نقصان دہ فیصلوں کے ذمے دار محفوظ کیوں
عدالتی اور وزارتی فیصلوں نے ہر سرکاری ادارے کو سفید ہاتھی بنایا اور کرپشن روکنے پر کسی نے توجہ نہیں دی
نگران وفاقی حکومت نے قومی ایئر لائن پی آئی اے کی نج کاری کا عمل جنگی بنیادوں پر مکمل کرنے کی ہدایت اور ادارے کو مزید فنڈز کی فراہمی سے انکار کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ ایک اجلاس میں کیا گیا جس میں پی آئی اے کو درپیش مالی بحران پر غور کیا گیا۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ قومی ایئر لائن کے آپریشن کو بحال رکھنے کے لیے فنڈز کی اشد ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ آپریشنل پی آئی اے سالوں سے مسلسل خسارے کے باعث تباہی کے کنارے پہنچ چکی ہے اور بند ہونے کے قریب ہے۔
پی آئی اے اور دیگر قومی ادارے سالوں سے خسارے میں جا رہے ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز سالوں سے بند رہ کر تباہ ہو چکی ہے جس کی قیمتی مشینری و دیگر سامان مسلسل چوری ہو رہا ہے اور وفاقی حکومت بند اسٹیل ملز کے ملازمین کو قومی خزانے سے تنخواہیں بھی ادا کر رہی ہے اور پی آئی اے، ریلوے و دیگر خسارے میں جانے والے سرکاری اداروں کو فنڈز بھی فراہم کر رہی ہے اور خسارے میں جانے یا بند سرکاری ادارے سفید ہاتھی بنے ہوئے حکومت اور قومی خزانے پر مسلسل بوجھ ہیں اور عالمی مالی اداروں سے مسلسل قرضے لے کر ان اداروں کے ملازمین کو پالنے والے ملک پاکستان کو اب اس کے ہمدرد دوست ملک بھی قرضے دے کر تنگ آ چکے ہیں اور سوٹ پہن کر بادشاہوں کی طرح قرضے مانگنے کے عادی ہمارے حکمرانوں کو بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ قرضے لینا بند کریں اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کریں۔
قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھانے والے ہمارے حکمرانوں پر کوئی اثر نہیں ہو رہا اور اب تو آئی ایم ایف سے مزید قرضہ لینے کے لیے حکمرانوں کو ان کے پیروں میں پڑنا پڑا۔ رسوائی کے بعد جو قرض ملا وہ سخت شرائط پر ملا اور حکمرانوں نے اپنے ہی عوام کو سولی پر چڑھا دیا اور آئی ایم ایف کی شرائط مان کر مہنگائی اور بے روزگاری کا ریکارڈ قائم کردیا۔
سیاسی حکمرانوں نے تو اپنے سیاسی مفاد کے لیے ملک کے سفید ہاتھیوں کو پالنے کا سلسلہ جاری رکھا تھا مگر اب پہلی بار نگران حکومت نے پی آئی اے کو مزید پالنے سے انکار کر دیا ہے اور خسارے میں جانے والی قومی ایئرلائن کی نجکاری جلد مکمل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔
قومی ادارے اسٹیل ملز کی نجکاری سالوں قبل نہیں ہونے دی گئی جس کے باعث ملز بند ہوئی مگر اس کے ملازمین برقرار ہیں اور ماضی کی ہر حکومت نے پی آئی اے کی طرح اسٹیل مل میں بھی ضرورت سے زیادہ اپنے حامیوں کو بھرتی کیا تھا جن کی تنخواہوں کا بوجھ ان دونوں قومی اداروں پر بڑھا اور کرپشن نے باقی کسر پوری کردی تھی۔
قومی اداروں میں اپنے حامیوں کو بھر کر نوازنے کے عمل میں ہر حکومت شریک رہی ہے اور ان کے خسارے پورے کرنے کے لیے فنڈز دیتی رہی مگر کبھی خسارے ختم کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔
ان قومی اداروں میں کرپشن ہی عروج پر نہیں بلکہ وہاں کے ملازمین کی لیبر انجمنیں بھی پاور فل رہیں جن کے عہدیدار مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھتے تھے ان عہدیداروں نے بھی ملک اور اداروں کے مفاد کے بجائے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کو ترجیح دی جس کے نتیجے میں اسٹیل مل سالوں سے بند اور اب پی آئی اے کے بارے میں ایسی باتیں کی جا رہی ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے اپنے غیر ذمے دارانہ بیانات اور فیصلوں سے قومی ایئرلائن کو دنیا میں بدنام کرایا جس سے کئی ملکوں میں پی آئی اے کی پروازیں بند ہوئیں اور خود ملک کے لوگوں نے اپنی قومی ایئرلائن کو غیر محفوظ سمجھ کر سفر کرنا چھوڑ دیا تھا اور وہ دیگر ایئرلائنز کے جہازوں میں سفر کرتے تھے۔
ملک میں نجی ایئرلائنز نے فروغ پایا اور قومی ایئر اس مقام پر پہنچ گئی کہ جسے اب نگران حکومت بھی مزید فنڈز فراہم کرنے سے انکار کر چکی ہے اور اس کی نجکاری کی جا رہی ہے۔
2008 سے 2013 تک پی پی حکومت کے وزیر ریلوے غلام احمد بلور نے پاکستان ریلوے کو اپنے فیصلوں سے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا جس کو بعد میں (ن) لیگی حکومت نے مشکل سے سنبھالا تھا اور ریلوے کرایوں میں مسلسل اضافوں کے باوجود پاکستان ریلوے اب بھی خسارے میں چل رہی ہے اور سفید ہاتھی بنی ہوئی ہے۔
(ق) لیگ کے وزیر ریلوے شمیم حیدر نے بتایا تھا کہ ان سے پہلے کے وزیر ریلوے نے اپنے علاقے کے 8 ہزار سے زائد لوگ ریلوے میں بھرتی کیے تھے اور میں اب کسی کو مزید بھرتی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ وزیر ریلوے غلام احمد بلور ہوں یا وزیر ہوا بازی غلام سرور خان اور دیگر وزرا اپنے اپنے دور میں ضرورت سے زیادہ بھرتیاں کر کے ہر کسی نے قومی اداروں کو تباہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا مگر کبھی ان کی سرزنش تک نہیں ہوئی۔
عدالتی اور وزارتی فیصلوں نے ہر سرکاری ادارے کو سفید ہاتھی بنایا اور کرپشن روکنے پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ ایم کیو ایم کے وزیر شپنگ ہوں یا پی ٹی آئی، (ن) لیگ، پیپلز پارٹی ہر کسی نے محکمہ جہاز رانی میں اپنے لوگ بھرتی کیے۔
عدالت عظمیٰ واحد ادارہ ہے جہاں ماضی میں میرٹ پر ججوں کا تقرر ہوا مگر بعد میں سینئر ججوں کو نظرانداز کرنے پر سوالات اٹھائے گئے۔ اٹھارہویں ترمیم میں فیصلہ ہوا تھا کہ آیندہ ہر حکومت 11 فیصد کے حساب سے کابینہ بنائے گی مگر عمل نہیں ہوا۔
پی ٹی آئی حکومت میں باہر سے دوستوں کو بلا کر حکومت میں شامل کیا گیا تھا تو اگست میں جانے والی اتحادی حکومت میں سب سے بڑی کابینہ کا ریکارڈ قائم ہوا۔ ہر پارٹی نے اپنے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کابینہ میں شامل کرایا۔ ایک سابق رکن پنجاب اسمبلی کے مطابق آئی ایم ایف سے جو پہلی قسط ملی اس میں ہر سابق رکن قومی اسمبلی کو الیکشن کے لیے ایک ایک ارب روپے کا فنڈ دیا گیا۔
سندھ میں 15 سال حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی نے ہر محکمے میں جیالے بھرتی کیے۔ ترقیاتی کاموں کی بندربانٹ کی، پنجاب کی حکومت نگران ہونے کے باوجود ججوں کو بلاسود قرضے دے رہی ہے اور اسسٹنٹ کمشنروں کو مہنگی گاڑیاں دے رہی ہے کسی کو ملک کے غریبوں کا احساس نہیں ہوا۔ملک میں اپنے غلط فیصلوں سے نقصان پہنچانے والوں کو اگر سزا ملتی یا نقصان ان سے وصول کیا جاتا تو آج ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔