تطہیر قلوب کرنے والے رسولِ کریم ﷺ
جن کی بعثت و اعانت کے اقرار پر ذاتِ باری تعالیٰ خود شاہد ہے
مفہوم: ''اور یاد کرو جب اﷲ تعالیٰ نے انبیاء سے یہ عہد لیا تھا کہ جس وقت میں تم کو کتاب و حکمت دوں، پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول جو تصدیق کرنے والا ہو (کتابوں) کی جو تمہارے پاس ہیں تو تم ضرور ضرور ایمان لانا اس پر، اور ضرور ضرور مدد کرنا اس کی، (اس کے بعد) فرمایا: کیا تم نے اقرار کرلیا اور اٹھا لیا تم نے اس پر میرا بھاری ذمہ؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اقرار کیا۔ (اﷲ نے) فرمایا: تو گواہ رہنا اور میں (بھی) تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔'' (سورۂ آل عمران)
ربِ کائنات کہ جس کے قبضۂ قدرت میں ہر ذی نفس کی جان ہے صرف ''کُن'' فرما دے تو عالم تخلیق پاجاتے ہیں۔ جس کی زبانِ حق جنبش فرما دے تو وہ سرسری سا اشارہ دین و شریعت کہلانے لگے۔ جو راہ وہ سمجھائے وہی حق و صراطِ مستقیم بن جائے، باقی سب آڑھے، ترچھے، گم راہی کے راستے کہلائیں۔
وہی زبان حق جب لوگوں سے گواہی و اقرار مانگے تو وہ کیسا معاملہ ہُوا اور اگر یہی چُنے ہوئے اپنے عالی مرتبت صفِ پیغمبراں سے ہو وہ کتنا اعلیٰ و بھاری اقرار ہے۔ اور پھر جس کے لیے یہ اقرار اور اس پر استقامت مانگی جارہی ہے اس کی شان بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے۔ یقیناً جس کی اطاعت و نصرت کے لیے پیغمبروںؑ سے اقرار مانگا جارہا ہو۔ وہ ذی وقار فضیلت و رتبے میں ان سے بھی اعلیٰ تر ہے۔ وہ رب جو بے نیاز ہے۔
جس کی ربوبیت و معبودیت کو کسی کی عبادت سے اقرار توحید، تسلیم و رضا سے کوئی فرق نہیں پڑتا نہ کوئی تقویت ملتی ہے۔ اسی رب نے یہ بزم کونین سجائی انسانوں، جنات اور دیگر مخلوق کو پیدا کیا۔ انسانوں کو شرف و بزرگی عطا کی۔ ان عام لوگوں کی سماجی، معاشرتی و دینی فلاح کے لیے انہی میں سے تقویٰ والے دلوں کو چھانٹ کر پیغمبری و رسالت عطا کی۔
وہ ذی شان کیسا ہے کہ جس کے لیے ان تقویٰ والے چنیدہ دلوں سے، پاکیزہ روحوں سے عالم ارواح ہی میں بیعت و اقرار مطلوب ہے اور بات صرف ان پر ایمان لانے کی نہیں، ضرورت پڑنے پر ان کی مدد و نصرت کی بھی ہے۔ اس پر دوبارہ سوال کہ کیا یہ بھاری ذمے اٹھالیا۔ پھر جماعت کی گواہی لینا اور پھر اس سارے معاملے پر خود گواہ بن جانا، ربِ کائنات جسے بھاری ذمہ قرار دے جس پر انبیاؑ کو شاہد بنادے اور ان پر خود شاہد بن جائے اس کی اہمیت پوری طرح واضح اور راسخ ہے۔
مومن کے دل، امتِ محمدی ﷺ کا ہر اِک فرد خوش نصیب و بلند بخت ہے کہ جس رسولؐ کے امتی ہونے کی خواہش بڑے بڑے جلیل القدر انبیائؑ کے دلوں میں مہکتی رہی، ربِ رحیم نے انہیں اس مرتبے سے سرفراز فرمایا۔ مگر مرتبے یوں ہی نہیں سونپ دیے جاتے۔ مرتبہ برقرار رکھنے کے لیے بہت سے تقاضے پورے کرنے پڑتے ہیں۔ محبوب ربانی ﷺ کی امت سے ہونا بلاشبہ اک شرف ہے لیکن یہ شرف متقاضی کن باتوں کا ہے؟
چیدہ چیدہ سے تقاضے خود ذات باری تعالیٰ کے مطابق، مفہوم :
اطاعت: ''اے ایمان والو! اطاعت کرو اﷲ تعالیٰ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور نہ ضایع کرو اپنے عملوں کو۔'' (سورۂ محمد)
''اور اگر تم اطاعت کروگے اﷲ اور اس کے رسولؐ کی تو وہ ذرا کمی نہیں کرے گا تمہارے اعمال میں، بے شک اﷲ غفور و رحیم ہے۔'' (سورۃ الحجرات)
اطاعت و فرماں برداری کا صلہ کیا ملے گا ؟
''اور جو شخص فرماں برداری کرے گا اﷲ اور اس کے رسولؐ کی، داخل فرمائے گا اسے اﷲ تعالیٰ باغوں میں، بہتی ہوں گی جن کے نیچے نہریں، ہمیشہ رہیں گے وہ جن میں، یہی ہے بڑی کام یابی۔'' (سورۃ النسائ)
''اے ایمان والو! آگے نہ بڑھا کرو اﷲ اور اس کے رسولؐ سے۔ اور ڈرتے رہا کرو اﷲ تعالیٰ سے، بے شک اﷲ تعالیٰ سب کچھ سننے والا، جاننے والا۔'' (سورۃ الحجرات)
امورِ حیات میں سر تسلیم خم کرنا:
''اور رسولؐ جو تمہیں عطا کریں وہ لے لو اور جس سے تمہیں روکیں اس سے رک جاؤ۔'' (سورۃ الحشر)
''پس (اے مصطفٰےؐ) تیرے رب کی قسم یہ لوگ مومن نہیں ہوسکتے۔ یہاں تک کہ حاکم بنائیں۔ آپ کو ہر اس جھگڑے میں جو پھوٹ پڑا ان کے درمیان، پھر نہ پائیں اپنے نفسوں میں تنگی اس سے جو فیصلہ آپؐ نے کیا، اور تسلیم کرلیں دل و جان سے۔'' (سورۃ النسائ)
ایمان کے لیے اور ایمان کی بقا و دوام کے لیے اطاعتِ خدا اور اطاعتِ رسولؐ کی شرط کیوں رکھی گئی اس لیے کہ وہ حبیب رب کریمؐ ہونے کے ساتھ آدمی کو انسانیت کا درس دینے والے ہیں۔ وہ ہادیٔ کاملؐ جو گم راہوں کے معاصی دلوں کے زنگ کو دور کرکے طہارت کے پانی سے دھوتے ہیں۔ اس احسان کا تذکرہ رب تعالیٰ نے بارہا فرمایا، مفہوم: ''جیسا کہ بھیجا ہم نے تمہارے پاس رسولؐ، تم میں سے، پڑھ کر سناتا ہے تمہیں ہماری آیتیں اور پاک کرتا ہے تمہیں، اور سکھاتا ہے تمہیں کتاب اور حکمت، اور تعلیم دیتا ہے تمہیں ایسی باتوں کی جنہیں تم جانتے ہی نہیں تھے۔'' (سورۃ البقرہ)
''وہی (اﷲ) ہے جس نے مبعوث فرمایا اُمّیوں میں ایک رسول انہی میں سے، جو پڑھ کر سناتا ہے انہیں اس کی آیتیں، اور پاک کرتا ہے ان (کے دلوں) کو اور سکھاتا ہے انہیں کتاب اور حکمت، اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی گم راہی میں تھے۔'' (سورۃ الجمعہ)
آیاتِ قرآن سے تزکیہ و تطہیر قلوب کرنے والے نبی کے مبعوث ہونے کی دعا دراصل رسول اکرم ﷺ کے جدِامجد پیغمبر ذی مرتبت، جناب ابراہیمؑ خلیل اﷲ نے فرمائی جسے رب تعالیٰ نے شرف باریابی و قبولیت بخشا۔ آپؑ نے عرض کیا تھا: اے ہمارے رب! بھیج ان میں ایک برگزیدہ رسول انہی میں سے، تاکہ پڑھ کر سنائے انہیں تیری آیتیں اور سکھائے انہیں یہ کتاب اور دانائی کی باتیں اور پاک صاف کردے انہیں۔ بے شک! تُو ہی بہت زبردست اور حکمت والا ہے۔'' (سورۃ البقرہ)
عظیم رب کی بارگاہِ مقدس ہو اور اس پاک بارگاہ میں پہنچنے والے دعائیہ الفاظ حلیم و بردبار نبیؑ کے ہوں تو رب اپنے خلیلؑ کی دعا کو یوں قبولیت دیتا ہے کہ انہی کی نسل سے ایک عظیم الشان سردارِِانبیاء ﷺ کو اپنے پیارے حبیبؐ کو تاریکیوں میں ڈوبتے ڈولتے دلوں کے لیے وسیلۂ طہارت و نجات بناکر بھیجتا ہے۔
ربِ کائنات کہ جس کے قبضۂ قدرت میں ہر ذی نفس کی جان ہے صرف ''کُن'' فرما دے تو عالم تخلیق پاجاتے ہیں۔ جس کی زبانِ حق جنبش فرما دے تو وہ سرسری سا اشارہ دین و شریعت کہلانے لگے۔ جو راہ وہ سمجھائے وہی حق و صراطِ مستقیم بن جائے، باقی سب آڑھے، ترچھے، گم راہی کے راستے کہلائیں۔
وہی زبان حق جب لوگوں سے گواہی و اقرار مانگے تو وہ کیسا معاملہ ہُوا اور اگر یہی چُنے ہوئے اپنے عالی مرتبت صفِ پیغمبراں سے ہو وہ کتنا اعلیٰ و بھاری اقرار ہے۔ اور پھر جس کے لیے یہ اقرار اور اس پر استقامت مانگی جارہی ہے اس کی شان بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے۔ یقیناً جس کی اطاعت و نصرت کے لیے پیغمبروںؑ سے اقرار مانگا جارہا ہو۔ وہ ذی وقار فضیلت و رتبے میں ان سے بھی اعلیٰ تر ہے۔ وہ رب جو بے نیاز ہے۔
جس کی ربوبیت و معبودیت کو کسی کی عبادت سے اقرار توحید، تسلیم و رضا سے کوئی فرق نہیں پڑتا نہ کوئی تقویت ملتی ہے۔ اسی رب نے یہ بزم کونین سجائی انسانوں، جنات اور دیگر مخلوق کو پیدا کیا۔ انسانوں کو شرف و بزرگی عطا کی۔ ان عام لوگوں کی سماجی، معاشرتی و دینی فلاح کے لیے انہی میں سے تقویٰ والے دلوں کو چھانٹ کر پیغمبری و رسالت عطا کی۔
وہ ذی شان کیسا ہے کہ جس کے لیے ان تقویٰ والے چنیدہ دلوں سے، پاکیزہ روحوں سے عالم ارواح ہی میں بیعت و اقرار مطلوب ہے اور بات صرف ان پر ایمان لانے کی نہیں، ضرورت پڑنے پر ان کی مدد و نصرت کی بھی ہے۔ اس پر دوبارہ سوال کہ کیا یہ بھاری ذمے اٹھالیا۔ پھر جماعت کی گواہی لینا اور پھر اس سارے معاملے پر خود گواہ بن جانا، ربِ کائنات جسے بھاری ذمہ قرار دے جس پر انبیاؑ کو شاہد بنادے اور ان پر خود شاہد بن جائے اس کی اہمیت پوری طرح واضح اور راسخ ہے۔
مومن کے دل، امتِ محمدی ﷺ کا ہر اِک فرد خوش نصیب و بلند بخت ہے کہ جس رسولؐ کے امتی ہونے کی خواہش بڑے بڑے جلیل القدر انبیائؑ کے دلوں میں مہکتی رہی، ربِ رحیم نے انہیں اس مرتبے سے سرفراز فرمایا۔ مگر مرتبے یوں ہی نہیں سونپ دیے جاتے۔ مرتبہ برقرار رکھنے کے لیے بہت سے تقاضے پورے کرنے پڑتے ہیں۔ محبوب ربانی ﷺ کی امت سے ہونا بلاشبہ اک شرف ہے لیکن یہ شرف متقاضی کن باتوں کا ہے؟
چیدہ چیدہ سے تقاضے خود ذات باری تعالیٰ کے مطابق، مفہوم :
اطاعت: ''اے ایمان والو! اطاعت کرو اﷲ تعالیٰ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور نہ ضایع کرو اپنے عملوں کو۔'' (سورۂ محمد)
''اور اگر تم اطاعت کروگے اﷲ اور اس کے رسولؐ کی تو وہ ذرا کمی نہیں کرے گا تمہارے اعمال میں، بے شک اﷲ غفور و رحیم ہے۔'' (سورۃ الحجرات)
اطاعت و فرماں برداری کا صلہ کیا ملے گا ؟
''اور جو شخص فرماں برداری کرے گا اﷲ اور اس کے رسولؐ کی، داخل فرمائے گا اسے اﷲ تعالیٰ باغوں میں، بہتی ہوں گی جن کے نیچے نہریں، ہمیشہ رہیں گے وہ جن میں، یہی ہے بڑی کام یابی۔'' (سورۃ النسائ)
''اے ایمان والو! آگے نہ بڑھا کرو اﷲ اور اس کے رسولؐ سے۔ اور ڈرتے رہا کرو اﷲ تعالیٰ سے، بے شک اﷲ تعالیٰ سب کچھ سننے والا، جاننے والا۔'' (سورۃ الحجرات)
امورِ حیات میں سر تسلیم خم کرنا:
''اور رسولؐ جو تمہیں عطا کریں وہ لے لو اور جس سے تمہیں روکیں اس سے رک جاؤ۔'' (سورۃ الحشر)
''پس (اے مصطفٰےؐ) تیرے رب کی قسم یہ لوگ مومن نہیں ہوسکتے۔ یہاں تک کہ حاکم بنائیں۔ آپ کو ہر اس جھگڑے میں جو پھوٹ پڑا ان کے درمیان، پھر نہ پائیں اپنے نفسوں میں تنگی اس سے جو فیصلہ آپؐ نے کیا، اور تسلیم کرلیں دل و جان سے۔'' (سورۃ النسائ)
ایمان کے لیے اور ایمان کی بقا و دوام کے لیے اطاعتِ خدا اور اطاعتِ رسولؐ کی شرط کیوں رکھی گئی اس لیے کہ وہ حبیب رب کریمؐ ہونے کے ساتھ آدمی کو انسانیت کا درس دینے والے ہیں۔ وہ ہادیٔ کاملؐ جو گم راہوں کے معاصی دلوں کے زنگ کو دور کرکے طہارت کے پانی سے دھوتے ہیں۔ اس احسان کا تذکرہ رب تعالیٰ نے بارہا فرمایا، مفہوم: ''جیسا کہ بھیجا ہم نے تمہارے پاس رسولؐ، تم میں سے، پڑھ کر سناتا ہے تمہیں ہماری آیتیں اور پاک کرتا ہے تمہیں، اور سکھاتا ہے تمہیں کتاب اور حکمت، اور تعلیم دیتا ہے تمہیں ایسی باتوں کی جنہیں تم جانتے ہی نہیں تھے۔'' (سورۃ البقرہ)
''وہی (اﷲ) ہے جس نے مبعوث فرمایا اُمّیوں میں ایک رسول انہی میں سے، جو پڑھ کر سناتا ہے انہیں اس کی آیتیں، اور پاک کرتا ہے ان (کے دلوں) کو اور سکھاتا ہے انہیں کتاب اور حکمت، اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی گم راہی میں تھے۔'' (سورۃ الجمعہ)
آیاتِ قرآن سے تزکیہ و تطہیر قلوب کرنے والے نبی کے مبعوث ہونے کی دعا دراصل رسول اکرم ﷺ کے جدِامجد پیغمبر ذی مرتبت، جناب ابراہیمؑ خلیل اﷲ نے فرمائی جسے رب تعالیٰ نے شرف باریابی و قبولیت بخشا۔ آپؑ نے عرض کیا تھا: اے ہمارے رب! بھیج ان میں ایک برگزیدہ رسول انہی میں سے، تاکہ پڑھ کر سنائے انہیں تیری آیتیں اور سکھائے انہیں یہ کتاب اور دانائی کی باتیں اور پاک صاف کردے انہیں۔ بے شک! تُو ہی بہت زبردست اور حکمت والا ہے۔'' (سورۃ البقرہ)
عظیم رب کی بارگاہِ مقدس ہو اور اس پاک بارگاہ میں پہنچنے والے دعائیہ الفاظ حلیم و بردبار نبیؑ کے ہوں تو رب اپنے خلیلؑ کی دعا کو یوں قبولیت دیتا ہے کہ انہی کی نسل سے ایک عظیم الشان سردارِِانبیاء ﷺ کو اپنے پیارے حبیبؐ کو تاریکیوں میں ڈوبتے ڈولتے دلوں کے لیے وسیلۂ طہارت و نجات بناکر بھیجتا ہے۔