اگر مذاق مذاق میں شیر واقعی آ گیا تو
دُنیا کی کسی بھی اسمبلی میں شیخ رشید جیسے کسی رکن نے ایسی’’دہشت ناک‘‘ تقریر کی ہوتی تو میڈیا میں قیامت برپا ہو جاتی۔
میرے اس کالم کے باقاعدہ قاری اب تک اچھی طرح جان چکے ہوں گے کہ میں شیخ رشید احمد کی سیاست کا ہرگز مداح نہیں۔ جب بھی موقع ملے تو انھیں طنز و مزاح کا نشانہ بنانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ اس اعتراف کے بعد مجھ کو اس بات پر بھی زور دینا ہے کہ شیخ صاحب سیاست کے ایک بہت تجربہ کار کھلاڑی ہیں۔ انھیں قومی اسمبلی تک ہر طرح کی مشکلات کے باوجود کسی نہ کسی طرح منتخب ہو کر پہنچنے کے سارے ہنر بھی آتے ہیں۔ 1985ء سے اب تک صرف 2008ء کے انتخابات میں یہ ہنر ان کے کام نہ آسکا۔ 2013ء میں لیکن ایک بار پھر وہ مقدر کے سکندر ثابت ہوئے۔
عمران خان کی جماعت میں باقاعدہ شمولیت کیے بغیر انھوں نے تحریک انصاف کے پرجوش مداحین کی مدد سے قلم دوات کے نشان پر راولپنڈی شہر والی نشست پر کامیابی حاصل کر لی۔ سیاست کے علاوہ شیخ صاحب کو ٹی وی اسکرینوں پر چھا جانے کا ہنر بھی آتا ہے۔ اینکروں کے ساتھ اکیلے بیٹھتے ہیں۔ غریب عوام کے دلوں میں اُبلتے جذبات کو عام زبان اور سلطان راہی کے انداز میں بیان کر دیتے ہیں۔ اینکروں کو ریٹنگ مل جاتی ہے اور شیخ رشید صاحب کے سننے والوں کو یہ اطمینان کہ کوئی تو ہے جو ان کے غصے کی بھرپور ترجمانی سے ہرگز نہیں گھبراتا۔ ارسطو کے سمجھائے Catharsis کو سمجھنے کے لیے شیخ رشید کے پروگرام ایک نصابی مثال کی حیثیت رکھتے ہیں۔
میرے جیسے نام نہاد پڑھے لکھے افراد کو مگر وہ اکثر اپنے چند ہی فقرے بار ہا دہراتے نظر آتے ہیں۔ "There is a Case Behind A Face" وغیرہ وغیرہ۔ ذاتی طور پر میں ٹیلی ویژن جیسے ماس میڈیا پر ''گلی میں بولی جانے والی زبان'' کے استعمال سے بالکل پریشان نہیں ہوتا۔ مگر Sophisticated لوگوں کو یہ طریقِ گفتگو ''غیر مہذب'' محسوس ہوتا ہے۔ باقی دُنیا میں Sophisticated لوگ مگر کتابیں پڑھتے ہیں، اوپرا دیکھنے جاتے ہیں۔ بیتھوون وغیرہ کی سمفنی کو سیاہ سوٹ اور بو ٹائی لگا کر سننے جاتے ہیں۔ اپنے گھروں میں قید ہو کر ریموٹ کے بٹن دباتے ہوئے ''کلچر'' وغیرہ ڈھونڈنے کی کوششیں نہیں کرتے۔ ویسے بھی TV کی اپنی مخصوص Dynamics ہے۔ یہاں Energy چاہیے اور Passion اور خدا کے فضل سے شیخ صاحب ان دونوں صلاحیتوں سے ضرورت سے کہیں زیادہ مالامال ہیں۔
بطور ایک صحافی مجھے تکلیف صرف اس وقت ہوتی ہے جب شیخ صاحب رپورٹروں کی طرح کوئی بڑی خبر Break کرنے کی کوشش میں ''میرے چھابے میں'' ہاتھ مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی میرے شعبے میں دراندازی اس وقت اور زیادہ کھلتی ہے جب ان کی بتائی زیادہ تر ''خبریں'' بالآخر بالکل غلط اور اکثر من گھڑت ثابت ہو جاتی ہیں۔
ٹیلی ویژن مگر ٹیلی ویژن ہے۔ یہاں رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوتا ہے۔ قومی اسمبلی کا ایوان ایک ہرگز جدا فورم ہے۔ یہاں بات کو بولنے سے پہلے کئی بار تولنے کی ضرورت ہے۔ قومی اسمبلی کا چھٹی بار رکن منتخب ہونے کے بعد شیخ صاحب اس امر سے خوب واقف ہیں اور اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں ان کی اس تقریر کو بہت سنجیدگی سے لینے پر مجبور ہوں جو انھوں نے بدھ کو ایوان میں کھڑے ہوکر فرمائی۔
ان کی تقریر ان دنوں قومی اسمبلی میں امن و امان پر جاری بحث کا ایک اہم حصہ تھی۔ وہ جب کھڑے ہوئے تو ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی کرسیٔ صدارت پر براجمان تھے۔ شیخ صاحب نے انھیں براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ جو بات اب وہ کھلے عام کرنا چاہ رہے ہیں اسے کم از کم تین مرتبہ از خود اسپیکر ایاز صادق کے دفتر میں جا کر ان کے اسٹاف کو تفصیلی بتا چکے ہیں۔ شیخ صاحب اگر غلط بیانی سے کام لے رہے ہوتے تو ڈپٹی اسپیکر انھیں ٹوک دیتے۔ عباسی صاحب ایسا نہ کرتے تو ان کے ڈائس کے نیچے بیٹھے سیکریٹریٹ اسٹاف میں سے کوئی فرد ایک چٹ بھیج کر انھیں یاد دلا دیتا کہ شیخ صاحب غلط بیانی کر رہے ہیں۔ چونکہ کسی نے اس حوالے سے کوئی اختلافی قدم نہیں اٹھایا اس لیے میں شیخ صاحب کی بتائی داستان کو سنجیدگی سے لینے پر مجبور ہوں۔
شیخ صاحب کا دعویٰ ہے کہ مارگلہ کی پہاڑیوں پر ''کچھ لوگوں نے'' باقاعدہ مشقیں کی ہیں۔ ہدف ان مشقوں کا یہ ہے کہ کسی دن وزیر اعظم ہائوس پر قبضہ کیا جا سکے۔ ایسا ممکن دکھائی نہ دیا تو ''یہ لوگ'' پارلیمان ہائوس میں گھس کر اس کے تمام اراکین کو ایک ''ٹوکری میں ڈال'' یعنی یرغمال بنا لیں گے۔
شیخ صاحب کی اصل پریشانی یہ تھی کہ مشقیں مکمل کرنے کے بعد اپنے ہدف پر حملے کو تیار ''کچھ لوگ'' جب پارلیمان میں گھسنا چاہیں گے تو باہر کھڑی پولیس انھیں روک نہ پائے گی۔ اس پولیس میں جس کی اکثریت سیاسی افراد کی سفارشوں کے ذریعے بھرتی ہوئے افراد پر مشتمل ہے اس بات کی سکت ہی نہیں کہ وہ باقاعدہ تربیت یافتہ افراد کی مزاحمت کر سکے۔ ہاں صرف ایک ادارہ ہے جو اس منتخب ایوان اور اس کے ذریعے بنی حکومت کو بچا سکتا ہے۔ اس ادارے سے مگر نواز شریف کی تیسری حکومت ''پنگا'' لے چکی ہے۔ قومی اسمبلی کے اراکین کو اب ہوش کے ناخن لے کر اپنی حفاظت کا سنجیدگی سے بندوبست کرنا چاہیے۔
میں آپ کو یقین سے کہتا ہوں کہ دُنیا کی کسی بھی اسمبلی میں شیخ رشید جیسے کسی تجربہ کار رکن نے ایسی ''دہشت ناک'' تقریر کی ہوتی تو میڈیا میں قیامت برپا ہو جاتی۔ اس ملک کے وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور امن و سلامتی سے متعلقہ اعلیٰ حکام کو بار ہا وضاحتیں دینا پڑتیں کہ خطرے کی کوئی بات نہیں۔ قومی اسمبلی محفوظ ہے اور وزیر اعظم ہائوس بھی۔ شیخ صاحب نے مگر جب تقریر ختم کی تو صرف ان کی چند چسکے دار باتوں پر مشتمل ٹی وی اسکرینوں پر چند ٹِکر چلے۔
خواجہ سعد رفیق نے بھی شیخ صاحب کو محض طنز کا نشانہ بنایا اور بعد ازاں حکومت اور اپوزیشن یہ طے کرنے میں مصروف ہو گئے کہ لاہور کی طرز پر راولپنڈی اسلام آباد میں بنائی جانے والی بس سروس کے جنگلوں کے لیے لوہا پاکستان اسٹیل مل سے خریدا گیا ہے یا اس کا فائدہ اس فائونڈری کو ہو گا جو حکمران خاندان کی ملکیت ہے۔ یا تو ہمارے نمایندے واقعی بے حس ہو چکے ہیں یا وہ شیخ رشید صاحب کی ہر بات کو بس مذاق ہی تصور کرتے ہیں۔ میری پریشانی مگر یہ ہے کہ اگر مذاق مذاق میں ایک دن شیر واقعی آ گیا تو ہمارا کیا بنے گا۔