افغان حکومت سے 9 ممالک کے مطالبات

خطے میں شدت پسندی اور سخت گیروں کی حوصلہ افزائی کی روشنی میں، افغانستان کے ساتھ پاکستان بھی نشانے پر نظر آرہا ہے

خطے میں شدت پسندی اور سخت گیروں کی حوصلہ افزائی کی روشنی میں، افغانستان کے ساتھ پاکستان بھی نشانے پر نظر آرہا ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان سمیت 9 ہمسایہ ملکوں نے افغانستان کی عبوری حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے ملک سے ہر قسم کے دہشت گرد گروپوں اور ان کی پناہ گاہوں کا خاتمہ کرے، دہشت گرد گروپوں کے خلاف موثر کارروائی کا مشترکہ مطالبہ ماسکو فارمیٹ کے اعلامیہ میں کیا گیا۔

افغانستان پر ماسکو فارمیٹ کے پانچویں اجلاس میں، چین، بھارت، ایران، قازقستان، کرغزستان، پاکستان، روس، ترکمانستان اور ازبکستان کے خصوصی نمایندوں اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

دنیا سمجھتی ہے کہ تشدد عالمی امن کا دشمن ہے، دہشت گرد گروپوں کے ٹھکانوں کی موجودگی افغانستان اور عالمی امن کے لیے شدید خطرہ ہے۔ افغانستان کے قریبی پڑوسیوں کو یقین ہے کہ ایک غیرمستحکم افغانستان خطے اور دنیا کے لیے زیادہ خطرناک ہے۔

اگست 2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔ پاکستان کے مغربی علاقوں، خاص طور پر افغانستان کی سرحد سے متصل علاقوں میں حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جب کہ افغانستان بظاہر اس بات سے انکار کرتا ہے کہ عسکریت پسند اس کی سرزمین دوسرے ممالک کے خلاف حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن زمینی حقائق کے مطابق افغانستان کی لاجسٹک سپورٹ کے بغیر کوئی دہشت گرد گروپ پاکستان میں کارروائی نہیں کرسکتا۔

سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ بارڈر پر کسی بھی قسم کی جارحیت عبوری افغان حکومت کی مرضی کے بغیر ناممکن ہے، اگر افغان عبوری حکومت ان دہشت گرد گروپوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تو پھر پاکستانی فوج کو اجازت دی جانی چاہیے کہ وہ ان دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانوں کو افغانستان میں کارروائی کرتے ہوئے تباہ کرے۔

عالمی پالیسی سازوں کو افغانستان میں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ عسکریت پسند گروپوں کی دوبارہ واپسی پر بھی تشویش ہے۔ افغانستان میں ان دو سالوں کے دوران سیکیورٹی کا ابھرتا ہوا منظر نامہ پیچیدہ اور تشویش ناک ہے۔ طالبان کا افغانستان میں داعش خراسان کے خلاف رویہ جارحانہ جب کہ القاعدہ کی موجودگی سے متعلق انکاری ہے۔

طالبان کا افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی صلاحیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ کوئی بھی گروپ ان کی منظوری یا حمایت کے بغیر افغانستان سے باہر کام نہیں کر سکتا، لہٰذا طالبان کے مختلف عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ پیچیدہ تعلقات یہ سمجھنے کے لیے اہم عنصر ہیں کہ طالبان کے زیر اقتدار افغانستان میں شدت پسند تنظیموں کا چیلنج کس طرح تیار ہو رہا ہے۔

افغان طالبان کے دو سالہ دور حکومت میں افغانستان عسکریت پسند گروپوں کا مرکز بن گیا ہے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ تشویش ناک اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کی جون کی رپورٹ ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ طالبان نے دوحہ معاہدے کے تحت اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ افغانستان سمیت پورے خطے میں دہشت گردی کا خطرہ بڑھ رہا ہے اور طالبان کے دور حکومت میں تقریباً 20 عسکریت پسند گروپوں کو نقل وحرکت اور آپریشن کی زیادہ آزادی ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس بات پر زور دیا کہ داعش دہشت گرد گروہ صرف افغانستان کے لیے ہی نہیں بلکہ خطے اور افغانستان کی سرحدوں سے باہر کے دیگر ممالک کے لیے بھی خطرناک ہے۔

افغانستان میں داعش کے جنگجوؤں اور ان کے خاندان کے افراد کی تعداد 4000 سے 6000 کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ سلامتی کونسل کی طرف سے شایع کردہ یہ اعداد و شمار ماضی کے مقابلے میں اضافہ کو ظاہر کرتے ہیں۔

افغانستان کے پڑوسی ممالک میں داعش کا سب سے مہلک حملہ اس سال 30 جولائی کو ہوا، جب اس نے پاکستانی شہر باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام کی انتخابی ریلی کو نشانہ بنایا۔ اس حملے میں کم از کم 63 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ داعش کی خراسان شاخ نے جنوری 2015 میں افغانستان میں اپنی موجودگی کا اعلان کیا تھا۔


عالمی امن اور سلامتی کو داعش کی جانب سے لاحق خطرے پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی 17ویں رپورٹ پیش کی گئی، رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ نیٹو کے وہ ہتھیار، جو کہ عام طور پر سابق افغان نیشنل ڈیفنس اور سیکیورٹی فورسز کو فراہم کیے گئے تھے، اب طالبان اور القاعدہ سے وابستہ گروہوں مثلاً کالعدم ٹی ٹی پی اور مشرقی ترکستان اسلامی تحریک کو منتقل کیے جا رہے ہیں۔

داعش نے ایک ''انڈسٹری کمیٹی'' بھی بنا رکھی ہے تاکہ ہتھیار سازی میں بہتری کے نئے راستے تلاش کیے جا سکیں اور دیسی ساختہ دھماکا خیزآلات اور ڈرونز کے لیے پے لوڈز میں اضافے جیسی دیگر چیزیں بنائی جاسکیں۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے افغان سرزمین سے پاکستان میں بڑھتے ہوئے حملے افغان طالبان کے دوحہ معاہدے سے متعلق وعدے پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں عسکریت پسندی کی لہر میں 73 فیصد اضافہ ہوا۔ ٹی ٹی پی افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔

تشویش ناک بات یہ ہے کہ صرف ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند ہی نہیں بلکہ کچھ افغان شہری بھی ٹی ٹی پی کی چھتری تلے پاکستان کے خلاف حملوں میں حصہ لیتے پائے گئے۔ اسی طرح جولائی 2022 میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کے کابل میں مارے جانے کے باوجود طالبان افغانستان میں القاعدہ کی موجودگی سے انکار کرتے ہیں۔ طالبان کے موقف سے مطابقت رکھنے کے لیے القاعدہ نے بھی ایمن الظواہری کی موت کو تسلیم نہیں کیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ مبینہ طور پر افغانستان کے صوبہ پکتیکا میں چھپے ہوئے ہیں لیکن ان کے قریبی ساتھی اور وفادار جنگجو خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع خیبر، مہمند اور باجوڑ سے ملحقہ کنڑ اور ننگرہار صوبوں میں مقیم ہیں۔ تقریباً تین ہزار پاکستانی یا کالعدم ٹی ٹی پی جنگجوؤں کو کابل اور دیگر جیلوں سے رہا کیا گیا ہے۔

ابھی تک دیگر چھوٹے گروہ جیسے ٹی ٹی پی جمعیت الاحرار، منگل باغ کا لشکر اسلام خاموش ہیں لیکن ان کے جنگجو افغان طالبان کو کابل، طورخم، جلال آباد اور باقی افغانستان میں سیکیورٹی گارڈ کے طور پر مدد فراہم کر رہے ہیں۔ دولت اسلامیہ سے وابستہ عسکریت پسندوں کے مسئلے کو، جسے داعش بھی کہا جاتا ہے، امریکی قیادت میں اتحادی فوجوں کے انخلا اور طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد مزید پراسرار اور پیچیدہ بنا دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ تین ہزار سے زائد عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ، جو پہلے اورکزئی، شمالی اور جنوبی وزیرستان، باجوڑ اور مہمند سے کالعدم ٹی ٹی پی سے وابستہ ہیں، آئی ایس ایس سیکڑوں ازبک اور دیگر وسطی ایشیائی عسکریت پسندوں کی میزبانی بھی کر رہی ہے جو مشرقی ترکستان اسلامی تحریک، اسلامی تحریک ازبکستان، اتحاد اسلامی سے وابستہ ہیں۔

افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے سے پہلے یہ تمام عسکریت پسند جو آئی ایس سے وابستہ یا اس سے منسلک ہیں، ایک منصوبہ بندی کے تحت مشرقی افغانستان سے شمالی افغانستان منتقل ہوئے۔ خطے میں شدت پسندی اور سخت گیروں کی حوصلہ افزائی کی روشنی میں، افغانستان کے ساتھ پاکستان بھی نشانے پر نظر آرہا ہے۔

افغانستان کا قریبی پڑوسی ہونے کے ناتے پاکستان کو افغانستان کے غیر مستحکم ماحول کا بہت نقصان ہوا ہے۔ بائیس سال کے بعد افغانستان ایک بار پھر ایک تاریخی دوراہے پر ہے۔ افغانستان کی صورت حال اس لحاظ سے سنگین ہے کہ ٹی ٹی پی کے ٹھکانے پاکستان کی جانب سے یاد دہانی کے باوجود ختم نہیں کیے جا رہے۔

پاکستان کا ہمہ پہلو بحران سیکیورٹی صورتحال سے جڑ چکا ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے متعلق پاکستان کا کردار فراموش کر کے اسے ایک قابض اور دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والے ملک کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، ساتھ ہی پاکستان میں دہشت گرد گروہ سرگرم کر دیے گئے ہیں۔ افغان سرزمین پر موجود دہشت گرد عناصر پاکستان میں کارروائیاں کر کے خطے کے امن کو سبوتاژ کرنے کی کوشش میں ہیں۔

پاکستان مسلسل افغانستان کی عبوری حکومت کو یاد دلا رہا ہے کہ دوحہ معاہدے کے تحت افغان سر زمین پر سے کسی دوسرے ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والوں کا انسداد آپ کی ذمے داری ہے اور یہ ہمارے برادرانہ، ہمسایہ تعلقات کے حوالے سے کابل پر فرض ہے۔

پاکستان اس امیدکا اظہار کرتا رہا ہے کہ افغان حکومت پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی اس نئی لہر کو لگام ڈالے گی اور افغان طالبان ان عناصر پر قابو پالیں گے، جو پاک افغان تعلقات پر حملہ کر رہے ہیں۔

افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کے اسٹرٹیجک مفاد میں ہے۔ پاکستان افغانستان کے ساتھ پر امن تعلقات کو ایک وسیع تناظر میں دیکھتا ہے، ایک تجارتی راہداری، قیام امن میں معاون، ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنے والے، تاریخی و مذہبی تعلقات اور نئے عالمی چیلنجز سے مشترکہ طور پر نمٹنے کے تناظر میں ہو سکتے ہیں۔
Load Next Story