بریانی بہت کھا لی اب پرفارم کریں
بظاہر پاکستانی ٹیم اچھی فارم میں نہیں لگتی لیکن مجھے امید ہے ورلڈکپ میں الگ ہی کارکردگی سامنے آئے گی
''ورلڈکپ میں بابر اعظم کو ہی قیادت کرنی چاہیے، آپ میں سے کون اس سے متفق ہے'' انضمام الحق کی یہ بات سن کر میٹنگ میں موجود تمام ہی افراد نے ہاں میں جواب دیا، اس پر چیف سلیکٹر نے کہا کہ ''ٹھیک ہے اب میں اسکواڈ بھی کپتان کی ہی کی مرضی کا منتخب کروں گا'' پھر انھوں نے ایسا ہی کیا، نام نہاد کرکٹ کمیٹی کی تمام سفارشات مسترد ہو گئیں۔
محمد حفیظ پہلے ہی کمیٹی میں شمولیت پر خوش نہیں تھے انھوں نے استعفیٰ دے دیا، مصباح الحق بھی تقریبا الگ ہو ہی گئے ہیں،انھوں نے اہم فیصلوں میں اپنا کردار نہ ہونے کا برملا اعتراف کر کے خود کو سائیڈ پر کر لیا، یہ دونوں چیئرمین مینجمنٹ کمیٹی ذکا اشرف کی دل سے عزت کرتے ہیں اور انہی کے کہنے پر کرکٹ کمیٹی میں آئے، معاوضہ اس لیے نہیں لیا کہ پھر پابند ہو جاتے کہ کوئی اور کام نہیں کر سکتے تھے۔
مصباح امریکا اور کراچی میں کرکٹ کھیلتے رہے، اب وہ اور حفیظ ٹی وی پر بطور ماہر نظر آ رہے ہیں، جس طرح ہر شعبے کے افراد کاکوئی سیزن ہوتا ہے جس میں انھیں خوب کمائی کا موقع ملتا ہے ویسے ہی ورلڈکپ جیسے بڑے ایونٹس میں کرکٹرز کی بھی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتی ہیں، اتنے زیادہ ٹی وی چینلز آ گئے ہیں کہ چند میچ کھیلنے والے سابق کرکٹر کو بھی کوئی نہ کوئی بلا لیتا ہے سابق اسٹارز کو تو منہ مانگا معاوضہ مل جاتا ہے۔
اب تو بزرگوں کی بھی لیگز ہوتی ہیں اسی لیے بورڈ کو چیف سلیکٹر کی تلاش میں مشکلات کا سامنا تھا،ذکا اشرف خود اعتراف کر چکے کہ 50 لاکھ روپے تک کا مطالبہ کیا گیا، انضمام بھی 25 لاکھ روپے ماہانہ پر آئے،مگر یہ سکون والا کام ہے، ایک ٹیم منتخب کرو جس کے 90 فیصد کھلاڑی سب جانتے ہوں گے۔
اس کے بعد کئی ماہ آرام، مگر تنخواہ و دیگر مراعات ملتی رہتی ہیں، انضمام نے آتے ہی یہ فارمولہ اپنایا کہ سیٹ پکی کرنی ہے تو کرکٹرز سے تعلقات اچھے رکھو، بابر اعظم سمیت کئی سینئرز اور چیف سلیکٹر کے ایجنٹ ایک ہی ہیں،انھوں نے پہلے سینٹرل کنٹریکٹ میں کھلاڑیوں کے مطالبات منوائے اور پھر اسکواڈ بھی کپتان کی مرضی کا منتخب کیا۔
یہ اچھی بات ہے کیونکہ ٹیم کو میدان میں کھلانا کپتان کا ہی کام ہوتا ہے،البتہ اب اس سے ان پر دباؤ بھی ہوگا، ٹیم کی کارکردگی کا جواب انہی کو دینا ہوگا،انضمام ''پیڈ ہالیڈیز'' پر بھارت پہنچ گئے ہیں،وارم اپ میچز میں پاکستان کی کارکردگی اچھی نہ رہی، دونوں میں شکست تو ہوئی ساتھ 340 سے زائد رنز بھی بنوا دیے، نسیم شاہ انجرڈ ہیں۔
ایسے میں حارث رؤف پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن وہ کامیاب ثابت نہیں ہو رہے،نئی گیند ویسے ہی ان سے نہیں سنبھلتی، حسن علی کی رفتار کبھی اتنی نہیں رہی کہ وہ حریف بیٹنگ کی دھجیاں اڑا دیں،محمد وسیم بھی اب تک اوسط درجے کے ہی لگے ہیں، اب تمام تر بوجھ شاہین شاہ آفریدی پر آئے گا۔
یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے، ویسے ہی اتنے زیادہ میچز ہونے ہیں، اگر خدانخواستہ شاہین کو بھی فٹنس کا کوئی مسئلہ ہوگیا تو پاکستانی مہم کا آگے بڑھنا دشوار ہو جائے گا، شاداب خان سمیت اسپنرز کی کارکردگی بھی معیاری نہیں ہے، ایشیا کپ سے قبل سب کچھ ٹھیک تھا لیکن پھر مسلسل کرکٹ کھیلنے کے اثرات سامنے آنے لگے، بھارتی بیٹرز نے جس طرح دل کھول کر ہماری بولنگ لائن کی پٹائی کی اس سے بولرز کا اعتماد کم ہو گیا۔
ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ لاکھوں روپے لینے والے ماہر نفسیات کر کیا رہے ہیں، ان کا کام کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتوں پر یقین دلانا تو ہے، وہ اب تک اس میں ناکام ثابت ہوئے ہیں،مکی آرتھر اپنی انگلش کاؤنٹی ٹیم کی ناؤ ڈبونے کے بعد اب بھارت میں گرین شرٹس کو جوائن کر چکے، امید ہے ورلڈکپ میں ان کے مشورے پاکستانی کرکٹرز کے کام آئیں گے۔
ٹاپ آرڈر ناکام ثابت ہوا ہے، فخر زمان، امام الحق اور عبد اللہ شفیق کو ذمہ داری سے کھیلناہوگا، رنز بنانا اکیلے بابر اعظم کا کام نہیں ہے، اچھی بات یہ ہے کہ افتخار احمد اور محمد رضوان نے بڑی اننگز کھیلیں،سعود شکیل بھی عمدہ فارم میں نظر آ رہے ہیں انھیں موقع دینا چاہیے۔
بظاہر پاکستانی ٹیم اچھی فارم میں نہیں لگتی لیکن مجھے امید ہے ورلڈکپ میں الگ ہی کارکردگی سامنے آئے گی،مہم کا آغاز کمزور ٹیم نیدرلینڈز کے خلاف ہونا ہے جسے تر نوالہ نہیں سمجھا جا سکتا، سوفیصد صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے فتح حاصل کرنا چاہیے، ایک بار کھلاڑیوں کا اعتماد بحال ہوگیا تو ٹیم دوبارہ سے کامیابیوں کی راہ پر گامزن ہو جائے گی۔
اب کچھ بات پی سی بی کی کر لیتے ہیں، ذکا اشرف خود کہہ چکے کہ ادارے میں بہت سیاست ہے، آج کل تو یہ سب کچھ عروج پر پہنچا ہوا ہے، تبدیلیاں بھی ہو رہی ہیں، میڈیا میں عالیہ رشید آ گئیں، وہ ایک تجربہ کار خاتون اورعمدگی سے فرائض انجام دے سکتی ہیں، عمر فاروق کالسن بھی بہت محنتی آفیشل ہیں، بدقسمتی سے ان کے کسی ''دشمن'' نے کسینو والی بات کو بڑا اسکینڈل بنا دیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ ایشیا کپ کے دوران ہی بورڈ کے کئی آفیشلز سری لنکا کرکٹ کے پریذیڈنٹ باکس سمیت کئی مقامات پر کھلے عام ''روح افزا'' پیتے بھی دکھائی دیے لیکن تصویر لیک نہ ہوئی اس لیے کسی نے کارروائی نہ کی، ویسے بھی بورڈ میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
اکیڈمی میں تو محفلیں جمتی رہی ہیں، انسان کلاس میٹ کو بھول جاتا ہے لیکن گلاس میٹ کو نہیں بھولتا، مارکیٹنگ اور کمرشل کو الگ کر کے 2 ڈائریکٹرز کر دیے گئے ہیں، عثمان وحید مارکیٹنگ اور بابر حمید کمرشل کے معاملات دیکھیں گے، وہ ماضی میں ایک ''خاص وجہ'' سے باہر ہوئے اب ایک ''خاص وجہ'' سے ''خاص''شخصیت کی سفارش پر واپس آگئے۔
ریسٹورینٹ کے مالک بابر کی ایک کمپنی بھی ہے، پیسے کی کوئی کمی نہیں، پھر چند لاکھ روپے کی نوکری کیوں قبول کی؟ یہ ملین ڈالر کا سوال ہے، سلمان نصیر کی ان سے نہیں بنتی، اب خود سلمان کا ستارہ گردش میں ہے، گورننگ کونسل کی میٹنگ میں ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ ہوالیکن سنا ہے اب وہ بھی دبنگ بن کر کہہ رہے ہیں ''جاؤ نہیں جاتا جو کرنا ہے کر لو'' خیر بورڈ کے حالات کچھ اچھے نہیں لگ رہے دیکھیں آگے کیاہوتا ہے فی الحال تو ورلڈکپ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
بھارت میں ٹیم نے عمدہ پرفارم کر دیا تو اس سے اچھی کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی، کھلاڑیوں نے بھی مہمان نوازی کی بہت تعریفیں کر دیں، حیدرآبادی بریانی بھی بہت کھا لی، اب پرفارم کرنے کا وقت ہے امید ہے مایوس نہیں کریں گے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
محمد حفیظ پہلے ہی کمیٹی میں شمولیت پر خوش نہیں تھے انھوں نے استعفیٰ دے دیا، مصباح الحق بھی تقریبا الگ ہو ہی گئے ہیں،انھوں نے اہم فیصلوں میں اپنا کردار نہ ہونے کا برملا اعتراف کر کے خود کو سائیڈ پر کر لیا، یہ دونوں چیئرمین مینجمنٹ کمیٹی ذکا اشرف کی دل سے عزت کرتے ہیں اور انہی کے کہنے پر کرکٹ کمیٹی میں آئے، معاوضہ اس لیے نہیں لیا کہ پھر پابند ہو جاتے کہ کوئی اور کام نہیں کر سکتے تھے۔
مصباح امریکا اور کراچی میں کرکٹ کھیلتے رہے، اب وہ اور حفیظ ٹی وی پر بطور ماہر نظر آ رہے ہیں، جس طرح ہر شعبے کے افراد کاکوئی سیزن ہوتا ہے جس میں انھیں خوب کمائی کا موقع ملتا ہے ویسے ہی ورلڈکپ جیسے بڑے ایونٹس میں کرکٹرز کی بھی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتی ہیں، اتنے زیادہ ٹی وی چینلز آ گئے ہیں کہ چند میچ کھیلنے والے سابق کرکٹر کو بھی کوئی نہ کوئی بلا لیتا ہے سابق اسٹارز کو تو منہ مانگا معاوضہ مل جاتا ہے۔
اب تو بزرگوں کی بھی لیگز ہوتی ہیں اسی لیے بورڈ کو چیف سلیکٹر کی تلاش میں مشکلات کا سامنا تھا،ذکا اشرف خود اعتراف کر چکے کہ 50 لاکھ روپے تک کا مطالبہ کیا گیا، انضمام بھی 25 لاکھ روپے ماہانہ پر آئے،مگر یہ سکون والا کام ہے، ایک ٹیم منتخب کرو جس کے 90 فیصد کھلاڑی سب جانتے ہوں گے۔
اس کے بعد کئی ماہ آرام، مگر تنخواہ و دیگر مراعات ملتی رہتی ہیں، انضمام نے آتے ہی یہ فارمولہ اپنایا کہ سیٹ پکی کرنی ہے تو کرکٹرز سے تعلقات اچھے رکھو، بابر اعظم سمیت کئی سینئرز اور چیف سلیکٹر کے ایجنٹ ایک ہی ہیں،انھوں نے پہلے سینٹرل کنٹریکٹ میں کھلاڑیوں کے مطالبات منوائے اور پھر اسکواڈ بھی کپتان کی مرضی کا منتخب کیا۔
یہ اچھی بات ہے کیونکہ ٹیم کو میدان میں کھلانا کپتان کا ہی کام ہوتا ہے،البتہ اب اس سے ان پر دباؤ بھی ہوگا، ٹیم کی کارکردگی کا جواب انہی کو دینا ہوگا،انضمام ''پیڈ ہالیڈیز'' پر بھارت پہنچ گئے ہیں،وارم اپ میچز میں پاکستان کی کارکردگی اچھی نہ رہی، دونوں میں شکست تو ہوئی ساتھ 340 سے زائد رنز بھی بنوا دیے، نسیم شاہ انجرڈ ہیں۔
ایسے میں حارث رؤف پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن وہ کامیاب ثابت نہیں ہو رہے،نئی گیند ویسے ہی ان سے نہیں سنبھلتی، حسن علی کی رفتار کبھی اتنی نہیں رہی کہ وہ حریف بیٹنگ کی دھجیاں اڑا دیں،محمد وسیم بھی اب تک اوسط درجے کے ہی لگے ہیں، اب تمام تر بوجھ شاہین شاہ آفریدی پر آئے گا۔
یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے، ویسے ہی اتنے زیادہ میچز ہونے ہیں، اگر خدانخواستہ شاہین کو بھی فٹنس کا کوئی مسئلہ ہوگیا تو پاکستانی مہم کا آگے بڑھنا دشوار ہو جائے گا، شاداب خان سمیت اسپنرز کی کارکردگی بھی معیاری نہیں ہے، ایشیا کپ سے قبل سب کچھ ٹھیک تھا لیکن پھر مسلسل کرکٹ کھیلنے کے اثرات سامنے آنے لگے، بھارتی بیٹرز نے جس طرح دل کھول کر ہماری بولنگ لائن کی پٹائی کی اس سے بولرز کا اعتماد کم ہو گیا۔
ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ لاکھوں روپے لینے والے ماہر نفسیات کر کیا رہے ہیں، ان کا کام کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتوں پر یقین دلانا تو ہے، وہ اب تک اس میں ناکام ثابت ہوئے ہیں،مکی آرتھر اپنی انگلش کاؤنٹی ٹیم کی ناؤ ڈبونے کے بعد اب بھارت میں گرین شرٹس کو جوائن کر چکے، امید ہے ورلڈکپ میں ان کے مشورے پاکستانی کرکٹرز کے کام آئیں گے۔
ٹاپ آرڈر ناکام ثابت ہوا ہے، فخر زمان، امام الحق اور عبد اللہ شفیق کو ذمہ داری سے کھیلناہوگا، رنز بنانا اکیلے بابر اعظم کا کام نہیں ہے، اچھی بات یہ ہے کہ افتخار احمد اور محمد رضوان نے بڑی اننگز کھیلیں،سعود شکیل بھی عمدہ فارم میں نظر آ رہے ہیں انھیں موقع دینا چاہیے۔
بظاہر پاکستانی ٹیم اچھی فارم میں نہیں لگتی لیکن مجھے امید ہے ورلڈکپ میں الگ ہی کارکردگی سامنے آئے گی،مہم کا آغاز کمزور ٹیم نیدرلینڈز کے خلاف ہونا ہے جسے تر نوالہ نہیں سمجھا جا سکتا، سوفیصد صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے فتح حاصل کرنا چاہیے، ایک بار کھلاڑیوں کا اعتماد بحال ہوگیا تو ٹیم دوبارہ سے کامیابیوں کی راہ پر گامزن ہو جائے گی۔
اب کچھ بات پی سی بی کی کر لیتے ہیں، ذکا اشرف خود کہہ چکے کہ ادارے میں بہت سیاست ہے، آج کل تو یہ سب کچھ عروج پر پہنچا ہوا ہے، تبدیلیاں بھی ہو رہی ہیں، میڈیا میں عالیہ رشید آ گئیں، وہ ایک تجربہ کار خاتون اورعمدگی سے فرائض انجام دے سکتی ہیں، عمر فاروق کالسن بھی بہت محنتی آفیشل ہیں، بدقسمتی سے ان کے کسی ''دشمن'' نے کسینو والی بات کو بڑا اسکینڈل بنا دیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ ایشیا کپ کے دوران ہی بورڈ کے کئی آفیشلز سری لنکا کرکٹ کے پریذیڈنٹ باکس سمیت کئی مقامات پر کھلے عام ''روح افزا'' پیتے بھی دکھائی دیے لیکن تصویر لیک نہ ہوئی اس لیے کسی نے کارروائی نہ کی، ویسے بھی بورڈ میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
اکیڈمی میں تو محفلیں جمتی رہی ہیں، انسان کلاس میٹ کو بھول جاتا ہے لیکن گلاس میٹ کو نہیں بھولتا، مارکیٹنگ اور کمرشل کو الگ کر کے 2 ڈائریکٹرز کر دیے گئے ہیں، عثمان وحید مارکیٹنگ اور بابر حمید کمرشل کے معاملات دیکھیں گے، وہ ماضی میں ایک ''خاص وجہ'' سے باہر ہوئے اب ایک ''خاص وجہ'' سے ''خاص''شخصیت کی سفارش پر واپس آگئے۔
ریسٹورینٹ کے مالک بابر کی ایک کمپنی بھی ہے، پیسے کی کوئی کمی نہیں، پھر چند لاکھ روپے کی نوکری کیوں قبول کی؟ یہ ملین ڈالر کا سوال ہے، سلمان نصیر کی ان سے نہیں بنتی، اب خود سلمان کا ستارہ گردش میں ہے، گورننگ کونسل کی میٹنگ میں ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ ہوالیکن سنا ہے اب وہ بھی دبنگ بن کر کہہ رہے ہیں ''جاؤ نہیں جاتا جو کرنا ہے کر لو'' خیر بورڈ کے حالات کچھ اچھے نہیں لگ رہے دیکھیں آگے کیاہوتا ہے فی الحال تو ورلڈکپ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
بھارت میں ٹیم نے عمدہ پرفارم کر دیا تو اس سے اچھی کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی، کھلاڑیوں نے بھی مہمان نوازی کی بہت تعریفیں کر دیں، حیدرآبادی بریانی بھی بہت کھا لی، اب پرفارم کرنے کا وقت ہے امید ہے مایوس نہیں کریں گے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)