سسٹم کی خرابی

دنیا کے دیگر ممالک نے اپنا نظام بنایا اور اس کو مسلسل بہتر کرتے گئے جب کہ پاکستان میں کوئی سسٹم بنایا ہی نہیں گیا

دنیا کے دیگر ممالک نے اپنا نظام بنایا اور اس کو مسلسل بہتر کرتے گئے جب کہ پاکستان میں کوئی سسٹم بنایا ہی نہیں گیا (فوٹو فائل)

بجلی ، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باعث ستمبر میں مہنگائی 31.4 فی صد پر واپس آئی ہے جوچار ماہ کی بلند ترین شرح ہے جب کہ افراط زر کا ہدف اکیس فیصد ہے، یوںعوام کی مالی مشکلات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

توانائی کے مختلف ذرایع کے نرخوں میں اضافے کے اثرات دیگر اشیاء پر بھی پڑرہے ہیں، عوام کی مالی حالت مسلسل خراب ہورہی ہے ۔ مہنگائی غربت میں اضافے کا بھی دوسرا نام ہے۔ عام آدمی مہنگائی کے سبب پیٹ کاٹ کر جینے پر مجبور ہیں۔

بیشتر گھرانے ایسے ہیں، جہاں مہینے کا اکھٹاسودا سلف لانے کا رواج دن بہ دن ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اشیائے صرف کی قلت کا مسئلہ اتنا نہیں، جتنا ان اَشیاء کا عوام کی قوت خرید سے باہر ہو جانا ہے۔ ملک میںاشیاء خور و نوش کی بڑھتی ہوئی مہنگائی، مہنگا ہوتا پٹرول اور بجلی اور گیس نے مڈل کلاس کے کس بل نکال دیے ہیں۔

اس حوالے سے اگر کوئی تجزیہ کار یا عام شخص یہ کہے کہ لائن لاسز اور مفت بجلی دیے جانے کا بوجھ عوام اٹھاتے ہیں تو سمجھ میں آتا ہے۔

اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ وہ عام آدمی یا معاشی ماہرین و تجزیہ کار حکومت میں نہیں ہوتا، وہ اس پوزیشن پر نہیں ہوتا کہ وہ اس نظام کی درستگی کے لیے اقدامات اٹھا سکے۔ چنانچہ اس کے پاس ایک ہی طریقہ ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا، اخبارات یا ٹی وی چینلز پر آ کر اس بات کو اجاگرکرے اور حل بتائے۔

پاکستان میں قبائلی اور دیہی علاقوں میں ہی بجلی چوری نہیں ہوتی بلکہ کراچی ، لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور، ملتان ، حیدر آباد اور فیصل آباد جیسے شہروں کی مارکیٹوں میں بھی بجلی چوری ہوتی ہے ۔

یہ چوری بجلی کے محکمہ کے ساتھ مل کر کی یا عملے کی غفلت کی وجہ سے کی جاتی ہے۔ اس چوری کی بجلی کی قیمت قانون پسند صارف ادا کرتا ہے۔

مہنگائی نے عوام میں ہلچل مچا دی ہے۔ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے جو بسوں اور ویگنوں میں سفر کرنے والے غریب آدمی کے لیے مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔آج عام آدمی سے لے کر صنعت کاروں، تاجروں تک کے لیے بجلی کے بلوں کی ادائیگی سب سے بڑا معاشی مسئلہ بن چکی ہے۔

قیمتوں میں اس اضافے نے نا صرف عام آدمی کو متاثر کیا ہے بلکہ ملک بھر میں کاروبار اور صنعتوں کو بھی متاثر کیا ہے۔سامان اور خدمات کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں، کیونکہ کاروبار کو نقل و حمل کی اضافی لاگت برداشت کرنی پڑ رہی ہے۔

پاکستان درآمدی تیل پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، اس لیے بین الاقوامی منڈی میں کوئی بھی تبدیلی مقامی قیمتوں پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔

ایک اور عنصر جس نے اس اضافے میں اہم کردار ادا کیا ہے وہ ہے امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی۔ چونکہ تیل کی زیادہ تر درآمدات ڈالر میں ہوتی ہیں، روپے کی قدر میں کمی نے پاکستان کے لیے تیل کی درآمد کو مزید مہنگا کر دیا ہے۔یہ امر خوش آیند ہے کہ ڈالر کی قمیت میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔

اقوام متحدہ کی ایکرپورٹ کے مطابق ملک میں گزشتہ تین برسوں کے دوران مہنگائی میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔

سب سے زیادہ اضافہ اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پاکستان میں ڈالر کی اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے اثرات ملکی کرنسی پرمثبت اثرات ظاہر ہونا شروع ہوچکے ہیں۔

اداروں کے متحرک ہونے کی وجہ سے ڈالر کی اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کرنے والوں میں خوف پایا جا رہا ہے اور مسلسل ڈالر کی قدر میں گراوٹ سے ڈالر ہولڈ کرنے والے بھی پریشان ہیں۔ ڈالر کی قیمت میں کمی تو دیکھی جا رہی ہے اور یہ ملکی معیشت کے لیے اچھا ہے لیکن اس کے اثرات نچلی سطح تک بھی جانے چاہییں۔


ڈالر کی قدر میں اضافے کا جواز بنا کر جن اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا تھا، اب واپس ہونا چاہیے اور عوام کو ریلیف ملنا چاہیے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک سمیت دیگر ادارے اگر ڈالر کو باہر جانے سے روکنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ملکی کرنسی ایک بار پھر سے اچھی پوزیشن میں آ سکتی ہے۔

ملک میں معاشی بحران کئی برس سے جاری ہے، جس کے اثرات عام آدمی کی زندگی پر بھی پڑ رہے ہیں، غریب آدمی دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے، اس کے لیے زندگی گزارنا تو ناممکن ہے ہی، یہ بیماری کی صورت میں دوا نہیں لے سکتا۔ مرنے کے بعد اس کے کفن دفن کے اخراجات برداشت کرنا بھی پہنچ سے دور ہوگیا ہے۔

آئے روز بجلی، گیس، پانی و دیگر یوٹیلیٹی بلز میں ہوش ربا اضافے نے اس کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ پچیس ہزار روپے ماہانہ کمانے والا ایک فرد اپنے بچوں کی اسکول فیس، گھرکا کرایہ، روزمرہ کی اشیاء ضروریہ کی خریداری کرنے میں بے بس نظر آتا ہے۔

غریب عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف سرکاری افسران اور اعلیٰ عہدیدار اپنی تنخواہیں، مراعات ، سہولتیں اور پنشن میں کمی کرنے پر تیار نہیں ہیں، واپڈا اور ڈسکوز کے افسروں اور ملازمین ہی کو نہیں بلکہ دیگر اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کوفری بجلی کی سہولت حاصل ہے۔

ان کے گھروں اور دفاتر کے ایئرکنڈیشن چوبیس گھنٹے چلتے ہیں، انھیں لگژری سرکاری گاڑیاں ملی ہوئی ہیں،بہت سے لوگوں کو سرکاری بلٹ پروف گاڑیاں دی گئی ہیں، جن کا پٹرول بالکل فری ہے، ان کے بچے ان گاڑیوں پر اسکول جاتے ہیں، بیگمات شاپنگ کرنے جاتی ہیں، بلکہ ان کی سبزی تک سرکاری گاڑیوں پر لائی جاتی ہے۔

پاکستان کی معاشی ابتری کے اثرات صرف اور صرف غریب آدمی پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخوں نے تو عام آدمی کی کمر توڑکر رکھ دی ہے۔

بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے فیکٹری مالکان اپنی فیکٹریوں کو بند کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے بے روز گاری میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ مہنگائی کے اثرات صرف اور صرف غریب عوام پر ہو رہے ہیں۔

افسر شاہی اس مہنگائی کے طوفان سے مبرا ہے، کیونکہ اسے حکومت کی طرف سے تمام سہولیات زندگی مفت فراہم کی جا رہی ہیں، اسے مہنگائی کے طوفان کا کچھ علم نہیں، جیسی سہولیات ، مراعاتاور اختیارات پاکستان میں اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کو فراہم کی جاتیں ہیں، اس کی مثال دنیا میں شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ہو ۔ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی سرکاری ملازمین ایسی سہولیات نہیں ہوں گی۔

پاکستان کے سسٹم میں اعلیٰ ریاستی عہدیداروں اور نوکرشاہی کواحتساب کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے۔افسروں کے غلط فیصلوں پر بھی ان کی جوابدہی کے قوانین موجود نہیں ہیں، اگر ہیں بھی تو نہایت کمزور اور ابہام سے پر ہوتے ہیں۔

جب ملک معاشی بدحالی کا شکار تو سب سے پہلے سرمایہ دار، سیاست دان، اور بیوروکریٹ طبقہ کو اپنی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے معاشی بحران پر کنٹرول کرنے کے لیے اپنی کاوشوں کا اظہار کرنا چاہیے، اسے چاہیے کہ غریب عوام پر مہنگائی کے اثرات کم سے کم ہونے دیں۔ حکومت کی ترجیحات ہمیشہ سے ہی غلط رہی ہیں۔

سرکاری اداروں میں بورڈ آف ڈائریکٹر بنا کراقربا پروری، دوست نوازیکا دروازہ کھول دیا جاتا ہے، ان بورڈ آف ڈائریکٹرز میںمن پسند افراد کا تقرر کیا جاتا ہے، جن کی قابلیت سوائے ہائی اپ کے ساتھ رشتے داری ، دوستی یا مالی و سیاسی وابستگی کے کچھ نہیں ہوتی۔ یہ لوگ ریاستی اداروں کی بربادی کے ساتھ ساتھ قومی خزانہ پر بھی ایک بوجھ ہوتے ہیں۔

دنیا کے دیگر ممالک نے اپنا نظام بنایا اور اس کو مسلسل بہتر کرتے گئے جب کہ پاکستان میں کوئی سسٹم بنایا ہی نہیں گیا اور نہ ہی بنانے کی کوشش کی گئی اور جو تھوڑا بہت بنا ہوا تھا وہ بھی اب آخری سانسیںلے رہا ہے۔ سسٹم میں لوپ ہولز نہ ہوں، قوانین و ضابطے ابہام سے پاک ہوں، جو جتنا بااختیار ہو، اس پر قانون کا چیک بھی اتنا ہی سخت اور فعال ہونا چاہیے ، ایسے فول پروف سسٹم میں نااہل لوگوں کو داخل کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔

ایسا نہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہر بڑی کرسی پر بیٹھنے والے نیک و پرہیزگار ہوتے ہیں لیکن ان کا سسٹم ایسا کہ وہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کا سوچ نہیں سکتے۔پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور تمام تر بد انتظامیوں کے باوجود بھی ملک میں غذا کی کوئی قلت نہیں ہے لیکن حکمرانوں کی شاہ خرچیوں اور بدعنوانی کے دیمک نے عوام کو مہنگائی کا عذاب مسلسل جھیلنے پر مجبور کر رکھا ہے۔

معاشی بحران ایک حقیقت ہے، جس سے آنکھیں چرائی نہیں جاسکتی، مگر اس بحران سے نبرد آزما ہونے کے لیے مثبت حکمت عملی کی ضرورت ہے،جس کے تحت مہنگائی کی لہر کا بوجھ کم سے کم غریب کے کندھوں پر ڈالا جائے۔
Load Next Story