حکومت نئے ٹیکس دہندگان تلاش کرے سروے تاجر نمائندوں کی مدد سے کرائے

بجلی بحران اور دہشت گردی پر قابو پانا ترقی کے لئے ضروری ہے، ایکسپریس اسلام آباد میں پری بجٹ فورم میں تاجر نمائندوں۔۔۔


Irshad Ansari May 16, 2014
چیمبرز آف کامرس میں حقیقی نمائندے لانے کے لئے ممبر شپ گوشوارے جمع کرانے اور انکم ٹیکس ادا کرنے سے مشروط کی جائے۔ فوٹو: وسیم نذیر

تاجروں کا کہنا ہے کہ حکومت پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر مزید بوجھ ڈالنے کی بجائے نئے ٹیکس دہندگان تلاش کرے اور اس کیلئے آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے ملک بھر میں قائم تاجر تنظیموں اور مارکیٹوں کی ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے نمائندوں کے ساتھ مل کر ٹیکس سروے شروع کیا جائے اور ملک بھر میں چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز میں حقیقی تاجر نمائندوں کو سامنے لانے کیلئے قانون میں ترمیم کی جائے۔

ترمیم کے تحت چیمبرز آف کامرس کی ممبر شپ کیلئے ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کے ساتھ ساتھ انکم ٹیکس ادائیگی کو لازمی قرار دیا جائے اس کے علاوہ ملک میں وفاق اور چاروں صوبوں کیلئے انٹیگریٹڈ نظام متعارف کروانے کیلئے وزیراعظم یا وزیر خزانہ کی سربراہی میں نیشنل ایڈوائزری بورڈ قائم کیا جائے جس میں وفاقی و چاروں صوبائی حکومتوں کے نمائندوں کے علاوہ ایف پی سی سی آئی اور چاروں صوبوں سے انجمن تاجران،سمال چیمبرز آف کامرس اینڈ سمال انڈسٹریز، وویمن چیمبر آف کامرس اور دیگر تاجر تنظیموں کو نمائندگی دی جائے، روزنامہ ایکسپریس اسلام آباد، میں پری بجٹ فورم میں اسلام آباد چیمبر آف سمال ٹریڈرز اینڈا نڈسٹریز اور وویمن چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے عہدیداروں نے اظہار خیال کرتے ہوئے حکومت کو تجویز دی کہ آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ ٹیکس فری،سرمایہ کار دوست بجٹ کے طور پر پیش کیا جائے جس میں سمال اینڈ میڈیئم انٹر پرائزز اور چھوٹے تاجروں پر توجہ دی جائے۔ ایکسپریس پری بجٹ فورم کی روداد نذر قارئین ہے۔

محمد کامران عباسی (صدر اسلام آباد چیمبر آف سمال ٹریڈرز اینڈ انڈسٹریز)

تاجر اس ملک کی ترقی کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں مگر بدقسمتی سے ماضی مین ہمیشہ تاجر طبقہ کو نظر انداز کیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ ماضی میں جو بھی بجٹ دیئے گئے ان پر عملدرآمد کے وہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے جنکی توقع تھی کیونکہ تاجر طبقے نے بجٹ پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہوتا ہے مگر اس طبقے کو بجٹ سازی میں مشاورت میں شامل ہی نہیں کیا جاتا اس لئے جو بجٹ پیش کئے جاتے تھے وہ زمینی حقائق کے برعکس ہوتے تھے۔ ملکی معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے دوبڑے مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جن میں توانائی بحران اور دہشت گردی شامل ہیں۔



اگر ان دو مسائل پر قابو پالیا جائے تو ملک کی جی ڈی پی گروتھ ساڑھے چار فیصد کی بجائے آٹھ فیصد سے بھی تجاوز کرجائے گی اور ٹیکس وصولیاں تین ہزار ارب روپے سالانہ سے بھی تجاوز کرجائیں گی انہوں نے تجویز دی کہ ملک میں انٹیگریٹڈ اکنامک سسٹم متعارف کروایا جائے جس کیلئے اعلیٰ سطح کے اختیارات کا حامل نیشنل ایڈوائزری بورڈ تشکیل دیا جائے جو وزیراعظم یا وزیر خزانہ کی سربراہی میں ہو اور اس کمیشن میں اہم اقتصادی فیصلوں کیلئے مشاورت کی جائے تاکہ جو فیصلے ہوں وہ چاروں صوبوں کے متعلقہ نمائندوں کی مشاورت سے ہوں۔

ثمینہ فاضل(صدر ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)

اگرچہ حکومت کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں کاروباری خواتین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے کیونکہ خواتین کو مردوں کی نسبت کاروبار کرنے کیلئے زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مرد اپنے مطالبات کیلئے سڑکوں پر آکر ہڑتالیں کرکے اپنی باتیں منوا لتے ہیں مگر کاروباری خواتین ایسا نہیں کرسکتیں۔ ملک بھر کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے عہدیداروں کی طرح وویمن چیمبرز آف کامرس کی عہدیدار کاروباری خواتین کو بھی اداروں کے بورڈ ز میں نمائندگی دی جائے تاکہ وہ اپنے مسائل کی نشاندہی کرکے ان کو حل کرواسکیں۔



اس کے علاوہ کاروباری خواتین کیلئے الگ سے ایس ایم ای انڈسٹریل اسٹیٹس اور ملک کے مختلف شہروں میں خواتین کیلئے الگ مارکیٹیں قائم کی جائیں جہاں خواتین گھریلو سطح پر تیار کی جانے والی اشیاء کی نمائش اورفروخت کرسکیں۔ کاروباری خواتین کی تیار کردہ مصنوعات کی نمائش کیلئے ڈسپلے سنٹر قائم کئے جائیں۔

خواتین کیلئے جو کوٹے مختص کئے جائیں وہ خواتین کو ہی دیئے جائیں اور کاروباری خواتین کو آسان شرائط پر رعایتی قرضے فراہم کئے جائیں بیرون ممالک میں بھجوائے جانے والے وفود میں کاروباری خواتین کو نمائندگی دی جائے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی کاروباری خواتین کو خصوصاً ان ممالک کے دورے کروائے جائیں جہاں اقتصادی ترقی میں خواتین کا کردار بہت زیادہ ہے اور پاکستانی خواتین کے ان ممالک کی خواتین کے ساتھ روابط کو فروغ دیا جائے تاکہ وہ اپنی پیشہ وارانہ مہارت کو بڑھا سکیں اور ملک کی اقتصادی ترقی میں کردار ادا کرسکیں۔

جہانگیر اختر (اسلام آباد چیمبر آف سمال ٹریڈرز کے عہدیدار)

تمام لوگ اپنے حصے کا ٹیکس ادا کریں مگر اس کے ساتھ ساتھ حکومت سے بھی درخواست ہے کہ ٹیکس دہندگان کی جمع کروائی جانے و الی ٹیکس کی رقم کو استعمال درست کیا جائے اور ٹیکس دہندگان کو سہولیات فراہم کی جائیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نئے ٹیکس دہندگان تلاش نہیں کررہا ہے اور صرف زبانی جمع خرچ پر اکتفاء کئے ہوئے ہے۔ ایف بی آر کو چاہیے کہ پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر بوجھ ڈالنے کی بجائے گذشتہ پانچ سے آٹھ سال کے دوران جو نئے ادارے قائم ہوئے ہیں اور نئے کاروبار شروع کئے گئے ہیں۔

ان کو ٹیکس نیٹ میں لائے انہوں نے تجویز دی کہ نئے کاروبار اور نئے اداروں کا سُراغ لگا کر انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو مارکیٹ ٹریڈ یونین کے نمائندوں کے ساتھ مل کر ملک بھر میں کاروباری مراکز اور مارکیٹوں کا سروے شروع کرے۔



ملک بھر میں چیمبرزآف کامرس اینڈ انڈسٹریز میں حقیقی تاجر نمائندوں کے انتخاب کو یقینی بنانے کیلئے قانون میں ترمیم کی جائے جس کے تحت چیمبرز آف کامرس کی ممبر شپ کیلئے ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کے ساتھ ساتھ انکم ٹیکس ادائیگی کو لازمی قرار دیا جائے۔

ٹیکس گوشوارے کے ساتھ چیمبرز آف کامرس میں ممبرشپ فیس کی رسید بھی ٹیکس گوشوارے کے ساتھ لف کرکے ایف بی آرکو جمع کروانے کو لازمی قراردیا جائے کیونکہ چیمبرز میں حقیقی نمائندوں کے انتخاب سے ملک میں تجارتی سرگرمیاں اور ٹیکس نیٹ بڑھنے کے ساتھ ساتھ چیمبرز آف کامرس بھی فعال و متحرک ہونگے۔

شیخ عبد السلیم (چیئرمین مرکزی انجمن تاجران، اسلام آباد)

تاجروں سے ٹیکس لینے کیلئے انہیں عزت دینا ہوگی۔ مختلف اداروںکے کارڈز رکھنے والوں کو نادرا، بینکوں،ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں سمیت دیگر تمام اداروں میں عزت اور پروٹوکول دیا جاتا ہے لیکن جو لوگ اربوں روپے ٹیکس دیتے ہیں انہیں لائنوں میں لگا کر ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ٹیکس دہندگان کو تعلیمی اداروں ،ہسپتالوں اور دیگر اداروں میں سہولیات دی جائیں اور انہیں عزت دی جائے۔



پاکستان میں حکومتیں ریونیو اکٹھا کرنے کیلئے ان ڈائریکٹ ٹیکسوں پر انحصار کررہی ہیں جو انتہائی خطرناک ہے موجودہ حکومت کے بارے میں تاجرحکومت ہونے کا تاثر ہے تو موجودہ حکومت کو چاہیے کہ ریونیو اکٹھا کرنے کیلئے ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بجائے ڈائریکٹ ٹیکس(انکم ٹیکس) پر توجہ دی جائے۔

کیونکہ ملک میں مہنگائی کی بنیادی وجہ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار ہے ۔ آج تک کسی حکومت نے تاجروں کیلئے کسی پیکیج کا اعلان نہیں کیا ہے انہوں نے تجویز دی کہ آئندہ مالی سال 2014-15 کے وفاقی بجٹ میں تاجروں کیلئے قابل ٹیکس آمدنی کی حد بڑھا کر کم ازکم دس لاکھ روپے کی جائے۔ ہر شخص ٹیکس دینا چاہتا ہے مگر ٹیکس اتھارٹیز کی طرف سے پیدا کی جانے والی بے جا پیچیدگیوں اور دی جانے والی اذیتیوں سے تنگ آکر دور بھاگتا ہے اگر سسٹم کو مزید بہتر موثر اور فعال کردیا جائے تو ٹیکس نیٹ ازخود بڑھنا شروع ہوجائے گا۔

راج عباسی (صدر ٹریڈرز ویلفیئر ایسوسی ایشن جی نائن، ایگزیکٹو ممبراسلام آباد چیمبر آف سمال ٹریڈرز)

حکومت کی طرف سے چھوٹے تاجروں کو الگ پلیٹ فارم فراہم کرنا دانشمندانہ اقدام ہے اس اقدام سے اب حکومت کو شٹر ڈاؤن اور ہڑتالوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ پہلے بڑے لوگ چیمبرز میں موجود اپنے کارندوں کے ذریعے تاجروں کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں مگر اب ایسا نہیں ہوگا کیونکہ تاجروں کا اپنا پلیٹ فارم موجود ہے اور انہیں کوئی استعمال نہیں کرسکتا انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ اب لوگ دوسرے چیمبرز کی رکنیت چھوڑ کر سمال چیمبرز کی ممبر شپ حاصل کررہے ہیں تین ماہ کے مختصر عرصہ میں اسلام آباد چیمبر آف سمال ٹریڈرز کے ممبران کی تعداد چھ سو سے زائد ہوگئی ہے اور اگلے پانچ سال میں یہ تعداد پینتالیس ہزار تک پہنچ جائے گی۔



چھوٹے تاجروں کی سمال چیمبرز آف ٹریڈرز میں ممبر شپ کے حصول کیلئے سالانہ بیس لاکھ روپے ٹرن اوور کی شرط کو آسان کیا جائے اور سالانہ ٹرن اوور کی شرط بیس لاکھ روپے سے کم کرکے پانچ سے آٹھ لاکھ روپے کی جائے انہوں نے تجویز دی کہ حکومت آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ریئل سٹیٹ سیکٹر کے فروغ کیلئے اقدامات اٹھائے کیونکہ اس سیکٹر سے چالیس صنعتیں وابستہ ہیں اگر رئیل سٹیٹ سیکٹر ترقی کرے گا تو ملک کی دوسری چالیس صنعتیں ترقی کریں گی۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے سندھ یا خیبر پختونخواہ کالا باغ ڈیم کی راہ میں رکاوٹ ہیں درحقیقت قانون میں شامل کی گئی غلط شق اس اہم قومی منصوبے کی راہ میں رکاوٹ ہے جسے دور کرنے کیلئے قانون کی شق 161 میں ترمیم کرنا ہوگی کیونکہ قانون کی مذکورہ شق یہ کہتی ہے کہ کسی بھی ڈیم کے بننے سے اس پر جو بجلی گھر تعمیر کیا جائیگا۔

جس علاقے میں وہ بجلی گھر ہوگا اس علاقے کو اسکا منافع میں سے حصہ یا رائلٹی دی جائے گی۔ کالاباغ ڈیم کیلئے پانی سندھ اور خیبر پختونخوامیں ذخیرہ ہونا ہے جبکہ بجلی گھر میانوالی میں لگنا ہے اس لئے دونوں صوبے اس کی مخالفت کررہے ہیں کیونکہ اس منافع کا حصہ پنجاب کو ملے گا اور دوسرے دونوں صوبوں کو منافع میں حصہ ملنے کی بجائے نقصان ہوگا۔ کالاباغ ڈیم منصوبے میں چاروں صوبوں کے مفاد کو مشترک کیا جائے جس کیلئے قانون میں ترمیم کی جائے اور بجلی گھر سے پیدا ہونے والی بجلی پر منافع کا حصہ دینے کی بجائے جن علاقوں میں پانی ذخیرہ ہونا ہے انہیں حصہ دیا جائے۔

آغا سراج (اسلام آباد چیمبر آف سمال ٹریڈرز اینڈ اندسٹریز کے ایگزیکٹو ممبر و صدر فروٹ منڈی ٹریڈرز ایسوسی ایشن)

ملک میں موجود توانائی بحران نے سارے نظام کر درہم برہم کرکے رکھا ہوا ہے جب تک اس بحران پر قابو نہیں پایا جاتا اس وقت تک اقتصادی ترقی ممکن نہیں۔ توقع ہے کہ آنے والے وقت میں مُشکلات دور ہونگی اور چھوٹے تاجر پاکستان میں خوشحالی لائیں گے۔



ملک میں مہنگائی کی جہاں دیگر وجوہات ہیں وہاں سب سے بڑی وجہ اجارہ داری اور کارٹلائزیشن بھی ہے۔ معاشرے میں بگاڑ بہت زیادہ پیدا ہوچکا ہے جسے درست کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ بجٹ میں چیزیں سستی ہونے کے باوجود اگر کوئی تاجر فوری ان چیزوں کی قیمتیں کم نہیں کرتا تو یہ اسکا انفرادی فعل ہوتا ہے اور یہ اسکی اپنی اخلاقی گراوٹ ہے کہ بجٹ میں جو چیزیں مہنگی ہوتی ہیں اگر وہ فوری طور پر ایک دکاندار نئے ریٹ پر فروخت شروع کرتا ہے تو اس پر فرض ہے کہ جو چیزیں بجٹ میں سستی ہوتی ہیں انکی قیمتوں میں بھی اسی طرح فوری کمی کرے اور اس کیلئے پُرانے سٹاک کے بہانے نہ بنائے اور نہ ہی انکی قلت پیدا کرے۔

نوشابہ شہزاد مسعود ( اسلام آباد چیمبر آف سمال ٹریڈرز اینڈ انڈسٹری کی ایگزیکٹو ممبر و وویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)

میں ایکسپورٹر ہوں اور جب اپنے مسائل کے حوالے سے اداروں سے رجوع کرتی ہوں تو ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے انکی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کی بی بی اشیاء کی برآمد کے کس کاروبار میں پڑی گئی ہو یہ آپ کا کام نہیں ہے آپ کوئی بوتیک کھولو یا بیوٹی پارلر چلاؤ۔ یہ سوچ ختم کرنے کی ضرورت ہے، خواتین ملکی آبادی کا باون فیصد حصہ ہیں انہیں ملک و قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کیلئے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے نہ انکی راہ میں رکاوٹین حائل کی جائیں۔

پاکستانی زرعی اشیاء کی برآمدات کیلئے روس بہت بڑی منڈی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے حکام کی ملی بھگت سے روس کو اشیاء کی برآمد کیلئے صرف سات برآمد کنندگان کو اجازت دی گئی ہے۔



اسی طرح کاروباری اداروں کی اجارہ داری کے ساتھ ساتھ تاجر تنظیموں میں قائم اجارہ داریاں بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجی ٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن قائم ہے مگر اس میں بھی چند لوگوں کی اجارہ داری قائم ہے۔ فرسٹ وویمن بینک میں خواتین کیلئے الگ سے کاؤنٹر قائم ہونا چاہئیں اور کاروباری خواتین کے بینک اکاونٹس کھولنے کیلئے ترجیحی سلوک کیا جانا چاہیے۔

عالمی سطح پر یہ رپورٹس سامنے آچکی ہیں کہ سال 2020 میں خوراک(فوڈ) کا بحران آنے کا خطرہ ہے اور اس وقت وہی ممالک چلیں گے جو زرعی ہوں گے مگر پاکستان میں اس کیلئے کسی قسم کی کوئی تیاری نہیں کی جارہی جبکہ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان کو صنعتی اور سرمایہ کار ملک بنانے کے تجربات کئے جارہے ہیں جو کسی طور پر بھی درست اقدام نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں