استاد کا ادب اور اصلاح

ہمارے معاشرے میں والدین کا تو پھر بھی کچھ ادب باقی ہے لیکن اساتذہ کی قدر اور ادب رخصتی کے دہانے پر ہے

جس طرح کامیابی کا سہرا استاد کے سر ہے اسی طرح ناکامی میں بھی استاد کا بڑا ہاتھ ہے۔ (فوٹو: فائل)

دنیا کا نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ حسد زیادہ اور رشک نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن کم از کم دو ایسی ہستیاں ضرور موجود ہیں جن کے بارے میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ہر صورت میں اچھی خواہشات ہی رکھتی ہیں۔ ایک والدین اور دوسرے اساتذه، کہ ہر صورت اپنی اولاد اور اپنے شاگردوں کو پھلتے پھولتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ہر مشکل راستہ اور طریقہ اپنانے میں عار محسوس نہیں کرتے کہ جس سے اولاد اور طلبا کی شخصیت، اخلاق، کردار، عمل، زندگی اور اس سے متعلقہ کسی بھی معاملے میں بہتری لاسکیں۔ چاہے اولاد اور طالب علم کتنا ہی برا کیوں نہ منائیں، انہوں نے تہیہ کر رکھا ہوتا ہے کہ فائدے والی کڑوی گولی اپنی اولاد اور شاگردوں کے حلق سے نیچے ضرور اتارنی ہے۔


ہمارے معاشرے میں والدین کا تو پھر بھی کچھ نہ کچھ ادب باقی ہے لیکن اساتذہ کی قدر اور ادب رخصتی کے دہانے پر ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات میں ایک طرف تو اساتذہ کی نالائقی، خلوص کا فقدان اور تعلیم کا کاروبار بننا ہے اور دوسری طرف تربیت کی کمی، مادیت کی اہمیت، وقت اور موقع کی ناقدری اور زندگی کی حقیقتوں سے بے اعتنائی و بے رخی ہے۔


کسی بھی قوم کےلیے سب سے اہم اس کی افرادی قوت ہوتی ہے کہ وہ زرخیز ذہن ہر طرح کی مشکلات پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر عقل، فہم، شعور و ادراک اور دانش موجود ہو تو کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آتا ہے۔ لیکن یہ موجود کیسے ہوں گی، اس کی نرسری تو اساتذہ کے ہاں ہے جب کہ زمانۂ موجود میں استاد کی اپنی صلاحیتوں اور نیت پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ہر کوئی حادثاتی طور پر استاد ہے، شاید ہی کوئی ہو جو اپنے مصمم ارادے، سوچ اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت استاد بنا ہو۔ اس پر مستزاد یہ کہ اساتذہ بھی باقی قوم کی طرح مزید پڑھنے، تعلیم حاصل کرنے اور اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کی کوشش سے بے زار ہیں۔ چاہتے ہیں کہ جلد یا بدیر منصب استاد سے کسی بھی طرح چھٹکارا پاسکیں اور کسی بھی طرح کوئی اور پیشہ اپنا سکیں۔ دوسری طرف اچھے خاصے نام رکھنے والے اساتذہ بھی تعلیم کے اغراض و مقاصد، تعلیم کی اہمیت اور دنیا میں رائج طریقۂ تعلیم سے نابلد ہیں۔ اب ان حالات میں اس طرح کے اساتذہ کے زیر سایہ کیا تربیت ہورہی ہے اور کس طرح کے زرخیز ذہن پیدا ہورہے ہیں اس کا اندازہ لگانا بالکل بھی مشکل نہیں۔



ہم ہر سال یوم اساتذہ منا لیتے ہیں لیکن یہ جاننے اور ماننے کی کوشش نہیں کرتے کہ جس طرح کامیابی کا سہرا استاد کے سر ہے اسی طرح ناکامی میں بھی استاد کا بڑا ہاتھ ہے۔ استاد کی حیثیت اس ملاح کی طرح ہے جو کشتی کو جس سمت چاہے موڑ سکتا ہے۔ کیا اس پہلو پر کام کرنے کی ضرورت نہیں کہ استاد کی درستی سے معاشرے کی درستی ہے۔ کیا استاد بننے کےلیے کوئی شرائط و ضوابط نہیں ہونے چاہئیں؟ کیا کوئی ایسا طریقہ، معیار اور ادارہ نہیں ہونا چاہیے جو ذہنی جسمانی اور نفسیاتی طور پر دیکھ بھال کرسکے کہ کوئی استاد بننے کے لائق بھی ہے یا نہیں۔ آئے دن تعلیمی اداروں، بشمول مدارس، اسکولوں اور کالجوں سے ایسی ایسی بھیانک خبریں آتی ہیں جن کا ماضی قریب و بعید میں ذکر تو کیا تصور بھی محال رہا ہے۔ کیا یہ سب کچھ استاد کرتے ہیں یا استاد کے لبادے میں موجود بھیڑیے کرتے ہیں؟ معیار اور ادارہ تو ایک طرف والدین اور طلبا کو بھی کسی قسم کی فکر نہیں کہ وہ کس استاد سے کیا علم حاصل کررہے ہیں۔ بس ایک بھیڑ چال ہے جس کا مقصد صرف حجامت شدہ گدھے پیدا کرنا ہے۔


دوسری طرف دیکھیے تو چند ایک، جن پر گمان ہے کہ وہ لوگ علم والے ہیں اپنے علم پر قیمت کا ٹیگ لگا کر بیٹھ گئے ہیں اور تعلیم وہ واحد معاہدۂ بیع ہے کہ جس میں ثمن زیادہ ہو اور مبیعہ کم ہو، پھر بھی کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ طلبا کلاس سے جلدی چھوڑ دینے، کم پڑھانے والے اور زیادہ نمبر دینے والے استاد کو پسند کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ پسندیدگی صرف دوران تعلیم برقرار رہے گی اور جوں جوں عقل و فہم میں اضافہ ہوتا جائے گا وہی اچھا استاد برا اور تعلیم کے دوران سختی کرنے والے اساتذہ اچھے محسوس ہونے لگیں گے۔


اب ہمیشہ مسائل پر ہی کڑھا جاتا ہے اور حل پر کم سے کم بات کی جاتی ہے کیوں کہ حل کےلیے جسمانی، جذباتی اور عقلی وسائل درکار ہیں۔ حل کےلیے سب سے پہلی قربانی استاد کو دینا پڑے گی، اسے نہ صرف اپنے علم اور صلاحیتوں پر توجہ مرکوز کرنا پڑے گی بلکہ اپنے کردار کو بھی بے داغ رکھنا ہوگا اوراس کے بعد تعلیم کےلیے ایسے طریقے اپنانا اور بنانا ہوں گے کہ طلبا تعلیم سے بددل اور متنفر نہ ہوں۔ طلبا کےلیے تعلیم کو مجبوری کے بجائے دلچسپ بنانا ہوگا۔ دوسری طرف والدین کو بھی کوشش کرنا ہوگی کہ بچوں کو استاد، علم اور کتاب کی اہمیت، ادب اور احترام سے روشناس کروائیں۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story