ساڑھے 5 ہزار سالہ عراقی بادشاہت

ہزاروں سال طویل اس بادشاہی نظام کا خاتمہ 14 جولائی 1958 ء کو ہوا، عظیم سلطنت کے نشیب و فراز کی داستان

فوٹو : فائل

انسانی تہذیب کا آغاز ہی عراق، شام اور مصر کی سرزمین سے ہوتا ہے۔ یوں انبیا کرام کی یہ سر زمین انسانی تمدن اور تہذیب کے اعتبار سے کم از کم پندر بیس ہزار سال سے زیادہ قدیم ہے مگر تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو اس انسانی تہذیب کے جو آثار واضح انداز میں ملتے ہیں وہ سمیر ی تہذیب sumerian civilization سے شروع ہوتے ہیں۔

پھر یہ Assyrians اکاڈین تہذیب سے ہوتی 1792 قبل مسیح ، ہیمورابی جیسے عظیم بادشاہ تک پہنچی جس نے دنیا میں پہلی مرتبہ قانون (آئین یا دستور) دیا۔ 604 قبل مسیح Nebuchadnezzar,ii, کا دور رہا، اس کے بعد سائرس اعظم کا دور رہا جو ایران کا بادشاہ تھا اُس نے اس پورے علاقے کو فتح کیا تھا اور یہاں سے یہودیوں کو جن کو فسلطین پر حملہ کر کے بابل کے لوگوں نے چالیس ہزار کو قتل کیا تھا اور باقی یہودیوں کو یہاں عراق ''بابل ،نینوا'' میں غلام اور کنیزیں بنا کر لائے تھے، سائرس اعظم نے اُن کو دوبارہ فسطین میں آباد کیا۔ یہاں عراق میں بخت نصر نے عظیم محلا ت تعمیر کروائے تھے۔

116ء میں رومیوں کی حکمرانی یہاں مستحکم ہو گئی ۔ 224 ء میں ساسانی خاندان کی حکمرانی کا دور شروع ہوا ۔ 642 ء میں اسلام کا دورِ حکمر انی شروع ہوا اور اسی عراق میں بدقسمتی سے 10 محرم الحرام 61 ہجری بمطابق 9 یا 10 اکتوبر 680 ء کو واقعہ کر بلا پیش آیا۔ اُ س وقت اموی خلیفہ یزید اوّل تھے ۔ یہاں حضرت امام حسینؓ نے اپنے 72 ساتھیوں کے ساتھ حق و باطل کی جنگ میں شہادت پائی۔ یہ سانحہ اسلامی تاریخ کا سب سے دردناک واقعہ ہے ۔

یہاں 762 ء میں بغداد کا شہر آباد کیا گیا پھر اسی عراق میں خصوصاً 750 ء میں خلافت عباسی دور حکومت شروع ہو ا جو بڑی آب وتاب کے ساتھ1031 ء تک ترقی کرتا رہا مگر اس کے بعد سلجوق حکمران ہوئے لیکن بغداد کی عظمت میں 1258 ء تک اضافہ ہوتا رہا اور یہ ترقی عباسی خلافت کی مرہون منت تھی۔



یہ دور 1258 ء تک رہا جس میں نامور خلفاء میں ہارون الرشید 14 ستمبر 786 ء سے 24 مار چ 809 ء تک رہے، اس کے بعد امین الرشید 24 مارچ 809 ء سے 27 ستمبر 813 ء تک خلیفہ رہے پھر مامون الرشید 813 ء سے 7 اگست 833 ء تک خلیفہ رہے، اس خلافت کے دوران اور 1258 ء تک بغداد دنیا میں اپنا سب سے بلند علمی، ادبی مقام رکھتا تھا اور آج جیسے دنیا بھر سے لوگ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے لندن، نیویارک جاتے ہیں۔

اُس زمانے میں بغداد آیا کرتے تھے یہاں اُس وقت بغداد شہر میں دنیا کی اہم ترین یونیورسٹیاں اور لائبریریاں قائم تھیں، اور شہر کی آبادی بارہ سے چودہ لاکھ کے درمیان تھی۔ 1258 ء میں چنگیزخان کے پوتے ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا، حملے سے پہلے اُس نے بغداد شہر کا محاصرہ کیا جو 29 جنوری 1258 ء کو کیا اور 10 فروری1258 ء تک جارہی رہا، اُس وقت عباسی خلیفہ مستعصم باللہ تھا جس نے بہت سے ہیرے جواہرات اکھٹا کر رکھے تھے۔

مورخین کے مطابق جب شہر فتح کر لیا گیا تو ہلاکو خان نے خلیفہ کو کچھ دن بھوکے رکھا اور پھر کھانے کے لیے پلیٹ میں ہیرے جواہرات دیئے اور کہا کہ کھاؤ پھر بولا یہ دولت تم نے اگر فوج پر خرچ کی ہوتی تو آج یہ نہ دیکھنا پڑتا۔

اس حملے کو انسانی تاریخ میں علم، تمدن اور تہذیب کے نقصان کی سب سے بڑی تباہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ ہلاکو خان نے نہ صرف بغداد میں محاصرے کے بعد پچاس ہزار سپاہیوں اور لاکھوں شہریوں کا قتل عام کیا بلکہ بغدادکی لائبریریوں،یونیورسٹیوںاور تجربہ گاہوں سب کو جلا کر راکھ کر دیا اس کے بعد دوسرے فاتح امیر تیمور نے بغداد کو 1401 ء میں تاراج کیا اور اس موقع پر بھی عراق میں ہزاروں افراد کو قتل کیا گیا۔

1530 ء میں عراق پر خلافت ِ عثمانیہ کی حکومت قائم ہو گئی جو پہلی جنگِ عظیم کے آغاز 1914 ء تک قائم رہی۔ اب تاریخ نئی کرونٹ لے رہی تھی، سلطنت عثمانیہ یا خلافت عثمانیہ جو ایک طویل عرصے تک ایشیا، افریقہ اور یورپ تک پھیلی ہوئی تھی، انیسویں صدی کے وسط سے سکڑنے لگی تھی اس کی بنیادی وجہ جدید تعلیم میں ترکی سمیت اس کے مسلم اکثریتی

علاقے یورپ کے مقابلے میں پیچھے رہ گئے تھے۔ برطانیہ میں اسٹیم انجن کے ساتھ ریل کی ایجاد 1825 ء میں ہوئی اور برطانیہ میں ریلوے کی باقاعدہ سروس 1830 ء شروع ہو گئی تھی، 1886 ء میں پیٹرول سے چلنے والی موٹر کاریں مارکیٹ میں متعارف کر وا دی گئی تھیں۔

1903 ء میں رائٹ برادرز نے ہوائی جہاز ایجاد کیا اور 1911 ء میں امریکہ نے اپنا پہلا طیارہ بردار بحری جہاز بنا لیا تھا، برطانیہ مستقبل قریب میں معدنی تیل کی اہمیت سے واقف تھا، دوسری جانب برطانیہ اُ س وقت دنیا کی سب سے اہم بحری قوت تھی جس نے بر طانوی راج کے تحت اُس کی نو آبادیات کو محفوظ بنا دیا تھا۔



1914 ء سے 1918 ء جاری رہنے والی پہلی جنگِ عظیم ختم ہوئی تو دنیا بدل چکی تھی، یہ ضرور تھا کہ برطانیہ کی سلطنت اپنے نو آبادیاتی نظام کی وجہ سے دنیا کے 24 فیصد رقبے اور 25 فیصد آبادی پر مشتمل تھی مگر درحقیقت اب دنیا میں سیاسی نو آبادیاتی نظام چیلنج ہو چکا تھا، ویسے تو تاریخی اعتبار سے پوری دنیا کا جغرافیائی نقشہ 1492 ء میں امریکہ کی دریافت کے چند برس بعد مکمل ہو کر سامنے آیا تھا مگر دنیا بھر میں ایک ہی وقت میں انسانی ہاتھوں کی ترتیب دی گئی آفت یعنی جنگ عظیم اوّل ایسی جنگ تھی جو پوری دنیا پر محیط تھی ، اس جنگ کے بعد دنیا کی تین بڑی سلطنتیں زوال پذیر ہو گئیں۔

1917 ء کو روس میں لینن اور اسٹالن کیمو نسٹ انقلاب لائے اور جنگ سے روس کو الگ کر لیا اور یہاں شہنشاہیت کا خاتمہ ہو گیا، جرمنی کو شکست ہوئی اور بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا اور پھر سلطنت عثمانیہ جو جرمنی کی اتحادی تھی یہ بھی ٹوٹ کر بکھر گئی اور صرف ترکیہ میں اتاترک مصطفی کمال پاشا نے ترکیہ کو بچا لیا، باقی عرب ممالک بھی برطانیہ اور اتحادیوں کے زیرِ اثر آگئے اور برطانیہ ہی کی نگرانی میں یہاں بادشاہتیں قائم ہوئیں۔

اِن ہی میں سے ایک بادشاہت عراق کی بادشاہت تھی جو 1925 ء میں قائم کی گئی اور ہاشمی خاندان کے شاہ فیصل اوّل بادشاہ ہوئے، اس خاندان کا پس منظر حجاز مقدس کی بنیاد پر قابلِ احترام تھا، یہاں تک کہ ترکیہ کی خلافت عثمانیہ کے دور میں بھی اس خاندان کے سربراہ کو امیر مکہ کا لقب دے کر اس خاندان کو قابلِ تکریم اور اِن کے اختیارات کو تسلیم کیا گیا تھا لیکن جب پہلی عالمی جنگ شروع ہونے والی تھی اور اس کے فریقین واضح انداز میں تشکیل پا چکے تھے یعنی ایک جانب سلطنتِ عثمانیہ اور جرمنی تھے اور دوسری طرف برطانیہ روس، فرانس اور یورپ کے دوسرے ممالک تھے۔

جنگ کے آخری سال میں روس جنگ سے باہر آگیا تھا اور امریکہ تازہ دم حیثیت سے اتحاد میں شامل ہو گیا تھا تو شریف مکہ ہی کو انگریز نے ترکیہ کی سلطنت کے خلاف استعمال کیا تھا اور یہ تحریک ''پان عرب'' یعنی عرب نیشنلزم کی بنیاد پر ترکیہ کے خلاف ترتیب دی گئی تھی، اُس وقت ترکیہ حجاز ریلوے قائم کر رہا تھا جس کے دو بنیادی تقاضے اور مقاصد تھے ایک یہ کہ ریلوے کا نظام اُس وقت تک جنگ کے دوران افواج اور اسلحہ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا سب سے اچھا ذریعہ بن چکا تھا یعنی تین سو اونٹ جتنے فوجی اور ساز وسامان پندرہ دن میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچاتے تھے اتنے ہی ٹرین کے ذریعے یہ ایک دن میں اور زیادہ محفوظ انداز میں پہنچ جاتے تھے اور اس کا بہترین تجربہ فرانس، امریکہ، بر طانیہ کی جنگوں اور خانہ جنگی میں کر چکے تھے ۔



دوسرا اہم مقصد یہ تھا کہ حجاز مقدس ( مکہ اور مدینہ کی سر زمین) سے شام، مصر ، عراق اور استنبول کو ریل کی پٹری کے ذریعے منسلک کیا گیا تو حج کے لیے بھی آسانیاں ہو گئی تھیں اور آمد ورفت کے لیے بھی انگریزوں نے اس مقصد کے لیے اپنے خاص جاسوس کرنل لارڈ لارنس المعروف '' لارنس آف عریبیہ'' کو یہاں بھیجا جس نے امیر مکہ کو ساتھ ملا کر سلطنت عثمانیہ کے خلاف مسلح گوریلا تحریک شروع کی۔

اِن عرب شیوخ اور امرا میں ہزاروں پونڈ سونا تقسیم کر کے ترک فوج کو نقصان پہنچایا۔ حجاز ریلوے کو بہت سے مقامات پر ڈائنا میٹ کے ذریعے تباہ کیا گیا، یوںہاوس آف شریف یعنی شریف خاندان کو جنگ سے دو برس پہلے ہی یہاں حجازمقدس یعنی آج کے سعودی عرب میں 1916 ء کو بادشاہت عطا کر دی گئی جو یہاں 1916 ء سے 1925 ء تک رہی، اسی شریف خاندان کو شام میں 1920 ء اور عراق میں 1921 ء میں اور ساؤتھ اردن میں بادشاہتیں ملی تھیں۔

عرب دنیا میں شام کی اہمیت بھی ہمیشہ سے رہی ہے یہاںبادشاہت کا ریکارڈ 187 قبل مسیح سے ملتا ہے اس دوران سلطنتِ شام کا رقبہ بہت وسیع بھی ہوتا رہا اور کم بھی۔ شام کی جدید تاریخ کا آخری بادشاہ بھی شاہ فیصل اوّل تھا مگر شام کے حوالے سے اِن کا اقتدار Arab kingdom of Syria کی بنیاد پر تھا جو 8 مارچ 1919 سے 14 یا 24 جولائی 1920 ء تک شامی نیشنل کانگر یس کی بنیاد پر رہا۔ یہ کانگریس مئی 1919 میں دمشق میں قائم ہوئی تھی اسے Syrian National Congress یا پان سیرین کانگریس یا جنرل سیرین کانگریس بھی کہا جاتا ہے۔

یہ کانگریس سلطنت عثمانیہ کے خاتمے اور یہاں عرب ملکوں پر اُس کے اقتدار کے اختتام پر قائم ہوئی تھی، عظیم شام Great Syria کے نظریے پر یقین رکھتی تھی یہ بشمول شام ، لبنان ، اسرائیل ، فلسطین، اردن اور کچھ ملحقہ علاقوں پر مشتمل تھی جب یہ منصوبہ سامنے آیا تو اِس منصوبے پر American king- Crane Commission of inquiry نے بھی آمادگی کا اظہار کیا، یہ امریکی کرین کمیشن 1919 ء میں ترکی کی خلافت عثمانیہ کے خاتمے پر 1919 interAllied Commission on Mondate in Turkey ء پر قائم کیا گیا تھا اور اس کانگریس کو ماڈرن شام کی پہلی قومی پارلیمنٹ کی بنیاد پر سامنے لایا گیا۔

یہ کانگریس مئی 1919 ء میں قائم ہوئی اور 1920 ء میں تحلیل ہو گئی اس کانگریس کے تحت شامی قوم پرست ہاشم الاتاسی کی سربراہی میں ہو نے والے اجلاس میںعظیم شام یا Arab Kingdom of syriya کا اعلان کیا گیا اور اُنہوں نے اس موقع پر اعلان کیا کہ ہمارا ملک شام بشمول فلسطین، لبنان، شمالی میسو پوٹیمیا کے علاقوں کی سرحدی حدود تک کی مکمل آزادی اور خود مختاری کے ساتھ ہو گا۔ اس موقع پر قوم پرست ہاشم الاتاسی نے شام کی مکمل آزادی اور عوامی نمائندگی کے ساتھ صیہونیوںکے فلسطین ، اسرائیل میں الگ یہودی ریاست کے دعویٰ کو مسترد کیا۔

عظیم شام Greater Syria کے بادشاہ شریف مکہ کے بھائی فیصل اوّل ہوئے، وزیراعظم ہاشم الاتاسی منتخب ہوئے، شہزاہ زید میسوپولیٹیمیا کے والی ہوئے، یوسف ال اظمٰی کو وزیر ِ جنگ اور چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا گیا۔ شام کی اِس آزاد اور عظیم ریاست اور حکومت کا خاتمہ اس اعلان کے چند دن بعد17 جولائی 1920 ء کو اُس وقت ہو گیا جب فرانس نے شاہ فیصل اوّل کو الٹی میٹم دے دیا کہ وہ اس ریاست اور حکومت سے دستبردار ہو جائیں یا جنگ کے لیے تیار ہو جائیں، یوں شام میں شاہ فیصل اوّل کی بادشاہت ختم ہو گئی مگر عراق میں اُن کی باشاہت مضبوط اور مستحکم ہوئی۔



عراق میں یہ انتظام برطانیہ نے اپنے خاص انداز کے نوآبادیاتی منصوبے کے تحت کیا تھا اور یوں عراق میں شریف خاندان یا ہاوس آف شریف شاہ فیصل اوّل جدید تاریخ میں عراق کے ایک ایسے بادشاہ بنے جو بظاہر ایک آزاد ملک عراق کے بادشاہ تھے لیکن درحقیقت یہ بادشاہت برطانیہ کی نگرانی میں تھی۔ فیصل اوّل 23 اگست 1921 ء سے 8 ستمبر1933 ء تک عراق کے بادشاہ رہے اِن کے دور اقتدار میںKirkuk کریکوک میں تیل کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے۔

عراقی پیٹرولیم کمپنی کے تحت 1933 ء تک 46000 بیرل یومیہ تیل کی پیداوار جس پر برطانوی اجارہ داری تھی اس کے بعد دوسرے مقامات سے بھی تیل کے ذخائر دریافت ہوئے، شاہ فیصل اوّل کے دور میں ایک معجزہ بھی ہوا اور اس کو جدید اسلامی تاریخ میں بہت اہمیت حاصل ہے وہ یہ کہ 1932 ء کو شاہ فیصل اوّل رات گہری نیند سو رہے تھے کہ اُن کے خواب میں صحابی ؓ تشریف لائے فرمایا کہ ہم دو صحابہ ؓ رسولؐ دریائے دجلہ کے کنارے دفن ہیں۔

دریا اپنا رخ تبدل کر رہا ہے اور پانی ہماری قبروں کی جانب آرہا ہے، حزیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی قبر میں پا نی آچکا ہے جب کہ جابر بن عبداللہ ؓ کی قبر نم ہونے لگی ہے، یہ قبر اُ ن کی قبر سے کچھ فاصلے پر ہے اس لیے ہماری میتیں یہاں سے نکلوا کر دریا سے دور کسی اور مقام پر دوبارہ دفنائی جائیں، پھر دوسری رات وہی خواب شاہ فیصل اوّل کو آیا شاہ نے اس مرتبہ بھی اس جانب توجہ نہیں دی۔


تیسری مر تبہ یہی خواب عراق کے مفتی اعظم نوری اسید پاشا کو آیا تو اُنہوں نے فوراً وزیر اعظم کو ساتھ لیا اور بادشاہ کے پا س پہنچے اور خواب شاہ فیصل اوّل کو بتایا تو شاہ نے حیران ہو کر کہا کہ یہی خواب دو مر تبہ مجھے بھی آیا ہے، پھر شاہ نے مفتی اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لیکن اس کے لیے یہاں یہ ضروری ہے کہ پہلے آپ اس حوالے سے فتویٰ جاری کر یں اور اُ سکی تشہیر کرائی جائے پھر اس فتویٰ کو عراق کے تمام اخبارات میں شائع کروایا گیا۔

یہ حج کا زمانہ تھا اس لیے لوگوں نے یہ کہا کہ اس کی تاریخ ایسی مقرر کی جائے کہ حج کے بعد حجاج کی شرکت ہو سکے، پھر دونوں صحابہؓ کی میتیوں کو قبروں سے نکالا گیا اور اس کا دیدار عام کروایا گیا تو دنیا حیران رہی کہ یہ دونوں صحابہؓ کی میتیں بالکل ایسے تھیں جیسے چند منٹ پہلے اِن کی روح پرواز کی گئی ہو، اُن کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور ایسی روشن تھی کہ چند سیکنڈ سے زیادہ اُن کو کوئی نہ دیکھ سکتا تھا، اس کے بعد اِن کی میتیوں کو دریائے دجلہ سے کوئی دو فرلانگ دور دوبارہ دفن کیا گیا۔

اس واقعہ کی فلم ایک جرمن کمپنی نے بنائی تھی، شاہ فیصل اوّل کا انتقال 1933 ء کو ہوا ، اِن کے بعد غازی اوّل27 سال کی عمر میں بادشاہ بنے جو فیصل اوّل کے بیٹے تھے، اِن کے ہاں فیصل دوئم 14 جولائی 1935 ء میں پیدا ہوئے، غازی اوّ ل کے بعد اُ ن کا یہی بیٹا 4 اپریل 1939 ء میں عراق کا بادشاہ بنا۔ یہ وہ دور ہے جب فلسطین میں یہودی زمینیں خرید کر اس قابل ہو گئے تھے کہ اُن کی تعداد اپنے وجود کو سیاسی طور پر منوا سکتی تھی اور 1917 ء کے اعلان بالفور جو جنگ ِ عظیم اوّل کے دوران انگریر نے یہودیوں سے قرض اور مالی معاونت کے بدلے طے کر لیا گیا تھا کہ وہ فلسطین میں اسرائیل کی ریا ست قائم کر دیں گے۔

جنگِ عظیم اوّل کے زمانے میں ہاوس آف شریف نے عرب نیشنلز م کی بنیاد پر عربوں کو ترکیہ کے خلاف ابھارا تھا اور عراق، شام ، اردن اور دوسرے عرب ممالک برائے نام آزاد تھے مگر برطانیہ کی نو آبادیات بن چکے تھے۔ 1930 ء میں عظیم عالمی کساد بازاری کے منفی معاشی، اقتصادی اثرات عراق پر بھی مرتب ہوئے تھے اور شاہ فیصل چار سال کی عمر میں عراق کے بادشاہ بنے تو اسی سال جنگِ عظیم دوئم کا آغاز بھی ہوا، اس میں شک نہیں کہ اُن کا اعلیٰ نسب اور مقدس خاندان سے تعلق تھا شاہ فیصل دوئم شاہ فیصل اوّل کے پو تے اور شریف ، مکہ حسن بن علی کے پڑپو تے تھے۔

یہی شاہ فیصل دوئم اور اردن کے بادشاہ حسن بن طلال جو 1953 ء میں بر سراقتدار آئے یہ دونوں ہاشمی خاندان (Hashemite ) کی 41 ویں نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ شاہ فیصل دوئم جب چار برس کی عمر میں عراق کے بادشاہ بنے تو امور حکومت ،سرپرستی اُ ن کے ماموں عبداللہ کے پاس تھی 1941 ء میں قوم پرست وزیراعظم رشید علی گیلانی نے بہت سے اختیارات حاصل کر لئے تو شاہ فیصل دوئم کی ماں ملکہ عالیہ جو برطانیہ میں تھیں شاہ کو وہاں بلوا لیا اور اِن کی سکول کی تعلیم وہاں ہوئی۔

1950 ء میں ملکہ کی وفات کے بعد اُن کی سرپرستی عبداللہ کے پاس گئی اس کے بعد شاہ فیصل دوئم بادشاہ کے طور پر عراق میں رفتہ رفتہ اختیارت حاصل کر تے گئے۔ 1953 ء میں جب اردن میں شاہ حسن بن طلال بادشاہ بنے تو یہ وہ موقع تھا جب اِن دونوں نے عرب دنیا میں یہ چاہا کہ خاندانی پس منظر کو سامنے رکھتے ہو ئے پورے عرب میںاس خاندان کی عظمت و توقیر کو بحال کیا جائے۔ اس دوران جب وہ بچپن اور لڑکپن کے عہد میں تھے تو دوسری جنگ عظیم میں یہاں برطانیہ اور فرانس کی عملداری بڑھ گئی اور جب جنگ ختم ہوئی تو اس کے ساتھ ہی ایک جانب اقوام متحدہ کا ادارہ تشکیل پا گیا اور پھر 14 جولائی 1948 ء کو اقوام متحدہ نے اسرائیل کے قیا م کے بعد اس کو تسلیم کر لیا۔

اس کے بعد پہلی عرب اسرائیل جنگ ہوئی جس میں اسرائیل کی فوج کی تعداد 175000 کے مقابلے میں مصر کی فوج 20000 اردن کی فوج 10000 عراق اور شام کی فوجیں پا نچ پانچ ہزار تھیں، سعودی عرب کی فوج 800 یمن کی 300 اور عرب لبریشن آرمی کی تعداد 3500 یعنی کل فوج 45000 تھی، اس پہلی عرب اسرائیل جنگ میں 7000 عرب 13500 فلسطینی شہید ہوئے، اسرائیل کے6373 فوجی مارے گئے۔

جنگ میں شکست پر اسرائیل کے رقبے میں 60 فیصد اضافہ ہو ا۔ جنگ کے بعد حقیقت میں شریف خاندان سمیت عرب ملکوں کے عوام میں اپنی بادشاہتوں کے خلاف غم و غصے میں اضا فہ ہو گیا اور عوام یہ سوچنے لگے کہ سلطنت عثمانیہ سے آزادی کے بعد اس جنگ میں جو اسرائیل کے ناجائز قیام پر لڑی جانے والی جنگ تھی اُنہیں شکست ہوئی، اُس کی بنیادی وجہ اِن بادشاہوں کا مفاد پرستانہ رویہ تھا اور یہ بادشاہ حقیقت میں جذبہ ایمانی سے اس جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے، پھر 1945 ء میں جنگ عظیم دوئم کے خاتمے پر سابق سوویت یونین اور امریکی بلاک کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہو چکا تھا اس کی شروعات جرمنی پر قبضے کے فوراً بعد ہی ہو گئی تھی۔

ا گرچہ عرب اسرائیل کی پہلی جنگ میں سوویت یونین نے کوئی مداخلت نہیں کی تھی مگر یہ حقیقت ہے کہ اس جنگ کے بعد ہی مصر، شام، عراق، اردن، فلسطین اور سوڈان میں اشتراکی نظریات میں اضافہ ہونے لگا اس کی ایک بنیادی وجہ اسرائیل تھا۔ فلسطین، شام ، عراق اور مصر میں صدیوں مسلمانوں کے بعد دوسری بڑی آبادیاں عیسائیوں کی رہی تھیں اور عیسائیوں کے عقائد کے مطابق ایک یہودی کے کہنے اور مخبری پر ہی حضرت عیسیٰ ؑ کو سولی پر چڑھایا گیا تھا۔

پھر 1914 ء میں پہلی جنگ عظیم سے صدیوں پہلے یہودی فلسطین اور عرب کے دوسرے علاقوں سے نکل کر یورپ اور بعد میں امریکہ میں آباد ہو گئے تھے، یہ صورت 1492 ء میں سپین میں مسلمانوں کے اقتدار کے خاتمے کے بعد بنی تھی جب ملکہ ازابیلا اور بادشاہ فرننڈس نے سپین میں تقریباً آٹھ سو سال بعد مسلمانوں کوشکست دی اور قتل عام کر کے یہاں سے مسلمانوں اور یہودیوں کا خاتمہ کر دیا۔

یوں جب 14 جولائی 1948 ء کو فلسطین کو تقسیم کر کے اقوام متحدہ کی منظوری سے یہاں صدیوں بعد اسرائیل کے نام سے ایک الگ ملک بنا دیا گیا اور پہلی عرب اسرائیل جنگ میں عرب ملکوں کو شکست ہوئی، پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ جنگِ عظیم اوّل میں شریف مکہ سمیت عرب امیروں، سرداروںاور شیوخ نے انگریزوں کے ساتھ مل کر خلافت عثمانیہ کے خلاف کا روائیاں کیں اور جنگ میں ترکیہ کو شکست دی تھی۔

اس کے بعد جب سرد جنگ کے آغاز پر اشتراکیت کی تحریکیں ایک خاص رومانیت کے ساتھ ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں فروغ پانے لگیں تو عرب ملکوں خصوصاً اردن، شام ، مصر ، عراق، لبنان میں مجموعی طور پر20 فیصد عیسائی عرب آبادی تھی جب یہودیوں کے خلاف عرب میں تحریکیں الفتح اور بلیک ستمبر کی صورت میں شروع ہوئیں تو عرب عیسائی آبادی ،خصوصاً عیسائی فلسطینی بھی باہر سے آکر فلسطین میں آباد ہونے والے یہودیوں کو غاصب تصور کرتے تھے۔

یوں سرد جنگ کے زمانے میں یہاں خصوصاً اردن، لبنان، شام ، عراق اور مصر میںاشتراکی رومانیت کے ساتھ عیسائی اور مسلمان عربوں کا موقف یہودیوں کے خلاف ایک ہی تھا اور اس طرح شام ، عراق، لبنان ، اردن اور مصر میں سرد جنگ کی بنیاد پر سابق سوویت یونین کے اثرات شروع میں عوام کے ایک خاص اور پڑھے لکھے طبقے میں فروغ پانے لگے جو ایک جانب تو متوسط طبقہ تھا تو دوسری جانب سرکاری ملازمتو ں خصوصاً فوج کی ملازمت سے وابستہ تھا، پھر یہاں یعنی عرب ملکوں میں برطانیہ کی مداخلت اور نوآبادیاتی نظام ہندوستان کے مقابلے میں نیا بھی تھا یعنی دنیائے عرب میں انگریز کے قدم 1918 ء کے بعد مستحکم ہونے لگے تھے۔

جنگِ عظیم اوّل کی وجہ سے انگریز پہلے کے مقابلے میں کمزور ہو چکا تھا اور خصوصاً 1930-32 ء عظیم عالمی کساد بازاری اور پھر دوسری جنگ عظیم کے چھاجانے والے بادل بھی انگریز کو محتاط انداز اپنانے پر مجبور کر تے رہے اسی لیے یہاں عرب ملکوں میں انگریز کے سامنے عرب کا ایک ایسا مجموعی سماج شروع ہی سے تھا جہاں آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کی ایک تحریک شروع سے رہی تھی اور اس کو قابو میں رکھنے کا طریقہ بھی انگریز نے ہندوستان کے مقابلے میں مختلف رکھا تھا اور دونوں عالمی جنگوں کے درمیان اور بعد میں انگریز نے شریف خاندان اور دوسرے بادشاہوں کی سر پرستی کی تھی تو دوسری جانب سابق سوویت یونین نے یہاں سرمایہ داری اور بادشاہت کے خلاف اور یہودی دشمنی کی بنیاد پر اپنی پالیسی ترتیب دی تھی۔

دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد جہاں کشمیر اور اس کے بعد پہلی عرب اسرائیل جنگ ہوئی وہاں پہلے انڈونیشیا میں پاپواینوگینیا کے تنازعہ پر سیکارنو کی قیادت میں جنگ ہوئی۔ انڈونیشیا کی اس جنگ میں بھی سیکار نو کو بائیں بازو کی حمایت حاصل تھی۔

1950 ء میں شمالی اور جنوبی کوریا کی بنیاد پر ہونے والی جنگ میں سوویت یونین چین گروپ اور امریکی گروپ کے درمیان ایک خطرناک اور بڑا ٹکراؤ ہوا اورکوریا کی جنگ کے دو سال بعد ہی ہنگری میں سوویت یونین اور مغربی بلاک کی بنیاد پر ایک بڑا تنازعہ کھڑا ہوا جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے، اس کے سال بعد 1956 میں مصر میں ا سوان ڈیم پر قرضے کی رقوم روکنے پر مصر کے صدر کرنل جمال ناصر کی جانب سے نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لینے پر فرانس،برطانیہ اور اسرائیل نے مصر پر حملہ کر دیا تھا۔

یہ وہ حالات اور عالمی ماحول تھا جب ایک ناتجربہ کار اور نوعمر شاہ فیصل دوئم جو چار برس کی عمر میں عراق کے بادشاہ بنے تھے 1955-56 ء میں اختیارات کے ساتھ عراق جیسی سر زمین پر بادشاہت کرنے کے عملی اقدامات شروع کر دیئے۔ انگریزوں نے حجاز مقدس ، شام ، اردن اور عراق میں شریف خاندان کے افراد کو بادشاہتیں بانٹیں مگر مصر کے اقتدار پر شریف خاندان کو نظرا نداز کیا، یہ وہ حالات تھے جب اِن ملکوں میں عوامی خوہشات کے مطابق بادشاہتیں کام نہیں کر سکیں اور عوام میں اُن کے خلاف غم وغصہ ابھرنے لگا اور خصوصاً مصر میں انقلابِ کے بعد اور جب صدرکرنل جمال ناصر نے نہرِ سوئز کو قومی ملکیت میں لیا تو جنگ کے بعد وہ پوری عرب دنیا کے ہیرو بن چکے تھے۔

اس کے باوجود کہ اِسی زمانے میں عراق اور اردن جہاں دونوں ملکوں میں ہاشمی خاندان کے افراد یعنی کزن ہی یعنی شاہ فیصل دوئم اور اردن کے شاہ عبداللہ بادشاہ تھے اور ان کے درمیان عراق اور اردن کے درمیان جو عرب فیڈریشن بھی قائم ہوئی تھی وہ صدر ناصر اور اُ ن کے عرب قومیت کے نظریات کی مقبولیت کا توڑ پیدا نہیں کر سکیں۔

اس کے علاوہ 1920 ء سے1930 ء تک عراق میں سماجی شعور کی پرورش کے لیے تعلیمی اداروں میں فادین جمال اور سمیع شواکت جن میں ایک شامی اور دوسرے فلسطینی مہاجر تھے یہ عرب نشینل ازم کی بنیاد پر عراق میں عوامی سطح پر شعور کی بیدار ی کے لیے کام کر رہے تھے۔

پھر نوجوان ناتجربہ کار عراقی بادشاہ فیصل دوئم نے اپنی سلطنت کو مصرکے صدر کرنل ناصر جیسے انقلاب سے محفوظ کر نے کے لیے1956 میں معاہدہ بغداد کر لیا جس میں عراق کے علاوہ پاکستان ، ترکی،ایران، امریکہ اور برطانیہ شامل تھے جس کو پاکستا ن کے عوام کی طرح عراقی عوام نے بھی پسند نہیں کیا تھا کیونکہ یہ معاہدہ مصر اور شام کے خلاف تھا۔ یہ وہ وجوہات تھیں جن کی وجہ سے 14 جولائی 1958 ء میں عراق میں بر یگیڈئیرعبدالکریم قاسم اور اِن کے ساتھی عبدالسلام عارف جو مصر کے 1952کے فوجی انقلاب Egyptian Free officer سے خاصے متاثر تھے وہ فوجی انقلاب لے آئے۔ اس انقلاب میں 23 سالہ نوجوان بادشاہ ، شاہ فیصل دوئم کو سرعام قتل کر دیا گیا اور اِن کی لاش کو بعض اطلاعات کے مطابق زمین پرگھسیٹا گیا۔

اِن کے علاوہ شہزادہ عبداللہ اور وزیر ناصر السعد سمیت سو سے زیادہ افراد کو قتل کر دیا گیا جن میں تین امریکی بھی شامل تھے۔ اِس موقع پر عوام میں نفرت اور غصہ کہیں زیادہ تھا اس لئے ہجوم نے حکام کے خلاف پُرتشدد کاروائیاں شروع کیں تو دوسرے دن ہی عبدالکریم قاسم نے کر فیو نافذ کر دیا، مگر عبدالکریم قاسم نظریاتی طور پر جمال عبدالناصر کی پالیسی سے اتفاق نہیں کرتے تھے اگرچہ عبدالکرم قاسم نے اقتدار میں آتے ہی معاہد ہ بغداد سے عراق کو نکال لیا تھا مگر وہ اس کے مقابلے میں سوویت یونین کے ساتھ گہرے تعلقات رکھنے کے قائل نہیں تھے۔

یوں عراق کا یہ انقلاب مصر میں جمال ناصر کے انقلاب کی طرح فوری طور پر کامیاب نہ ہو سکا اور یہاں ایک سال بعد ہی یعنی 1959ء میں کرد اور شیعہ بنیادوں پر مسائل شروع ہو گئے اور وزیراعظم عبدالکریم قاسم نے عراق کی خارجہ پالیسی میں اشتراکی ملکوں خصوصاً سوویت یونین سے زیادہ قریبی تعلقات کو ترک کر دیا تھا، اس پالیسی سے اختلاف پر اپنے انقلابی ساتھی عبدالسلام عارف کو حکومت سے الگ کر دیا، پھر 1963ء میں ایک اور فوجی خونی انقلاب میں بعث پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور عبدالسلام عارف کو صدر بنا دیا اور عبدالکریم قاسم کو قتل کردیا گیا ، یہی بعث پارٹی تھی جس کے رکن صدا م حسین بعد میں عراق کے صدر بنے۔ 1963 ء کے بعد کچھ عرصے کے لیے بعث پارٹی کا اقتدار ڈگمگایا مگر بعد میں اقتدار مضبوط ہوا۔

اب عراق کے سوویت یونین اور مصر سے مضبوط تعلقات قائم ہو گئے تھے اور اس کے بعد 1968 ء میں برطانیہ کی تیل کمپنی کو فارغ کر کے پہلے ایک فرانسیسی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا گیا بعد میں تیل کی صنعت کو قومی ملیکت میں لے لیا گیا۔

اس بعد صدر صدام حسین کے دور میں ایران میں امام خمینی کے انقلاب کے بعد صدر صدام حسین نے ایران میں جنگ چھیڑ دی جو آٹھ سال تک جاری رہی، اس جنگ کے اختتام پر جب کویت نے اپنے قرضے کی رقوم کی واپسی کا مطالبہ کیا تو صدر صدام حسین نے 2 نومبر 1990 ء کو کو یت پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا اس کے فوراً بعد اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے عراق پر پابندیاں عائد کر دیں۔ برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر اور امریکی صدر جارج ایچ ڈبلیو بش نے سعودی عرب میں اپنی فوجیں تعینات کر دیں۔

اس کے بعد عراق کیخلاف 35 ملکی اتحاد قائم ہوا جو جنگ ِ عظیم دوئم کے بعد سب سے بڑا اتحاد تھا کویت، امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب، مصر اور فرانس کی فوجیں شامل تھیں۔ عراقی فوجوں کی تعداد 650000 تھی جب کہ اس کے مقابلے میں اتحادی فوج کی تعداد 956600 جس میں 700000 امریکی فوج تھی۔ 17 جنوری 1991 ء تک جاری رہنے والی اس جنگ میں ساڑھے چار سو کے قریب اتحادی جان بحق ہوئے جب کہ ایک سے ڈیڑھ ہزار کویتی اور 3664 عراقی جان بحق ہوئے۔ اس جنگ کی 60 ارب ڈالر کی لاگت میں سے سعودی عرب اور کو یت نے 32 ارب ڈالر ادا کئے۔ عراق پر دوسری جنگ امریکہ نے 3 اپریل 2003 ء کو مسلط کر دی۔

9 اپریل 2003 ء 12 اپریل 2003 ء تک یہ جنگ جاری رہی اور عراق پر کیمیکل ہتھیار رکھنے کے الزامات عائد کئے گئے۔

14 دسمبر 2003 ء کو سابق صدر صدام حسین کو گرفتار کر لیا گیا اور بعد میں 30 دسمبر2006 ء کو صدر صدام حسین کو پھا نسی دے دی گئی۔ 27 جولائی 2021 ء سے امریکی فوج کا عراق سے انخلا شروع ہو گیا، اس دوران سینکڑوں ارب ڈالر اس جنگ کی نذر ہوئے ۔ تقریباً دس لاکھ بچے خوراک کی کمی اور ادویا ت نہ ملنے کی وجہ سے جان بحق ہوئے ۔

ہزاروں افراد جان بحق ہوئے اور لاکھوں بے گھر ہوئے اور آخر میں امریکہ نے یہ تسلیم کیا کہ عراق کے پاس کوئی کیمیکل ہتھیار نہیں تھے اور امریکی سی آئی اے کی اطلاعات غلط تھیں ۔
Load Next Story