اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جئے جاتے ہیں

اصل میں وہ اور ملک ہیں اور قومیں ہیں جہاں جمہوریت صاف ستھرا کھیل ہے ...

rmvsyndlcate@gmail.com

جسے راہ اعتدال کہتے ہیں اور جو معمول کی زندگی کی ضامن ہے اب ہمارے بیچ سے ندارد ہے۔ ہماری اجتماعی زندگی تو بہت پہلے سے راہ اعتدال سے ہٹی نظر آ رہی تھی۔ اب ہمارے موسموں نے بھی راہ اعتدال کو سلام کر لیا ہے اور بے اعتدالی کی روش پر اتر آئے آپ۔ قیامت ہے کہ یہ مئی کا مہینہ ہے اور موسم ہم سے تقاضا کر رہا ہے کہ گرم کپڑے پہن کر گھر سے نکلو۔ دن میں دھوپ مگر مری مری سی۔ اور ادھر شام پڑی اور مینہ برسنے لگا۔ فطرت کے ساتھ ہم جو کچھ کر رہے ہیں اس سے اس کے مزاج میں درہمی آنی ہی تھی مگر یہ درہمی جو اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں اسی حد تک رہے تو بھی غنیمت ہے۔

سن ستاون کی قیامت سے پہلے غالبؔ کی نظر آسمان پر رہتی تھی۔ اپنے خطوں میں اس نے ستاروں کی بدلی ہوئی چال کو دیکھ کر تشویش کا اظہار کیا اور دوستوں کو لکھا کہ آثار اچھے نہیں ہیں۔ ہمیں آسمان کی طرف دیکھنے کی فرصت نہیں ہے۔ زمین پر اتنا کچھ ہو رہا ہے اس سے ہی ڈرے ہوئے ہیں۔ آسمان ہمیں اور کیا ڈرائے گا۔ ہمارے ارد گرد کیا کچھ ہو رہا ہے۔ سیاست کے بازی گر اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ موت اپنا کھیل کھیل رہی ہے۔ نظیرؔ اکبر آبادی نے جانے کیا کچھ دیکھ کر یہ کہا تھا کہ ع

قزاق اجل کا لُوٹے ہے دن رات بجا کر نقارہ

نظیرؔ نے کہا تھا۔ ہم بھگت رہے ہیں۔ تشدد کی لہر کب سے اٹھی ہوئی تھی مگر یہ لہر تھمنے ہی میں نہیں آ رہی۔ اونچی ہوتی ہی چلی جا رہی ہے۔ لیجیے اردو کے آوارہ شعروں میں سے ایک شعر یاد آیا۔ جانے کس نے کس عالم میں کہا تھا کہ کہیں لکھا گیا ہو یا نہ لکھا گیا ہو۔ زبان زد خاص و عام اس طرح کہ اجتماعی حافظہ کا حصہ بن گیا؎

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں

سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں

آجکل کا سماں یہی ہے۔ صبح و شام خبریں آتی رہتی ہیں کہ فلاں کے گولی لگ گئی۔ ڈھیر ہو گیا۔ فلاں کے گولی لگی۔ زندگی باقی تھی۔ بچ نکلا۔ ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلائو۔ گولیاں چل رہی ہیں۔ لوگ کھیت ہوتے چلے جا رہے ہیں مگر کوئی کوئی موت اس طرح واقع ہوتی ہے کہ واقعہ کراچی میں ہوا اس کی دھمک لاہور تک محسوس ہوئی۔ ابھی پچھلے دنوں کراچی میں پروین رحمن قزاق اجل کی زد میں آ گئیں۔ لاہور تک اس کی دھمک محسوس ہوئی۔ صاحب دل حیران و پریشان کہ وہ بی بی تو خدمت خلق میں لگی ہوئی تھی۔ کسی کے لینے میں نہ دینے میں۔ کس کا کیا بگاڑا تھا کہ زد میں آ گئی۔ ابھی دو چار دن پہلے ملتان سے خبر آئی کہ راشد رحمن گولی کا نشانہ بن گئے۔ ملتان سے لاہور تک سنسنی پھیل گئی کہ ارے وکیل اپنا فریضہ انجام دے رہا تھا۔ اسی عالم میں دن دہاڑے مارا گیا۔

ہمارے ارد گرد یہ کچھ ہو رہا ہے مگر اہل سیاست اپنے کھیل میں مصروف ہیں۔ اقتدار کی' جنگ زوروں پر ہے۔ تماشائی تماشہ دیکھ رہے ہیں اور چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ فلاں لیڈر نے کیا کہا۔ فلاں پارٹی کے تیر انداز جواب میں کیا تیر چلائیں گے؎


یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین

پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

اقتدار کی جنگ عجب طرح کا ڈرامہ ہے۔ فریقین عوام کے مسائل ہی کا علم لے کر میدان میں کودتے ہیں مگر جب رن پڑتا ہے تو سب مسائل پیچھے جا پڑتے ہیں۔ بس پھر حریف ہدف ہوتا ہے۔ باقی معاملات جو بھی ہیں قومی غیر قومی وہ سب معطل۔ بس ایک دوسرے سے بھڑے ہوئے ہیں۔ ویسے اس وقت ہماری قومی زندگی میں جو جنگ برپا ہے وہ اس قسم کی ہے جسے جنگ مغلوبہ کہتے ہیں۔ کون کس سے بھڑا ہوا ہے کچھ پتہ نہیں چل رہا۔

پھر دور سے دیکھنے والے بھی اپنے سارے غم بھول جاتے ہیں اور تماشائی بن جاتے ہیں۔ سیاست کا تماشہ بھی عجب تماشا ہے۔ حریف بیشک چت ہو جائے مگر ہارتا نہیں ہے۔ کپڑے جھاڑ کر پھر کھڑا ہو جاتا ہے۔ پھر دو دو ہاتھ کرنے پر آمادہ ہے۔ الیکشن کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ اس مرحلہ میں آ کر دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔ شاید پہلے کبھی ایسا ہوتا ہو۔ اب ایسا نہیں ہوتا۔ ہارنے والا چپ ہو کر نہیں بیٹھتا۔ الزام لگاتا ہے کہ بے ایمانی ہوئی ہے۔ ووٹ جعلی پڑے ہیں۔ گنتی میں گھپلا کیا گیا ہے۔ لیجیے پھر معرکہ آرائی شروع ہو جاتی ہے۔

اصل میں وہ اور ملک ہیں اور قومیں ہیں جہاں جمہوریت صاف ستھرا کھیل ہے۔ الیکشن ہوئے۔ معرکہ پڑا۔ آخر میں جو فیصلہ ہوا اسے فریقین نے قبول کر لیا۔ ہارنے والے اب اپوزیشن بننے پر قانع ہیں۔ معرکہ آرائی پانچ سال کے لیے ملتوی۔ جب پھر الیکشن کا مرحلہ آئے گا تب قسمت آزمائی کریں گے۔

مگر ہم ان ملکوں میں ہیں جہاں جمہوریت بے صبری ہے۔ اگلے الیکشن تک کا انتظار کون کرے۔ پھر کیا کیا جائے۔ مڈٹرم الیکشن کا مطالبہ۔ پھر ہو جائے تحریک گرم۔ لیجیے پھر ہنگامہ گرم ہو گیا۔ تب ہی تو علامہ اقبالؔ نے جمہوریت کو اک طرز تماشہ بتایا ہے۔ جہاں اس دنیا میں اور سو قسم کے تماشے ہیں ایک تماشہ جمہوریت کے نام کا بھی سہی۔ ایسے معاشروں اور ملکوں میں چَین نام کی چیز عنقا ہوتی ہے۔ بس مستقل اک تماشہ لگا رہتا ہے اس رنگ سے کہ ع

ہم بچھاتے ہی اٹھاتے رہے بستر اپنا

عالم ناپائیدار میں ایک ناپائیداری برنگ جمہوریت بھی سہی۔ اور ہمارے احوال پر غور کرو ع

اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جئے جاتے ہیں
Load Next Story