فرینڈز آف پولیس
لڑکیاں خواتین کے خلاف ہونے والے مظالم کو روکنے میں پولیس کی بہت مدد گار ہو سکتی ہیں
پنجاب پولیس نے ایک فرینڈز آف پولیس کا پروگرام شروع کیا ہے۔اس پروگرام کے تحت پنجاب کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے بچوں کو پولیس میں فری انٹرن شپ دی جائے گی۔
دو سے چار ہفتوں پر مشتمل اس انٹرن شپ پروگرام کے تحت ان نوجوانوں کو پولیس کے مختلف شعبوں میں پولیس کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے تاکہ یہ نوجوان پولیس کی ورکنگ کو سمجھ سکیں اور بعدازاں معاشرہ میں پولیس اور عوام کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر سکیں۔
مجھے یہ آئیڈیا اس لیے اچھا لگا یہ ماضی کے ٹاؤٹ اور مخبر بھرتی کرنے کے بجائے پولیس کے دوست بنانے کا آئیڈیا ہے۔ پولیس کو حقیقت میں معاشرہ میں پڑھے لکھے دوست چاہیے۔
آئی جی پنجاب عثمان انور نے فرینڈز آف پولیس کی اس افتتاحی تقریب سے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم ان نوجوانوں کو پولیس کے ہر شعبہ میں انٹرن شپ کروا رہے ہیں تا کہ یہ پولیس کے کردار اور کام سمجھ سکیں۔ ہم ان کو تھانوں میں کام کرنے کا موقع بھی دیں گے تا کہ یہ تھانے کے کام کو بھی سمجھ سکیں۔
انھوں نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ فرینڈز آف پولیس پروگرام معاشرہ میں پولیس کے امیج کو بہتر کرنے میں مدد دے گا۔انھوں نے کہا پولیس کوئی کرپٹ ادارہ نہیں ہے۔ کرپشن اس کی پہچان نہیں۔ اس میں کچھ کرپٹ لوگ ہو سکتے ہیں کہ لیکن ہم ان کو اپنی صفوں سے نکالنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہماری پہچان ہمارے ہزاروں شہید لاکھوں غازی ہیں۔
انھوں نے کہا آپ کے جان و مال کی حفاظت کے لیے پولیس اپنی جان کی قربانی دیتی ہے، جیسے جیسے عوام اور پولیس کے درمیان فاصلے کم ہونگے معاشرہ سے جرم بھی کم ہوگا اور عوام کے تعاون کے بغیر جرم میں کمی ممکن نہیں۔
مجھے فرینڈز آف پولیس کا آئیڈیا اس لیے بھی اچھا لگا کہ اس میں نواجون لڑکیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ افتتاحی تقریب میں حال ہی میں پاس ہونے والی ایک ڈاکٹر نے بھی خطاب کیا۔ اس لڑکی نے بھی فرینڈز آف پولیس کے پروگرام میں انٹرن شپ پروگرام کیا ہے۔
اس لڑکی نے بتایا کہ اس نے تھانے میں بھی کام کیا ہے۔ خدمت سینٹر کے کام کو بھی سمجھا ہے اور پولیس کے دیگر شعبوں میں بھی کام کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں جتنی زیادہ لڑکیاں اس انٹرن شپ پروگرام میں شامل ہونگی اتنا معاشرہ مضبوط ہوگا۔ یہ لڑکیاں دیگر لڑکیوں کو بھی وہ ہمت اور حوصلہ دیں گی جس کی ہمارے معاشرے کی خواتین کو ضرورت ہے، پولیس کا ڈر ختم کریں گی اور اپنے حق کے لیے کھڑے ہونے کا حوصلہ دیں گی۔
یہ لڑکیاں خواتین کے خلاف ہونے والے مظالم کو روکنے میں پولیس کی بہت مدد گار ہو سکتی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ہر علاقہ میں پڑھی لکھی ان لڑکیوں کا ایک نیٹ ورک جرائم ختم کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔ اسی طرح پڑھے لکھے نوجوان بھی مثبت تبدیلی لا سکیں گے۔
اس سے پہلے تھانوں سے اور پولیس سے یا تو سیاسی لوگ اپنے اثر و رسوخ کے لیے جڑتے تھے یا جرائم پیشہ لوگ تھانوں اور پولیس سے جڑ جاتے تھے۔ عام شریف شہری تو پولیس سے دور رہنا ہی بہتر سمجھتا ہے۔ لیکن اس پروگرام سے مجھے لگتا ہے کہ نئے تعلیم یافتہ نوجوان پولیس کے ساتھ جڑ جائیں گے۔ اس سے کمیونٹی پولیس کا خواب بھی پورا ہو سکے گا۔
سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ نے اس موقعے پر کہا کہ عوام کے تعاون کے بغیر پولیس کا کام مکمل نہیں ہو سکتا۔ جب تک لوگ پولیس کو جرم اور مجرم کی اطلاع نہیں دیں گے پولیس کام نہیں کر سکتی، جب تک لوگ مجرموں کے خلاف گواہی نہیں دیں گے مجرمان کو سزائیں نہیں مل سکتی ہیں۔ جرم اور مجرم دونوں کے لیے پولیس کو عوام کا تعاون درکار ہے۔
انھوں نے کہا اللہ کا بھی حکم ہے کہ برائی کو ہاتھ سے روکو دل سے برا جانوں اور کمزور ترین عمل ہے کہ دل سے برا جانو۔اس لیے برائی کو روکنے کے لیے لوگوں کو پولیس کے ساتھ کام کرنے کا حکم ہمیں اللہ تعالیٰ سے بھی ملتا ہے۔
ڈی آئی جی علی ناصر رضوی کا خطاب دل پر بہت اثر کرنے والا تھا۔ مجھے علی ناصر رضوی کے خطاب میں ان کے علم اور دانش کی پہچان ملی۔ ان کی سوچ قابل دید تھی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ حال ہی میں مظاہروں میں جب وہ اپنے جوانوں کے ساتھ اگلی صفوں میں تھے تو ان کی آنکھ ضایع ہو گئی۔ لیکن ان کے انداز گفتگو اور ان کے پر جوش خطاب سے کہیں یہ نہیں لگتا تھا کہ ان کی ایک آنکھ ضایع ہو چکی ہے۔
انھوں نے عینک لگائی ہوئی تھی لیکن بعد میں آئی جی پنجاب نے اپنے خطاب میں بتایا کہ علی ناصر رضوی نے یہ عینک اس لیے لگائی ہوئی تھی کہ عوام کا تحفظ کرتے ہوئے ان کی ایک آنکھ بھی ضایع ہو گئی ہے۔ تاہم علی ناصر رضوی ہم سب کے لیے مشعل راہ ہیں۔
ایڈیشنل آئی جی آپریشن پنجاب شہزادہ سلطان نے بھی تقریب سے خطاب کیا۔ انھوں نے بتایا کہ یہ انٹرن شپ پروگرام صرف لاہور یا بڑے شہروں کے لیے نہیں ہے بلکہ جس طرح پولیس پورے پنجاب میں موجود ہے، اسی طرح اس انٹرن شپ پروگرام کا دائرہ کار بھی پورا پنجاب ہے۔ کم ترقی یافتہ علاقوں میں یہ پروگرام زیادہ اہمیت کا حامل ہے، وہاں پولیس کو فرینڈز آف پولیس کی زیادہ ضرورت ہے۔
جیسے جیسے وہاں یہ پروگرام چلے گا ہمیں امید ہے کہ بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔مجھے بھی لگتا ہے کہ کم پڑھے لکھے اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں یہ پڑھے لکھے نوجوان بہت کام کر سکیں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس سے روایتی تھانہ کلچر کو بدلنے میں بھی مدد ملے گی۔
یہ انٹرن شپ پروگرام کرنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو پولیس کی جانب سے فرینڈز آف پولیس کا ایک بیج بھی دیا جارہا ہے۔ اس تقریب میں آئی جی پنجاب نے انٹرن شپ مکمل کرنے والے بچوں کو بیج لگائے۔ میں سمجھتا ہوں اس انٹر ن شپ پروگرام کا دورانیہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ دو ہفتے تو بہت کم ہیں۔
کم از دو ماہ ہونے چاہیے تا کہ بچوں کو پولیس کا اصل اندازہ ہو سکے۔ دو ہفتے میں کچھ خاص اندازہ ممکن نہیں۔ بیشک مفت نہ کروائیں پیسے دیں۔ سلیکشن کا معیار بنائیں۔ لیکن اچھی انٹرن شپ کرائیں تا کہ آگے چل کر یہ بچے پولیس کا اثاثہ بن سکیں۔ یہ زندگی کے جس شعبے میں بھی جائیں۔ پولیس کے مددگار بنیں۔ بہر حال ایک اچھے پروگرام کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔
دو سے چار ہفتوں پر مشتمل اس انٹرن شپ پروگرام کے تحت ان نوجوانوں کو پولیس کے مختلف شعبوں میں پولیس کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے تاکہ یہ نوجوان پولیس کی ورکنگ کو سمجھ سکیں اور بعدازاں معاشرہ میں پولیس اور عوام کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر سکیں۔
مجھے یہ آئیڈیا اس لیے اچھا لگا یہ ماضی کے ٹاؤٹ اور مخبر بھرتی کرنے کے بجائے پولیس کے دوست بنانے کا آئیڈیا ہے۔ پولیس کو حقیقت میں معاشرہ میں پڑھے لکھے دوست چاہیے۔
آئی جی پنجاب عثمان انور نے فرینڈز آف پولیس کی اس افتتاحی تقریب سے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم ان نوجوانوں کو پولیس کے ہر شعبہ میں انٹرن شپ کروا رہے ہیں تا کہ یہ پولیس کے کردار اور کام سمجھ سکیں۔ ہم ان کو تھانوں میں کام کرنے کا موقع بھی دیں گے تا کہ یہ تھانے کے کام کو بھی سمجھ سکیں۔
انھوں نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ فرینڈز آف پولیس پروگرام معاشرہ میں پولیس کے امیج کو بہتر کرنے میں مدد دے گا۔انھوں نے کہا پولیس کوئی کرپٹ ادارہ نہیں ہے۔ کرپشن اس کی پہچان نہیں۔ اس میں کچھ کرپٹ لوگ ہو سکتے ہیں کہ لیکن ہم ان کو اپنی صفوں سے نکالنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہماری پہچان ہمارے ہزاروں شہید لاکھوں غازی ہیں۔
انھوں نے کہا آپ کے جان و مال کی حفاظت کے لیے پولیس اپنی جان کی قربانی دیتی ہے، جیسے جیسے عوام اور پولیس کے درمیان فاصلے کم ہونگے معاشرہ سے جرم بھی کم ہوگا اور عوام کے تعاون کے بغیر جرم میں کمی ممکن نہیں۔
مجھے فرینڈز آف پولیس کا آئیڈیا اس لیے بھی اچھا لگا کہ اس میں نواجون لڑکیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ افتتاحی تقریب میں حال ہی میں پاس ہونے والی ایک ڈاکٹر نے بھی خطاب کیا۔ اس لڑکی نے بھی فرینڈز آف پولیس کے پروگرام میں انٹرن شپ پروگرام کیا ہے۔
اس لڑکی نے بتایا کہ اس نے تھانے میں بھی کام کیا ہے۔ خدمت سینٹر کے کام کو بھی سمجھا ہے اور پولیس کے دیگر شعبوں میں بھی کام کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں جتنی زیادہ لڑکیاں اس انٹرن شپ پروگرام میں شامل ہونگی اتنا معاشرہ مضبوط ہوگا۔ یہ لڑکیاں دیگر لڑکیوں کو بھی وہ ہمت اور حوصلہ دیں گی جس کی ہمارے معاشرے کی خواتین کو ضرورت ہے، پولیس کا ڈر ختم کریں گی اور اپنے حق کے لیے کھڑے ہونے کا حوصلہ دیں گی۔
یہ لڑکیاں خواتین کے خلاف ہونے والے مظالم کو روکنے میں پولیس کی بہت مدد گار ہو سکتی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ہر علاقہ میں پڑھی لکھی ان لڑکیوں کا ایک نیٹ ورک جرائم ختم کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔ اسی طرح پڑھے لکھے نوجوان بھی مثبت تبدیلی لا سکیں گے۔
اس سے پہلے تھانوں سے اور پولیس سے یا تو سیاسی لوگ اپنے اثر و رسوخ کے لیے جڑتے تھے یا جرائم پیشہ لوگ تھانوں اور پولیس سے جڑ جاتے تھے۔ عام شریف شہری تو پولیس سے دور رہنا ہی بہتر سمجھتا ہے۔ لیکن اس پروگرام سے مجھے لگتا ہے کہ نئے تعلیم یافتہ نوجوان پولیس کے ساتھ جڑ جائیں گے۔ اس سے کمیونٹی پولیس کا خواب بھی پورا ہو سکے گا۔
سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ نے اس موقعے پر کہا کہ عوام کے تعاون کے بغیر پولیس کا کام مکمل نہیں ہو سکتا۔ جب تک لوگ پولیس کو جرم اور مجرم کی اطلاع نہیں دیں گے پولیس کام نہیں کر سکتی، جب تک لوگ مجرموں کے خلاف گواہی نہیں دیں گے مجرمان کو سزائیں نہیں مل سکتی ہیں۔ جرم اور مجرم دونوں کے لیے پولیس کو عوام کا تعاون درکار ہے۔
انھوں نے کہا اللہ کا بھی حکم ہے کہ برائی کو ہاتھ سے روکو دل سے برا جانوں اور کمزور ترین عمل ہے کہ دل سے برا جانو۔اس لیے برائی کو روکنے کے لیے لوگوں کو پولیس کے ساتھ کام کرنے کا حکم ہمیں اللہ تعالیٰ سے بھی ملتا ہے۔
ڈی آئی جی علی ناصر رضوی کا خطاب دل پر بہت اثر کرنے والا تھا۔ مجھے علی ناصر رضوی کے خطاب میں ان کے علم اور دانش کی پہچان ملی۔ ان کی سوچ قابل دید تھی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ حال ہی میں مظاہروں میں جب وہ اپنے جوانوں کے ساتھ اگلی صفوں میں تھے تو ان کی آنکھ ضایع ہو گئی۔ لیکن ان کے انداز گفتگو اور ان کے پر جوش خطاب سے کہیں یہ نہیں لگتا تھا کہ ان کی ایک آنکھ ضایع ہو چکی ہے۔
انھوں نے عینک لگائی ہوئی تھی لیکن بعد میں آئی جی پنجاب نے اپنے خطاب میں بتایا کہ علی ناصر رضوی نے یہ عینک اس لیے لگائی ہوئی تھی کہ عوام کا تحفظ کرتے ہوئے ان کی ایک آنکھ بھی ضایع ہو گئی ہے۔ تاہم علی ناصر رضوی ہم سب کے لیے مشعل راہ ہیں۔
ایڈیشنل آئی جی آپریشن پنجاب شہزادہ سلطان نے بھی تقریب سے خطاب کیا۔ انھوں نے بتایا کہ یہ انٹرن شپ پروگرام صرف لاہور یا بڑے شہروں کے لیے نہیں ہے بلکہ جس طرح پولیس پورے پنجاب میں موجود ہے، اسی طرح اس انٹرن شپ پروگرام کا دائرہ کار بھی پورا پنجاب ہے۔ کم ترقی یافتہ علاقوں میں یہ پروگرام زیادہ اہمیت کا حامل ہے، وہاں پولیس کو فرینڈز آف پولیس کی زیادہ ضرورت ہے۔
جیسے جیسے وہاں یہ پروگرام چلے گا ہمیں امید ہے کہ بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔مجھے بھی لگتا ہے کہ کم پڑھے لکھے اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں یہ پڑھے لکھے نوجوان بہت کام کر سکیں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس سے روایتی تھانہ کلچر کو بدلنے میں بھی مدد ملے گی۔
یہ انٹرن شپ پروگرام کرنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو پولیس کی جانب سے فرینڈز آف پولیس کا ایک بیج بھی دیا جارہا ہے۔ اس تقریب میں آئی جی پنجاب نے انٹرن شپ مکمل کرنے والے بچوں کو بیج لگائے۔ میں سمجھتا ہوں اس انٹر ن شپ پروگرام کا دورانیہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ دو ہفتے تو بہت کم ہیں۔
کم از دو ماہ ہونے چاہیے تا کہ بچوں کو پولیس کا اصل اندازہ ہو سکے۔ دو ہفتے میں کچھ خاص اندازہ ممکن نہیں۔ بیشک مفت نہ کروائیں پیسے دیں۔ سلیکشن کا معیار بنائیں۔ لیکن اچھی انٹرن شپ کرائیں تا کہ آگے چل کر یہ بچے پولیس کا اثاثہ بن سکیں۔ یہ زندگی کے جس شعبے میں بھی جائیں۔ پولیس کے مددگار بنیں۔ بہر حال ایک اچھے پروگرام کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔