منافع میں فطری دلچسپی دراصل ادویہ سازی کی صنعت افقی پھیلنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ منافع اور لالچ کے درمیان حائل لکیر کی موٹائی کا تعلق شعور کی بلندی اور دوسروں کا خیال رکھنے کے جذبے سے وابستہ ہے۔ بچگانہ ذہن کہیے یا آمرانہ ذہن کہیے، شعور کی یہ سطح ہر قیمت پر اپنا فائدہ دیکھتی ہے۔ جنھیں آپ نہ جانتے ہوں اور نہ ان سے کوئی واسطہ ہو، ان کا بغیر کسی لالچ کے خیال رکھنا اور اس ذمے داری کےلیے جان لڑانا ہی انسانیت کے شعور کی معراج ہے۔
بعض دوائیں کم خوراک میں دستیاب نہیں ہوتیں۔ یا یوں جانیے کہ اُن ادویہ کا استعمال بہت کم ہے، اس لیے اسے بڑے پیمانے پر بنانے میں خاطر خواہ منافع کے امکانات معدوم ہوتے ہیں۔ جس کے باعث ادویہ ساز صنعتکار اس میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اب اگر یہ ادویہ مریض کےلیے ضروری ہوں یا ناامید حالات میں روشنی کی کرن بن سکتی ہوں تو ڈاکٹرز ان ادویہ کو اس مریض کی صحت کی خاطر تجویز کرتے ہیں۔ فارمیسی والے ان ادویہ کو بازار میں دستیاب کیمیکل کی مدد سے اس مخصوص مریض یا اسپتال کے مریضوں کےلیے بناتے ہیں۔ یقیناً ان ادویہ کی کوالٹی، تحفظ اور اثر انگیزی پر وہ کام یا وہ محنت نہیں ہوتی جو ایک ادویہ ساز کمپنی میں ہوتی ہے۔ ان ادویہ کے بنانے پر نہ کوئی ضروری تحقیق ہوتی ہے اور نہ ہی ان پر نظر ثانی، جس کی ذمے داری ریگولیٹری اتھارٹی اٹھاتی ہو۔
چونکہ بعض ادویہ مخصوص انسانی گروپ میں پہلے کبھی باقاعدہ آزمائی نہیں گئی ہوتیں، اس لیے اس کے بارے میں حقیقی معلومات حوالے کےلیے نہیں ملتیں۔ یہ مریضوں کے مخصوص گروپ جیسے بچے، حاملہ خواتین ، یا کسی اور دوسری بیماری کے مریض وغیرہ ہوتے ہیں۔ انتہائی ضرورت محسوس ہونے پر ڈاکٹرز انھیں مریض کی آزادانہ مرضی سے یہ ادویہ تجویز کرتے ہیں جو فارمیسی میں مریض کےلیے بنائی جاتی ہیں۔ اس مشق کو ہم دوا کے منظور دعویٰ کے علاوہ استعمال کے نام سے پہچانتے ہیں۔
آپ جانتے ہیں کہ بعض ادویہ صرف منہ سے کھائی جاسکتی ہیں، ان کا انجکشن دستیاب نہیں یا بعض کا انجکشن ہے مگر منہ سے کھانے والی دوا دستیاب نہیں وغیرہ۔ بعض کیمیائی اجزا کسی دوسرے امراض کےلیے منظور ہوتی ہیں اور ان اجزا کی ایک ساتھ دوا دستیاب نہیں ہوتی تو اس صورتحال میں خطرات مول لے کر یعنی ناپ تول کر انھیں بھی فارمیسی میں مخصوص مریض کےلیے ان ادویہ کو ضروری احتیاط کے ساتھ بنانے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس طرح کی اجازت کا مقصد مریض کی جان بچانا اور مشاہدات میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔
یعنی فارمیسی میں دوا کسی ایسے مریض کےلیے بنائی جاسکتی ہے جس کا علاج منظورشدہ دستیاب دواؤں سے نہیں کیا جاسکتا ہو، مثلاً مریض جس کو کسی خاص رنگ سے الرجی ہو اور اسے اس کے بغیر دوا بنانے کی ضرورت ہو، یا ایک بوڑھا مریض یا بچہ جو دوا حلق سے نگل نہیں سکتا ہو اور اسے محلول خوراک کی شکل میں دوا کی ضرورت ہو۔ ایسی صورتحال میں اسپتالوں، کلینکس اور دیگر صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات میں موجود فارمیسیز کے فارماسسٹ مریضوں کو یہ ادویہ فراہم کرتے ہیں۔ یہ ایک بہت اہم معاملہ ہے اور اکثر اوقات اس میں لالچ مریضوں کے مفادات پر غالب آجاتی ہے۔
بہرکیف فارمیسی میں کمپاؤنڈنگ کی خدمات مریض کی ایک کلیدی ضرورت کو پورا کرسکتی ہے۔ تاہم، کچھ فارمیسیز اور کمپاؤنڈر ایسی سرگرمیوں میں مشغول ہوتے رہے ہیں جو مریضوں کی جان کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں اور/ یا ادویہ کی منظوری کے عمل کو سنگین نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ پیشہ ور لوگ غلط اور گمراہ کن دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ کمپاؤنڈڈ ادویہ محفوظ اور موثر ہیں۔ غلط تاثر دیتے ہیں کہ یہ منظورشدہ اور محفوظ ادویہ ہیں۔ جبکہ انھیں ریگولیٹری اتھارٹی نے نہ جانچا ہوتا ہے اور نہ ہی پرکھا۔
اکتوبر 2012 میں امریکا کو حالیہ تاریخ میں آلودہ مرکب ادویہ سے منسلک سب سے سنگین جان لیوا وبا کا سامنا کرنا پڑا، جہاں میساچیوسٹس کی ایک فارمیسی میں تیار کیے گئے انجکشن ادویات میں فنگس (پھپھوند سمجھ لیجیے) کی آلودگی شامل تھی۔ اور یہ آلودہ دوائیں مریضوں کی ریڑھ کی ہڈی اور جوڑوں میں داخل کی گئیں۔ 20 امریکی ریاستوں میں تقریباً 14 ہزار مریضوں کو یہ دوا دی گئی، 750 سے زیادہ لوگوں کو فنگل انفیکشن رپورٹ ہوا اور 60 سے زیادہ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ کوئی معمولی یا الگ تھلگ واقعہ نہیں تھا۔ چونکہ اسپتال کی فارمیسی میں دانستاً بداحتیاطی یا نادانستہ لاعلمی کا سنگین خمیازہ مریض بھگتے ہیں، اس لیے مریضوں کی دی گئی رضاکارانہ معلومات و شکایات پر توجہ کے ساتھ ساتھ فارمیسی میں ادویہ کی تیاری پر نظر رکھنا ناگزیر ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں بھی اچھے کام کو بھی برے طریقے سے سر انجام دینے کی وجہ کچھ نہیں بس لالچ اور استحصال ہے۔ اسپتال میں تیار کی جانے والی ادویہ کی قیمت پر حکومتی نگرانی غیر موثر ہونے کی وجہ سے افراتفری میں لوٹ مار بے قابو ہی رہتا ہے۔ لیبل کے برخلاف دوا کا مریض پر استعمال ہو یا دوا سے دوسری ادویہ یا خوراک بنائی جائے، دونوں عمل یقینی طور پر خطرات کو دعوت دیتے ہیں۔ معلومات اور ذمے داری کے بغیر ڈاکٹرز کا غیر منظورشدہ بیماری یا خوراک میں ادویہ کا تجویز کرنا اور فارماسسٹ کا لیبل کی ہدایات کے برخلاف ازخود دوا بنانا سنگین غیر ذمے داری ہے۔
یاد رکھیے! فارمیسی کی سہولیات کے موثر انسپکشن کے بغیر اس طرح بنائی گئی ادویہ کو محفوظ سمجھنا کبوتر کی طرح آنکھ بند کرنے کے مترادف ہے۔ انسپکشن کرنے کےلیے مطلوبہ علم، اہلیت اور ہنر درکار ہوتا ہے۔ جس کےلیے خاصا پڑھنا، جاننا اور سمجھنا پڑتا ہے۔ فارمیسی کی سیر اور فارمیسی کا معائنہ دو یکسر مختلف باتیں ہیں۔ لاچار مریضوں کا درد محسوس کیجیے، خاص طور پر ان کا جن کو آپ جانتے بھی نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔