کریڈٹ کی سیاست

صورتحال اس وقت ہی تبدیل ہو گی جب ہم نے کریڈٹ سے ہٹ کر اس ملک و قوم کے فائدے اور نقصان کے بارے میں سوچنا شروع کریں گے۔


صورتحال اس وقت ہی تبدیل ہو گی جب ہم نے کریڈٹ سے ہٹ کر اس ملک و قوم کے فائدے اور نقصان کے بارے میں سوچنا شروع کریں گے۔

جناب پاکستانیوں کی خدمت میں ایک عرض خاص ہے !

جناب عالی! آپ پاکستان میں جس چیز کو بھی دیکھیں ہر چیز صرف کریڈٹ کے گرد گھومتی ہوئی نظر آتی ہے ، ایسے لگتا ہے جیسے یہ ملک نہیں بلکہ کریڈٹ مشین ہے۔ کھیل ہو، سیاست ہو، کاروبا ہو، تعلیم ہو، صحافت ہو جو بھی ہو سب کریڈٹ کی گیم ہے۔کبھی ہم کریڈٹ دیتے ہیں اور کبھی کریڈٹ لیتے ہیں ۔ جب واہ واہ اور شاباش ملتی ہے تو اچھے کام کا کریڈٹ خود لیتے ہے او ر جب برے کام کا سامنا کرنا پڑے تو اپنے سے کمزور پر اس کا ملبہ ڈال دیتے ہیں ۔ کام اچھا ہو یا برا ہماری سوچ صرف کریڈٹ کے گرد ہی گھومتی ہے ۔

ایک معمولی دکاندار سے لے کر سیاستدان تک سب اسی بیماری میں مبتلا ہیں دودھ کی دکان پر اگر دودھ خالص مل جائے تو سارا کریڈٹ دکاندار خود لیتا ہے اور جب دودھ میں پانی مل رہا ہوتو پھر قصور بیچارے دودھ والے کا ہے ۔ اسی طرح موٹر ورکشاپ پر گاڑی ٹھیک ہو جائے تو استاد کی واہ واہ اور بھلے بھلے ،لیکن اگر خراب ہو جا ئے تو قصور غریب چھوٹوکا ہے۔

کوئی بھی کھیل ہو جیتنے کا کریڈٹ کپتا ن خودلیتا ہے اور اپنی ٹیم کی شکست کا ذمہ دار کھلاڑیوں کو بناتا ہے یا پھر کوچ اور ایمپائر پر ملبہ ڈال دیتا ہے ۔ بیٹے کی کامیابی کا کریڈٹ باپ خود لیتا ہے اور اگروہ ناکام ہو جائے تو اس کا ذمہ دار اسکی ماں کو یا پھر کسی اور ٹھہراتا ہے ۔ اسی طرح اگر شاگرد قابل نکل جائے تو استا د اپنے آپ کہ مہان سمجھتا ہے اگر وہ فیل ہو جائے تو کہتا ہے یہ کم بخت شروع سے ہی نالا ئق اور نکما تھا ۔ اگرکاروبا چمک جائے تو اپنے آپ میں پھولے نہیں سماتے اگر کاروبا ر نہ چلا تو اس ی غلطی کسی اور پر ڈال دی جاتی ہے۔

اگر ملک کی سیاست کو گہری نظر سے دیکھا جائے تو یہ صرف کریڈٹ کی سیاست نظر آتی ہے ۔جب گوادر کی بندگاہ کی بات ہو، جمہوری استحکام کی بات ہو ، کامیاب الیکشن کے انقاد کی، آزاد عدلیہ اور آزاد صحافت کی ،یا ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت تک اقتدار کی منتقلی کی بات ہو فورا کریڈٹ لینے کی جنگ شروع ہو جاتی ہے اور شور مچایا جاتا ہے۔ مسلم لیگ ن کہتی ہے کہ ا س کا سہرا ان کے سر جاتا ہے۔ میڈیا کہتا ہے یہ سب اس کی قربانیوں کی وجہ سے ہوا۔لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کا یہ دعویٰ ہے جو بھی ہو اسکا سہرا جناب عزت آصف علی زرداری صاحب کے سر پر جاتاہے جنہوں نے فوج ،میڈیا،عدلیہ اورسیاسی جماعتوں کی شدید مخالفت کے باوجود اپنے لچکدار رویے کی بدولت سب کو ساتھ ملائے رکھااور ساتھ لے کر چلے۔لیکن در حقیقت میں سارا کریڈٹ پاکستانی عوام کو جاتا ہے جس نے یہ سب کچھ زندہ دلی سے برداشت کیا۔

مگر جب بات ہو دہشتگردی اور انتہاپسندی کی ، جب شور مچے توانائی اور پانی کے بحران کا، جب بحث ہومہنگائی اور بے روزگاری کے مسئلے کے بارے میں ، جب غور کیا جائے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے ان لوگوں کے بارے میں، اگر برینکنگ نیوز چلے تعلیم اور صحت کی سہولتوںکی عدم دستیابی کی، اگر دیکھا جائے بگڑتی ہوئی کراچی کی صورتحال کو، محسوس کیا جائے فرق واریت کی نئی لہر کو۔ او رخبر ہو پاکستانیوں کا پولییو فری سر ٹیکیفیٹ دکھا کے بیرون ملک جانے کی ، یابلوچستان کے مسئلے کی، عورتوں کی عصمت دری کی ، لاپتہ افراد کی ، تھر اور چولستان میں مرنے والے لوگوں کی ، ڈرون حملوںکے دوران ہلاک ہونے والے بے گناہ بچوں اور عورتوں کی تو ان کا کریڈٹ لینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا۔

زرداری صاحب کی حکومت نے پانچ سال مکمل کیے مگر مسائل کو حل کرنے کی بجائے سارا وقت ان مسائل کا ذمہ دار پچھلی حکومت کو ٹھہراتے رہے اور یوں وقت گزر گیا۔اب موجودہ حکومت کو ہی دیکھ لیں ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ایک ٹھوس اور واضح حکمت عملی بنا ئے تاکہ یہ مسائل حل ہوسکیں لیکن وہ بھی سابقہ حکومتوں کو ان مسائل کا ذمہ دار ٹھہرانے میں لگی ہوئی ہے۔

انتخابا ت کے دوران اگر ان جماعتوں کے نعروں کو دیکھا جائے تو ہو کوئی کہتا ہے کہ ملک کے سارے مسائل کو پہلے ۰۹ دن میں حل کرلیں گے تو کوئی چھے ماہ کا نعرہ لگا کر ووٹ کا حق دار قرار پایا ۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے جارہے ہیںحالات جوں کے توں ہیں۔ کیونکہ یہاں سب ہی پوائنٹ ا سکور کرنے اور اپنی تجوریاں بھرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

صورتحال اس وقت ہی تبدیل ہو گی جب ہم نے کریڈٹ سے ہٹ کر اس ملک و قوم کے فائدے اور نقصان کے بارے میں سوچنا شروع کریں گے۔ اچھے اور برے دونوں کاموں کا کریڈٹ ہم خود لینے کے لے تیا ر ہونگے۔ دوسروں کے بجائے خود اپنی تصحیح کریں گے ۔
پھر چاہے آندھی آئے یا طوفان ہو ہمارا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا ۔ ایک دفعہ اگر ہم یہ کریڈٹ کی سیات اور اس کے نفع نقصان سے باہر نکل کر سوچیں تو انشااللہ ہم اس ملک کا نام روشن کرکے ایک نئی تاریخ رقم کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں