زندوں میں کیا شمار کروں۔۔۔۔۔
خواب جب حقیقت بن جاتے ہیں تو یہ سائنسی ایجادات اورکارنامے قرار پاتے ہیں ...
پاکستان اسلام کا قلعہ ہے، اسلام کا گہوارہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ آج کل پاکستان میں یہ تاثر اس برق رفتاری سے چھا رہا ہے کہ کیا ماضی میں ''نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاک کاشغر''پھیلا ہوگا۔ ہر شخص کی شلوار یا پتلون ٹخنوں سے اوپر اورداڑھی بڑھ گئی،خواتین کی اکثریت جب اسکارف اور عبایا میں ملبوس نظر آنے لگی تو ہم خوش ہوگئے کہ اللہ کا بڑا احسان اور شکر ہے کہ ہمارے علمائے دین اور مذہبی جماعتوں کا دیرینہ مطالبہ الحمد للہ پورا ہوگیا اور مملکت خداداد میں اسلامی نظام مکمل طور پر رائج ہوگیا ہے۔ مگر خدا سمجھے ذرایع ابلاغ کو ہمیشہ حقیقت کے دشمن بنے رہتے ہیں۔
ہر امید پر پانی پھیرنا اور ہر خوش فہمی کو غلط فہمی قرار دینا گویا ان کا فرض اولین ہے۔ اخبارات پر نظر پڑی تو مساجد،گرجا، امام بارگاہوں میں بم دھماکے، نماز جنازہ پر خودکش حملوں اور خواتین ہی نہیں بلکہ معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی، نوجوانوں اور ننھے بچوں کا اغوا کے علاوہ بھتہ خوری اور قتل عام کی خبروں سے بھرے ہوئے تھے۔ ہم حیران کہ اسلامی نظام حکومت میں تو ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اسلام تو خواتین کی عزت اور حفاظت کی ذمے داری مردوں پر عائد کرتا ہے، قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ'' ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے'' پھر آخر یہ سب کیا ہے؟ شاید یہ خبریں کسی اور ملک بلکہ کافر ملک کی ہوں گی۔ چنانچہ دوبارہ اخبار اٹھایا بغور پڑھا۔
ارے یہ تو لاہور کی خبر ہے، اور یہ شیخوپورہ کی، یہ کراچی کی، کچھ پنڈی و اسلام آباد اور خیبرپختونخوا کی مگر یہ سب علاقے تو ہمارے اپنے پاکستان کے ہیں۔ پھر ہمیں یاد آیا کہ ہماری کلاس میں ایک مذہبی گھرانے کے صاحبزادے کو خلفائے راشدین کے نام بھی ترتیب سے یاد نہ تھے، اس کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ پہلا غزوہ بدر تھا یا احد۔ ارے ہاں یاد آیا کہ ایک دن ٹی وی پر ایک ٹاک شو میں ایک مولوی صاحب بڑے جوش و خروش سے نظام اسلام کے نفاذ پر گفتگو فرماتے ہوئے یہود و ہنود کو للکار رہے تھے انھوں نے جوش خطابت میں فرمایاکہ ہم غزوہ بھارت لڑنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ ہم بری طرح چونک گئے کہ غزوہ اور اب؟ عالم صاحب کے لیے تو ہم سمجھ گئے کہ جوش خطابت میں زبان لڑکھڑا گئی ہوگی۔
مگر اینکر کو کیا ہوا کہ حضرت سے پوچھا تک نہیں کہ آپ بھلا غزوہ کیسے لڑ سکتے ہیں؟ مگر پھر یہ سوچ کر کہ اینکر بے چارا تو امریکا، برطانیہ یا جرمنی کی کسی یونیورسٹی سے کوئی اعلیٰ سند لے کر آیا ہوگا، تمام عمر انگریزی ذریعہ تعلیم سے استفادہ کے باعث وہ بھلا ''غزوہ'' کے معنی و مطلب سے کیا واقف ہوگا؟ پھر ہم نے سوچا کہ ہم کون سے ایسے عالم فاضل ہیں ہوسکتا ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ ہم خود ''غزوہ'' کا مطلب غلط جانتے ہوں۔ چنانچہ اردو ڈکشنری نکالی اور ''غزوہ'' کے معنی تلاش کیے تو ہمارا شک دور ہوگیا الحمد للہ ہمیں واقعی درست معنی معلوم تھے یعنی وہ جہاد (جنگ) جس میں رسول مقبولؐ بذات خود شریک ہوئے۔ جب اس طرف سے اطمینان ہوگیا تو ہماری پریشانی دوچند ہوگئی کہ یہ عالم صاحب غزوہ کیسے اور کیونکر لڑیں گے۔ بات آئی گئی ہوگئی کہ عالم کی بات علما جانیں ہم جاہل کیا جانیں اگر کچھ غلط ہوتا تو کوئی دوسرا عالم ضرور اس پر کوئی حرف اٹھاتا۔
گزشتہ ماہ پھر اخبار میں ایک تین کالمی خبر نظر سے گزری کسی مذہبی و سیاسی جماعت کی اعلیٰ شخصیت کا بیان تھا۔ حافظ صاحب نے ارشاد فرمایا تھا کہ ''غزوہ'' بھارت حیدر آباد دکن اور کشمیر میں لڑا جائے گا اور ہم اس کو رفتہ رفتہ پورے بھارت میں پھیلائیں گے۔ ظاہر ہے کہ ''غزوہ'' کافروں کے ساتھ ہی لڑا جاسکتا ہے اور بھارت سے تو ہمارا ازلی بیر چل رہا ہے پھر وہ لاکھ خود کو سیکولر کہیں مگر ہے کافر (ہندو) ملک اب اگر اسلام کے محافظین ان سے جہاد نہ کریں گے تو پھر وہ علما، محافظ دین رسولؐ یا حافظ قرآن پاک کیسے ہوسکتے ہیں؟ ہماری علمی استطاعت ہے ہی کیا کہ ہم منہ اٹھا کر کہہ دیں کہ آپ جہاد تو قیامت تک لڑسکتے ہیں مگر ''غزوہ''۔۔۔۔۔اتنے بڑے بڑے علما کہہ رہے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ لہٰذا ہمیں خاموش ہوکر ''غزوہ بھارت'' کی کامیابی کے لیے دعا کرنی اور خوشخبری کا انتظار کرنا چاہیے۔
اکثر کالموں اور ملکی دانشوروں کے بیانات میں پڑھتے اور سنتے ہیں کہ ''یہ تماشا دکھائے گا کیا سین'' تو سمجھ نہیں آتا کہ آخر جلدی کیا ہے؟ جب تماشا یا ڈرامہ دیکھنے بیٹھے ہیں تو ذرا سا صبر بھی کریں اب ڈراما نگار نے جو لکھا ہوگا اور ہدایتکار نے اس کو جس طرح جس حساب سے پیش کرنا ہوگا اسی طرح سین یعنی منظر ایک کے بعد دیگرے آئیں گے۔ آخر لکھنے والے نے بھی محنت کی ہے اور یقیناً اس کو اتنی عقل ہے کہ وہ جو لکھے اس کے ناظرین کے حسب ذوق، حسب لیاقت و صلاحیت ہو اور وہ ان کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھ کر لکھے بھلا، کوئی لکھنے والا کب یہ چاہے گا کہ اس کا شاہکار لوگوں کے سروں پر سے گزر جائے یعنی ابلاغ نام کی کوئی چیز اس تماشے میں نہ ہو۔
یوں تو وطن عزیز میں چند پڑھے لکھے باشعور معاملے کی تہہ تک بڑی سرائیت سے پہنچنے والے بھی موجود ہیں مگر لکھنے والا محض ان چند افراد کے لیے تو اتنی محنت نہیں کر رہا وہ تو اکثریت کے لیے ہی اپنا تماشا پیش کرنا چاہتا ہے لہٰذا سب حالات کو مد نظر رکھ کر اور ہدایتکار نے بھی تمام سین (مناظر) حسب ذوق ناظرین ہی ترتیب دیے ہیں مانا کہ اکثریت زیادہ پڑھی لکھی نہیں مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ باشعور بھی نہیں اللہ کا بڑا فضل و کرم ہے کہ 65,66 سال کی مسلسل پٹائی نے ان کو بڑا باشعور بنادیا ہے لہٰذا ہم ایسے باشعوروں کی خدمت میں عرض کریں گے کہ عجلت اچھی چیز نہیں صبر سے ہر سین کو دیکھیں اور اگلے سین کا تجسس کے ساتھ انتظار کریں۔ کیونکہ یہ پورا تماشا بڑا پرتجسس ہے اور یہی تجسس کسی تماشے (ڈرامے) کی کامیابی ہوتا ہے۔
اب یہ دوسری بات ہے کہ دانشوروں کی ساری دانشوری ایسے ہی موقعوں پر کھل کر سامنے آتی ہے جب وہ پچھلے منظر کو بھول کر اگلے پر اپنی دانشورانہ رائے کا اظہار کرنے لگتے ہیں تو صورتحال بقول پیرزادہ قاسم کچھ یوں ہوجاتی ہے :
عجب تماشہ ہے دانشوری کے پیکر میں
کسی کا ذہن کسی کی زباں لیے پھریے
خواب سوتے میں دیکھے جاتے ہیں، مگر کھلی آنکھوں خواب دیکھنے پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی۔ جب چاہیں اور جیسے چاہیں خواب دیکھیے بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ انسان کی خواہشات اس کے خواب ہی دلیل زیست ہیں بلکہ پیرزادہ قاسم نے تو خواب دیکھنا زندگی کی علامت قرار دیا ہے فرماتے ہیں:
میں ایسے شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں
جو سوچتا بھی نہیں خواب دیکھتا بھی نہیں
خواب جب حقیقت بن جاتے ہیں تو یہ سائنسی ایجادات اورکارنامے قرار پاتے ہیں۔ مثلاً ہماری قدیم داستانوں کی اڑن طشتری ہوائی جہاز ہی نہیں بلکہ دوسرے سیاروں کی مخلوق کو زمین پر لانے کے بجائے زمینی مخلوق حضرت انسان کو دوسرے سیاروں پر پہنچانے کے لیے راکٹ اور خلائی گاڑی کی حقیقت میں ڈھل گئی ہے۔ بات ہو رہی تھی خواب دیکھنے کی ایک خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا جو ان کی وفات کے تقریباً نو سال بعد شرمندہ تعبیر ہوا مملکت خداداد پاکستان کی صورت میں۔ مگر ہر خواب ہمیشہ سچا نہیں ہوتا بلکہ کچھ خوابوں کی تعبیر الٹی بھی ہوسکتی ہے۔ جیسے ہمارے کپتان صاحب نے جو خواب کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا اسی مملکت پاکستان کے وزیر اعظم بننے کا اور نیا پاکستان تعمیر کرنے کا تو یہ ضروری نہیں کہ ہر خواب شرمندہ تعبیر بھی ہوجائے۔
''اے بسا آرزو کہ خاک شدی'' اس خواب کی تعبیر اگر کسی سیاسی سیانے سے پوچھ لیتے تو سال بھر ایک ہی نقطے پر اٹک جانے اور ایک ہی غم میں گھلنے سے تو کم ازکم بچ جاتے مگر کیا کریں کہ شاید چاپلوس اور مکھن باز سیانے نے اس خواب کو جلد ہی حقیقت بن جانے کی خوشخبری سناکر خان صاحب کو مزید خوابوں میں مبتلا کردیا اور خود جانے کہاں جا چھپا کہ اب خان صاحب اپنا سارا غصہ اس پر اتار بھی نہیں سکتے بلکہ عوام، میڈیا، الیکشن کمیشن اور جانے کس کس پر غصہ اتر رہا ہے۔ بہرحال کچھ بھی ہو خان صاحب اس خواب کی متوقع تعبیر سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں کسی بھی قیمت پر۔ وہ اگر کسی بھی صورت، کسی بھی طرح وزیر اعظم بن جائیں تو سب مسائل خودبخود حل ہوجائیں گے بلکہ کوئی مسئلہ رہے گا ہی نہیں اور پاکستانی عوام چین کی بانسری بجائیں گے۔ امن کے گیت گائیں گے۔
ہر امید پر پانی پھیرنا اور ہر خوش فہمی کو غلط فہمی قرار دینا گویا ان کا فرض اولین ہے۔ اخبارات پر نظر پڑی تو مساجد،گرجا، امام بارگاہوں میں بم دھماکے، نماز جنازہ پر خودکش حملوں اور خواتین ہی نہیں بلکہ معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی، نوجوانوں اور ننھے بچوں کا اغوا کے علاوہ بھتہ خوری اور قتل عام کی خبروں سے بھرے ہوئے تھے۔ ہم حیران کہ اسلامی نظام حکومت میں تو ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اسلام تو خواتین کی عزت اور حفاظت کی ذمے داری مردوں پر عائد کرتا ہے، قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ'' ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے'' پھر آخر یہ سب کیا ہے؟ شاید یہ خبریں کسی اور ملک بلکہ کافر ملک کی ہوں گی۔ چنانچہ دوبارہ اخبار اٹھایا بغور پڑھا۔
ارے یہ تو لاہور کی خبر ہے، اور یہ شیخوپورہ کی، یہ کراچی کی، کچھ پنڈی و اسلام آباد اور خیبرپختونخوا کی مگر یہ سب علاقے تو ہمارے اپنے پاکستان کے ہیں۔ پھر ہمیں یاد آیا کہ ہماری کلاس میں ایک مذہبی گھرانے کے صاحبزادے کو خلفائے راشدین کے نام بھی ترتیب سے یاد نہ تھے، اس کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ پہلا غزوہ بدر تھا یا احد۔ ارے ہاں یاد آیا کہ ایک دن ٹی وی پر ایک ٹاک شو میں ایک مولوی صاحب بڑے جوش و خروش سے نظام اسلام کے نفاذ پر گفتگو فرماتے ہوئے یہود و ہنود کو للکار رہے تھے انھوں نے جوش خطابت میں فرمایاکہ ہم غزوہ بھارت لڑنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ ہم بری طرح چونک گئے کہ غزوہ اور اب؟ عالم صاحب کے لیے تو ہم سمجھ گئے کہ جوش خطابت میں زبان لڑکھڑا گئی ہوگی۔
مگر اینکر کو کیا ہوا کہ حضرت سے پوچھا تک نہیں کہ آپ بھلا غزوہ کیسے لڑ سکتے ہیں؟ مگر پھر یہ سوچ کر کہ اینکر بے چارا تو امریکا، برطانیہ یا جرمنی کی کسی یونیورسٹی سے کوئی اعلیٰ سند لے کر آیا ہوگا، تمام عمر انگریزی ذریعہ تعلیم سے استفادہ کے باعث وہ بھلا ''غزوہ'' کے معنی و مطلب سے کیا واقف ہوگا؟ پھر ہم نے سوچا کہ ہم کون سے ایسے عالم فاضل ہیں ہوسکتا ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ ہم خود ''غزوہ'' کا مطلب غلط جانتے ہوں۔ چنانچہ اردو ڈکشنری نکالی اور ''غزوہ'' کے معنی تلاش کیے تو ہمارا شک دور ہوگیا الحمد للہ ہمیں واقعی درست معنی معلوم تھے یعنی وہ جہاد (جنگ) جس میں رسول مقبولؐ بذات خود شریک ہوئے۔ جب اس طرف سے اطمینان ہوگیا تو ہماری پریشانی دوچند ہوگئی کہ یہ عالم صاحب غزوہ کیسے اور کیونکر لڑیں گے۔ بات آئی گئی ہوگئی کہ عالم کی بات علما جانیں ہم جاہل کیا جانیں اگر کچھ غلط ہوتا تو کوئی دوسرا عالم ضرور اس پر کوئی حرف اٹھاتا۔
گزشتہ ماہ پھر اخبار میں ایک تین کالمی خبر نظر سے گزری کسی مذہبی و سیاسی جماعت کی اعلیٰ شخصیت کا بیان تھا۔ حافظ صاحب نے ارشاد فرمایا تھا کہ ''غزوہ'' بھارت حیدر آباد دکن اور کشمیر میں لڑا جائے گا اور ہم اس کو رفتہ رفتہ پورے بھارت میں پھیلائیں گے۔ ظاہر ہے کہ ''غزوہ'' کافروں کے ساتھ ہی لڑا جاسکتا ہے اور بھارت سے تو ہمارا ازلی بیر چل رہا ہے پھر وہ لاکھ خود کو سیکولر کہیں مگر ہے کافر (ہندو) ملک اب اگر اسلام کے محافظین ان سے جہاد نہ کریں گے تو پھر وہ علما، محافظ دین رسولؐ یا حافظ قرآن پاک کیسے ہوسکتے ہیں؟ ہماری علمی استطاعت ہے ہی کیا کہ ہم منہ اٹھا کر کہہ دیں کہ آپ جہاد تو قیامت تک لڑسکتے ہیں مگر ''غزوہ''۔۔۔۔۔اتنے بڑے بڑے علما کہہ رہے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ لہٰذا ہمیں خاموش ہوکر ''غزوہ بھارت'' کی کامیابی کے لیے دعا کرنی اور خوشخبری کا انتظار کرنا چاہیے۔
اکثر کالموں اور ملکی دانشوروں کے بیانات میں پڑھتے اور سنتے ہیں کہ ''یہ تماشا دکھائے گا کیا سین'' تو سمجھ نہیں آتا کہ آخر جلدی کیا ہے؟ جب تماشا یا ڈرامہ دیکھنے بیٹھے ہیں تو ذرا سا صبر بھی کریں اب ڈراما نگار نے جو لکھا ہوگا اور ہدایتکار نے اس کو جس طرح جس حساب سے پیش کرنا ہوگا اسی طرح سین یعنی منظر ایک کے بعد دیگرے آئیں گے۔ آخر لکھنے والے نے بھی محنت کی ہے اور یقیناً اس کو اتنی عقل ہے کہ وہ جو لکھے اس کے ناظرین کے حسب ذوق، حسب لیاقت و صلاحیت ہو اور وہ ان کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھ کر لکھے بھلا، کوئی لکھنے والا کب یہ چاہے گا کہ اس کا شاہکار لوگوں کے سروں پر سے گزر جائے یعنی ابلاغ نام کی کوئی چیز اس تماشے میں نہ ہو۔
یوں تو وطن عزیز میں چند پڑھے لکھے باشعور معاملے کی تہہ تک بڑی سرائیت سے پہنچنے والے بھی موجود ہیں مگر لکھنے والا محض ان چند افراد کے لیے تو اتنی محنت نہیں کر رہا وہ تو اکثریت کے لیے ہی اپنا تماشا پیش کرنا چاہتا ہے لہٰذا سب حالات کو مد نظر رکھ کر اور ہدایتکار نے بھی تمام سین (مناظر) حسب ذوق ناظرین ہی ترتیب دیے ہیں مانا کہ اکثریت زیادہ پڑھی لکھی نہیں مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ باشعور بھی نہیں اللہ کا بڑا فضل و کرم ہے کہ 65,66 سال کی مسلسل پٹائی نے ان کو بڑا باشعور بنادیا ہے لہٰذا ہم ایسے باشعوروں کی خدمت میں عرض کریں گے کہ عجلت اچھی چیز نہیں صبر سے ہر سین کو دیکھیں اور اگلے سین کا تجسس کے ساتھ انتظار کریں۔ کیونکہ یہ پورا تماشا بڑا پرتجسس ہے اور یہی تجسس کسی تماشے (ڈرامے) کی کامیابی ہوتا ہے۔
اب یہ دوسری بات ہے کہ دانشوروں کی ساری دانشوری ایسے ہی موقعوں پر کھل کر سامنے آتی ہے جب وہ پچھلے منظر کو بھول کر اگلے پر اپنی دانشورانہ رائے کا اظہار کرنے لگتے ہیں تو صورتحال بقول پیرزادہ قاسم کچھ یوں ہوجاتی ہے :
عجب تماشہ ہے دانشوری کے پیکر میں
کسی کا ذہن کسی کی زباں لیے پھریے
خواب سوتے میں دیکھے جاتے ہیں، مگر کھلی آنکھوں خواب دیکھنے پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی۔ جب چاہیں اور جیسے چاہیں خواب دیکھیے بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ انسان کی خواہشات اس کے خواب ہی دلیل زیست ہیں بلکہ پیرزادہ قاسم نے تو خواب دیکھنا زندگی کی علامت قرار دیا ہے فرماتے ہیں:
میں ایسے شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں
جو سوچتا بھی نہیں خواب دیکھتا بھی نہیں
خواب جب حقیقت بن جاتے ہیں تو یہ سائنسی ایجادات اورکارنامے قرار پاتے ہیں۔ مثلاً ہماری قدیم داستانوں کی اڑن طشتری ہوائی جہاز ہی نہیں بلکہ دوسرے سیاروں کی مخلوق کو زمین پر لانے کے بجائے زمینی مخلوق حضرت انسان کو دوسرے سیاروں پر پہنچانے کے لیے راکٹ اور خلائی گاڑی کی حقیقت میں ڈھل گئی ہے۔ بات ہو رہی تھی خواب دیکھنے کی ایک خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا جو ان کی وفات کے تقریباً نو سال بعد شرمندہ تعبیر ہوا مملکت خداداد پاکستان کی صورت میں۔ مگر ہر خواب ہمیشہ سچا نہیں ہوتا بلکہ کچھ خوابوں کی تعبیر الٹی بھی ہوسکتی ہے۔ جیسے ہمارے کپتان صاحب نے جو خواب کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا اسی مملکت پاکستان کے وزیر اعظم بننے کا اور نیا پاکستان تعمیر کرنے کا تو یہ ضروری نہیں کہ ہر خواب شرمندہ تعبیر بھی ہوجائے۔
''اے بسا آرزو کہ خاک شدی'' اس خواب کی تعبیر اگر کسی سیاسی سیانے سے پوچھ لیتے تو سال بھر ایک ہی نقطے پر اٹک جانے اور ایک ہی غم میں گھلنے سے تو کم ازکم بچ جاتے مگر کیا کریں کہ شاید چاپلوس اور مکھن باز سیانے نے اس خواب کو جلد ہی حقیقت بن جانے کی خوشخبری سناکر خان صاحب کو مزید خوابوں میں مبتلا کردیا اور خود جانے کہاں جا چھپا کہ اب خان صاحب اپنا سارا غصہ اس پر اتار بھی نہیں سکتے بلکہ عوام، میڈیا، الیکشن کمیشن اور جانے کس کس پر غصہ اتر رہا ہے۔ بہرحال کچھ بھی ہو خان صاحب اس خواب کی متوقع تعبیر سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں کسی بھی قیمت پر۔ وہ اگر کسی بھی صورت، کسی بھی طرح وزیر اعظم بن جائیں تو سب مسائل خودبخود حل ہوجائیں گے بلکہ کوئی مسئلہ رہے گا ہی نہیں اور پاکستانی عوام چین کی بانسری بجائیں گے۔ امن کے گیت گائیں گے۔