امریکی شہریت کیلیے خاتون نے ٹرین کی چھت پر بچے کو جنم دیدیا
حاملہ خاتون چلی سے پیرو، کولمبیا، پاناما، کوسٹا ریکا، نکاراگوا، ہونڈوراس، گوئٹے مالا اور میکسیکو پہنچی تھیں
وینزویلا کی 23 سالہ یوہاندری نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ میکسیکو سے امریکا جانے والی ایک مال بردار ٹرین کی چھت پر اپنے بچے کو جنم دیا تاکہ نومولود کو امریکی شہریت مل سکے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق وینزویلا کی حاملہ خاتون اپنے پارٹنر اور 4 سالہ بیٹے کے ہمراہ کئی ممالک کا سفر طے کرنے کے بعد میکسیکو پہنچی تھیں جہاں انھوں نے ایک پُل پر 5 دنوں تک اس مال بردار ٹرین کا انتظار کیا تھا۔
وینزویلا کی تارکین وطن خاتون کو خدشہ تھا کہ اگر بچے کی پیدائش میکسیکو میں ہوگئی تو اسپتال سے سیدھا انھیں ان کے گھر گوئٹے مالا بھیج دیا جائے گا اور وہ اپنے بچے وہ زندگی نہیں دینا چاہتی تھیں جو خود انھوں نے گزاری۔
یوہاندری نے بہت غربت کی زندگی گزاری تھی اور وہ پیرو میں ملازمتوں کے دوران کافی بار زلت اور ہراسانی کا شکار ہوئی تھیں۔ کورونا وبا میں جب کام ہوگیا تو وہ سینٹیاگو چلی آئیں اور ایک اسپتال میں معمولی جاب کی۔
یہاں بھی حالات بد سے بدتر ہوگئے تو لاس ایڈجنٹاس واپس نہ بھیج دیئے جانے کے خوف سے چلی سے پیرو، کولمبیا، پاناما، کوسٹا ریکا، نکاراگوا، ہونڈوراس، گوئٹے مالا اور میکسیکو پہنچیں۔
یہ سفر بھپرے دریاؤں کو پار اور خطرناک جانوروں سے بھرے گھنے جنگلات کو عبور کرکے کیا لیکن یوہاندری کی منزل یعنی امریکا اب بھی دور تھا اور ان پاس محض چند ہی ڈالرز بچے تھے اور وہ حاملہ بھی تھیں۔
میکسیکو میں انھوں نے ڈاکٹر کو دکھایا جس نے بتایا کہ ڈلیوری میں 12 دن باقی ہیں اور یوہاندری چاہتی تھیں کہ بچہ امریکا میں پیدا تاکہ شہریت مل سکے لیکن جیب خالی ہوچکی تھی۔
امریکا پہنچے کا آخری مرحلہ ''ایل بولیرو'' نامی مال بردار ٹرین پر کسی طرح سوار ہونا تھا جس کے ذریعے چھپ چھپا کر امریکا میں داخل ہوا جا سکتا ہے۔
اس کے لیے یوہاندری نے ایک ایسے پل پر انتظار میں 5 دن گزارے جس کے نیچے سے ٹرین کو گزرنا تھا۔ ان کے پارٹنر نے گتے کے کئی کارٹنز جمع کرلیے تھے تاکہ ٹرین کی چھت پر سفر آسان ہوسکے۔
مال بردار ٹرین پہنچی تو کئی تارکین وطن اس پر سوار ہوگئے اور یوہاندری کو لگ رہا تھا کہ وہ امریکا پہنچ کر اپنے بچے کو جنم اور ایک اچھا مستقبل دے سکیں گی۔
ابھی یوہاندری مستقبل کے روشن خوابوں سے سفر کی تلخیوں کو کم کر ہی رہی تھی کہ اچانک زچگی کا برداشت نہ ہو پانے والا درد شروع ہوگیا۔ یوہاندری کے پارٹنر نے گتے پر مدد کے لیے تحریر لکھی۔
اس گتے کو ایک بعد دوسرے تارکین وطن کو تھمایا گیا تاکہ یہ کسی طرح ٹرین کے ڈرائیور تک پہنچے اور ٹرین روک دے تاکہ یوہاندری اپنے بچے کو جنم دے سکے۔
ابھی یہ مدد نامہ ٹرین کے ڈرائیور تک پہنچا نہ تھا کہ تارکین وطن میں سے ایک طبی معاون کھڑا ہوا اور اس نے اپنی خدمات فراہم کرنے کی پیشکش کی۔ اس شخص نے اپنی بیوی جو کہ نرس تھی سے موبائل پر بات کی۔
بیوی سے حاصل ہونے والی معلومات کو بروئے کار لاتے ہوئے اس شخص نے یوہاندری کی ڈلیوری چلتی ہوئی ٹرین کی چھت پر ہی کرانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔
یہاں وقت دل چسپ کروٹ لیتا ہے اور مدد مانگنے کے لیے لکھا گیا گتا کسی طرح تارکین وطنوں کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن پاؤلا تک پہنچ جاتا ہے۔ تب تک ٹرین کی چھت پر موجود تارکین وطن بھی یوہاندری کی ویڈیو اپ لوڈز کر چکے تھے۔
سماجی کارکن پاؤلا کا رابطہ ٹرین کمپنی اپنے ڈرائیور سے کروادیتی ہے۔ ڈرائیور نے ٹرین کو دس منٹ تک روکنے کی ہامی بھری کیوں کہ سامنے سے آنے والی ٹرین کو زیادہ دیر تک رکوایا نہیں جاسکتا تھا۔
یوہاندری کی ٹرین کے ڈرائیور نے دوسری ٹرین کے ڈرائیور سے بات کی اور اگواسکیلنٹس شہر سے تقریباً 108 کلومیٹر کے فاصلے پر لاس اریلانوس کی کمیونٹی میں روک دیا۔
دس منٹ کے قلیل وقت میں ریسکیو ٹیم کو یوہاندری کو ٹرین کی چھت سے اتارنا تھا لیکن بے بس خاتون کا ایک اور امتحان سامنے تھا۔ ریسکیو ٹیم وقت پر نہ پہنچ سکی۔
تکلیف دہ انتظار کے بعد لائف گارڈز، فائر فائٹرز اور ریلوے کمپنی کے ڈاکٹر پہنچ گئے۔ یوہاندری کو اسٹریچر پر باندھ کر ٹرین کی چھت سے اتار کر اسپتال لے جایا گیا جہاں بچی ''میا'' کا جنم ہوا۔
یوہاندری بچی کی پیدائش پر خوش ہیں لیکن امریکا نہ جانے کا رنج ان کے شکست خوردہ چہرے پر واضح دیکھا جا سکتا ہے۔
یوہاندری سے سماجی کارکن پاؤلا اور نیشنل امیگریشن انسٹیٹیوٹ آف میکسیکو کے حکام نے ملاقات کی اور یقین دلایا کہ ان کی بیٹی کو میکسیکو کی شہریت دی جائے گی اور یہ خاندان قانونی طور پر میکسیکو میں رہ سکے گا۔
لیکن یوہاندری کی منزل اب بھی امریکا ہی ہے اور وہ بس ایک بہتر موقع کی تلاش میں ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق وینزویلا کی حاملہ خاتون اپنے پارٹنر اور 4 سالہ بیٹے کے ہمراہ کئی ممالک کا سفر طے کرنے کے بعد میکسیکو پہنچی تھیں جہاں انھوں نے ایک پُل پر 5 دنوں تک اس مال بردار ٹرین کا انتظار کیا تھا۔
وینزویلا کی تارکین وطن خاتون کو خدشہ تھا کہ اگر بچے کی پیدائش میکسیکو میں ہوگئی تو اسپتال سے سیدھا انھیں ان کے گھر گوئٹے مالا بھیج دیا جائے گا اور وہ اپنے بچے وہ زندگی نہیں دینا چاہتی تھیں جو خود انھوں نے گزاری۔
یوہاندری نے بہت غربت کی زندگی گزاری تھی اور وہ پیرو میں ملازمتوں کے دوران کافی بار زلت اور ہراسانی کا شکار ہوئی تھیں۔ کورونا وبا میں جب کام ہوگیا تو وہ سینٹیاگو چلی آئیں اور ایک اسپتال میں معمولی جاب کی۔
یہاں بھی حالات بد سے بدتر ہوگئے تو لاس ایڈجنٹاس واپس نہ بھیج دیئے جانے کے خوف سے چلی سے پیرو، کولمبیا، پاناما، کوسٹا ریکا، نکاراگوا، ہونڈوراس، گوئٹے مالا اور میکسیکو پہنچیں۔
یہ سفر بھپرے دریاؤں کو پار اور خطرناک جانوروں سے بھرے گھنے جنگلات کو عبور کرکے کیا لیکن یوہاندری کی منزل یعنی امریکا اب بھی دور تھا اور ان پاس محض چند ہی ڈالرز بچے تھے اور وہ حاملہ بھی تھیں۔
میکسیکو میں انھوں نے ڈاکٹر کو دکھایا جس نے بتایا کہ ڈلیوری میں 12 دن باقی ہیں اور یوہاندری چاہتی تھیں کہ بچہ امریکا میں پیدا تاکہ شہریت مل سکے لیکن جیب خالی ہوچکی تھی۔
امریکا پہنچے کا آخری مرحلہ ''ایل بولیرو'' نامی مال بردار ٹرین پر کسی طرح سوار ہونا تھا جس کے ذریعے چھپ چھپا کر امریکا میں داخل ہوا جا سکتا ہے۔
اس کے لیے یوہاندری نے ایک ایسے پل پر انتظار میں 5 دن گزارے جس کے نیچے سے ٹرین کو گزرنا تھا۔ ان کے پارٹنر نے گتے کے کئی کارٹنز جمع کرلیے تھے تاکہ ٹرین کی چھت پر سفر آسان ہوسکے۔
مال بردار ٹرین پہنچی تو کئی تارکین وطن اس پر سوار ہوگئے اور یوہاندری کو لگ رہا تھا کہ وہ امریکا پہنچ کر اپنے بچے کو جنم اور ایک اچھا مستقبل دے سکیں گی۔
ابھی یوہاندری مستقبل کے روشن خوابوں سے سفر کی تلخیوں کو کم کر ہی رہی تھی کہ اچانک زچگی کا برداشت نہ ہو پانے والا درد شروع ہوگیا۔ یوہاندری کے پارٹنر نے گتے پر مدد کے لیے تحریر لکھی۔
اس گتے کو ایک بعد دوسرے تارکین وطن کو تھمایا گیا تاکہ یہ کسی طرح ٹرین کے ڈرائیور تک پہنچے اور ٹرین روک دے تاکہ یوہاندری اپنے بچے کو جنم دے سکے۔
ابھی یہ مدد نامہ ٹرین کے ڈرائیور تک پہنچا نہ تھا کہ تارکین وطن میں سے ایک طبی معاون کھڑا ہوا اور اس نے اپنی خدمات فراہم کرنے کی پیشکش کی۔ اس شخص نے اپنی بیوی جو کہ نرس تھی سے موبائل پر بات کی۔
بیوی سے حاصل ہونے والی معلومات کو بروئے کار لاتے ہوئے اس شخص نے یوہاندری کی ڈلیوری چلتی ہوئی ٹرین کی چھت پر ہی کرانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔
یہاں وقت دل چسپ کروٹ لیتا ہے اور مدد مانگنے کے لیے لکھا گیا گتا کسی طرح تارکین وطنوں کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن پاؤلا تک پہنچ جاتا ہے۔ تب تک ٹرین کی چھت پر موجود تارکین وطن بھی یوہاندری کی ویڈیو اپ لوڈز کر چکے تھے۔
سماجی کارکن پاؤلا کا رابطہ ٹرین کمپنی اپنے ڈرائیور سے کروادیتی ہے۔ ڈرائیور نے ٹرین کو دس منٹ تک روکنے کی ہامی بھری کیوں کہ سامنے سے آنے والی ٹرین کو زیادہ دیر تک رکوایا نہیں جاسکتا تھا۔
یوہاندری کی ٹرین کے ڈرائیور نے دوسری ٹرین کے ڈرائیور سے بات کی اور اگواسکیلنٹس شہر سے تقریباً 108 کلومیٹر کے فاصلے پر لاس اریلانوس کی کمیونٹی میں روک دیا۔
دس منٹ کے قلیل وقت میں ریسکیو ٹیم کو یوہاندری کو ٹرین کی چھت سے اتارنا تھا لیکن بے بس خاتون کا ایک اور امتحان سامنے تھا۔ ریسکیو ٹیم وقت پر نہ پہنچ سکی۔
تکلیف دہ انتظار کے بعد لائف گارڈز، فائر فائٹرز اور ریلوے کمپنی کے ڈاکٹر پہنچ گئے۔ یوہاندری کو اسٹریچر پر باندھ کر ٹرین کی چھت سے اتار کر اسپتال لے جایا گیا جہاں بچی ''میا'' کا جنم ہوا۔
یوہاندری بچی کی پیدائش پر خوش ہیں لیکن امریکا نہ جانے کا رنج ان کے شکست خوردہ چہرے پر واضح دیکھا جا سکتا ہے۔
یوہاندری سے سماجی کارکن پاؤلا اور نیشنل امیگریشن انسٹیٹیوٹ آف میکسیکو کے حکام نے ملاقات کی اور یقین دلایا کہ ان کی بیٹی کو میکسیکو کی شہریت دی جائے گی اور یہ خاندان قانونی طور پر میکسیکو میں رہ سکے گا۔
لیکن یوہاندری کی منزل اب بھی امریکا ہی ہے اور وہ بس ایک بہتر موقع کی تلاش میں ہے۔