تجارتی خسارہ اور غیر ملکی سرمایہ کاری

حالیہ اقدامات کے نتیجے میں معیشت اپنے پیروں پر بالکل کھڑی نہیں ہوئی ہے

رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران درآمدات پر پابندی کے باعث پاکستان کا تجارتی خسارہ 42 فی صد کم ہوکر رہ گیا ہے لیکن اب امکانات یہ ہیں کہ جلد ہی درآمدی پالیسیوں میں نرمی کے باعث جب پاکستان بڑی مقدار میں درآمدات کر رہا ہوگا تو ایسی صورت میں تجارتی خسارہ بڑھ کر مالی دباؤ کا سبب بن سکتا ہے، لیکن اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ برآمدات جن کے لیے خام مال کی ضرورت ہوتی ہے، پاکستان کو اپنی برآمدات بڑھانے کے لیے بھاری مقدار میں خام مال درآمد کرنے کی ضرورت ہوگی۔

پاکستان سے زیادہ تر ٹیکسٹائل کی برآمدات ہوتی ہیں اور اس سلسلے میں ملک میں کپاس کی پیداوار میں کمی کے باعث خام کپاس کی بھی درآمدات کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ اس مرتبہ ملک میں کپاس کی اچھی فصل ہونے کی صورت میں کپاس کی درآمدی مالیت میں کافی کمی واقع ہو۔ دوسری طرف حکومت بڑی مقدار میں گندم بھی خرید رہی ہے اور چاول ایکسپورٹ کر رہی ہے۔

گزشتہ 2 ماہ کے چاول ایکسپورٹ کی مقدار گزشتہ مالی سال کی نسبت ایکسپورٹ میں کافی کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس سال آیندہ چند ماہ میں چاول کی ایکسپورٹ بڑھ سکتی ہے کیونکہ بہت سے ملکوں میں پاکستانی چاول کی طلب میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، اگر حکومت اسی طرح اجناس کی ذخیرہ گاہوں، کھاد کے گوداموں تک رسائی حاصل کرتی رہی تو امید ہے کہ رواں مالی سال نہ سہی آیندہ مالی سال کے دوران پاکستان گندم برآمد بھی کر سکتا ہے، لیکن فی الحال اتنا ضرور ہوگا کہ چھپائی گئی گندم، چینی کی بوریاں اور دیگر اجناس کے ذخیروں کی رونمائی پر ان اشیا کی قلت کے باعث جوکہ مصنوعی اس لیے ہوتی ہے کیونکہ اجناس کی بڑی تعداد چھپا دی جاتی ہے لہٰذا ان اشیا کی درآمد میں خاصی کمی واقع ہو سکتی ہے۔

اس طرح حکومت ایسے اقدامات کر لے اور ان چھاپوں کا تسلسل برقرار رکھے ذخیرہ گاہیں دریافت ہوتی رہیں، گوداموں کے تالے توڑے جاتے رہیں تو امید ہے کہ ان اشیا کی درآمدات میں کمی کے مثبت اثرات ہوں گے، اس طرح کہ اب یہ تو حقیقت ہے کہ خام مال، برآمدات کے لیے درآمدی میٹریل اور دیگر انتہائی سخت ترین ضرورت کے باعث درآمدی مالیت بڑھے گی۔

لیکن اگر اجناس، کھاد، کپاس کی مصنوعی قلت پر قابو پا کر ان اشیا کی درآمدات میں کمی لے کر آتے ہیں تو مالی بوجھ کم ہوگا، اگرچہ یہ واضح ہے کہ درآمدی پالیسی میں نرمی سے درآمدات بڑھیں گی، کیونکہ درآمدات پر اس طرح کی پابندیوں سے جس سے صنعتی پیداوار سکڑ رہی ہو، ملکی صنعت و ترقی اور روزگار کے لیے مفید نہیں ہے اس وقت ڈالر پرکنٹرول کا عمل جاری ہے۔

گرتے پڑتے کمزور روپے میں ہلکی پھلکی توانائی آ چکی ہے لیکن اس کنٹرول کو اس وقت شدید دھچکا لگے گا جب درآمدات میں اضافے کے باعث پاکستان کا تجارتی خسارہ پھر بلندی کی جانب راغب ہونے لگے گا۔ موجودہ سہ ماہی کا تجارتی خسارہ گزشتہ مالی سال کے اسی مدت کے مقابلے میں 42 فی صد کم ہوا ہے بظاہر نہایت ہی خوش آیند بات ہے، لیکن برآمد کنندگان کے مسائل خاص طور پر ٹیکسٹائل مل والوں کے مسائل ان کے لیے مراعات اور درآمدی میٹریل کے لیے آسانیاں پیدا کیے بغیر ملکی صنعت و شرح ترقی میں اضافہ ممکن نہیں۔


بے روزگاری اس قدر بڑھ چکی ہے کہ کارخانے چلانے اب ضروری ہو گئے ہیں۔ لہٰذا اصل مسئلہ یہ ہے کہ تجارتی خسارہ بھی کم رہے برآمدات بھی بڑھ جائے اور برآمدات کی تیاری کے لیے جن درآمدی مال و میٹریلز کی ضرورت ہو اس میں کمی نہ آئے۔

ڈالر ریٹس بھی کم رہیں، لہٰذا دیگر اسباب کے علاوہ پاکستان کو اپنے فوڈ گروپ کی درآمدات اس کے علاوہ کپاس کی درآمدات اور غیر ضروری درآمدات میں کمی لانے کی خاطر ملک بھر میں چھپائے گئے ذخیرہ گاہیں جس طرح دریافت ہو رہے ہیں داخلی سطح پر ان میں تیزی لائی جائے تاکہ ملک میں یہ کرپٹ سسٹم ختم ہو کر رہ جائے۔

لہٰذا بڑھتے ہوئے درآمدی بل کے ایک شعبے سے دوسرے شعبے یعنی فوڈ گروپ سے منتقل ہو کر ٹیکسٹائل گروپ یا دیگر میں منتقلی کی صورت میں مالیاتی دباؤ میں کمی لائی جا سکتی ہے لہٰذا داخلی محاذ میں ابھی بہت کچھ کر گزرنے کی ضرورت ہے اور تجارت خارجہ کے محاذ میں اسی طرح کی حکمت عملی اپنائی جائے جس کے لیے ملکی صنعت کاروں کو مراعات ان کے مسائل کے حل اور برآمدات میں بہت زیادہ اضافے کے ہدف کو عبور کرنے کے موثر معاشی و صنعتی و برآمدی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔

اس ماہ کے آخر میں آئی ایم ایف کی آمد آمد ہے جس میں ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے معاشی حکام کی بعض منصوبہ بندیوں اور حکمت عملیوں پر پانی پھیر دیا جائے، پاکستانی معیشت کے لیے ایسے بیانات داغ دیے جائیں جس سے معیشت میں پھر افواہ سازی کا کاروبار گرم ہو جائے۔

اگر پاکستانی معیشت کی بات کریں تو حالیہ اقدامات کے نتیجے میں معیشت اپنے پیروں پر بالکل کھڑی نہیں ہوئی ہے۔

معیشت ابھی تک آئی سی یو میں ہے کیونکہ رپورٹس بتا رہی ہیں کہ 2 کروڑ افراد مزید غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں، مہنگائی بلند ترین سطح 35 فی صد تک جا پہنچی ہے، کارخانے بند ہو رہے ہیں اور ان میں خوراک اجناس کے ذخیرے کیے جا رہے ہیں۔ بے روزگاری انتہا تک پہنچ گئی ہے۔
Load Next Story