لاپتہ قیدی کیس فوجی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج ہو سکتا ہے اٹارنی جنرل

بتایاجائے ٹرائل سول کورٹ کریگی یا فوجی عدالت؟ ڈی سی مالاکنڈ نے کس قانون کے تحت مقدمہ ملٹری کورٹ بھیجا،سپریم کورٹ

بتایاجائے ٹرائل سول کورٹ کریگی یا فوجی عدالت؟ ڈی سی مالاکنڈ نے کس قانون کے تحت مقدمہ ملٹری کورٹ بھیجا،سپریم کورٹ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے مالاکنڈحراستی مرکزسے لاپتہ 35قیدیوں کے مقدمے میں حاضرسروس فوجی اہلکارکے ٹرائل کے معاملے پراٹارنی جنرل اورایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا سے معاونت طلب کرلی۔

جسٹس جوادخواجہ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کہاکہ بتایاجائے، حاضرسروس فوجی ملازم کے خلاف تعزیرات پاکستان کے تحت مقدمہ درج ہونے پرٹرائل سول عدالت میں ہوگا یافوجی عدالت میں؟ ڈپٹی کمشنرکس قانون کے تحت مقدمہ ملٹری کورٹ منتقل کرسکتا ہے؟ کیاڈپٹی کمشنرفوجی حکام کے خط پرعمل کاپابند ہے جبکہ فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کافورم کون سا ہوگا۔ عدالت نے آبزرویشن دی کہ لاپتہ افرادکی بازیابی حکومت کی آئینی ذمے داری ہے لیکن خیبرپختونخوا حکومت نے اپنی ذمے داری فوج کے حوالے کر کے خودکو بری الذمہ کردیا۔


جسٹس جوادخواجہ نے ریمارکس دیے کہ اس مقدمے میں فوجی حکام نے اس مفروضے کے تحت عمل کیا کہ وہ اپنے حاضرسروس ملازم کے مقدمے کے ٹرائل کے فورم کا تعین کرنے کے مجاز ہیں جبکہ ڈپٹی کمشنر نے خود کو فوجی حکام کا ماتحت تصور کیا حالانکہ آئین و قانون کچھ اورکہتا ہے۔ عدالت آئین وقانون کے تناظر میں مقدمے کا فیصلہ کرے گی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حاضر سروس فوجی ملازم کے خلاف سول قانون کے تحت مقدمہ درج ہو سکتا ہے۔

مقدمہ ملٹری کورٹ منتقل کرنے کی صورت میں مجسٹریٹ وجہ بتانے کا پابند ہے۔ وہ مناسب منطق کے بغیر مقدمہ متقل نہیں کر سکتا۔ ٹرائل کے حوالے سے پاکستان آرمی ریگولیشن ایکٹ اور تعزیرات پاکستان باہم متصادم ہیں۔ جسٹس جواد نے کہاکہ اس میں تو کوئی شک نہیں رہا کہ ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے۔ مسئلہ ٹرائل کے فورم کے تعین کا ہے۔بی بی سی کے مطابق اٹارنی جنرل نے کہاکہ پولیس سول جرائم میںملوث فوجیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کر سکتی ہے لیکن ان فوجیوں کے خلاف مقدمہ سول عدالتوں میں چل سکتا ہے یا نہیں، وہ حکومت سے مشاورت کے بعد عدالت کو بتائیں گے
Load Next Story