بڑے پیمانے پر شجرکاری ماحول کو نقصان پہنچا رہی ہے تحقیق
ایک قسم درختوں کی شجرکاری حیاتیاتی تنوع کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے، تحقیق
ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کاربن اخراج سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر شجرکاری کے منصوبے ماحول کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
مشہور و معروف شخصیات عموماً گرین ہاؤس گیسز کے اخراج اور موسمیاتی سے نمٹنے کے لیے اقدامات کے حوالے سے بات کرتی دِکھائی دیتی ہیں۔ لیکن تحقیق کے مصنفین کے مطابق ان اقدامات میں ایک ہی قسم کے درختوں کی بڑے پیمانے پر شجرکاری ماحول کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے انوائرنمنٹل چینج انسٹیٹیوٹ کے سائنس دانوں کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کے مطابق ایک قسم درختوں کی شجرکاری حیاتیاتی تنوع کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے اور جنگلات کو لاحق آتشزدگی کے خطرات میں اضافہ کرتی ہے جبکہ گرین ہاؤس گیسز کو بہت کم مقدار میں جذب کرتی ہے۔ اس کے بجائے ہمیں ماحول کی حفاظت اور بحالی کو فوقیت دینی چاہیے۔
جرنل ٹرینڈز اِن ایکولوجی اینڈ ایوولوشن میں بتایا گیا کہ کاربن سے نمٹنے پر مکمل توجہ ماحول کے دیگر پہلووں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
تحقیق کے مصنف ڈاکٹر جیزس ایگوئیر-گوٹیریز کا کہنا تھا کہ ٹروپیکل ماحول کی جانب سے متعدد افعال کیے جانے کے باوجود معاشرے نے ان کوصرف کاربن تک محدود کر دیا ہے۔موجودہ اور نئی پالیسی کے تحت شجرکاری کے ذریعے ماحول کی بوسیدگی کو فروغ نہیں دینا چاہیے۔
ٹروپیکل ماحول میں بڑے پیمانے پر حیایاتی تنوع ہوتی ہے اور یہ ماحول پانی کے معیار، مٹی کی صحت اور زیرگی جیسے متعدد ماحولیاتی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔
اس کے برعکس کاربن ذخیرہ کرنے والے پودے عموماً یک ثقافتی ہوتے ہیں اور صرف پانچ قسم کے درختوں پر مشتمل ہوتے ہیں ان میں ساگوان، ماغون، صنوبر، ریشمی بلوط اور بلیک ویٹل شامل ہیں جن کو لکڑی، گودے یا زرعی جنگلات کے لیے اگایا جاتا ہے۔
مشہور و معروف شخصیات عموماً گرین ہاؤس گیسز کے اخراج اور موسمیاتی سے نمٹنے کے لیے اقدامات کے حوالے سے بات کرتی دِکھائی دیتی ہیں۔ لیکن تحقیق کے مصنفین کے مطابق ان اقدامات میں ایک ہی قسم کے درختوں کی بڑے پیمانے پر شجرکاری ماحول کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے انوائرنمنٹل چینج انسٹیٹیوٹ کے سائنس دانوں کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کے مطابق ایک قسم درختوں کی شجرکاری حیاتیاتی تنوع کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے اور جنگلات کو لاحق آتشزدگی کے خطرات میں اضافہ کرتی ہے جبکہ گرین ہاؤس گیسز کو بہت کم مقدار میں جذب کرتی ہے۔ اس کے بجائے ہمیں ماحول کی حفاظت اور بحالی کو فوقیت دینی چاہیے۔
جرنل ٹرینڈز اِن ایکولوجی اینڈ ایوولوشن میں بتایا گیا کہ کاربن سے نمٹنے پر مکمل توجہ ماحول کے دیگر پہلووں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
تحقیق کے مصنف ڈاکٹر جیزس ایگوئیر-گوٹیریز کا کہنا تھا کہ ٹروپیکل ماحول کی جانب سے متعدد افعال کیے جانے کے باوجود معاشرے نے ان کوصرف کاربن تک محدود کر دیا ہے۔موجودہ اور نئی پالیسی کے تحت شجرکاری کے ذریعے ماحول کی بوسیدگی کو فروغ نہیں دینا چاہیے۔
ٹروپیکل ماحول میں بڑے پیمانے پر حیایاتی تنوع ہوتی ہے اور یہ ماحول پانی کے معیار، مٹی کی صحت اور زیرگی جیسے متعدد ماحولیاتی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔
اس کے برعکس کاربن ذخیرہ کرنے والے پودے عموماً یک ثقافتی ہوتے ہیں اور صرف پانچ قسم کے درختوں پر مشتمل ہوتے ہیں ان میں ساگوان، ماغون، صنوبر، ریشمی بلوط اور بلیک ویٹل شامل ہیں جن کو لکڑی، گودے یا زرعی جنگلات کے لیے اگایا جاتا ہے۔