ون ڈے کرکٹ کا عالمی میلہ سج گیا

پاکستان اپنی مہم کا آغاز جمعہ کو نیدرلینڈز کے خلاف میچ سے کرے گا

 گرین شرٹس کی نگاہیں ٹائٹل پر مرکوز ۔ فوٹو : فائل

بھارت کی میزبانی میں ون ڈے کرکٹ ورلڈ کپ کا آغاز آج سے ہوگا، پہلا میچ 2019 کی فائنلسٹ ٹیموں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ میں کھیلا جائے گا، پاکستان اپنی مہم کا آغاز جمعہ کو نیدرلینڈز کے خلاف میچ سے کرے گا۔

میگا ایونٹ میں شریک 10 ٹیموں میں سے کسی کو اپنی بیٹنگ پر ناز تو کسی کو بولنگ پر بھروسہ ہے، کوئی پیسرز پر تکیہ کیے ہوئے ہے تو کسی کو اسپنرز سے جادو جگانے کی توقع ہے۔

ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی اس شوپیس ایونٹ میں کچھ کھلاڑی ہیرو بنیں گے اور کچھ ہیرو سے زیرو بھی بن سکتے ہیں۔

یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب پاکستان نے افغانستان کے خلاف سیریز میں کلین سوئپ کے بعد دنیا کی ٹاپ ون ڈے ٹیم بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا مگر ایشیا کپ میں صرف 2 ناکامیوں نے گرین شرٹس کو عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر پہنچادیا بلکہ اس کے اعتماد کو بھی متزلزل کیا۔

اسی ٹورنامنٹ میں پاکستان کے نوجوان فاسٹ بولر نسیم شاہ بھی انجرڈ ہوگئے جس کی وجہ سے وہ پورے ورلڈ کپ سے ہی باہر ہوچکے ہیں، ماہرین کرکٹ کا خیال ہے کہ میگاایونٹ میں گرین شرٹس کو نسیم شاہ کی کمی شدت سے محسوس ہوگی۔

صرف یہی نہیں بلکہ کچھ اور چیزوں کے حوالے سے بھی فکرمندی ظاہر کی جارہی ہے، ٹاپ آرڈر بیٹر فخرزمان کی فارم خاص طور پر تشویش کا باعث ہے، ان کی جگہ امام الحق کے ساتھ عبداللہ شفیق کی آزمائش کی گئی مگر کامیابی نہ ملی، پیس اٹیک کا دم خم کچھ کم دکھائی دے رہا ہے جبکہ اسپن بولنگ میں بھی پہلے جیسی کاٹ دکھائی نہیں دے رہی، یہ تمام چیزیں جہاں تشویش کا باعث ہیں۔

وہیں پر بابراعظم اور محمد رضوان جیسے ان فارم بیٹرز سے توقعات کا بوجھ اٹھانے کا امکان ہے، بھارت کی کنڈیشنز پاکستان سے ملتی جلتی ہی ہیں، ایسے میں گرین شرٹس کے پاس پرفارمنس پیش نہ کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔ ورلڈ کپ کیلئے بھارت روانگی کے موقع پر کپتان بابراعظم نے واضح کیا تھا کہ ٹیم کی نگاہیں صرف سیمی فائنل کھیلنے پر نہیں بلکہ ٹائٹل جیتنے پر مرکوزہیں۔


اگر کپتان اور ان کی ٹیم اس ہدف کو حاصل کرنے کا تہیہ کرچکی تو انھیں پھر پوری ذمہ داری کا ثبوت بھی دینا ہوگا، کسی بھی قسم کے دبائہ کا شکار ہوئے بغیر میدان میں اپنی 100 فیصد صلاحیتوں کا اظہار کرنا ہوگا، بابراعظم کو بطور کپتان احتیاط سے فیصلے کرنا ہوں گے، ٹاس جیتنے کے بعد بیٹنگ یا فیلڈنگ کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا، کسی بھی قسم کے ایڈونچر سے گریز کرتے ہوئے بنیادی چیزوں پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگی۔

اسی طرح وہ 1992 کے بعد پاکستان کو ورلڈ کپ جتوانے والی پہلی ٹیم بن سکتے ہیں۔ دوسری جانب بھارت کو صرف ہوم کنڈیشنز کا ایڈوانٹیج ہی حاصل نہیں بلکہ اس کے پاس بہترین بیٹنگ لائن کے ساتھ باصلاحیت بولرز کا ساتھ بھی حاصل ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ 2011 سے کوئی بھی میزبان ٹیم ورلڈ کپ نہیں ہاری، اس کا آغاز بھارت سے ہی ہوا تھا جس کے بعد آسٹریلیا نے 2015 اور انگلینڈ نے 2019 میں ٹائٹل جیتا تھا۔ بھارتی ٹیم پر قابو پانے کا واحد راستہ شروع سے ہی انھیں دباؤ میں لانا ہوگا، اگر بیٹرز کو وکٹ پر سیٹ ہونے کا موقع دیا یا بولرز کو جلد وکٹیں دے دیں تو پھر بھارت سنبھلنے کا موقع نہیں دے گا۔ انگلینڈ ٹائٹل کے دفاع کیلئے پرعزم ہے۔

بین اسٹوکس اپنے اس آخری ٹورنامنٹ کو یادگار بنانے کی کوشش کریں گے، ویسے بھی وہ اپنے کیریئر کے دوران یہ ثابت کرچکے کہ وہ بڑے ایونٹس اور بڑے میچز کے کھلاڑی ہیں، انگلینڈ کی بیٹنگ لائن بھی مضبوط اور اس کا پیس اٹیک بھی زبردست ہے۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم بھی کافی باصلاحیت مگر ورلڈ کپ کے حوالے سے قدرے بدقسمت بھی ہے، اکثر ٹورنامنٹ کے آخر میں قسمت اس کا ساتھ چھوڑ جاتی ہے، کپتان کین ولیمسن پوری طرح فٹ نہیں ہیں۔

ٹم ساؤدی بھی انگوٹھے کا فریکچر ٹھیک ہونے کے بعد میدان میں واپس لوٹے ہیں۔ جنوبی افریقہ نے حال ہی میں ہوم گراؤنڈز پر آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں کامیابی حاصل کی جس کی وجہ سے اس کے حوصلے کافی بلند ہیں مگر پریشر میں ہاتھ پاؤں پھول جانے کی پرانی عادت سے انھیں بچنا ہوگا۔ آسٹریلیا کو ورلڈ کپ میں داخل ہونے سے قبل جنوبی افریقہ سے 3 اور بھارت کے ہاتھوں 2 میچز میں شکست ہوئی مگر آخری ون ڈے میں فتح سے کینگروز نے اپنا کچھ اعتماد بحال کرلیا ہے۔

آسٹریلیا مکمل حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترتا اور اس کے کھلاڑی گیم پلان پر آخری حد تک عمل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اسے کسی بھی صورت میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ سری لنکا اور بنگلہ دیش ایشیائی کنڈیشنز میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے ہوئے سیمی فائنل میں رسائی کی بھرپور کوشش کرسکتے ہیں، افغانستان اور نیدرلینڈز بھی بڑی ٹیموں کو ٹف ٹائم دینے کیلئے پرعزم ہوں گے۔

Load Next Story