غیر مسلم دانشوروں نے برملااور بجا طور پر کیا ہے۔ معروف ہندوسکالر سوامی لکشمن جی نے جب تعمق نظری سے پیغمبراسلام کی شخصیت کا مطالعہ کیا تو اس قدر متاثرہوا کہ آپﷺ کی سیرت طیبہ پرپوری کتاب لکھ ڈالی جس کا نام ''عرب کا چاند''رکھا۔ اس کتاب سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے۔ ''جہالت اور ضلالت کے مرکز اعظم جزیرہ نمائے عرب کے کوہ فاران کی چوٹیوں سے ایک نور چمکا،جس نے دنیا کی حالت کو یکسر بدل دیا،گوشہ گوشہ کو نور ہدایت سے جگمگا دیااور زرہ زرہ کوفروغ تابش حسن سے غیرت خورشید بنا دیا۔
آج سے چودہ صدیاں پیشتر اسی گمراہ ملک کے شہر مکہ معظمہ کی گلیوں سے ایک انقلاب آفریں صدا اٹھی جس نے ظلم وستم کی فضاؤں میں تہلکہ مچادیا ۔ یہیں سے ہدایت کا وہ چشمہ پھوٹا،جس نے اقلیم قلوب کی مرجھائی ہوئی کھیتیاں سرسبزو شاداب کر دیں۔
اسی ریگستانی چمنستان میں روحانیت کا وہ پھول کھلا جس کی روح پرور ، مہک نے دہریت کی دماغ سوزبو سے گھرے ہوئے انسانوں کے مثام جان کومعطرومعنبرکر دیا۔ اسی بے برگ وگیاہ صحرا کے تیرہ وتار افق سے ضلالت و جہالت کی شب دیجور میں صداقت وحقانیت کا وہ ماہتاب درخشاں طلوع ہوا جس نے جہالت وباطل کی تاریکیوں کو دور کرکے ذرے ذرے کو اپنی ایمان پاش روشنی سے جگمگا کر رشک طور بنا دیا۔گویا ایک دفعہ پھرخزاں کی جگہ سعادت کی بہار آگئی۔ (صفحہ۵۶،۶۶)
آنحضرتﷺ کی سیرت طیبہ کی جامعیت کا عالم یہ ہے کہ جہاں ایک طرف امت کو خطاب کر کے ارشادہ ہوا لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ (احزاب:۱۲) ''البتہ تحقیق تمہارے لئے اللہ کے رسول(کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے''وہیں انبیا کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی مقدس ترین جماعت اور افضل الخلائق ہستیوں کو مخاطب فرما کر انہیں آپﷺ کی اقتداء اور پیروی کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ فرمان باری تعالی ہے''اور جب اللہ نے نبیوں سے عہد لیا کہ میں جوکچھ بھی تمہیں کتاب اور حکمت عطاء کروں پھر تمہارے پاس ایک رسول آجائے جواس چیز کی تصدیق کرنے والا ہے جو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور اس پر ایمان لاؤ گے اور ضرور اس کی مدد کروگے''(ال عمران:۱۸) گویا آپﷺ کی ذات گرامی مقتداؤں کی مقتدا، پیشواؤں کی پیشوا اور راہنماؤں کی راہنما ہے۔ اندازہ کریں!کیا کمال ہے آنحضرتﷺ کی سیادت و امارت کا اورکیا شان ہے نمونہ کاملہ کی کہ اصحاب شریعت وکتاب، اولو العزم اور معصوم ترین ہستیاں جس کی زیر اقتداء ہیں اور وہ اس سوا لاکھ طائفہ مقدسہ کے راہبر وراہنماء ہیں۔
پیغمبراسلامﷺ کی عالمگیر اور تمام فطری تقاضوں کے عین مطابق سیرت کے بے شمار اسرارورموز میں سے ایک راز یہ ہے کہ آپﷺ نے جودستور حیات امت کو دیا اسے محض اپنے بیان وفرمان اوروعظ وتقریر کے ذریعہ ہی ان تک نہیں پہنچایا بلکہ اس کا عملی نمونہ ان کے سامنے پیش کیا، احادیث طیبات میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
آنحضرتﷺ کی تاابد اسوہ حسنہ بننے والی سیرت مبارکہ کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ آپﷺ کی بچپن سے لڑکپن، لڑکپن سے بچپن،پچپن سے جوانی،جوانی سے بڑھاپا اور بڑھاپے سے رحلت تک غرضیکہ زندگی کا ایک ایک لمحہ خواہ وہ آپﷺ کے بشری وطبعی امور سے متعلق ہو یا دینی وشرعی امور سے، مکمل طور پر محفوظ ہے۔
آپﷺ کے مخلص جانثاروں اور بے لوث غلاموں نے اپنے احاطہ علمی میں لا کر امت تک پہنچایا۔ خادم رسول ﷺحضرت انسؓ آپﷺ کے سر اور داڑھی مبارک کے سفید بالوں کی تعداد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں(شمائل ترمذی)''آپﷺ کی وفات اس حال میں ہوئی کہ آپﷺ کے سر اور ریش مبارک میں بیس بال بھی سفید نہیں تھے''۔ غور فرمائیں! جس شخصیت کے سفید بالوں تک کی گنتی سے امت آشنا ہے اس کی زندگی کا کوئی گوشہ امت کی نگاہوں سے اوجھل رہ سکتا ہے۔
اسی طرح آپﷺ کے سرمہ اور تیل لگانے،کنگا کرنے،جوتا پہننے، تبسم فرمانے، چلنے پھرنے اور اظہارمسرت وغم کے وقت آپ ﷺ کی کیفیت جیسے احوال صحابہ کرامؓ نے نوٹ کر کے اگلی نسلوں تک منتقل کئے جو عام طور پر کسی بڑی شخصیت کے سوانح مرتب کرتے وقت ملحوظ نہیں رکھے جاتے۔ حضرت ابو طلحہؓ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو آپﷺ کے چہرہ انور پر خوشی محسوس ہو رہی تھی ۔
ہم لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ ہم لوگ آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار محسوس کر رہے ہیں۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ''بلاشبہ میرے پاس فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے محمدﷺ اللہ عزوجل فرماتا ہے کیا تم لوگ خوش نہیں ہوتے جو شخص تمہارے اوپر ایک مرتبہ درود شریف بھیجے گا تو میں اس شخص پر دس مرتبہ رحمت بھیجوں گا اور تمہارے میں سے جو شخص (ایک مرتبہ) سلام بھیجے گا تو میں اس پر دس مرتبہ سلام بھیجوں گا'' اللہ رب العزت ہم سب کو اپنے نبی کریم رحمۃ للعالمین امام الانبیاء حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کے اسوہء حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے آمین۔