احتسابی ڈرامے آخر کب تک
اگر احتساب شروع ہوا ہے تو اچھی بات ہے اور اس کے چانسز بھی نظر آ رہے ہیں ایسا ہوا تو یہ ملک پر احسان ہوگا
استحکام پاکستان پارٹی کے ایک رہنما نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام '' کل تک'' میں کہا ہے کہ ملک پر احسان کیا جائے اور الیکشن سے قبل ایک کڑا احتساب کیا جائے۔
الیکشن اور نیب کے کیسز سائیڈ بائی سائیڈ نہیں چل سکتے، اگر احتساب شروع ہوا ہے تو اچھی بات ہے اور اس کے چانسز بھی نظر آ رہے ہیں ایسا ہوا تو یہ ملک پر احسان ہوگا اورکڑے احتساب کی اشد ضرورت ہے۔
اس موقع پر پی ٹی آئی کے ایک سینیٹرکا کہنا تھا کہ الیکشن اور احتساب سائیڈ بائی سائیڈ بھی چل سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری احتساب کی تاریخ بڑی منتخب اور متعصب ہے۔
ملک میں عام انتخابات کے موقع پر جہاں آئین کے مطابق مقررہ مدت میں جلد الیکشن کرانے کا مطالبہ ہوتا ہے وہاں الیکشن سے قبل پہلے احتساب کرنے کے مطالبات بھی ہوتے ہیں اور اس بار بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ بعض سیاسی حلقوں کا موقف ہے کہ انتخابات دراصل احتساب ہی ہوتا ہے اور اپنے نمایندوں کا احتساب کر کے ہی انھیں ووٹ دینے یا مسترد کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
احتساب کے ڈرامے ملک میں تین عشروں سے چل رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں 1999 تک کرپشن کے سنگین الزامات پر برطرف بھی ہوئیں مگر عوام نے 2008 اور 2013 میں تیسری بار اقتدار کے لیے منتخب کیا۔
نواز شریف حکومت میں وزیر اعظم نے اپنے خاص شخص کو پی پی رہنماؤں کے احتساب کے لیے مقررکیا تھا جس کے احتساب کمیشن کو سیف الرحمن کمیشن کہا گیا جس کا سربراہ جنرل مشرف دور میں ملک سے فرار ہوگیا تھا۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے دور میں پی پی رہنماؤں کا احتساب یک طرفہ طور پرکرایا تو جنرل پرویز مشرف نے اقتدار میں آ کر نواز شریف، آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو سمیت دونوں پارٹیوں کے احتساب کے لیے نیب بنایا تھا جسے دونوں ہی پارٹیوں نے جنرل پرویز مشرف کا سیاسی انتقام قرار دیا تھا اور نیب کے احتساب کو یک طرفہ اور مکمل جانبدارانہ قرار دیا تھا اور اقتدار میں آ کر نیب کو ختم کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔
2008 کے انتخابات کے بعد جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ق) کی حکومت بنوانے کے لیے نیب کو کھل کر استعمال کیا اور پیپلز پارٹی کے منتخب ارکان قومی اسمبلی کی پیٹریاٹ بنا کر پی پی رہنماؤں کو اہم وزارتیں دی تھیں۔ پرویز مشرف اور پی ٹی آئی دونوں فوجی و سویلین حکومت میں نیب کو دوسری پارٹیوں کو توڑنے اور صرف سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا گیا۔
جنرل پرویز مشرف کے 2008 میں اقتدار سے ہٹنے کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی دس سال تک حکومتیں رہیں مگر ان کے چاروں وزرائے اعظم کے دور میں نیب کو پی ٹی آئی کے خلاف استعمال نہیں کیا گیا۔
حالانکہ پی ٹی آئی میں دونوں پارٹیوں کی حکومتوں میں رہنے والے وہ لوگ شامل تھے جن پرکرپشن کے الزامات تھے مگر نیب نے ان کے خلاف کارروائی کی ہی نہیں یا برائے نام کی۔
نیب کے سابق چیئرمین جاوید اقبال کا تقرر مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے پی پی کے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی مشاورت سے کیا تھا جس کے کچھ عرصے بعد ہی پی ٹی آئی کی حکومت آگئی جس کے سربراہ انتقام پر یقین رکھتے تھے اور انھوں نے چیئرمین نیب کو اپنے ساتھ ملا کر ملک میں پی پی اور (ن) لیگ ہی نہیں بلکہ اپنے کسی غیر سیاسی مخالف کو بھی نہیں بخشا اور نیب کے ذریعے اپنے تمام مخالفین کو گرفتار کرایا اور سالوں قید رکھا۔
پی ٹی آئی کی حکومت پر بعض ججزکی خصوصی عنایات رہیں اور انھوں نے بھی ملک میں ہونے والے یکطرفہ انتقامی احتساب پر توجہ دی نہ پی ٹی آئی حکومت نے سیاسی مخالفین کو ناحق طویل قید کے باوجود فوری ضمانتیں دیں مگر طویل قید کاٹنے کے باوجود نیب ان کے خلاف مقدمات میں کچھ کرپشن یا بے قاعدگی ثابت کر سکا، نہ کسی ایک کو سزا دلائی جا سکی اور وہ تمام ضمانتوں پر رہا ہوئے اور ان پر مقدمات اب بھی چل رہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم خود ہی نیب اور منصف بھی بنے ہوئے تھے اور اپنے مخالفین کو گرفتار کرانے کے بیانات دیتے تھے جن پر نیب اور ایف آئی اے عمل کرتے تھے۔ سابق وزیر اعظم کی خواہش چیئرمین نیب پوری کرتے رہے جس پر اپوزیشن ان پر باہمی گٹھ جوڑکے الزامات لگاتی تھی مگر نیب مقدمات عدالتوں میں ثابت نہ کرسکی۔
سابق وزیر اعظم اپنے تمام سیاسی مخالفین کو چور، ڈاکو قرار دیتے رہے اور اپنے حامی کرپٹ لوگوں کی سرپرستی بھی کرتے رہے۔ ان کے دور میں نیب کو مخالفین کے خلاف بھرپور طور پر استعمال کیا اور مکمل من مانیاں کیں۔ توشہ خانہ پر ہاتھ صاف کر کے کروڑوں روپے کمائے۔ اپنوں کو دل کھول کر نوازا جس کی سزا وہ اب خود بھی بھگت رہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ ملک میں کبھی منصفانہ احتساب نہیں ہوا بلکہ احتساب کے نام پر مخالفین کو رگڑا گیا۔ انھیں بدنام کیا گیا اور اپنے انتقامی احتساب سے ذاتی تسکین سے ملک کو نقصان پہنچایا گیا اور احتساب کے نام پر ڈرامے بازی کی گئی اور جھوٹ بولا گیا۔
ملک میں ہر دور میں ہر ادارے میں کرپشن ہوئی، سرکاری اختیارات کے ذریعے ملک کو لوٹا گیا، اقربا پروری اور بدعنوانوں کی سرپرستی کی گئی جب کہ ملک کو واقعی ایک بے رحمانہ اور منصفانہ احتساب کی ضرورت اور عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے جو اب تک پورا ہوا نہ ہوگا اور ماضی کی طرح احتساب کے نام پر ڈرامے ہوتے رہیں گے۔
الیکشن اور نیب کے کیسز سائیڈ بائی سائیڈ نہیں چل سکتے، اگر احتساب شروع ہوا ہے تو اچھی بات ہے اور اس کے چانسز بھی نظر آ رہے ہیں ایسا ہوا تو یہ ملک پر احسان ہوگا اورکڑے احتساب کی اشد ضرورت ہے۔
اس موقع پر پی ٹی آئی کے ایک سینیٹرکا کہنا تھا کہ الیکشن اور احتساب سائیڈ بائی سائیڈ بھی چل سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری احتساب کی تاریخ بڑی منتخب اور متعصب ہے۔
ملک میں عام انتخابات کے موقع پر جہاں آئین کے مطابق مقررہ مدت میں جلد الیکشن کرانے کا مطالبہ ہوتا ہے وہاں الیکشن سے قبل پہلے احتساب کرنے کے مطالبات بھی ہوتے ہیں اور اس بار بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ بعض سیاسی حلقوں کا موقف ہے کہ انتخابات دراصل احتساب ہی ہوتا ہے اور اپنے نمایندوں کا احتساب کر کے ہی انھیں ووٹ دینے یا مسترد کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
احتساب کے ڈرامے ملک میں تین عشروں سے چل رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں 1999 تک کرپشن کے سنگین الزامات پر برطرف بھی ہوئیں مگر عوام نے 2008 اور 2013 میں تیسری بار اقتدار کے لیے منتخب کیا۔
نواز شریف حکومت میں وزیر اعظم نے اپنے خاص شخص کو پی پی رہنماؤں کے احتساب کے لیے مقررکیا تھا جس کے احتساب کمیشن کو سیف الرحمن کمیشن کہا گیا جس کا سربراہ جنرل مشرف دور میں ملک سے فرار ہوگیا تھا۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے دور میں پی پی رہنماؤں کا احتساب یک طرفہ طور پرکرایا تو جنرل پرویز مشرف نے اقتدار میں آ کر نواز شریف، آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو سمیت دونوں پارٹیوں کے احتساب کے لیے نیب بنایا تھا جسے دونوں ہی پارٹیوں نے جنرل پرویز مشرف کا سیاسی انتقام قرار دیا تھا اور نیب کے احتساب کو یک طرفہ اور مکمل جانبدارانہ قرار دیا تھا اور اقتدار میں آ کر نیب کو ختم کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔
2008 کے انتخابات کے بعد جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ق) کی حکومت بنوانے کے لیے نیب کو کھل کر استعمال کیا اور پیپلز پارٹی کے منتخب ارکان قومی اسمبلی کی پیٹریاٹ بنا کر پی پی رہنماؤں کو اہم وزارتیں دی تھیں۔ پرویز مشرف اور پی ٹی آئی دونوں فوجی و سویلین حکومت میں نیب کو دوسری پارٹیوں کو توڑنے اور صرف سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا گیا۔
جنرل پرویز مشرف کے 2008 میں اقتدار سے ہٹنے کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی دس سال تک حکومتیں رہیں مگر ان کے چاروں وزرائے اعظم کے دور میں نیب کو پی ٹی آئی کے خلاف استعمال نہیں کیا گیا۔
حالانکہ پی ٹی آئی میں دونوں پارٹیوں کی حکومتوں میں رہنے والے وہ لوگ شامل تھے جن پرکرپشن کے الزامات تھے مگر نیب نے ان کے خلاف کارروائی کی ہی نہیں یا برائے نام کی۔
نیب کے سابق چیئرمین جاوید اقبال کا تقرر مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے پی پی کے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی مشاورت سے کیا تھا جس کے کچھ عرصے بعد ہی پی ٹی آئی کی حکومت آگئی جس کے سربراہ انتقام پر یقین رکھتے تھے اور انھوں نے چیئرمین نیب کو اپنے ساتھ ملا کر ملک میں پی پی اور (ن) لیگ ہی نہیں بلکہ اپنے کسی غیر سیاسی مخالف کو بھی نہیں بخشا اور نیب کے ذریعے اپنے تمام مخالفین کو گرفتار کرایا اور سالوں قید رکھا۔
پی ٹی آئی کی حکومت پر بعض ججزکی خصوصی عنایات رہیں اور انھوں نے بھی ملک میں ہونے والے یکطرفہ انتقامی احتساب پر توجہ دی نہ پی ٹی آئی حکومت نے سیاسی مخالفین کو ناحق طویل قید کے باوجود فوری ضمانتیں دیں مگر طویل قید کاٹنے کے باوجود نیب ان کے خلاف مقدمات میں کچھ کرپشن یا بے قاعدگی ثابت کر سکا، نہ کسی ایک کو سزا دلائی جا سکی اور وہ تمام ضمانتوں پر رہا ہوئے اور ان پر مقدمات اب بھی چل رہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم خود ہی نیب اور منصف بھی بنے ہوئے تھے اور اپنے مخالفین کو گرفتار کرانے کے بیانات دیتے تھے جن پر نیب اور ایف آئی اے عمل کرتے تھے۔ سابق وزیر اعظم کی خواہش چیئرمین نیب پوری کرتے رہے جس پر اپوزیشن ان پر باہمی گٹھ جوڑکے الزامات لگاتی تھی مگر نیب مقدمات عدالتوں میں ثابت نہ کرسکی۔
سابق وزیر اعظم اپنے تمام سیاسی مخالفین کو چور، ڈاکو قرار دیتے رہے اور اپنے حامی کرپٹ لوگوں کی سرپرستی بھی کرتے رہے۔ ان کے دور میں نیب کو مخالفین کے خلاف بھرپور طور پر استعمال کیا اور مکمل من مانیاں کیں۔ توشہ خانہ پر ہاتھ صاف کر کے کروڑوں روپے کمائے۔ اپنوں کو دل کھول کر نوازا جس کی سزا وہ اب خود بھی بھگت رہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ ملک میں کبھی منصفانہ احتساب نہیں ہوا بلکہ احتساب کے نام پر مخالفین کو رگڑا گیا۔ انھیں بدنام کیا گیا اور اپنے انتقامی احتساب سے ذاتی تسکین سے ملک کو نقصان پہنچایا گیا اور احتساب کے نام پر ڈرامے بازی کی گئی اور جھوٹ بولا گیا۔
ملک میں ہر دور میں ہر ادارے میں کرپشن ہوئی، سرکاری اختیارات کے ذریعے ملک کو لوٹا گیا، اقربا پروری اور بدعنوانوں کی سرپرستی کی گئی جب کہ ملک کو واقعی ایک بے رحمانہ اور منصفانہ احتساب کی ضرورت اور عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے جو اب تک پورا ہوا نہ ہوگا اور ماضی کی طرح احتساب کے نام پر ڈرامے ہوتے رہیں گے۔