شری کٹاس راج مندر

ہندو، سکھ اور بدھ مت کا متبرک مقام

فوٹو : فائل

کوہستانِ نمک کا علاقہ ہمارے لیے ایک عظیم تاریخی سرمایہ ہے جو اپنے آثارِقدیمہ اور قدامت کے لحاظ سے ہڑپہ و موہنجوداڑو سے کسی طور کم نہیں۔ لیکن افسوس کے ان علاقوں کو سرکاری سطح پر ابھی اتنی پذیرائی نہیں ملی جتنا کے ان کا حق تھا۔

یہاں اب بھی آپ کو کئی قلعے و مندر خراب حالت میں ملیں گے۔

اپنی تاریخی حیثیت اور مذہبی اہمیت کے حوالے سے کٹاس راج کے مندر اس وقت کوہ نمک کا مشہور اور اہم ترین مقام تصور کیے جاتے ہیں۔

شری کٹاس راج کمپلیکس جسے قلعہ کٹاس بھی کہا جاتا ہے، تحصیل چوآسیدن شاہ میں چکوال شہر سے تقریباً 40 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ یہ کمپلیکس اس سڑک کے ساتھ واقع ہے جو کلرکہار کو دولمیال گاؤں کے قریب چوآسیدن شاہ سے ملاتی ہے۔

تاریخ؛

کٹاس کا اصلی نام ''کاٹکشا'' بتایا جاتا ہے جس کا مطلب ہے برستی آنکھیں۔ اس جگہ رہنے والے بہت سے برَہمن اسے کٹاشا یا کٹاکشا بھی کہتے رہے ہیں۔

نومبر 1983 میں آنے والے ہندو یاتریوں کے لیڈر ''پنڈت موہن لال'' کے مطابق کٹاس راج کا اصلی نام ''کے ٹیکش راج'' تھا جس کے معنی ہیں ''ناگوں کا بادشاہ''، کیوںکہ اس جگہ کا تعلق ہندودھرم کے بھگوان شنکر یا شیو جی سے ہے۔ یہ علاقہ پہلے کی طرح اور آج بھی سانپوں کا مسکن ہے۔

روایات کے مطابق یہ ابتدا ہی سے ایک مقدس مقام رہا ہے۔ ہندو دھرم کی ''مہا بھارت'' (مہابھارت ہندوستان کی قدیم اور طویل ترین منظوم داستان ہے جسے ہندو مت کے مذہبی صحائف میں معتبر حیثیت حاصل ہے) جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی تین سو سال پہلے کی تصنیف ہے، کے مطابق کٹاس ہی وہ جگہ ہے جہاں پانڈوؤں نے اپنی جلاوطنی کا ایک اہم حصہ گزارا تھا۔

پانڈو پانچ بھائی تھے جو مہابھارت کے مرکزی کردار ہیں۔ ان کے نام یدھشٹھیر، بھیم سین، ارجن، نکول اور سہدیو تھے۔ ان بھائیوں نے ساتھ مل کر کوروؤں سے زبردست جنگ کی اور فتح یاب ہوئے۔

ہندوؤں کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ان بھائیوں نے یکشوں کے ساتھ پہیلی کے مقابلے میں حصہ لیا تھا، جیسا کہ ''یکشا پرشنا'' میں بیان کیا گیا ہے۔

ایک اور روایت میں کہا گیا ہے کہ ہندو دیوتا کرشنا نے اس مندر کی بنیاد رکھی، اور اس میں ایک شیولنگ بنایا جو دھرتی پر سب سے پہلا شیو لنگ تھا۔

ساتویں صدی عیسوی میں اس جگہ کا دورہ کرنے والے ایک چینی سیاح ''ہیون سانگ'' نے اسے ''سنگھ پورہ'' سلطنت کہا ہے جہاں ایک اسٹوپا موجود تھا جو تیسری صدی قبل مسیح کے ہندوستانی شہنشاہ اشوک اعظم کے دور سے تعلق رکھتا تھا۔



ماہرِآثارقدیمہ الیگزینڈر کننگھم نے بھی اپنی کتاب میں کٹاس کے پاس ''سنگھاپورہ'' نامی ایک بودھ سلطنت کا ذکر کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ آثار زیادہ قدیم نہیں بلکہ 625 سے 939 عیسوی کے درمیان تعمیر کیے گئے ہیں کیوںکہ ان کا طرز تعمیر کشمیری ہے۔

1929 میں یہاں کا دورہ کرنے والے انگریز ماہرآثارِقدیمہ ڈاکٹر اسٹیفن کے مطابق یہ آثار بدھ دور کے ہیں جنہیں اشوکا سے قبل تعمیر کیا گیا تھا۔ ان کی رائے میں یہ بدھوں کے اسٹوپا تھے جنہیں بدھ مت کے زوال کے بعد یہاں کے ہندوؤں نے مندروں میں تبدیل کردیا تھا۔

یہ مقام سکھوں کے لیے بھی اہم ہے۔ گیانی گیان سنگھ (1880) ''تواریخ گرو خالصہ'' میں لکھتے ہیں کہ گرو نانک جی 1519 میں کٹاس راج آئے اور بیساکھی کے مہینے کے پہلے دن یہاں پہنچے۔ گرو جی نے گھریلو زندگی کو ترک کرنے، ایک خدا کی عبادت کرنے کی فضیلت پر خطبہ دیا اور رسم پرستی کے خلاف بات کی۔

مہاراجا رنجیت سنگھ نے اپنے دورِحکومت میں روہتاس (اپنے قلعے کے لیے مشہور) سے پنڈ دادن خان جاتے ہوئے کئی بار کٹاس راج کا دورہ کیا۔ اس کا پہلا سفر 1805 میں تھا جب وہ کٹاس راج میں نہانے کے لیے آیا تھا۔

باؤنڈری کمشنر کیپٹن جیمز ایبٹ،1848 میں کٹاس راج کے بیساکھی میلے کا عینی شاہد تھا جس کے مطابق میلے میں 20,000 لوگوں نے شرکت کی جو مہنگے لباس پہنے، بغیر کسی روک ٹوک کے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

مندروں کا قیام؛

گندھارا کی تباہی کے بعد جب اس خطے میں ہندومت نے زور پکڑا تو ہندو شاہی سلطنت نے ساتویں سے دسویں صدی کے بیچ یہاں کئی مندروں کی بنیاد رکھی جن میں کٹاس کا مندر بھی شامل تھا۔

جنرل کننگھم کے مطابق اگرچہ یہ مندر کشمیری دور کے ہیں لیکن وہ اس تصور کو بھی رد نہیں کرتا کہ پانڈوؤں نے انہیں تعمیر کروایا ہوگا۔ اس کی تحقیق کے مطابق یہاں بارہ مندر تھے جو ایک دوسرے سے متصل تھے۔

یوں یہ مقام بدھ مت و ہندومت کے ساتھ ساتھ سکھوں کے لیے بھی متبرک ٹھہرا۔

تقسیم سے پہلے تک یہ جگہ ہندو یاتریوں سے بھری رہتی تھی خصوصاً ''شیوراتری'' کے تہوار پر بڑا ہجوم دیکھنے میں آتا تھا۔

تقسیم کے بعد دہائیوں تک یہ مقام نظرانداز رہا، حالاںکہ پاکستانی ہندو وقتاً فوقتاً اس جگہ کا دورہ کرتے رہتے تھے، لیکن وسیع کمپلیکس کو برقرار رکھنے میں ناکام رہے تھے۔ بھارت سے ہندو یاتریوں کی آمد بھی پاک بھارت تعلقات سے مشروط رہی۔

اس جگہ کے دن تب پھرے جب مشرف دور میں بھارتی نائب وزیراعظم ''لال کرشن ایڈوانی'' نے 2005 میں یہاں کا دورہ کیا اور اس کی حالت دیکھ کر افسوس کا اظہار کیا۔ اس کے بعد پاکستانی حکومت نے بحالی کا کام شروع کیا جس میں تالاب کی صفائی اور کچھ مندروں کی مرمت شامل تھی۔

وزیراعظم عمران خان کے دور میں کٹاس راج کمپلیکس کی بہتر مرمت کرکے بھارتی ہندوؤں کو یہاں عبادت کی غرض سے ویزے جاری کیے گئے۔

مقدس تالاب/ جھیل؛

کٹاس راج مندروں کی مقدس جھیل کے بارے میں بھی مختلف روایتیں ملتی ہیں۔

برہمنوں کی روایت کے مطابق جب شیو دیوتا کی بیوی ''ستی'' کا دیہانت ہوا تو انہیں اتنا دکھ ہوا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ ان آنسوؤں سے دو متبرک تالاب وجود میں آئے، ایک راجستھان میں واقع ''پُشکر'' شہر میں واقع ہے جب کہ دوسرا ''کٹک شیل'' کا تالاب۔ یہ کٹک شیل آگے جا کے کٹاس کہلایا۔

ایک اور روایت کے مطابق بھگوان شیو کے آنسو اپنی بیوی کے لیے نہیں بلکہ کٹاس نامی گھوڑے کی موت پر نکلے تھے۔

سناتن دھرمی ہندوؤں کا اعتقاد ہے کہ بھگوان شنکر کا ظہور اسی جگہ پر ہوا اور ان کی جائے ظہور سے ایک چشمہ پھوٹ نکلا جس سے امرت بہنے لگا۔ چوںکہ بھگوان شنکر سانپوں کا بادشاہ ہے سو یہ جھیل سانپوں سے بھری پڑی ہے جو کسی کو ضرر نہیں پہنچاتے۔



تاریخِ چکوال میں سبحان رائے بٹالوی کی تصنیف ''خلاص التواریخ'' کے حوالے سے درج ہے کے؛

''ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ زمین کی دو آنکھیں ہیں، دائیں آنکھ اجمیر کے قریب پُشکر کی جھیل ہے جب کہ بائیں آنکھ کٹاس کی یہ جھیل ہے۔''

جنرل کننگھم اس کے بارے میں لکھتے ہیں؛

''کٹاس کا مقدس چشمہ جوالا مکھی کے بعد پنجاب میں یاتریوں کی سب سے بڑی آماج گاہ ہے۔ تالاب جزوی طور پر مصنوعی ہے جس کی گہرائی 23 فٹ سے زیادہ نہیں۔ چٹان کو کاٹ کر گنیاں نالے کی گزرگاہ میں واقع قدرتی طاس کو چوڑا کر دیا گیا ہے۔

تالاب کے اوپر ہاتھوں سے بنی مضبوط دیوار ہے۔ یہ دیوار ایک ساتھ تعمیر کی گئی تھی تاکہ نالے کے پانی کو اکٹھا کر کے ایک بڑی جھیل بنائی جا سکے۔ اس تالاب میں کئی زہریلے سانپ اور چھپکلیاں بھی پائی جاتی ہیں۔''

برہمنوں کا خیال ہے کے یہ بند راجا پاتک (یا پتک) جو دہلی کے کسی حکم راں کا وزیر تھا، نے تعمیر کروایا تھا۔

سیمنٹ کی فیکٹریوں اور علاقے میں دھڑادھڑ سفیدے کی شجرکاری نے زیرزمین پانی ختم کرکے اس چشمے کو شدید نقصان پہنچایا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب یہ سوکھ گیا۔ اُس دور کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس پر ازخود نوٹس لیا اور سیمنٹ کمپنی کو جرمانہ کرنے کے ساتھ ساتھ تالاب کو بھرنے کا بندوبست بھی کیا۔ آج کل یہ چشمہ ایک ٹیوب ویل کے پانی کی بدولت رواں ہے۔

طرزِ تعمیر؛

اس پورے کمپلیکس میں ستگرہ (سات قدیم مندروں کا مجموعہ)، ایک بدھسٹ اسٹوپا کی باقیات، قرون وسطی کے پانچ دیگر مندر، ہندوؤں کا مقدس تالاب اور اس کے ارد گرد بکھری ہوئی حویلیاں شامل ہیں۔ ستمبر 1948 میں ہونے والی قیامت خیز بارشوں نے کملیکس کو کافی نقصان پہنچایا تھا۔ ہم پوِتر تالاب کو کمپلیکس کا مرکز مانتے ہوئے مشرق سے مغرب فرداً فرداً ان سب مندروں کا جائزہ لیں گے۔

ہَوَن کُنڈ/بارہ دری/ گردوارہ؛

یہ تالاب کے مشرق میں واقع ایک بارہ دری ہے جو چبوترے پر بنائی گئی ہے۔ اس کی تعمیر رنجیت سنگھ کے دور میں ہوئی جس میں پتھر سمیت دالوں کا استعمال کیا گیا تھا۔


مؤرخ اقبال قیصر جی نے اپنی مشہور کتاب، پاکستان میں تاریخی سکھ عبادت گاہیں، میں کٹاس راج میں ''گوردوارہ پہلی پاٹ شاہی'' کا حوالہ دیا ہے۔ اگرچہ مصنف اس گردوارے کے مقام کا تعین کرنے سے قاصر رہے ہیں، لیکن سکھ تاریخ پر تحقیق کرنے والے، جہلم سے ہمارے ایک دوست کا ماننا ہے کے یہ بارہ دری ہی اصل میں ماضی کا سکھ گردوارہ ہے۔

پٹیالہ کے دَھنا سنگھ (جنہوں نے 1930 سے 1934 تک اپنے کیمرے کے ساتھ سائیکل پر گردواروں کا دورہ کیا اور انہیں ایک ڈائری میں ریکارڈ کیا) لکھتے ہیں:

''بابا گرونانک کی یہ زیارت گاہ پہلے ستھرا شاہی (اُداسی سے مشابہ ایک ہم آہنگ فرقہ) کے قبضے میں تھا جنہوں نے اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کی کمی کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا۔ اب دھرمسال (نومبر 1933 میں) لال سنگھ، دلیپ سنگھ اور سورت سنگھ کے کنٹرول میں ہے جو بھائی متی داس (کریالہ گاؤں، ضلع چکوال کے) کی اولاد ہیں۔''

موجودہ بارہ دری کے بارہ دروازوں میں سے کچھ کو کھلا چھوڑا گیا ہے جب کہ کچھ پر لکڑی کے دروازے لگائے گئے ہیں۔ چھت پر ایک گنبد ہے۔ اس کی دیواریں تو پرانی ہی ہیں لیکن لکڑی کے دروازے اور فرش نیا بنایا گیا ہے۔ اندرونی کمرے کی دیواروں اور گنبد پر نقش و نگار دیکھے جا سکتے ہیں جو زیادہ پرانے نہیں ہیں۔

محکمۂ اوقاف کو چاہیے کہ اس جگہ پر تحقیق کر کے گردوارے کا پتا چلائے اور اسے گردوارے کے نام سے موسوم کرے۔

شیو مندر؛ بارہ دری کے مشرقی چبوترے پر شیو مندر واقع ہے جس میں یہاں کا قدیم ''شیو لِنگ'' رکھا گیا ہے۔ روایت کے مطابق یہ زمین سے نکلا ہے اور تقریباً پانچ ہزار سال پرانا ہے۔

پاکستان میں تین قدیم شیو لنگ ہیں جو کٹاس کے علاوہ مانسہرہ کے چٹی گھاٹی مندر اور سکھر کے سادھو بیلا مندر میں رکھے ہیں۔ اِس کے دیگر حصے نیپال، سری لنکا اور بھارت میں موجود ہیں۔

ہندو زائرین اسے دودھ، عرقِ گلاب اور دہی سے نہلا کر تلک لگاتے ہیں اور اس کی پوجا کرتے ہیں۔ شیو لنگ کے سامنے نندی کی مورتی رکھی گئی ہے۔ نندی ایک بیل ہے جسے شیو یعنی بھولے ناتھ کی سواری بھی کہا جاتا ہے۔ اسی مندر میں شیشے کے بکسوں میں دیگر بھگوانوں کی مورتیاں، تصاویر، آرتی کا سامان اور دیپک بھی رکھے گئے ہیں۔

شری رام چندر مندر؛

تالاب کی مغربی سمت دو منزلہ قدیم رام مندر واقع ہے۔ نچلی منزل پر مختلف جہتوں کے آٹھ کمرے ہیں اور جنوب میں پہلی منزل تک جانے والی سیڑھیاں ہیں۔ منڈیر میں دو جھروکے (بالکونیاں) ہیں جو بس گرنے کی حالت میں ہیں۔ کہا جاتا ہے کے یہ دو ہزار سال سے بھی زیادہ پرانا ہے اور پتھر اور چونے سے بنایا گیا ہے۔

راما چندر مندر کے احاطے میں ایک پتھر کا چبوترہ ہے جو سکھوں کے جھنڈے، نشان صاحب کے چبوترے سے ملتا جلتا ہے۔

سکھ تاریخ پر کام کرنے والے کچھ مؤرخین کے مطابق اس مندر کی زمینی منزل میں ہندو فن تعمیر ہے جس میں دیوتاؤں کی مورتیوں کے لیے متعدد مقامات شامل ہیں۔ تاہم، اوپری منزل پر موجود کمرے کے 4 دروازے تھے، گوردوارے کی طرح ہر سمت میں ایک۔

اس کے تین دروازے اب بند کر دیے گئے ہیں۔ اس خطے میں جہاں ہندو اور سکھ ایک اقلیت تھے، تو کبھی کبھی وہ مشترکہ جگہ عبادت کر لیتے تھے جیسے یہاں نیچے مندر اور اوپر گردوارہ ہو سکتا ہے۔

چوںکہ آج کل یہ جگہ استعمال میں نہیں ہے سو موجودہ حالت ناقابلِ بیان ہے۔ اوپری منزل کے جھروکوں میں پرانے نقش و نگار دم توڑتے نظر آتے ہیں جب کہ نچلی منزل کی دیواروں پر پاکستانی جوڑوں کی محبت کی داستانیں رقم ہیں۔ بیرونی دروازے کی محراب میں لال پتھر استعمال کیا گیا ہے۔

ہنومان مندر؛

یہ رام مندر کے جنوب میں اونچائی پر واقع ہے جو اب بھی پوجا کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مندر کو چوبیس سو سال پرانا بتایا جاتا ہے جس کی خاص بات اس کا فریسکو اور باہر بنی محرابیں ہیں۔ مرمت شدہ اندرونی کمرے میں بھگوان ہنومان کی مورتی رکھی ہے جس کے آس پاس دیواروں پر قدیم نقش و نگار کو دوبارہ سے تازہ کیا گیا ہے۔

ان میں انسانوں مختلف جانوروں کی اشکال کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اندرونی گنبد پر نقش و نگار کو بھی دوبارہ سے تازہ کیا گیا ہے۔

مرکزی کمرے سے باہر والے کمرے میں قدیم فریسکو کا کام اب بھی قدرے بہتر حالت میں موجود ہے جو لگ بھگ سن گیارہ سو میں کیا گیا تھا۔ اِسے وال چاکنگ سے بچانے کے لیے بند رکھا جاتا ہے۔ مندر کے باہر سنگِ مرمر کے فرش پر پرانی طرز کی خوب صورت محرابیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ مندر قدیم و جدید آرٹ کا حسین امتزاج ہے۔

بُدھ اسٹوپا؛

ہنومان مندر کے جنوب مغربی میدان میں ایک اسٹوپے کے آثار ملتے ہیں۔ یہ غالباً وہی اسٹوپا ہے جس کا ذکر چینی سیاح نے کیا تھا۔ آج کل اسے چاردیواری میں محفوظ کیا گیا ہے۔ جارج کننگھم نے یہاں بعض ایسے مندروں کے آثار بھی دیکھے جو مانکیالہ کے اسٹوپوں جیسے تھے لیکن وہ یقین سے نہیں بتاسکا کے آیا یہ بودھوں کے اسٹوپے تھے یا نہیں۔

قلعہ و حویلی ہری سنگھ نلوہ؛

رام مندر کے مغربی جانب ایک چھوٹی پہاڑی پر ہری سنگھ نلوہ کے دور میں ایک قلعہ نما حویلی تعمیر کی گئی تھی جسے رہائش کے ساتھ ساتھ دفاعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اونچائی پر ہونے کے باعث یہاں سے مندروں پر بی آسانی نظر رکھی جا سکتی تھی۔ مستطیل عمارت کے چاروں کونوں پر بُرج بنائے گئے ہیں۔

قلعے کے مرکزی حصے میں ایک چھوٹا سا صحن ہے، جس کے ارد گرد ایک محرابی برآمدہ اور کمرے ہیں۔ اندرونی کمروں کی لکڑی کی چھت، صحن و کمروں کا فرش اور رنگ روغن سب نیا کیا گیا ہے تاکہ اس جگہ کی قدامت کا کوئی سراغ نہ لگایا جا سکے۔

کسی دور میں یہاں ایک عجائب گھر بنایا گیا تھا لیکن چیف جسٹس نے اپنے دورے پر اسے ختم کرنے کا حکم دیا کہ عجائب گھر کی الماریوں اور مصنوعی چھجوں کی وجہ سے سے عمارت کا اصل حسن متاثر ہو رہا تھا۔

یہ قلعہ آج کل بند رہتا ہے لیکن گائیڈ کو ''مٹھائی'' دے کے کھلوایا جا سکتا ہے۔

سَتگرہ؛

قلعے کے مغرب میں کمپلیکس کا آخری حصہ ''سَتگرہ'' یا ''سَت گڑھ'' ہے جو سات مندروں کا مجموعہ ہے۔ روایت ہے کہ یہ مندر پانڈوؤں نے اپنے بن باس کے دوران تب تعمیر کیے تھے جب وہ کورؤں سے شکست کھا کر یہاں رہ رہے تھے۔

یہ مجموعہ ایک پہاڑی پر واقع ہے جن میں سے دو کے صرف آثار باقی ہیں۔ پانچ مندروں میں سے درمیان والا سب سے بڑا ہے جب کہ قدیم اور منفرد طرزِتعمیر کا حامل مندر اس کے شمال میں ہے۔ یہ طرزتعمیر کشمیر کے ورما شاہی خاندان (625 تا 939ء ) کے زمانے میں رائج تھا۔

اِن سات مندروں کو کشمیری مندروں کی طرح تراشیدہ پتھروں سے بنایا گیا تھا جن کی چنائی چونے سے کی گئی۔ شِکن دار ستونوں، خوب صورت محرابوں اور نوکیلی چھتوں سے آرائش کا کام لیا گیا تھا۔ ان کے منفرد نقش و نگار اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

رہائشی کوٹھیاں؛

یہاں تالاب کے پاس مختلف محرابی کمرے بھی ملتے ہیں جو ماضی میں یہاں رہنے والے پنڈتوں اور پجاریوں کی رہائش گاہیں تھیں۔ نیز مہاراجا رنجیت سنگھ نے بھی اپنے مختلف دوروں پر یہیں قیام کیا تھا۔ آج کل یہ خالی ہیں اور سیاح یہاں نہیں جا سکتے۔

کمپلیکس کے اندر موجود مقامات کا ذکر ختم ہوا اب ہم سڑک کی دوسری جانب چلتے ہیں جہاں پانڈوؤں کے غار اور دیگر نئے پرانے، چھوٹے مندر موجود ہیں۔

پانڈؤں کے غار؛

یہ غار مندر کمپلیکس کے باہر سڑک کے دوسری جانب ریسپشن کے پاس ایک پہاڑی میں واقع ہیں جنہیں پانڈؤں سے منسوب کیا جاتا ہے۔

غور سے دیکھنے پر پتا چلتا ہے کے یہ غار انسانی ہاتھوں کا کام نہیں ہے بلکہ ہزاروں سال کے قدرتی عمل سے وجود میں آئے ہیں۔ چوںکہ دوردراز کی گپھائیں سادھوؤں اور مذہبی عالموں کی پسندیدہ جگہ رہی ہیں سو غالب گمان ہے کہ انہیں مراقبے یا عبادت کے لیے استعمال کیا جاتا ہوگا۔

اس کے پاس ہی بعد میں بنایا جانے والا مندر اور کمرے موجود ہیں جو مندر کے خدمت گاروں کی رہائش گاہیں بتائی جاتی ہیں۔

سیکڑوں سال کی شکست و ریخت کے بعد یہ تاریخی ورثہ ہمیں جس حال میں ملا، ہم نے اسے اور نقصان پہنچایا۔ کئی سال اس کمپلیکس پر توجہ نہ دی گئی۔ مندروں سے مورتیاں غائب ہوگئیں، تالاب خشک ہوگیا۔

بھارتی نائب وزیراعظم نے جب توجہ دلائی پھر کہیں جا کر محکمے کچھ حد تک خواب خرگوش سے جاگے اور باقی کمی چیف جسٹس کے احکامات نے پوری کردی۔ سنا ہے کے رام مندر کی بحالی کا کام بھی شروع ہونے والا ہے۔

حکومتِ وقت اور محکموں سے گزارش ہے کے مقامی ہندوؤں کی کمیٹی بنا کے یہاں موجود تمام مندروں کو بحال اور عبادت کے لیے کھولا جائے۔ نیز شیوراتری کو ایک سالانہ تہوار کا درجہ دے کے دوبارہ شروع کیا جائے۔ بھارت، نیپال و سری لنکا سے ہندو یاتریوں کو ہر سال ویزے دیے جائیں تاکہ سیاحت کی بہتری کے ساتھ کچھ زرِمبادلہ بھی حاصل ہو۔ جب کرتارپور کوریڈور سے ریونیو حاصل کیا جا سکتا ہے تو کٹاس راج و دیگر مندروں سے کیوں نہیں؟

حوالہ جات ؛

پاکستان کے آثارِ قدیمہ (شیخ نوید اسلم)

تاریخِ چکوال (ڈاکٹر اجمل خان نیازی)

The Forgotten Gurdwara ; Guru Nanak At Katas Raj, Pakistan (Inderjeet Singh) May 2022.
Load Next Story