لکھاری اور مداری میں فرق ہونا چاہیے ڈاکٹر مشہود قادری

سائبر کرائم کے موضوع کی پُرمزاح فلم ’قلفی‘ کا بجٹ پاکستان کی کسی بھی فلم سے زیادہ ہے!

سائبر کرائم کے موضوع کی پُرمزاح فلم ’قلفی‘ کا بجٹ پاکستان کی کسی بھی فلم سے زیادہ ہے! ۔ فوٹو : فائل

انھیں صرف فلموں کا لیکھک کہنا قطعی 'ناکافی' معلوم ہوتا ہے۔ ان کا قلم ایک مفکر کا سا معلوم ہوتا ہے۔۔۔ رائٹر اور پروڈیوسر کی ذمے داریاں نبھاتے ہوئے وہ سماج کا درک، اِبلاغ کا مقام، اور پیغام کا اثر اور پھر اس کے دوررَس عوامل تک خوب نظر میں رکھتے ہیں۔۔۔

ان کی لکھی گئی فلمیں بوجوہ 'سنیما' تک نہ بھی پہنچ سکیں، تب بھی یہ ان کے کام کا دَم ہے کہ وہ خود کو منوا ہی رہا ہے۔ اس حوالے سے وہ اب تک 23 بین الاقوامی ایوارڈ جیت چکے ہیں، جس میں ان کی ایک فلم 'آرپار' نے آٹھ ایوارڈ جیتے۔ اب ان کی نئی فلم 'قلفی' آنے کو ہے۔ یہ تذکرہ ہے لگ بھگ تین عشروں سے امریکا میں مقیم ڈاکٹر مشہود قادری کا، گذشتہ دنوں ہم نے ان سے ایک مواصلاتی بیٹھک کا انتظام کیا۔

ہماری گفتگو 'قلفی' فلم ہی سے شروع ہوئی، اس حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ یہ 'سائبر کرائم' کے حوالے سے پُرمزاح انداز میں ہے، جس کا پاکستان میں بننے والی کسی بھی فلم سے زیادہ بجٹ ہے، تیاری کے آخری مراحل میں یہ بارہ کروڑ سے تجاوز کرچکا ہے، اندازہ ہے کہ یہ پندرہ کروڑ سے تجاوز کرجائے گا۔

اس کے ہیرو شہروز سبزواری، جب کہ ولن شامل خان ہیں۔ فلم کے دیگر ستاروں میں جاوید شیخ، معمر رانا، ولی حامد علی خان، مریم انصاری، ثنا فاخر، سعیدہ امتیاز و دیگر شامل ہیں۔ امید ہے کہ یہ ایک سے ڈیڑھ مہینے میں ہمارے سینما گھروں کی زینت ہوگی۔ 'قلفی' میں ڈاکٹر مشہود قادری 'شریک پروڈیوسر' کے طور پر بھی شامل ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ 2015ء میں 'ریاست میں ریاست' ان کی پہلی فلم تھی، جسے سنیما کی زینت بننا تھا، اس فلم نے چار انٹرنیشنل ایوارڈ جیتے تھے۔ اس میں منور سعید، عارف باحلیم اور حبا خان وغیرہ نے کام کیا۔ کچھ وجوہات کی بنا پر یہ فلم پاکستان میں صرف ایک نجی ٹی وی پر ہی چل سکی۔

ڈاکٹر مشہود قادری نے بطور رائٹر اور پروڈیوسر فلم 'ساون' بھی بنائی، جس نے 2017ء میں 11 انٹرنیشنل فلم ایوارڈز جیتے، اسی سال یہ آسکر کے لیے بھی نام زَد ہوئی۔

اور پھر درجہ بندی کے اگلے مراحل تک گئی۔ ان سے اور ڈائریکٹر سے اس حوالے سے طویل انٹرویو بھی کیے گئے۔ لیکن پھر یہ نام زَد فلموں کی آخری 20 فلموں کی فہرست میں نہ آسکی، لیکن یہاں تک پہنچنا بھی ایک کام یابی تھی۔ فلم 'ساون' کا مرکزی خیال بچوں کا موذی مرض پولیو تھا۔ ہم نے پوچھا کہ اس حوالے سے کیا کوئی فنڈنگ وغیرہ بھی ہوئی تھی؟ جس پر ڈاکٹر مشہود قادری کہتے ہیں کہ 'فنڈنگ نہ مانگی اور نہ ملی۔ تاہم اس فلم کی عکس بندی کے لیے ناران اور کاغان میں حکومت نے کافی ساتھ دیا۔''

مختلف فلموں کے لیے فنڈ ملنے کے ذکر پر مشہود قادری کہتے ہیں کہ 'ساون' کے لیے کوشش کی تھی کہ حکومت کی طرف سے کچھ معاونت مل جائے، لیکن عملی طور پر کچھ نہیں ہوا۔ دنیا بھر میں ایسی فلموں کو حکومت اور 'ذرایع اِبلاغ' کی مدد ملتی ہے، مگر ہمارے ہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ فلموں کے لیے 'فنڈنگ' کا طریقہ کار ہوتا ہے اس کے لیے کارروائی کرتے ہیں، لیکن خود ایسی کوئی کوشش کی نہیں۔ ہم ایسی چیز چاہتے تھے کہ جس میں کسی کی کوئی مداخلت نہ ہو۔

فنڈنگ کے حوالے سے عالمی سطح پر عمومی حوصلہ افزائی کے تذکرے پر وہ بتاتے ہیں کہ اگر انسانیت کے کسی پہلو کو اجاگر کیا جائے۔ جیسے ایران میں نابینا یا معذور بچے پر ایک فلم بنی، انھیں حکومت نے اتنی مدد دی کہ انھیں پھر کسی کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ اسی طرح میں نے پانی کے تنازعے پر پورا 'اسکرپٹ' لکھا ہوا تھا، جسے حکومت کو بھیجا گیا، بہت تعریف ہوئی، لیکن بس پھر بات تعریف ہی تک رہ گئی۔

ڈاکٹر مشہود بتاتے ہیں کہ انھوں نے مختلف سماجی موضوعات پر تقریباً 12 کہانیاں تیار کرکے رکھی ہوئی ہیں، جن میں مکالمے وغیرہ سے لے کر اسکرین کے سارے لوازمات بھی مکمل ہیں، لیکن اس کو آگے بڑھانے کے لیے سرمائے کا مسئلہ درپیش ہے۔

خواتین کے موضوع پر جو لکھا تھا اسے اپنی فلم 'آرپار' میں شامل کردیا۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کو دکھائے جانے کے نتیجے میں ایک پیغام پہنچتا ہے، ہر فلم کی اپنی ایک کیفیت ہوتی ہے، جیسے 'آر پار' میں خواتین کے مسائل کے ساتھ 'امن کی آشا' کا پیغام بھی دیا گیا ہے۔ اس فلم نے آٹھ ایوارڈ جیتے ہیں، اس کے اندر بھی وہ سارے لوازمات موجود تھے۔ یہ بنائی ہی 'او ٹی ٹی' کے لیے تھی۔

اب تک ان کی دو فلمیں 'ساون' اور 'آرپار' سنیما پر لگ چکی ہیں۔ 'قلفی' سنیما پر لگنے والی تیسری فلم ہوگی۔ ایک فلم ہندوستان کے دوستوں کے کہنے پر بھی لکھی ہے: 'انجیلی کو کچھ نہیں ہوگا' بعد میں وہ نام بدل دیں گے۔ فی الحال تو یہی نام ہے۔ یہ وہاں کے ایک حادثے پر لکھی، جس پر جلد ہی کام شروع ہو جائے گا۔ 'کورونا' کے بعد دوبارہ اس پر کام ہو رہا ہے۔

آج کل کی مصروفیات کے حوالے سے ڈاکٹر مشہور قادری بتاتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر پہلے ہیں اور ماہرامراض گردہ کے طور پر تخصیص حاصل کیے ہوئے ہیں۔

وہ بطور ڈاکٹر ہی 1995ء میں کراچی سے امریکا منتقل ہوئے تھے، مرکزی اور اہمیت کے لحاظ سے اسی مسیحائی کے شعبے کو ہی باقاعدہ وقت دیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود فلم ان کی متوازی مصروفیت ہے اور جب یہ مصروفیت زیادہ ہوتی ہے، تو وہ اپنے طب کے شعبے سے کچھ رخصت بھی اختیار کرلیتے ہیں، کیوں کہ یہ شعبہ بھی وقت اور محنت مانگتا ہے۔

جب 'قلفی' فلم کے لیے کام کر رہے تھے، تو پورے ایک مہینے مکمل طور پر اسی میں مصروف رہے اور اپنی طبی مصروفیات سے چھٹی لے لی۔ تناسب کی بات کی جائے تو مجموعی طور پر ساٹھ فی صد ڈاکٹر کے شعبے، جب کہ 40 فی صد فلمی امور کو وقت دیتے ہیں۔ بطور ڈاکٹر بھی مشہود قادری نے بہت سے مقامی اور بین الاقوامی ایوارڈ جیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں بہتر معاش کے واسطے امریکا گیا، کیوں کہ سب سے زیادہ بہتر کام کا موقع یہیں ملتا ہے۔

فلم رائٹنگ کی شروعات کے تذکرے پر ڈاکٹر مشہود قادری نے بتایا کہ ''ان کے والد اور دادا بھی لکھنے پڑھنے والے تھے، ان سے زبان کے استعمال اور اس کی تیکنیک پر بہت بات ہوتی تھی۔''


جب ہم نے پوچھا کہ ''فلموں کی زبان کون سی ہونی چاہیے اور کون سی نہیں؟'' تو اس پر ان کا کہنا تھا کہ ''یہ بہت چبھتا ہوا سوال ہے جس کا صحیح جواب دینا ضروری ہے، دراصل ہم نے الفاظ کو صحیح طریقے سے استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے۔ زبان کا صحیح استعمال شہہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسے لوگوں کو 'کہنے' اور 'بولنے' میں فرق نہیں پتا۔ کہتا انسان ہے، بولتا جانور ہے۔ ہم نے اردو کا مذاق بنا لیا ہے۔ لیکن اب حالات اتنے ناگفتہ بہ ہیں، کہ ہم کتنا کریں گے، ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کہیں کوئی پیغام ڈال دیں۔

کبھی کوئی مشکل لفظ لکھیے، تو اداکار کی شکایت پر بدلنے پڑ جاتے ہیں۔ جیسے وہ 'مافوق الفطرت' نہیں سمجھیں گے۔ 'سیمرغ' نہیں جانیں گے۔ 'اسکرین پلے رائٹر' ہر چیز دوسری چیز سے جوڑتا چلا جاتا ہے۔ وہ صرف مکالمے کے ساتھ نہیں ہوتا، بلکہ وہ کیمرے کی آنکھ بھی ہوتا ہے۔ ہم لکھتے ہوئے کیمرے کی ٹرک (Trick) بھی لکھتے ہیں، لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔ 'اسکرپٹ' کے ساتھ 'سب ٹیکسٹ' کو بھی بیان کیجیے، تو لوگوں کو نیند آنے لگتی ہے۔''

ٹی وی کے موجودہ 'آزاد' ماحول کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ہر چیز میں اعتدال بہتر ہوتا ہے۔ ہم انھی روایتی موضوعات ساس بہو کے جھگڑوں کا شکار ہیں۔ جب فلم 'آئینہ' بنی، تو یہ پابندی ہوتی تھی کہ لڑکی موٹر سائیکل پر نہیں بیٹھ سکتی، لیکن اس کے باوجود وہ فلم کام یاب ہوئی۔ بات یہ ہے کہ جب تک آپ حقیقت نہیں دکھائیں گے، لوگ محسوس نہیں کریں گے، تو جڑ نہیں سکیں گے اور فلم کام یاب نہیں ہو سکے گی۔

ہمارے لکھاری ہر دور میں غضب کے تھے، 1947ء سے 1954ء تک کی فلمیں دیکھیے کہ ہمارے لوگ ہندوستان میں کام کرنے جاتے تھے، وہاں سے بھی یہاں آتے تھے، ہم تو اٹھے ہی 'علم وادب' سے تھے، تحریک پاکستان گواہ ہے کہ کس طرح ایسے لوگوں نے جدوجہد کی اور لوگوں تک اپنا پیغام پہنچایا۔

بین السطور یا براہ راست پیغام دینے کے حوالے سے ڈاکٹر مشہود کا موقف ہے کہ بین السطور پیغام بھی اہم ہے۔ ایک اہم چیز یہ ہے کہ ناظرین کیا دیکھنے آئے ہیں؟ اب کسی فلم میں اپنی طرف راغب کرنے کے یہ ہوگیا ہے کہ 'آئٹم سونگ' نہیں ہوگا، تو فلم نہیں چلے گی۔ یا پھر کوئی ایسا معرکہ سر کیا ہو، جیسے ہم نے اپنی فلم 'ساون' میں دیا تھا۔

'بے باک مناظر' کی بڑھوتری کو وہ 'ریٹنگ' کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''مجھ سے بھی ایک مرتبہ ٹی وی کے لیے یہ کہا گیا کہ ایسی چیزیں شامل کریں، تو میں نے منع کردیا۔ دوسری طرف 'فلم' کے لیے آدمی پیسے دے کر آرہا ہے۔

ڈراما تو وہ گھر بیٹھے بھی دیکھ رہا ہے۔ اس دور میں جہاں ہر چیز انٹرنیٹ پر دست یاب ہے، تو اس سے بھی چیزیں بدل گئی ہیں۔ اب 'اسکرین پلے' بہت تیز ہے، 'ناظر' تین چار منٹ میں بند کر کے آگے بھی بڑھ جاتے ہیں۔

سنیما کی بڑی اسکرین کا میدان بہت سکڑ گیا ہے۔ ہمارے ہاں صرف 100 سنیما ہیں۔ ایران میں 400 بنگلادیش میں 200 سنیما گھر ہیں۔ ساتھ میں یہاں بھی ٹکٹ ہندوستان کی طرح 50 روپے سے ہزار روپے تک کا ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سنیما کی تعداد بڑھائیں۔

''سینما کے بغیر فلم کا تجربہ کیسا رہا؟''

ہمارے اس سوال پر وہ بتاتے ہیں کہ ساون 'نیٹفلیکس' پر چلی، اس 10 لاکھ سے زیادہ دیکھا گیا۔ ان کے 'آرکائیو' (ذخیرہ) میں یہ موجود ہے۔ سنیما میں لوگوں کا رجحان دیکھنا پڑتا ہے، جیسے پانچ سال پہلے ہندوستان میں 'پی کے' بنی۔ اب وہی لوگ 'پٹھان' جیسی فلم بنا رہے ہیں۔ سنی دیول کی فلم 'غدر ٹو' نے پٹھان کا ریکارڈ توڑ دیا۔ یہاں نفرت بیچیے، بکے گی۔۔۔ لیکن ہمیں نفرت سے بچنا چاہیے۔ چاہے کچھ بھی ہو! نفرت کو وقتی طور پر جگہ مل جاتی ہے، لیکن بعد میں اس کے کوئی نتائج نہیں ملتے، چاہے وہ 'پٹھان' ہو یا 'غدر'۔ یہ کسی 'کلا کار' کا کام نہیں! میں اس کے شدید خلاف ہوں۔ میں نے ہندوستانی چینل پر بھی کہا کہ یہ نفرت کا چورن بیچ رہے ہیں۔

دوسری طرف پاکستان کے فلم بین نفرت نہیں چاہتے، یہاں جنگوں پر فلمیں ناکام ہوگئیں۔ جنگ ایک نفرت آمیز عمل ہے۔ اس پر فلم تب بن سکتی ہے، جب کوئی خوں ریزی ہوئی ہو۔ تاریخ کا واقعہ دکھا سکتے ہیں، لیکن اسے 'فیشن' کے طور پر نہیں دکھا سکتے۔ رومان کے تو آنسو بھی محبت بھرے ہوتے ہیں۔''

کراچی کے موضوع پر کسی فلم بنانے کا ذکر چھِڑا تو انھوں نے انکشاف کیا کہ انھوں نے ایک فلم 'گلی 212' بنائی ہے اور اسے لکھتے ہوئے سب سے زیادہ وقت لیا۔ ہم نے دریافت کیا کہ آپ کی فلم ''نامعلوم افراد'' وغیرہ سے کس طرح مختلف ہے؟ کہنے لگے کہ ''یہاں لوگ ایک آواز پر کھڑے ہوئے تھے، پھر اس کا بھی رنگ بدلا۔ یہ سب ایک ایسی تاریخ ہے، جس میں بہت سے پڑھے لکھے لوگ جان سے گئے!''

کیا اس فلم کا موضوع یہاں کی سیاسی جماعت کے خلاف ہے؟

اس پر انھوں نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ''جب بھی آپ برائی کے خلاف بندوق اٹھا لیتے ہیں، تو پھر وہی گولی آپ کو بھی لگتی ہے۔ اس لیے نفرت کا جواب محبت سے دینا چاہیے۔''

وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی فلم ''آرپار'' میں لڑکی کے حوالے سے سائبر کرائم کا موضوع پیش کیا، جیسے بعد میں 'بہاول پور' میں لڑکیوں کو بلیک میل کرنے کا واقعہ پیش آیا ہے۔ میری فلم سماج سے باہر نہیں ہوتی۔ عام طور پر لڑکی ہی کو مورد الزام بتاتے ہیں، لیکن دوسری طرف یہ نہیں دیکھتے کہ انسان جھانسے میں بھی تو آجاتا ہے۔ فطری طور پر صنف نازک کے بھی تو وہی جذبات ہیں۔ مجھ سے بھی کہا جاتا ہے کہ خاتون کے لیے کوئی ایسا منظر ڈال دیجیے، جو کہ ظاہر ہے، ہم سوچ بھی نہیں سکتے!''

ڈاکٹر مشہود کا خیال ہے کہ ''لکھاری اور مداری میں یہی فرق ہوتا ہے۔ وہ بین السطور یا براہ راست ان پر روشنی ڈالتا ہے جو لمحۂ فکر ہوتا ہے۔ یہ بھی مسئلہ ہے کہ موبائل پر جو چاہے دیکھ لیں، لیکن جب سینما پر دکھائیں تو مسئلہ ہوتا ہے۔ یہ لوگ کسی کو تبدیل کرنا چاہتے نہیں۔ ہمیں بات کرنے کا طریقہ کار بھی 'ہاضم' رکھنا چاہیے، تاکہ کسی کو نکتہ چینی کا موقع نہ ملے انگلی اٹھانے کا۔''

ڈراموں میں جا بہ جا دکھائے جانے والے 'نازیبا تعلقات' کے حوالے سے ہمارے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ 'ادبی انداز میں تو اسے دبانا چاہیے، خونی رشتوں کے درمیان ایسی چیزیں دکھائی جا رہی ہیں، یہ اس وقت ہمارے لیے لعنت ہے۔ غلیظ اور غیرسماجی معاشقے مہلک قسم کے حادثے کو قصہ بنا رہے ہیں۔ ایسی گھناؤنی چیزوں کو روایت نہیں بنانا چاہیے، نہ ہی کسی حادثے کو اپنی تحریک بنائیں۔ اس میں تفریق کیجیے۔ یہ سب 'سوشل میڈیا' کے ذریعے بچوں تک کی رسائی میں ہے، اس کا تدارک کے لیے ہمیں اپنے کردار کو دیکھنا ہوگا۔
Load Next Story