اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی
اسٹوڈنٹس یونین کے ذریعہ طالب علم کامیابی اور ناکامی کو برداشت کرنا سیکھتا ہے
قائد اعظم یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ نے طلبہ یونین کی بحالی کا فیصلہ کر کے جمہوری کلچرکو مضبوط کرنے کے عمل کو تیز کردیا۔ قائد اعظم یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ میں ایک نشست سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یا ان کے نمایندہ کے لیے مختص ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خود سنڈیکیٹ کے اجلاس میں شرکت کی، یوںوہ دوسرے چیف جسٹس آف پاکستان ہیں جو قائد اعظم یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ پہلے چیف جسٹس بھگوان داس تھے۔
یونیورسٹی سنڈیکیٹ میں سیکریٹری تعلیم وسیم اجمل چوہدری جو ایک ترقی پسندانہ سوچ کے حامل ہیں نے طلبہ یونین کی بحالی کی تجویز پیش کی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے طلبہ یونین کی بحالی کی مکمل طور پر حمایت کی۔ طلبہ یونین پر جنرل ضیاء الحق نے 1984میں پابندی عائد کر دی تھی۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے طلبہ یونین کی بحالی کے بارے میں قانونی صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کے ایکٹ 1989 کے نفاذ کے بعد مارشل لاء آرڈر ختم ہوگیا۔ 1993 میںعدالت عظمیٰ کے ایک فیصلے کے تحت طلبہ یونین پر عائد پابندی ختم کر دی تھی۔ قائد اعظم یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے اس فیصلے کی بناء پر ملک بھر میں طلبہ یونین کی بحالی کے بارے میں ابہام ختم ہوچکا۔
ہانگ کانگ میں مقیم انسانی حقوق کے کارکن بصیر نوید نے چند سال قبل سابق صدر ممنون حسین کے نام ایک عرضداشت میں طلبہ یونین کی بحالی کی استدعا کی تھی۔
ایوان صدر نے یہ عرضداشت وزارت قانون کو کمنٹس کے لیے بھیجی تھی۔ وزارت قانون نے بھی مثبت رائے دی تھی، مگر اس وقت کی مسلم لیگ ن کی حکومت نے کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا۔ یوں طلباء یونین کا معاملہ لٹکا رہا۔
طلبہ یونین نوجوان طلبہ کی تربیت کا بنیادی ادارہ ہے۔ انگریز حکومت نے جب نیا تعلیمی نظام قائم کیا تو پہلی دفعہ یونیورسٹیاں اورکالجز قائم کیے گئے مگر یونیورسٹیوں اورکالجوں میں منتخب طلبہ یونین کا ادارہ قائم ہوا۔
تقسیم ہند تک طلبہ یونین کا ایک محدود کردار تھا اور طلبہ یونین کا صدر یونیورسٹی کا وائس چانسلر یا کالج کا پرنسپل ہوتا تھا۔ علی گڑھ یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے عہدیداروں نے پاکستان کے قیام کی تحریک کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
کراچی میں 50ء کی دہائی میں کالجوں میں منتخب طلبہ یونین قائم تھیں۔ ان طلبہ یونین کے بیشتر عہدیداروں کا تعلق بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن DSF سے تھا۔ ڈی ایس ایف کے رہنماؤں کی کوششوں سے منتخب طلبہ نمایندوں نے اپنی تنظیم انٹرکالجیٹ باڈی ICB قائم کی تھی۔ ان طلبہ نمایندوں نے 8 جنوری 1950 میں نئے کالجوں کے قیام، فیسوں میں کمی،کراچی یونیورسٹی کو فعال کرنے اور طلبہ کو پبلک ٹرانسپورٹ میں رعایت دینے کے لیے تحریک چلائی۔ اس وقت خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم اور مشتاق گورمانی وزیر داخلہ تھے۔
وزیر داخلہ نے طاقت کے ذریعے اس تحریک کوکچلنے کی کوشش کی مگر حکومت کو طلبہ کے مطالبات ماننے پڑے۔ کالجوں میں فیسوں میں کمی ہوئی، نئے کالجز قائم ہوئے اور بسوں میں طلبہ کو رعایتی کرائے کا حق حاصل ہوا۔ یہ رعایت طلبہ کو 90ء کی دہائی تک ملتی رہی۔
1963 میں حسین نقی کراچی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے پہلے صدر منتخب تھے۔ چند سال قبل بائیں بازو کے طلبہ کے اتحاد پروگریسو اسٹوڈنٹس کلیکٹو نے پورے ملک میں طلبہ یونین کی بحالی کی تحریک شروع کی۔ پی ٹی آئی حکومت کے وزیر اعظم نے ایک ٹویٹ میں طلبہ یونین کی بحالی کا عزم کیا مگر وہ وعدہ پورا نہ کرسکے، مگر بلاول بھٹو زرداری نے جو وعدہ کیا وہ اس حد تک پورا ہوا کہ سندھ اسمبلی نے طلبہ یونین کی بحالی کا قانون منظور کرلیا۔
اس قانون کے تحت متعلقہ یونیورسٹیوں کو قواعد و ضوابط تیار کرنے تھے۔ یونیورسٹیز کے امور کے سابق وزیر اسماعیل راہو نے طلبہ یونین کے انتخابات میں گہری دلچسپی لی اور سندھ کی تمام سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کا اجلاس بلایا۔ اس اجلاس میں ایک وائس چانسلر کے علاوہ تمام وائس چانسلر طلبہ یونین کے مخالف تھے۔
اسٹوڈنٹس یونین طلبہ کی تربیت سازی کا کردار ادا کرتی ہے۔ اسٹوڈنٹس یونین کے ذریعہ طالب علم کامیابی اور ناکامی کو برداشت کرنا سیکھتا ہے۔ یوں جمہوری رویہ پیدا ہوتا ہے۔ اسٹوڈنٹس یونین ایک قانون کے تحت قائم کرتی تھی جس کے عہدیداروں کی مدت ایک سال ہوتی تھی۔ یونین صدر کے عہدہ کے لیے آخری سال کے طالب علم اہل ہوتے تھے اور صدرکے امیدوار کو تمام امتحان پاس کرنا ضروری تھا۔
اسی طرح سیکریٹری جنرل دوسرے یا تیسرے سال کے طالب علم ہوتے تھے، جوائنٹ سیکریٹری، خزانچی اور ہر کلاس کے سی آر منتخب ہوتے تھے۔ طلبہ یونین کے لیے امیدواروں کو ہر طالب علم کے پاس جانا ہوتا تھا، یوں ان کے مسائل کے لیے وعدے ہوتے تھے۔
1973 کے یونیورسٹی کے ایکٹ کے تحت یونیورسٹی یونین کا صدر یونیورسٹی کے بنیادی ادارہ سنڈیکیٹ اور اس کی ذیلی کمیٹیوں کا رکن ہوتا تھا، یوں طلبہ کے مسائل براہِ راست یونیورسٹی کے سب سے اہم ادارہ یعنی سنڈیکیٹ میں پیش ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی تھی۔ طلبہ یونین کا صدر ڈسپلین کمیٹی کا رکن ہوتا تھا۔
اس کمیٹی میں ان طلبہ کے خلاف شکایت پر غور ہوتا تھا جنھوں نے یونیورسٹی کے قواعدوضوابط کی خلاف ورزی کی ہو، یوں اگر انتظامیہ کوئی کارروائی کرتی تو طلبہ یونین کا صدر اس کارروائی میں فریق ہوتا تھا۔ طلبہ یونین کو سالانہ بجٹ بنانا پڑتا اور سال کے آخر میں تمام ریکارڈ یونیورسٹی کونسل کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔
سندھ میں طلبہ یونین کے لیے جو قانون منظور کیا گیا ہے اس قانون کے تحت اسٹوڈنٹس یونین کے عہدیداروں میں طالبات کی شرح 40 فیصد کے قریب رکھی جاتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اسٹوڈنٹس یونین میں اگر مرکزی عہدیدار طالبہ ہوگی اور دیگر عہدیداروں پر بھی طالبات منتخب ہونگی، اگر طالبات کی طلبہ یونین میں نمایندگی بڑھا دی جائے تو جنسی ہراسگی کے معاملات کا تدارک ہوسکتا ہے۔ طالبات کو طلبہ یونین کے ادارے کے ذریعہ بااختیار کیا جائے تو ان کے ہر قسم کے استحصال کے دروازے بند ہوسکتے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی اسٹوڈنٹس یونین پر پابندی کے خاتمہ کے بارے میں وضاحت اور قائد اعظم یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کے فیصلہ سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ جن پرانی یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین ہے، ان یونیورسٹیوں میں فوری طور پر طلبہ یونین بحال ہوسکتی ہے۔ باقی یونیورسٹیوں کے لیے وفاق اور صوبوں کو قانون سازی کرنی ہوگی مگر اس قانون کا اطلاق تمام غیر سرکاری یونیورسٹیوں اور کالجوں پر بھی ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خود سنڈیکیٹ کے اجلاس میں شرکت کی، یوںوہ دوسرے چیف جسٹس آف پاکستان ہیں جو قائد اعظم یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ پہلے چیف جسٹس بھگوان داس تھے۔
یونیورسٹی سنڈیکیٹ میں سیکریٹری تعلیم وسیم اجمل چوہدری جو ایک ترقی پسندانہ سوچ کے حامل ہیں نے طلبہ یونین کی بحالی کی تجویز پیش کی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے طلبہ یونین کی بحالی کی مکمل طور پر حمایت کی۔ طلبہ یونین پر جنرل ضیاء الحق نے 1984میں پابندی عائد کر دی تھی۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے طلبہ یونین کی بحالی کے بارے میں قانونی صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کے ایکٹ 1989 کے نفاذ کے بعد مارشل لاء آرڈر ختم ہوگیا۔ 1993 میںعدالت عظمیٰ کے ایک فیصلے کے تحت طلبہ یونین پر عائد پابندی ختم کر دی تھی۔ قائد اعظم یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے اس فیصلے کی بناء پر ملک بھر میں طلبہ یونین کی بحالی کے بارے میں ابہام ختم ہوچکا۔
ہانگ کانگ میں مقیم انسانی حقوق کے کارکن بصیر نوید نے چند سال قبل سابق صدر ممنون حسین کے نام ایک عرضداشت میں طلبہ یونین کی بحالی کی استدعا کی تھی۔
ایوان صدر نے یہ عرضداشت وزارت قانون کو کمنٹس کے لیے بھیجی تھی۔ وزارت قانون نے بھی مثبت رائے دی تھی، مگر اس وقت کی مسلم لیگ ن کی حکومت نے کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا۔ یوں طلباء یونین کا معاملہ لٹکا رہا۔
طلبہ یونین نوجوان طلبہ کی تربیت کا بنیادی ادارہ ہے۔ انگریز حکومت نے جب نیا تعلیمی نظام قائم کیا تو پہلی دفعہ یونیورسٹیاں اورکالجز قائم کیے گئے مگر یونیورسٹیوں اورکالجوں میں منتخب طلبہ یونین کا ادارہ قائم ہوا۔
تقسیم ہند تک طلبہ یونین کا ایک محدود کردار تھا اور طلبہ یونین کا صدر یونیورسٹی کا وائس چانسلر یا کالج کا پرنسپل ہوتا تھا۔ علی گڑھ یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے عہدیداروں نے پاکستان کے قیام کی تحریک کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
کراچی میں 50ء کی دہائی میں کالجوں میں منتخب طلبہ یونین قائم تھیں۔ ان طلبہ یونین کے بیشتر عہدیداروں کا تعلق بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن DSF سے تھا۔ ڈی ایس ایف کے رہنماؤں کی کوششوں سے منتخب طلبہ نمایندوں نے اپنی تنظیم انٹرکالجیٹ باڈی ICB قائم کی تھی۔ ان طلبہ نمایندوں نے 8 جنوری 1950 میں نئے کالجوں کے قیام، فیسوں میں کمی،کراچی یونیورسٹی کو فعال کرنے اور طلبہ کو پبلک ٹرانسپورٹ میں رعایت دینے کے لیے تحریک چلائی۔ اس وقت خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم اور مشتاق گورمانی وزیر داخلہ تھے۔
وزیر داخلہ نے طاقت کے ذریعے اس تحریک کوکچلنے کی کوشش کی مگر حکومت کو طلبہ کے مطالبات ماننے پڑے۔ کالجوں میں فیسوں میں کمی ہوئی، نئے کالجز قائم ہوئے اور بسوں میں طلبہ کو رعایتی کرائے کا حق حاصل ہوا۔ یہ رعایت طلبہ کو 90ء کی دہائی تک ملتی رہی۔
1963 میں حسین نقی کراچی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے پہلے صدر منتخب تھے۔ چند سال قبل بائیں بازو کے طلبہ کے اتحاد پروگریسو اسٹوڈنٹس کلیکٹو نے پورے ملک میں طلبہ یونین کی بحالی کی تحریک شروع کی۔ پی ٹی آئی حکومت کے وزیر اعظم نے ایک ٹویٹ میں طلبہ یونین کی بحالی کا عزم کیا مگر وہ وعدہ پورا نہ کرسکے، مگر بلاول بھٹو زرداری نے جو وعدہ کیا وہ اس حد تک پورا ہوا کہ سندھ اسمبلی نے طلبہ یونین کی بحالی کا قانون منظور کرلیا۔
اس قانون کے تحت متعلقہ یونیورسٹیوں کو قواعد و ضوابط تیار کرنے تھے۔ یونیورسٹیز کے امور کے سابق وزیر اسماعیل راہو نے طلبہ یونین کے انتخابات میں گہری دلچسپی لی اور سندھ کی تمام سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کا اجلاس بلایا۔ اس اجلاس میں ایک وائس چانسلر کے علاوہ تمام وائس چانسلر طلبہ یونین کے مخالف تھے۔
اسٹوڈنٹس یونین طلبہ کی تربیت سازی کا کردار ادا کرتی ہے۔ اسٹوڈنٹس یونین کے ذریعہ طالب علم کامیابی اور ناکامی کو برداشت کرنا سیکھتا ہے۔ یوں جمہوری رویہ پیدا ہوتا ہے۔ اسٹوڈنٹس یونین ایک قانون کے تحت قائم کرتی تھی جس کے عہدیداروں کی مدت ایک سال ہوتی تھی۔ یونین صدر کے عہدہ کے لیے آخری سال کے طالب علم اہل ہوتے تھے اور صدرکے امیدوار کو تمام امتحان پاس کرنا ضروری تھا۔
اسی طرح سیکریٹری جنرل دوسرے یا تیسرے سال کے طالب علم ہوتے تھے، جوائنٹ سیکریٹری، خزانچی اور ہر کلاس کے سی آر منتخب ہوتے تھے۔ طلبہ یونین کے لیے امیدواروں کو ہر طالب علم کے پاس جانا ہوتا تھا، یوں ان کے مسائل کے لیے وعدے ہوتے تھے۔
1973 کے یونیورسٹی کے ایکٹ کے تحت یونیورسٹی یونین کا صدر یونیورسٹی کے بنیادی ادارہ سنڈیکیٹ اور اس کی ذیلی کمیٹیوں کا رکن ہوتا تھا، یوں طلبہ کے مسائل براہِ راست یونیورسٹی کے سب سے اہم ادارہ یعنی سنڈیکیٹ میں پیش ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی تھی۔ طلبہ یونین کا صدر ڈسپلین کمیٹی کا رکن ہوتا تھا۔
اس کمیٹی میں ان طلبہ کے خلاف شکایت پر غور ہوتا تھا جنھوں نے یونیورسٹی کے قواعدوضوابط کی خلاف ورزی کی ہو، یوں اگر انتظامیہ کوئی کارروائی کرتی تو طلبہ یونین کا صدر اس کارروائی میں فریق ہوتا تھا۔ طلبہ یونین کو سالانہ بجٹ بنانا پڑتا اور سال کے آخر میں تمام ریکارڈ یونیورسٹی کونسل کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔
سندھ میں طلبہ یونین کے لیے جو قانون منظور کیا گیا ہے اس قانون کے تحت اسٹوڈنٹس یونین کے عہدیداروں میں طالبات کی شرح 40 فیصد کے قریب رکھی جاتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اسٹوڈنٹس یونین میں اگر مرکزی عہدیدار طالبہ ہوگی اور دیگر عہدیداروں پر بھی طالبات منتخب ہونگی، اگر طالبات کی طلبہ یونین میں نمایندگی بڑھا دی جائے تو جنسی ہراسگی کے معاملات کا تدارک ہوسکتا ہے۔ طالبات کو طلبہ یونین کے ادارے کے ذریعہ بااختیار کیا جائے تو ان کے ہر قسم کے استحصال کے دروازے بند ہوسکتے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی اسٹوڈنٹس یونین پر پابندی کے خاتمہ کے بارے میں وضاحت اور قائد اعظم یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کے فیصلہ سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ جن پرانی یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین ہے، ان یونیورسٹیوں میں فوری طور پر طلبہ یونین بحال ہوسکتی ہے۔ باقی یونیورسٹیوں کے لیے وفاق اور صوبوں کو قانون سازی کرنی ہوگی مگر اس قانون کا اطلاق تمام غیر سرکاری یونیورسٹیوں اور کالجوں پر بھی ہونا چاہیے۔