پانی
ہمارے اپنے ملک میں پانی کی تقسیم منصفانہ نہیں، جس کا جس قدر بس چلتا ہے وہ اپنے لیے سہولتوں کا اہتمام کر لیتا ہے
بہت کم پاکستانی اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ 2009میں ملک کے ہر شہری کے لیے 1500 کیوبک میٹر پانی میسر تھا جو محض دس برس میں کم ہو کر ایک ہزار کیوبک میٹر فی کس ہو چکا تھا اور آئی ایم ایف کی پانی کی صورتحال پر تازہ رپورٹ بتاتی ہے کہ سال 2025 تک پاکستان میں پانی کی طلب اور رسد میں فرق 84 ملین کیوبک فیٹ سے تجاوز کر جائے گا۔
صرف صوبہ کے پی کے کی مثال لے لیں تو یہاں پانچ اضلاع لوئیر دیر، ڈیرہ اسماعیل خان، کرک، لکی مروت اور ٹانک کو صوبائی حکومت پانی کی قلت کے شکار اضلاع قرار دے چکی ہے۔ کرک جو اپنی شادابی کے لیے مشہور تھا اب وہاں پانی کے لیے ڈھائی سو میٹر سے زائد کھدائی کرنا پڑتی ہے کیونکہ یہاں پہلے سے نصب ٹیوب ویل خشک ہو رہے ہیں۔
ملک کے دیگر صوبے بالخصوص بلوچستان اور سندھ کے شہری علاقوں میں تو صورتحال اس سے بھی بد تر ہے۔ سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ ہمارا ملک حالیہ قوت میں پانی کی شدید قلت کا شکار ہونے والے سترہ ممالک میں چودھویں نمبر پر ہے۔
ہم جس زمین پر آباد ہیں، اس کا 70فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر پانی کی قلت پر تشویش کا اظہار کیوں کیا جاتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس 70فیصد پانی کا ہم ذکر کرتے ہیں اس میں سے صرف 3 فیصد پانی پینے اور کھیتی باڑی کے قابل ہوتا ہے۔
اسے ہم تازہ پانی کہتے ہیں اور اس تازہ پانی میں سے بھی 2 فیصد گلیشیئروں کی صورت میں انسانی پہنچ سے دور ہوتا ہے۔ یہ گلیشیئر آہستہ آہستہ پگھل کر تازہ پانی کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں جب کہ دنیا پر موجود کُل پانی کا محض 1 فیصد حصہ ہی انسانی استعمال کے لیے میسر ہوتا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دنیا کے ایک ارب دس کروڑ انسانوں کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
دنیا میں 2 ارب 40کروڑ لوگ ایسے ہیں جنھیں صفائی ستھرائی کے لیے پانی دستیاب نہیں اور اس وجہ سے وہ عموماً ہیضہ' ٹائی فائیڈ اور پانی سے پیدا ہونے والی دیگر بیماریوں کا شکار رہتے ہیں۔
ہر برس 20 لاکھ لوگ جن میں غالب اکثریت بچوں کی ہوتی ہے' ان بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔حال ہی میں ممتاز جریدے 'Sustainability Natural' میں شایع ہونے والی تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دولت مند طبقہ پہلے سے دباؤ کے شکار آبی وسائل کو بڑی بے رحمی کے ساتھ اپنے سوئمنگ پولز' ذاتی باغات کی آبپاشی اور گاڑیوں کو دھونے پر ضایع کر رہا ہے۔
اسی تجزیاتی رپورٹ میں جنوبی افریقہ کے شہر 'کیپ ٹاؤن' کی مثال دی گئی ہے جہاں شہر کی دو امیر آبادیوں میں آباد شہر کی 15فیصد آبادی شہر کی کل آبادی کے لیے درکار پانی کا نصف حصہ استعمال کر لیتی ہے۔
ہمارے اپنے ملک میں پانی کی تقسیم منصفانہ نہیں، جس کا جس قدر بس چلتا ہے وہ اپنے لیے سہولتوں کا اہتمام کر لیتا ہے۔
اس رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ شہروں میں تیزی سے بڑھتے ہوئے پانی کے بحران کی بڑی وجہ یہ ہے کہ شہروں میں پانی کا استعمال انتہائی غیر منصفانہ انداز میں ہوتا ہے۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا کے 80 میٹروپولیٹن شہروں میں پانی کی قلت کا مسئلہ انتہائی سنجیدہ صورت اختیار کر چکا ہے جن میں میامی' میکسیکو سٹی' سڈنی' لندن اور بیجنگ شامل ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ پانی کی قلت میں یہ شدت محض گزشتہ 20 سالوں کے دوران آئی ہے۔
اس رپورٹ کو مرتب کرنے کی تحقیقاتی سرگرمی سے معلوم ہوا کہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اور امیر گھرانوں میں استعمال ہونے والے پانی کا غالب حصہ غیر ضروری سرگرمیوں پر ضایع کر دیا جاتا ہے، جن میں اپنے باغ باغیچے کو پانی لگانا' سوئمنگ پولز کو بار بار بھرنا اور گاڑیاں دھونے جیسی سرگرمیاں سرفہرست ہیں۔ سال2018میں کیپ ٹاؤن طویل خشک سالی کے باعث پانی سے مکمل محرومی کے کنارے آ پہنچا تھا۔
شہر میں لگے پانی کے نل سوکھ گئے تھے لیکن یہ صورتحال بروقت اقدامات سے ٹل گئی تھی۔ شہر کی انتظامیہ نے ایک ہی اصول کے تحت شہر کے تمام لوگوں کے لیے پانی کے استعمال کی حد مقرر کر دی تھی لیکن اس اقدام کا سب سے زیادہ منفی اثر بھی کم آمدنی والے طبقے پر پڑا تھا اور ان کے لیے یہ بھی ممکن نہیں رہا تھا کہ وہ اپنی کھانے پینے اور نہانے دھونے کی بنیادی حاجات مناسب طور پر پوری کر سکیں۔
اپنے ملک پر نظر ڈالیں تو چند برس پہلے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے اس معاملے پر پر زور انداز میں آواز اٹھائی تھی کہ ملک کے اندر پانی کی قلت کے حوالے سے مناسب اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ فیڈریشن کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمسایہ ملک بھارت میں ڈیموں کی تعمیر پر احتجاج کرنے کے بجائے اپنے ملک میں ڈیموں کی تعمیر پر دھیان دے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ملک کے طول و عرض میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر پر جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان ہر سال تین کروڑ ایکڑ فٹ پانی ضایع کر دیتا ہے حالانکہ یہی پانی نہ صرف یہ کہ ملک بھر کے عوام کی ضروریات پوری کر سکتا ہے بلکہ اس کے ذریعے زراعت اور صنعت کے میدانوں میں انقلابی بہتری لائی جا سکتی ہے۔ ایک اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اگر پاکستان میں جدید ٹیکنالوجی اپنا لی جائے تو زراعت کے لیے استعمال ہونے والے پانی میں 90فیصد تک بچت ممکن ہو سکتی ہے لیکن اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔
اقوام متحدہ نے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ ایک طرف پانی کی قلت پیدا ہو رہی ہے تو دوسری جانب پانی کی طلب میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق سال 2050 میں 2016 کی نسبت شہری آبادیاں دگنا ہو جائیں گی جس سے پانی کی قلت کا مسئلہ شدت اختیار کرجائے گا اور اس صورت حال سے 2ارب 40 کروڑ افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔
صرف صوبہ کے پی کے کی مثال لے لیں تو یہاں پانچ اضلاع لوئیر دیر، ڈیرہ اسماعیل خان، کرک، لکی مروت اور ٹانک کو صوبائی حکومت پانی کی قلت کے شکار اضلاع قرار دے چکی ہے۔ کرک جو اپنی شادابی کے لیے مشہور تھا اب وہاں پانی کے لیے ڈھائی سو میٹر سے زائد کھدائی کرنا پڑتی ہے کیونکہ یہاں پہلے سے نصب ٹیوب ویل خشک ہو رہے ہیں۔
ملک کے دیگر صوبے بالخصوص بلوچستان اور سندھ کے شہری علاقوں میں تو صورتحال اس سے بھی بد تر ہے۔ سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ ہمارا ملک حالیہ قوت میں پانی کی شدید قلت کا شکار ہونے والے سترہ ممالک میں چودھویں نمبر پر ہے۔
ہم جس زمین پر آباد ہیں، اس کا 70فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر پانی کی قلت پر تشویش کا اظہار کیوں کیا جاتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس 70فیصد پانی کا ہم ذکر کرتے ہیں اس میں سے صرف 3 فیصد پانی پینے اور کھیتی باڑی کے قابل ہوتا ہے۔
اسے ہم تازہ پانی کہتے ہیں اور اس تازہ پانی میں سے بھی 2 فیصد گلیشیئروں کی صورت میں انسانی پہنچ سے دور ہوتا ہے۔ یہ گلیشیئر آہستہ آہستہ پگھل کر تازہ پانی کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں جب کہ دنیا پر موجود کُل پانی کا محض 1 فیصد حصہ ہی انسانی استعمال کے لیے میسر ہوتا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دنیا کے ایک ارب دس کروڑ انسانوں کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
دنیا میں 2 ارب 40کروڑ لوگ ایسے ہیں جنھیں صفائی ستھرائی کے لیے پانی دستیاب نہیں اور اس وجہ سے وہ عموماً ہیضہ' ٹائی فائیڈ اور پانی سے پیدا ہونے والی دیگر بیماریوں کا شکار رہتے ہیں۔
ہر برس 20 لاکھ لوگ جن میں غالب اکثریت بچوں کی ہوتی ہے' ان بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔حال ہی میں ممتاز جریدے 'Sustainability Natural' میں شایع ہونے والی تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دولت مند طبقہ پہلے سے دباؤ کے شکار آبی وسائل کو بڑی بے رحمی کے ساتھ اپنے سوئمنگ پولز' ذاتی باغات کی آبپاشی اور گاڑیوں کو دھونے پر ضایع کر رہا ہے۔
اسی تجزیاتی رپورٹ میں جنوبی افریقہ کے شہر 'کیپ ٹاؤن' کی مثال دی گئی ہے جہاں شہر کی دو امیر آبادیوں میں آباد شہر کی 15فیصد آبادی شہر کی کل آبادی کے لیے درکار پانی کا نصف حصہ استعمال کر لیتی ہے۔
ہمارے اپنے ملک میں پانی کی تقسیم منصفانہ نہیں، جس کا جس قدر بس چلتا ہے وہ اپنے لیے سہولتوں کا اہتمام کر لیتا ہے۔
اس رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ شہروں میں تیزی سے بڑھتے ہوئے پانی کے بحران کی بڑی وجہ یہ ہے کہ شہروں میں پانی کا استعمال انتہائی غیر منصفانہ انداز میں ہوتا ہے۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا کے 80 میٹروپولیٹن شہروں میں پانی کی قلت کا مسئلہ انتہائی سنجیدہ صورت اختیار کر چکا ہے جن میں میامی' میکسیکو سٹی' سڈنی' لندن اور بیجنگ شامل ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ پانی کی قلت میں یہ شدت محض گزشتہ 20 سالوں کے دوران آئی ہے۔
اس رپورٹ کو مرتب کرنے کی تحقیقاتی سرگرمی سے معلوم ہوا کہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اور امیر گھرانوں میں استعمال ہونے والے پانی کا غالب حصہ غیر ضروری سرگرمیوں پر ضایع کر دیا جاتا ہے، جن میں اپنے باغ باغیچے کو پانی لگانا' سوئمنگ پولز کو بار بار بھرنا اور گاڑیاں دھونے جیسی سرگرمیاں سرفہرست ہیں۔ سال2018میں کیپ ٹاؤن طویل خشک سالی کے باعث پانی سے مکمل محرومی کے کنارے آ پہنچا تھا۔
شہر میں لگے پانی کے نل سوکھ گئے تھے لیکن یہ صورتحال بروقت اقدامات سے ٹل گئی تھی۔ شہر کی انتظامیہ نے ایک ہی اصول کے تحت شہر کے تمام لوگوں کے لیے پانی کے استعمال کی حد مقرر کر دی تھی لیکن اس اقدام کا سب سے زیادہ منفی اثر بھی کم آمدنی والے طبقے پر پڑا تھا اور ان کے لیے یہ بھی ممکن نہیں رہا تھا کہ وہ اپنی کھانے پینے اور نہانے دھونے کی بنیادی حاجات مناسب طور پر پوری کر سکیں۔
اپنے ملک پر نظر ڈالیں تو چند برس پہلے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے اس معاملے پر پر زور انداز میں آواز اٹھائی تھی کہ ملک کے اندر پانی کی قلت کے حوالے سے مناسب اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ فیڈریشن کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمسایہ ملک بھارت میں ڈیموں کی تعمیر پر احتجاج کرنے کے بجائے اپنے ملک میں ڈیموں کی تعمیر پر دھیان دے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ملک کے طول و عرض میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر پر جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان ہر سال تین کروڑ ایکڑ فٹ پانی ضایع کر دیتا ہے حالانکہ یہی پانی نہ صرف یہ کہ ملک بھر کے عوام کی ضروریات پوری کر سکتا ہے بلکہ اس کے ذریعے زراعت اور صنعت کے میدانوں میں انقلابی بہتری لائی جا سکتی ہے۔ ایک اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اگر پاکستان میں جدید ٹیکنالوجی اپنا لی جائے تو زراعت کے لیے استعمال ہونے والے پانی میں 90فیصد تک بچت ممکن ہو سکتی ہے لیکن اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔
اقوام متحدہ نے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ ایک طرف پانی کی قلت پیدا ہو رہی ہے تو دوسری جانب پانی کی طلب میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق سال 2050 میں 2016 کی نسبت شہری آبادیاں دگنا ہو جائیں گی جس سے پانی کی قلت کا مسئلہ شدت اختیار کرجائے گا اور اس صورت حال سے 2ارب 40 کروڑ افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔