میری دنیا لٹ رہی تھی…
ہم اگر فی الحال اپنے آپ کو ہی دیکھ لیں تو اس سرمایہ دارانہ نظام نے ہمار حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے
ہر انسان کی زندگی میں کئی مرحلے آتے ہیں جن میں غریبی ، امیری، صحت، بیماری اور اس نوع کی زندگی کے دوسرے پہلو بھی ہیں جو آتے جاتے رہتے ہیں لیکن انسان جس کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے وہ ان مراحل سے اپنی استطاعت کے مطابق نبرد آزما ہوتا ہے اور ان سے عہدہ برآء ہونے کی تدبیر کرتا ہے۔
اس دنیا میں کئی ایک ایسے مشہور لوگوں کی مثالیں دی جا سکتی ہیں جو کبھی دو وقت کی روٹی کے محتاج تھے لیکن وہی محتاج آج نہ جانے کتنوں کا پیٹ بھر رہے ہیں اور کتنے ان کے محتاج ہیں اور اب ان کا شمار دولت مندوںلوگوں میں ہوتا ہے۔
انسان کی یہی وہ حالت ہے جب اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو ان آزمائشوں سے گزارتا ہے اور اﷲ کے یہ بندے اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ان کی غربت کے دن کاٹ دیے اور اب ان کی وساطت سے کتنے ہی لوگوں کا روز گار وابستہ ہے۔ یہ سب دنیا کے عارضی تماشے ہیں لیکن جن اوصاف سے کوئی قوم بنتی ہے اور جنھیں کسی قوم کی علامت اور روائت اور تعارف سمجھا جاتا ہے اگر ان اوصاف کو نقصان ہو تو یوں سمجھئے کہ یہ وہ قومی نقصان ہے جو بڑی ہی مشکل سے پورا ہوتا ہے یا نہیں بھی ہوتا ہے۔
آج کے ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں کسی سیاسی بحث کے دوران برسر عام پوری قوم کے سامنے بڑے معززین کے درمیان ہاتھا پائی ہوتی ہے اور بعض اوقات پروگرام کرنے والا بھی شرمندہ ہو کر پروگرا م بند کر دیتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے ان نام نہاد معززین پر جو بر سر عام ایسی حرکتیں کرتے ہیں اور ان کو معزز ین کی فہرست میں شمار کرنا اوریہ لفظ معززلکھتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے جو کسی صورت میں معزز نہیں ہیں بلکہ پتہ نہیں کیا ہیں۔
والد صاحب ایسے ہی کسی واقعہ کے رونما ہونے پرہمیشہ ایک بات سنایا کرتے تھے مرحوم ملک غلام نبی جو لاہور کی معزز برادری سے تعلق رکھتے تھے ، کسی الیکشن کے موقع پر مرحوم ملک صاحب اور مخدوم جاوید ہاشمی کے درمیان مقابلہ تھا ،انتخابی مہم کے دوران جاوید ہاشمی نے اپنے حامیوں اور کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ فلاں گلی میں ہر گز نہیں جائیں گے کیونکہ وہاں ملک صاحب کی بیٹی کا گھر ہے اور انتخابی مہم میں کہیں کوئی غیر شائستہ بات نہ ہو جائے۔
یہ ہمارے پاکستانی سیاسی آداب اور کلچر کا ایک نمونہ تھا ، آج ایسی کوئی بات ہو تو مخالف کسی کی بیٹی بہن کا گھر ڈھونڈ کر اس کے سامنے نعرہ باز ی کریں گے اور غیر شائستہ زبان استعمال کریں گے اور حالیہ برسوں میں اس کے عملی مظاہرے پاکستانی قوم دیکھ بھی رہی ہے ۔
آج کیا ہے بات کرتے ہوئے زبان لڑکھڑا جاتی ہے اور لکھتے ہوئے ہاتھ بھی کانپ جاتے ہیں شرم آتی ہے کہ ہماری تہذیب وثقافت تو ہر گز یہ نہ تھی۔ حیا تھی احترام تھارکھ رکھاؤ تھا لیکن پھریکایک تبدیلی آگئی اور آج یہ عالم ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب کہیں نہ کہیں کسی پاکستانی بچی کے ساتھ درنگی نہ ہوتی ہو، ان کا قتل نہ ہوتا ہو۔ حیرت ہے حکمرانوں پر جوصرف اس کا نوٹس لے لیتے ہیں اور بس اتنا ہی کافی ہو جاتا ہے۔
یہ وہ المیہ ہے جس کا مشاہدہ ہم کررہے ہیں، عصت دری کرنے والے درندے اگر پکڑے جائیں تو قانون کی موشگافیوں اور وکیلوں کے داؤ پیچ سے بری ہو جاتے ہیں ۔ یہ اتنے بڑے واقعات ہیں جن سے زمین کانپ جاتی ہے لیکن یہ ہم انسانوں پر آرام سے گزر جاتے ہیں اور ہم اسے معمول کا ایک واقعہ سمجھ کر اپنے روز مرہ کے کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔
ہوتا کیا ہے کہ یہ مظلوم بچی اپنا بدلہ اور انتقام خود سے ہی لیتی ہے اور خود کشی کر کے یا اور کسی طریقے سے اپنی زندگی ختم کر لیتی ہے جس کی بربادی میں اس کا قطعاً کوئی قصور نہیں ہوتا۔ وہ پاکستانی بچی اس سانحہ کے بعد جیتے جی بھی مر تی ہے اور پھر جیتے جی مر بھی جاتی ہے۔ یوں قصہ تمام ہوتا ہے۔
بات قومی اخلاق اور اعلیٰ روایات سے شروع کی تھی جس کا آج شدید فقدان ہے اور ہر مکتبہ فکر کے نمایندے اپنے گندے کپڑے بیچ چوراہے دھو رہے ہیں اور اس دھوبی پٹکے سے عوام لطف اندوز ہورہے ہیں۔ یہ نمایندے جن کافرض قوم کی اخلاقی تربیت کا تھا عقدہ یہ کھلا کہ ان کی اپنی اخلاقی تربیت میں فقدان ہے جس کی گواہی ان کے اعمال دے رہے ہیں ۔
دنیا میں رائج سرمایہ دارانہ نظام میں اخلاق کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے، ابن خلدون نے کہا تھا کہ کسی کاروباری شخص اور تاجر کو اقتدار مت دو۔ ہم نے اور دنیا نے جب بھی ایسی حرکت کی اس نے خطا ضرور کھائی۔ امریکا جیسے سرمایہ دارانہ نظام کے مرکز میں جب کاروباری شخصیات اقتدار میں آئیں تو ایسے ایسے گھپلے ہوئے کہ قوم دیکھتی رہ گئی ۔
سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں پر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن ہم اگر فی الحال اپنے آپ کو ہی دیکھ لیں تو اس سرمایہ دارانہ نظام نے ہمار حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے اور جو بات پہلے صرف اطلاعات تک محدود تھی لیکن اب ہمارا معاشی حکمران آئی ایم ایف ہم سے نہ صرف براہ راست مخاطب ہوتا ہے بلکہ احکامات دیتا ہے، کسی پاکستان کو تعجب بھی نہیں ہونا چاہیے پہلے جو کچھ پس پردہ ہوتا تھا اب یہ سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے اور ہم آپ کچھ نہیں کر پا رہے، صرف دیکھ رہے ہیں کیونکہ اب بات مشہور ضرب المثل حکم حاکم مرگ مفاجات تک پہنچ گئی ہے۔ ان حالات کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ جنھوں نے ہمیں اس حال تک پہنچایا ہے وہ مجرمانہ طور پر خاموش ہیں بقول شاعر۔
میری دنیا لٹ رہی تھی اور میں خاموش تھا
بات اخلاقی گراوٹ سے شروع کی تھی لیکن پریشان خیالی میں معاشی مسئلے تک پہنچ گئی کیونکہ یہ معاشی مسائل ہی ہماری اخلاقی گراوٹ کا ایک بنیادی سبب ہیں۔