انتخابی دھاندلیاں کب تک

انتخابی دھاندلیوں کی ایک مثال حلقہ پی پی 256 مظفر گڑھ کی ہے جہاں 11 مئی کی رات تک آزاد امیدوار چوہدری عامر کرامت ...

وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ جہاں جیت جائیں وہاں انتخابات منصفانہ قرار دیے جاتے ہیں اور جہاں ہار جائیں وہاں انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگا کر احتجاج شروع کیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم نے یہ بات تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے حالیہ بیانات کے جواب میں کہیں کہ جو عام انتخابات گزرنے کے ایک سال بعد بھی عام انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات عاید کرنے میں مصروف ہیں اور چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔

سپریم کورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ سیاستدان دھاندلی والے حلقوں میں الیکشن ٹریبونلز کو فیصلے نہیں کرنے دے رہے اور فیصلوں کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کرکے وقت ضایع کر رہے ہیں۔ کہیں دوبارہ گنتی کے فیصلے کو چیلنج کردیا جاتا ہے تو کہیں انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کا عمل رکوا دیا جاتا ہے۔

گزشتہ سال ہونے والے عام انتخابات پر اعتراضات ایک سال بعد بھی جاری ہیں اور اس سلسلے میں عمران خان پیش پیش ہیں۔ ملک بھر میں عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کے معاملات الیکشن ٹریبونلز میں زیر سماعت ہیں اور جن حلقوں میں دوبارہ گنتی کا عمل مکمل ہوا ہے وہاں ووٹوں کے تھیلے ہی مکمل نہیں پائے گئے اور بعض پولنگ اسٹیشنوں کے ووٹوں کے تھیلے ہی غائب کردیے گئے ہیں جس سے کامیاب امیدوار کی کامیابی ویسے ہی مشکوک ہوجاتی ہے مگر بعض ریٹرننگ افسران نے تھیلے غائب ہونے کو اہمیت نہیں دی اور تھیلے غائب ہونے کی رپورٹ الیکشن کمیشن کو دے کر کامیاب امیدوار کی جعلی کامیابی کا نوٹیفکیشن منسوخ کرایا۔

حال ہی میں حلقہ NA-202 شکار پور کے 21 پولنگ اسٹیشنوں پر سپریم کورٹ کے حکم پر دوبارہ پولنگ ہوئی اور پولنگ کے دوران پیپلز پارٹی کی طرف سے ابراہیم جتوئی پر دھاندلی اور پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے کے الزام عاید کیے جاتے رہے اور ری پولنگ کے ٹی وی پر آنے والے نتائج میں ابراہیم جتوئی کو دوبارہ کامیاب ہوتے ہوئے بتایا گیا مگر رات کو پی پی کے آفتاب میرانی جو بری طرح ہار رہے تھے کامیاب قرار دے دیے گئے۔

یہی کچھ اس حلقے میں 2008 کے الیکشن میں بھی ہوا تھا جہاں پہلے ابراہیم جتوئی کامیاب ہوئے اور ری پولنگ میں ہار گئے کیونکہ ری پولنگ دونوں بار پی پی کی سندھ حکومت میں ہوئی اور الزام لگایا گیا کہ تمام سرکاری وسائل آفتاب میرانی کے لیے استعمال ہوئے جس کے باوجود پی پی دھاندلی کے الزامات لگا رہی تھی اور اب ہارنے والے ڈاکٹر ابراہیم جتوئی سندھ حکومت پر دھاندلی کے الزامات لگا رہے ہیں۔

انتخابی دھاندلیوں کی ایک مثال حلقہ پی پی 256 مظفر گڑھ کی ہے جہاں 11 مئی کی رات تک آزاد امیدوار چوہدری عامر کرامت جیت رہے تھے مگر صبح (ن)لیگ کے امیدوار کی کامیابی ظاہر کی گئی جس کے بعد چوہدری عامر کی درخواست پر پورے حلقے میں دوبارہ گنتی کی درخواست پر الیکشن ٹریبونل بھاولپور نے 14 پولنگ اسٹیشنوں کے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے ایک کمیشن ریٹائرڈ سیشن جج کی سربراہی میں بنایا تو دو پولنگ اسٹیشنوں کے تھیلے ہی غائب تھے اور سات تھیلوں کی سرکاری سیل ٹوٹی ہوئی تھی اور دوبارہ گنتی میں چوہدری عامر کرامت کے 165 ووٹ بھی زیادہ نکلے مگر کمیشن کے سربراہ نے رپورٹ الیکشن ٹریبونل کو نہیں بھیجی اور چوہدری عامر کی اپیل مسترد کردی گئی جس کے خلاف وہ اب سپریم کورٹ جا رہے ہیں۔


14 پولنگ اسٹیشنوں کی دوبارہ گنتی میں ووٹوں کے دو تھیلے غائب اور سات تھیلوں کی سیل ٹوٹی ہوئی ملنے کے بعد سرکاری امیدواروں کی کامیابی سوالیہ نشان بن جاتی ہے مگر الیکشن ٹریبونل کوئی کارروائی کرنے سے قاصر رہا جو دھاندلی کا واضح ثبوت ہے۔

جمہوریت کے لیے عام انتخابات کرائے جاتے ہیں مگر ابتدا ہی غلط حلقہ بندیوں سے ہوتی ہے۔ مخالفین کے ووٹ انتخابی فہرستوں سے خارج اور اپنے لوگوں کے جعلی ووٹ درج کرائے جاتے ہیں دوسرے علاقوں میں رہنے والوں کے ووٹ متوقع امیدوار اپنے حلقوں میں درج کروا کر دھاندلی کی راہ اختیار کرتا ہے۔ مرضی کے علاقوں میں پولنگ اسٹیشن بنوائے اور مرضی کا انتخابی عملہ وہاں تعینات کرایا جاتا ہے اور اس طرح پولنگ سے قبل ہی آدھی کامیابی حاصل کرلی جاتی ہے۔ پولنگ میں جعلی ووٹ ڈلوائے جاتے ہیں۔ انتخابی عملے کی ملی بھگت سے مخالفین کو ووٹ ڈالنے کا موقع نہیں دیا جاتا یا ان کے ووٹ بعد میں مسترد کرا دیے جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں مسترد ووٹوں کا نیا ریکارڈ قائم ہوا جس کی وجہ سے جیتنے والے ہار گئے اور ہارنے والے جیت گئے۔ پولنگ اسٹیشنوں پر قبضوں، مخالف پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکلوا دینے، فائرنگ و ہنگامے کرواکر اپنے حامیوں کی جعلی ووٹنگ ڈلوانا، ووٹ خریدنا اب کوئی نئی بات نہیں بلکہ دھاندلیوں کے جدید طریقے بھی اختیار ہونے لگے ہیں اور پریزائیڈنگ افسروں اور ریٹرننگ افسروں کے ذریعے الیکشن کے نتائج تبدیل کرائے جاتے ہیں اور الیکشن ہی چوری کرادیا جاتا ہے اور جس کا جہاں بس چلتا ہے وہاں دھاندلی کراکر کامیابی حاصل کرلی جاتی ہے۔

پریزائیڈنگ افسروں سے مرضی کے نتائج حاصل کرکے کامیابی حاصل کرلی جاتی ہے اور راتوں رات وہ کچھ ہوجاتا ہے جس کا حقیقی جمہوری ملک میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ 2013 کے الیکشن میں غیر متنازعہ شخصیت چیف الیکشن کمشنر تھی مگر دھاندلیوں کی جس قدر زائد شکایات گزشتہ سال ہوئیں اتنی ماضی میں کبھی نہیں ہوئیں اور تقریباً ہر پارٹی نے دھاندلیوں کے الزامات لگائے اور یہ سلسلہ ایک سال بعد بھی جاری ہے۔

وزیر اعظم کا یہ کہنا درست ہے کہ جہاں پارٹیاں خود جیتیں وہاں دھاندلی کے الزام نہیں لگتے جہاں ہاریں وہاں دھاندلی کی بات کی جاتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جمہوریت کے دعویدار پاکستان میں اپنی شکست کو بہت کم تسلیم کرتے ہیں اور کامیاب ہونے والا اپنی کامیابی حقیقی سمجھتا ہے۔ انتخابی دھاندلیاں روکنے کے لیے سیاسی جماعتیں خود مخلص نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن کو بااختیار نہیں بنایا جاتا۔ عدلیہ کے ریٹرننگ افسر بھی اب قابل اعتماد نہیں رہے۔

ہر پارٹی میں سرکاری ملازمین کی بھرمار ہے جو انتخابی عمل میں جانبدار ہوکر اپنے اپنے امیدواروں کے لیے دھاندلی کرتے اور کراتے ہیں۔ انتخابی ضابطہ اخلاق پر عمل نہیں ہوتا۔ نگراں حکومتیں خود جانبدار ہوتی ہیں تو منصفانہ انتخابات کیسے ممکن ہوسکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ 1970 کے علاوہ ہر عام انتخابات پر انگلیاں اٹھتی آ رہی ہیں اور مایوس عوام کا اعتبار الیکشن سے اٹھتا جا رہا ہے گزشتہ سال ٹرن آؤٹ جتنا زیادہ تھا شکایتیں بھی اتنی ہی زیادہ ہوئیں تو سب پارٹیاں مل کر انتخابی دھاندلیاں روکنے کے لیے متحد ہوکر کوئی لائحہ عمل کیوں اختیار نہیں کرتیں؟
Load Next Story