چادر چرانے کا ڈھونگ
جب سب کچھ ہی پرانا اورباربار کادہرایا ہواہے توہم کوئی نئی بات کہاں سے لائیں
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان لوگوں کو کیا کہا جائے، احمق یا بلھکڑ جو ایک مرتبہ الیکشن کے لیے یوں شورمچا رہے ہیں جیسے الیکشن ہوتے ہی وہ اس پیراڈائزلاسٹ میں پہنچ جائیں گے جس کے لیے چھتہرسال سے دوزخ بھگت رہے ہیں۔
ہم اکثر امیر حمزہ شینواری کا ایک شعردہراتے رہتے ہیں لیکن جن کی یادداشت فلم گجنی کے عامرخان سے بھی کم ہو ان سے کسی بات کا یاد رکھنے کی توقع کرنا ایسا ہے جسے کسی لیڈرسے آدمی ہونے کی توقع کرنا ۔ شعرہے۔
تاچہ نن حمزہ تہ پہ وعدے پسے وعدہ ورکڑہ
نو سہ نوی خبرہ دے پیدا کڑہ پہ زڑہ کے
یعنی تم نے آج یہ جوحمزہ کو وعدے کے اوپر ایک اور وعدہ دیا ہے تو کونسی بات کی ہے تم نے پرانی بات میں ۔
الیکشن ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے لیکن اتنا اتاؤلاپن ہم پہلی بار دیکھ رہے ہیں جہاں کہیں کوئی جسم ہے، اس جسم میں ایک سر ہے اوراس سر میں ایک منہ ہے اور اس منہ کے ہونٹ ہیں اور ان ہونٹوں کے اندر ایک زبان ہے ،اس سے بس ایک ہی آواز نکل رہی ہے ۔
الیکشن ،الیکشن، الیکشن حالاںکہ سب کو پتہ ہے کہ اس ملک میں الیکشن کی کوئی ضرورت نہیں جہاں سے پہلے ہی سے سلیکشن ہوچکا ہے کہ پندرہ فی صد سلیکٹ لوگ ہی باری باری کا یہ کھیل کھیلیں گے اور پچاسی فی صد مسترد شدہ کالانعام ہی دیکھیں گے اوربھگتیں گے، ایسی حالت میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ
دل کے ماروں کی خوش فہمی جاگ رہے ہیں پہروں سے
جسے شب کٹ جائے گی جیسے تم آجاؤ گے
جب ہزار بارکے تجربے سے ثابت ہوچکا ہے کہ دل صرف شورمچاتا ہے اورچیرنے پر اس سے ایک قطرہ خوں بھی نہیں نکلتا تو خواہ مخواہ جان تھکانے سے فائدہ ۔ الیکشن بھی صرف شورہی شورہوتے ہیں
بہت شورسنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا
ہربارہم الیکشن کے بند گوبھی کے پتے ہٹاتے ہیں کہ اندر سے کچھ نکلے گا لیکن ہربار پتے ختم ہوجاتے ہیں مگر کچھ بھی اندر سے نہیں نکلتا لیکن خوش فہموں کی خوش فہمیاں کہ دوسرا گوبھی اٹھاکر پتے ہٹانے لگتے ہیں ۔
سوبار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دل کی وہی ویرانی دل کی وہی تنہائی
وہ ایک داناشخص نے ایک نادان سے کہا جو کچھ بھی نہیں کرتا تھا اور یہاں وہاں سے روکھی سوکھی پیدا کرکے گزارہ کرتا تھا کہ دیکھو اس طرح بیکار پھر رہے ہو تو کچھ کام کرو۔
نادان نے کہا ٹھیک ہے کام کروں گا تو پھر ؟ دانا نے کہا ، پھر تم بہت پیسہ کما لوگے ؟ نادان نے کہا، چلو ٹھیک ہے پیسہ کمالوں گا تو پھر؟دانا نے کہا پھر تم امیرکبیر ہوجاؤگے ، نادان بولا، امیرکبیر ہوجاؤں گا تو پھر ؟ دانا نے کہا پھر بنگلہ ہوگا نوکر چاکر ہوں گے اورتم آرام سے رہوگے ، نادان نے کہا، آرام سے تو میں اب بھی ہوں تو پھر خواہ مخواہ جان تھکانے سے فائدہ ؟
دراصل یہ معاملہ کچھ ویسا ہی ہے جیسا کسی شخص نے ملاجی کے پاس آکر بولا کہ میرے کنوئیں میں کتا گرگیا ہے، کتنے ڈول پانی نکالنے پر کنواں صاف ہوجائے گا ، ملاجی نے کہا دوسو ڈول۔ وہ شخص چلاگیا ۔
شام کے قریب وہ پھر آیا، ملاجی سے کہا کہ دوسوڈول پانی کے نکال لیے، اب تو کنواں صاف ہوگیاہے نا۔ ملاجی نے کہاہاں صاف ہوگیا، لیکن جاتے جاتے اس شخص نے پوچھا کہ استاد جی اس کتے کا کیا کروں؟ ملاجی نے پوچھا، کونسے کتے کا؟ وہ شخص بولا وہی جو کنوئیں میں پڑا ہے۔
آپ شاید سوچنے لگے ہوں کہ ہم پرانے قصے سنارہے ہیں تو کیاکریں ۔ جب سب کچھ ہی پرانا اورباربار کادہرایا ہواہے توہم کوئی نئی بات کہاں سے لائیں ، وہی پرانے حربے اور ہتھکنڈے وہی پرانے انتخابات، وہی پرانے خاندان، وہی پرانے چہرے، وہی پرانے جیسا آغاز اورپرانے جیسا انجام۔ وہی زندہ باد اور وہی مردہ باد ۔ وہی ''فردوس گم گشتہ'' کی خوش خبریاں ۔ان چھہترسالوں میں ایسا کیا ہے جو پہلے نہ ہوا ہو جو پہلے نہ کہاگیا ہو، جو پہلے نہ سنا گیا ہو ، جو پہلے نہ ہوا ہو، پرانے پہاڑے اور پرانے رٹے سن سن کر ہمارے تو کان پک گئے ۔
ہم باغ تمنا میں دن اپنے گزارآئے
لیکن نہ بہار آئی شاید نہ بہار آئے
ایسا کوئی جادو گر ابھی تک پیدا نہیں ہوا ہے جو آئے اور ان پندرہ فی صد اشرافوں کو ڈنڈا پھیر کر ملک سے باہرکسی سمندر میں پھینک دے اورجب تک یہ ''کتا'' کنوئیں کی تہہ میں پڑا ہے تو کنواں کیسے صاف ہوگا۔انتخابات کامطلب اس کے سوا اورکیاہے کہ دسترخوان پر نئے بھوکوں کو لاکر بٹھایاجائے۔
عالم غبار وحشت مجنوں ہے سربسر
تب تک خیال طرہ لیلیٰ کرے کوئی
وہی پرانا پانی ہے جو ''بلویا ''جارہاہے نہ کوئی مکھن نکلا ہے نہ نکلے گا ، وہی بڑھیا ہے جو ہانڈی میں پانی پکارہی ہے اوربچوں کو بہلارہی ہے ہمارا نہیں خیال کہ اس ملک میں کوئی ایک بھی ایسا فرد ہو جسے یہ پتہ نہ ہو کہ الیکشن سے کیاہوتاہے ۔
سب سمجھتے ہیں اورسب چپ ہیں
کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں
یہ انتخابات بھی ہوجائیں گے یہ شورمچاتا ہوا ''دل'' بھی چیر دیاجائے گا اورایک بھی قطرہ خون نہیں نکلے گا ، خود مختار مہنگائی ، بے مہار بیروزگاری ، کرپشن اورکھیل تماشا جاری رہے گا ، ہاں مگر مہمان کی چادر چرائی جائے گی۔
ہم اکثر امیر حمزہ شینواری کا ایک شعردہراتے رہتے ہیں لیکن جن کی یادداشت فلم گجنی کے عامرخان سے بھی کم ہو ان سے کسی بات کا یاد رکھنے کی توقع کرنا ایسا ہے جسے کسی لیڈرسے آدمی ہونے کی توقع کرنا ۔ شعرہے۔
تاچہ نن حمزہ تہ پہ وعدے پسے وعدہ ورکڑہ
نو سہ نوی خبرہ دے پیدا کڑہ پہ زڑہ کے
یعنی تم نے آج یہ جوحمزہ کو وعدے کے اوپر ایک اور وعدہ دیا ہے تو کونسی بات کی ہے تم نے پرانی بات میں ۔
الیکشن ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے لیکن اتنا اتاؤلاپن ہم پہلی بار دیکھ رہے ہیں جہاں کہیں کوئی جسم ہے، اس جسم میں ایک سر ہے اوراس سر میں ایک منہ ہے اور اس منہ کے ہونٹ ہیں اور ان ہونٹوں کے اندر ایک زبان ہے ،اس سے بس ایک ہی آواز نکل رہی ہے ۔
الیکشن ،الیکشن، الیکشن حالاںکہ سب کو پتہ ہے کہ اس ملک میں الیکشن کی کوئی ضرورت نہیں جہاں سے پہلے ہی سے سلیکشن ہوچکا ہے کہ پندرہ فی صد سلیکٹ لوگ ہی باری باری کا یہ کھیل کھیلیں گے اور پچاسی فی صد مسترد شدہ کالانعام ہی دیکھیں گے اوربھگتیں گے، ایسی حالت میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ
دل کے ماروں کی خوش فہمی جاگ رہے ہیں پہروں سے
جسے شب کٹ جائے گی جیسے تم آجاؤ گے
جب ہزار بارکے تجربے سے ثابت ہوچکا ہے کہ دل صرف شورمچاتا ہے اورچیرنے پر اس سے ایک قطرہ خوں بھی نہیں نکلتا تو خواہ مخواہ جان تھکانے سے فائدہ ۔ الیکشن بھی صرف شورہی شورہوتے ہیں
بہت شورسنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا
ہربارہم الیکشن کے بند گوبھی کے پتے ہٹاتے ہیں کہ اندر سے کچھ نکلے گا لیکن ہربار پتے ختم ہوجاتے ہیں مگر کچھ بھی اندر سے نہیں نکلتا لیکن خوش فہموں کی خوش فہمیاں کہ دوسرا گوبھی اٹھاکر پتے ہٹانے لگتے ہیں ۔
سوبار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دل کی وہی ویرانی دل کی وہی تنہائی
وہ ایک داناشخص نے ایک نادان سے کہا جو کچھ بھی نہیں کرتا تھا اور یہاں وہاں سے روکھی سوکھی پیدا کرکے گزارہ کرتا تھا کہ دیکھو اس طرح بیکار پھر رہے ہو تو کچھ کام کرو۔
نادان نے کہا ٹھیک ہے کام کروں گا تو پھر ؟ دانا نے کہا ، پھر تم بہت پیسہ کما لوگے ؟ نادان نے کہا، چلو ٹھیک ہے پیسہ کمالوں گا تو پھر؟دانا نے کہا پھر تم امیرکبیر ہوجاؤگے ، نادان بولا، امیرکبیر ہوجاؤں گا تو پھر ؟ دانا نے کہا پھر بنگلہ ہوگا نوکر چاکر ہوں گے اورتم آرام سے رہوگے ، نادان نے کہا، آرام سے تو میں اب بھی ہوں تو پھر خواہ مخواہ جان تھکانے سے فائدہ ؟
دراصل یہ معاملہ کچھ ویسا ہی ہے جیسا کسی شخص نے ملاجی کے پاس آکر بولا کہ میرے کنوئیں میں کتا گرگیا ہے، کتنے ڈول پانی نکالنے پر کنواں صاف ہوجائے گا ، ملاجی نے کہا دوسو ڈول۔ وہ شخص چلاگیا ۔
شام کے قریب وہ پھر آیا، ملاجی سے کہا کہ دوسوڈول پانی کے نکال لیے، اب تو کنواں صاف ہوگیاہے نا۔ ملاجی نے کہاہاں صاف ہوگیا، لیکن جاتے جاتے اس شخص نے پوچھا کہ استاد جی اس کتے کا کیا کروں؟ ملاجی نے پوچھا، کونسے کتے کا؟ وہ شخص بولا وہی جو کنوئیں میں پڑا ہے۔
آپ شاید سوچنے لگے ہوں کہ ہم پرانے قصے سنارہے ہیں تو کیاکریں ۔ جب سب کچھ ہی پرانا اورباربار کادہرایا ہواہے توہم کوئی نئی بات کہاں سے لائیں ، وہی پرانے حربے اور ہتھکنڈے وہی پرانے انتخابات، وہی پرانے خاندان، وہی پرانے چہرے، وہی پرانے جیسا آغاز اورپرانے جیسا انجام۔ وہی زندہ باد اور وہی مردہ باد ۔ وہی ''فردوس گم گشتہ'' کی خوش خبریاں ۔ان چھہترسالوں میں ایسا کیا ہے جو پہلے نہ ہوا ہو جو پہلے نہ کہاگیا ہو، جو پہلے نہ سنا گیا ہو ، جو پہلے نہ ہوا ہو، پرانے پہاڑے اور پرانے رٹے سن سن کر ہمارے تو کان پک گئے ۔
ہم باغ تمنا میں دن اپنے گزارآئے
لیکن نہ بہار آئی شاید نہ بہار آئے
ایسا کوئی جادو گر ابھی تک پیدا نہیں ہوا ہے جو آئے اور ان پندرہ فی صد اشرافوں کو ڈنڈا پھیر کر ملک سے باہرکسی سمندر میں پھینک دے اورجب تک یہ ''کتا'' کنوئیں کی تہہ میں پڑا ہے تو کنواں کیسے صاف ہوگا۔انتخابات کامطلب اس کے سوا اورکیاہے کہ دسترخوان پر نئے بھوکوں کو لاکر بٹھایاجائے۔
عالم غبار وحشت مجنوں ہے سربسر
تب تک خیال طرہ لیلیٰ کرے کوئی
وہی پرانا پانی ہے جو ''بلویا ''جارہاہے نہ کوئی مکھن نکلا ہے نہ نکلے گا ، وہی بڑھیا ہے جو ہانڈی میں پانی پکارہی ہے اوربچوں کو بہلارہی ہے ہمارا نہیں خیال کہ اس ملک میں کوئی ایک بھی ایسا فرد ہو جسے یہ پتہ نہ ہو کہ الیکشن سے کیاہوتاہے ۔
سب سمجھتے ہیں اورسب چپ ہیں
کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں
یہ انتخابات بھی ہوجائیں گے یہ شورمچاتا ہوا ''دل'' بھی چیر دیاجائے گا اورایک بھی قطرہ خون نہیں نکلے گا ، خود مختار مہنگائی ، بے مہار بیروزگاری ، کرپشن اورکھیل تماشا جاری رہے گا ، ہاں مگر مہمان کی چادر چرائی جائے گی۔