بھارت کی فکری اساس

بھارت کی فکری اساس نہ علاقائی ہے نہ نظریاتی ہے نیز اس کا اقتصادیات اور سیاسیات سے بھی کوئی خاص تعلق واسطہ نہیں


Kuldeep Nayar May 16, 2014

ISLAMABAD: بھارت کی فکری اساس نہ علاقائی ہے نہ نظریاتی ہے نیز اس کا اقتصادیات اور سیاسیات سے بھی کوئی خاص تعلق واسطہ نہیں ہے جب ہم آزادی کی جدوجہد کر رہے تھے تو ہمارا دعویٰ جمہوریت' اجتماعیت اور مساوات پر مبنی ملک کا قیام تھا۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو معاشرے کے لیے سوشلسٹ نمونے کو اختیار کرنا چاہتے تھے لیکن وزیر اعظم من موہن سنگھ کے نزدیک آزاد مارکیٹ کا قیام ترجیح تھی تاہم اس خیال پر ان کی پارٹی بطریق احسن عمل نہیں کر سکی حالانکہ وہ ایک سے زیادہ بار اقتدار میں رہی ہے۔

ان نظریاتی اقدار کو ایک طرف دھکیل دیا گیا۔ مثالیت پسندی کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ حتیٰ کہ نوجوانوں کی زیادہ دلچسپی ماضی کی اعلیٰ اقدار کے بجائے اچھی ملازمتوں کے حصول پر رہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نئے حکمران بھی جمہوری طریقے سے منتخب ہو کر آئے لیکن انھوں نے لوک سبھا کے انتخابات کو محض اقتدار کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ انھیں اس بات کی کوئی خاص پرواہ نہیں تھی کہ وہ اقتدار تک کس ذریعے سے پہنچتے ہیں۔ ایک عام اندازے کے مطابق مختلف انتخابی امیدواروں نے اقتدار میں آنے کے لیے پانچ لاکھ کروڑ روپے کا خرچہ کیا جو کہ انھیں کارپوریٹ سیکٹر کی طرف سے فراہم کیا گیا تھا۔

ظاہر ہے کہ نیا وزیر اعظم اور اس کے رفقائے کار اس روش کو تبدیل کرنے کے لیے کچھ نہ کر سکے کیونکہ انھیں کامیاب کروانے کے لیے بوریاں بھر بھر کر رقوم صرف کی گئی تھیں۔ مزید برآں انھیں قومی جدوجہد کے دوران کیے گئے وعدوں کا بھی کوئی خاص پاس نہیں۔ مجھے اس بات پر قطعاً حیرت نہیں ہوتی کہ نئی نسل کو برطانیہ کی وحشیانہ حکمرانی سے آزادی کے دوران دی جانے والی قربانیوں کا کوئی علم ہی نہیں۔ جلیانوالہ باغ میں قتل عام کو کتنے لوگ یاد رکھے ہوئے ہیں جس میں برطانوی حکمرانوں نے سفاکانہ طور پر بے گناہ شہریوں کو قتل عام کا نشانہ بنایا جن میں ہمارے آبائو اجداد بھی شامل تھے جنہوں نے اپنی تمام تر توجہ آزادی کے حصول پر مرکوز کر رکھی تھی۔

میرا ایک دوست جو کہ لندن میں قیام پذیر ہے اس نے درست طور پر یہ تجویز پیش کی ہے کہ ان بے گناہ مقتولوں کی یاد میں قومی تعطیل منائی جانی چاہیے جنہوں نے اپنی جان بچانے کے لیے کنوئیں میں چھلانگ لگا دی تھی اور وہ جو برطانوی فوجیوں کی اندھا دھند فائرنگ کے سامنے ڈٹ کر کھڑے رہے تاآنکہ ان کی بندوقوں کی گولیاں ختم ہو گئیں۔آخر نئی آنے والی حکومت اپنے آبائو اجداد کی قربانیوں کا قرض کس طریقے سے چکائے گی؟ ہم برطانوی حکام سے وہ مال و دولت اور اثاثے واپس نہیں لے سکتے جو وہ ہمارا استحصال کر تے ہوئے یہاں سے لوٹ کر لے گئے تھے لیکن ہم کم از کم اپنی وراثت کی ان علامات کو تو واپس لے سکتے ہیں جو وکٹوریہ اور البرٹ عجائب گھروں کے تہہ خانوں میں گرد آلود ہو رہی ہیں۔

مجھے یاد پڑتا تھا کہ جب لندن میں نہرو سینٹر کھولا گیا (جس کے لیے پیسے نئی دہلی نے دیے تھے) تو میں نے کیوریٹر سے پوچھا کہ بھارتی لوگوں کو برطانوی راج کی یاد گاروں پر کب تک رسائی حاصل رہے گی تو اس خاتون نے جواب دیا کہ پینتیس سال بعد انھیں صرف %5 اشیا کو دیکھنے کی اجازت ملے گی۔لندن میں بھارتی ہائی کمشنر کی حیثیت سے میں نے کوشش کی کہ کوہ نور ہیرا بھارت کو واپس دلوایا جائے۔ یہ انمول ہیرا ایک زمانے میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے خزانے کا سب سے قیمتی اثاثہ تھا۔ اس کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ اس کو حیدر آباد میں گولکنڈہ کی کانوں سے نکالا گیا تھا۔ تو برطانوی دفتر خارجہ کے اعلیٰ حکام کا جواب یہ تھا کہ اب یہ ہیرا برطانوی تاج میں نصب کیا جا چکا ہے لہذا...۔ جب میں بھارت کی راجیہ سبھا (ایوان بالا) کارکن تھا تو میں نے اس مسئلے کو وہاں بھی اٹھانے کی کوشش کی۔

لیکن مجھے سخت دھچکا لگا جب اس وقت کی بی جے پی حکومت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے مجھ سے استدعا کی کہ اس معاملے کو نہ اچھالوں کیونکہ اس طرح برطانیۂ عظمیٰ کے ساتھ بھارت کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ تاہم مجھے اب بھی امید ہے کہ نئی آنے والی حکومت اس غلطی کو درست کرے گی جو کہ میں نے خاموش رہ کر کی تھی۔نئے حکمرانوں کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہو گا کہ وہ بھارت کے تمام قیمتی اثاثے واپس لینے کی کوشش کریں جن کا بھارت نو آبادیاتی دور سے پہلے مالک تھا۔ کتنے لوگوں کو بدنام زمانہ رابرٹ کلائیو کا نام یاد ہو گا جو بنگال کا پہلا گورنر جنرل تھا یا اس کے جانشین وارن ہیسٹنگز کا نام جس نے بھارت کا بے پناہ استحصال کیا اور یہاں سے حاصل کی گئی ناجائز دولت کی برطانیہ میں بھاری سرمایہ کاری کی۔

لارڈ کلائیو نے صاحب ثروت بنگالیوں سے تین لاکھ پائونڈ کی رقم نچوڑی تا کہ وہ برطانیہ کے ہائوس آف لارڈز کی رکنیت خرید سکے۔ علاوہ ازیں اس نے وہاں بے پناہ جائیدادیں بھی خریدیں۔ لندن کا مشہور سمر سیٹ ہائوس کلائیو کی دولت سے ہی تعمیر کیا گیا تھا۔ جب اس کا مواخذہ کیا جانے لگا تو اس نے احساس جرم سے مغلوب ہو کر خود کشی کر لی۔ وہ اپنے جرائم کا بوجھ اپنے ضمیر پر مزید برداشت نہ کر سکا۔ مواخذے کی کارروائی اس کے جانشین وارن ہیسٹنگز کے خلاف بھی کی گئی تھی۔

برطانوی نو آبادیاتی حکمرانوں کے پاس بھارت پر قبضہ کرنے کے لیے سب سے زیادہ موثر ہتھیار مقامی برادریوں میں منافرت کے جذبات کو ہوا دے کر ان کو تقسیم کرنا تھا تا کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کر نے کے بہانے اپنی حکومت کا جواز پیدا کر سکیں اور یہ ظاہر کر سکیں کہ وہ مختلف مذاہب کے لوگوں میں امن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب بھی لوک سبھا کے انتخابات میں بعض سیاسی پارٹیوں نے ہندوئوں اور مسلمانوں میں خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان سیاسی پارٹیوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگرچہ مغرب میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہو چکی ہیں لیکن اس کے باوجود غیر ملکی حکومتوں میں ایک سے زیادہ کی اب بھی یہ کوشش ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے ہمارے ملک میں پھر قدم جما سکیں۔ ہمارے پاس ان سب کے لیے بہت قیمتی خزانے اب بھی موجود ہیں۔ یاد رہے کہ ہمارے ملک کو ایک زمانے میں سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا۔

اپنے ملک میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے اور عام آدمی کو سیاسی عمل پر اعتماد پیدا کرنے کے لیے ہمیں انھی عزائم کو یاد کرنا ہو گا جس کا دعویٰ ہم جدوجہد آزادی کے دوران کرتے رہے ہیں۔ وہ یہ کہ ہماری تمام برادریاں جن کا تعلق مختلف مذاہب یا مختلف ذات پات سے ہے وہ سب قانون کی نظر میں برابر ہیں جیسا کہ ہمارے آئین تحریر کیا گیا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ لوک پال بل (محتسب کا ادارہ) جو کہ پارلیمنٹ میں زیر سماعت ہے اسے دونوں ایوانوں سے بالاتفاق منظور کر لیا جائے گا تا کہ بڑی سے بڑی شخصیات کا بھی احتساب ممکن ہو سکے۔ اور جو انتخابات میں شکست کھا گئے ہیں ان کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہ کی جا سکے اور نہ ہی انھیں ہراساں کیا جائے۔

نئی حکومت کی سب سے بڑی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ خط غربت سے نیچے بھوک، افلاس اور بے بسی کی زندگی بسر کرنے والے تیس کروڑ عوام کو کس طرح ان نامساعد حالات سے نکالا جا سکتا ہے۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ یہ تیس کروڑ عوام جن کی تعداد تمام یورپی ممالک کی مجموعی آبادی کے برابر ہے وہ رات کو بھوکے سوتے ہیں۔ یہ ایسی چیز ہے جس نے مساوات کے تصور کو شکست دے رکھی ہے جس کا کہ آزادی کے موقع پر وعدہ کیا گیا تھا۔ اب یہ نئے حکمرانوں پر ہے کہ وہ کس طرح اصلاح احوال کرتے ہیں۔ ان کے اقدامات سب کو نظر آنے چاہئیں۔ ایک ایسا عمل ہونا چاہیے جس میں کرپشن کو قطعی طور پر برداشت نہ کیا جائے جو کہ حکومت کے ہر محکمے میں نمایاں ہے اور سیاسی جماعتیں بھی اس سے مبرا نہیں ہیں۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں