ایک خط سب کے لیے
لگتا ہے کہ اس ملک میں اس وقت تحفظ حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے اور وہ ہے اسلحہ اور طاقت کا بے دریغ استعمال
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12
اس ہفتے بروز سوموار اپنے گھر پر ایک اسلحہ بردار گروپ کی ممکنہ ڈکیتی اور کار چوری کی ناکام واردات کے بعد میں نے اپنے ہمسایوں کو ایک خط لکھا جس کے چند ایک مندرجات آپ کے لیے پیش کر رہا ہوں۔ خط انگریزی میں تھا۔ ہو بہو ترجمے کی کوشش نے کہیں نہ کہیں محاورے کو ضرور کمزور کیا ہے مگر معلومات اور مشاہدات پھر بھی قابلِ توجہ ہیں۔
محترم!
اسلام وعلیکم!
میں اور میری بیگم آپ کو سوموار کے دن اپنے گھر میں ہونے والے جرم کے بارے میں کچھ بتانا چاہتے ہیں۔ یہ معلومات ہم تک اہم پولیس افسران اور درمیانے درجے کے اہلکاروں نے پہنچائی ہیں۔ ہمارے خیال میں آپ کے لیے ان کا جاننا انتہائی ضروری ہے۔ جیسا کہ شاید آپ کو علم ہو اس روز 10:50 منٹ پر تین مسلح افراد، جن کی عمریں25-30 سال تھیں اور جو شلوار قمیص میں ملبوس تھے، ہمارے گھر پر آئے اور دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔ بند دروازے کے باہر کھڑے ہاتھ میں پستول تھامے ان کو دیکھ کر پڑوسیوں کا گارڈ جب ان سے پوچھ پرتیت کرنے کے لیے آگے آیا تو انھوں نے اس کو یرغمال بنا لیا۔
موسلادھار بارش میں یہ لوگ مکمل اطمینان سے گھر سے باہر کھڑی ہو ئی گاڑی کے شیشے کو توڑ کر اس کو اسٹارٹ کرنے میں مصروف ہو گئے۔ میں اس وقت یونیورسٹی میں طالبعلموں کو صحافت پڑھا رہا تھا۔ گھر والی گھر میں ڈھائی سالہ بچی کے ساتھ مصروف تھی۔ جس وقت یہ واردات جاری تھی تو بیگم صاحبہ اور بچی ایک دو مرتبہ دروازے کے قریب گیراج میں سے ہو کر واپس چلی گئیں۔
ان کو کیا خبر تھی کہ لوہے کی ایک پتلی چادر کے دوسری طرف پستولوں سے لیس ڈاکو کیا کارروائی کر رہے تھے۔ بہرحال گارڈ نے حاضر دماغی کا ثبوت دیا۔ ڈاکوئوں کی توجہ چوکتے ہی دوڑ کر گھر میں سے اپنی بندوق نکال لی۔ اس دوران فون پر سامنے والوں کو اطلاع دی۔ اس طرح جب چند ایک افراد اِدھر اُدھر سے باہر نکلے تو یہ تینوں افراد پستولیں لہراتے بڑے پارک کی طرف بھاگ نکلے۔ وہاں پر موجود پہلے سے کھڑی ہوئی ایک کار نے ان کو سوار کیا اور یوں جھٹ پٹ جائے وقوعہ سے فرار ہو گئے۔
اس کے بعد قانونی چارہ جوئی کی تفصیل آپ کے لیے غیر ضروری ہے۔ اہم معاملہ پولیس افسران کی اس بات چیت کا ہے جو انھوں نے ہم سے کی۔ انھوں نے ہمیں بتایا ہے کہ ہمارا یہ علاقہ اسلام آباد کے دوسرے سیکٹرز کی طرح انتہائی غیر محفوظ ہو چکا ہے۔ مجرمان کے جھتے کچی آبادیوں میں سے نکل کر یہاں آتے ہیں۔ جرم کرتے ہیں اور پھر اطمینان کے ساتھ کمین گاہوں میں لوٹ جاتے ہیں۔ ناکے ناکام ہیں' گشت کا اثر محدود ہے۔ بعض اوقات پولیس کی ملی بھگت اور جرائم میں شمولیت کے شواہد بھی ملے ہیں۔ پولیس افسران نے ہمیں یہ بھی بتلایا کہ اُن کے پاس نفری کم اور اسلام آباد کے سیا سی خاندانوں کے نخر ے زیادہ ہیں۔
ہدایا ت کے مطا بق سیاسی چہیتوں اور من پسند کے خاندانو ں کے تحفظ کی ذمے داری اولین ٹھہرائی گئی ہے۔ یہ واقعہ 12 مئی کو پیش آیا۔ ان پولیس افسران کے مطا بق 11 مئی کو عمران خان کے جلسے نے اُن کی آدھی فورس کو اگلے دن کے لیے تھکن کی وجہ سے ناکارہ کر دیا تھا۔ ویسے بھی اگر کسی علا قہ میں کوئی وی آئی پی نہ ہو تو وہاں پر پولیس تازہ دم ہونے کے باوجود تو جہ نہیں دیتی۔ اُن کا کام اشرافیہ (اس لفظ کا شرافت سے کوئی تعلق یا رشتہ نہیں ہے) کو بچانا ہے۔ اس سے نیچے کے افراد یعنی درمیانہ طبقہ وغیرہ ایک فضول سا اعداد و شمار ہے۔ جن پر وقت صرف کرنا قومی وسائل کا ایسا غیر ضر وری استعمال ہے جس کی حقیقی زندگی میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پولیس نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ اسلام آباد میں ہونے والے اغواء برائے تاوان، ڈکیتی اور قتل جیسے جرائم، حادثاتی، واقعاتی اور وقتی نہیں ہیں۔
یہ ایک منظم اور مربوط نیٹ ورک کی پیدوار ہے جس کا ایک سرا بلوچستان اور دوسرا سرا آزاد کشمیر میں ہے۔ اس کی باقی جڑیں کراچی، خیبرپختو نخوا اور پنجاب کے مغربی اور جنوبی حصوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ گروہ مقامی جرائم پیشہ افراد سے درمیانی رابطے کے ذریعے معاملات طے کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کام کرانے والے اور کام کرنے والا دونوں ایک دوسرے کے بارے میں کبھی جان نہیں سکتے۔ جرائم کے ہدف کے بارے میں ان گروپوں کی معلومات خطرناک حد تک درست ہوتی ہیں۔ معلومات کے لیے مقامی گروہوں دوسرے ذرایع کے علاوہ بھکاریوں، ردی والوں، کوڑا کرکٹ اکھٹے کرنے والے، آئس کریم اور سبزی فروشوں کو استعمال کرتے ہیں۔ بعض اوقات گھر میں موجود نوکر اور صفائی کرنے والے ان کے آنکھیں اور کان بنتے ہیں۔
ان حا لات میں ہم جیسے شریف لوگوں کا جینا محال ہو جانا کوئی اچھوتی بات نہیں ہے۔ یو ں لگتا ہے کہ اس ملک میں اس وقت تحفظ حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے اور وہ ہے اسلحہ اور طاقت کا بے دریغ استعمال۔ ظاہر ہے ہم نہ یہ کر سکتے ہیں اور نہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری تعلیم اصلی ڈگریوں پر مبنی ہے۔ ہماری کمزوری یہ ہے کہ بزرگوں نے ہماری تربیت اصولوں کے مطا بق کی ہے۔ حلال پر پالا ہے۔ دو نمبری نہیں سکھائی۔
بدمعاشی، بلیک میلنگ، اور نوسر بازی سے دور رکھا ہے۔ اگر ہم یہ سب کچھ کر پاتے تو شاید ہمارا شمار بھی آج فیصلہ ساز قوتوں میں ہوتا اور ہم ایک ٹوٹے ہوئے ریکارڈ کی طرح ہائے ہائے کی رٹ پر نہ پھنسے ہوتے۔ بہرحال ہم جو ہے وہ ہیں۔ ریاست ہمیں کچھ دینے کو تیار نہیں۔ پانی ہم زمین سے نکال رہے ہیں۔ صحت کے لیے نجی اسپتال میں جاتے ہیں۔ تعلیم سے حکومت نے ہاتھ اٹھا لیے ہیں۔ نقل و حرکت ہماری ذمے داری ہے۔ چھت ہم نے خود بنانی ہے اور سب سے بڑھ کر اپنا اور اپنے خاندان کا تحفظ بھی خود ہی کرنا ہے۔ میں نے اپنے گھر میں کیمرے لگوا لیے ہیں۔ اگرچہ میں اپنے بچو ں کو یہ بتانے سے قاصر ہوں کہ میں اور میری بیوی دن رات اسکرین پہ خالی سڑکیں، گھرکا گیراج اور پچھواڑے کو کیوں دیکھتے رہتے ہیں۔
سیکیورٹی گارڈ کا انتظام بھی کر لیا ہے۔ اچھا مگر ریٹائرڈ فوجی جو بندوق سیدھی کرنا جانتا ہے 18 ہزار میں پڑتا ہے۔70 سال سے اوپر کا سویلین 14 ہزار میں۔ پولیس سے بھی گارڈ حاصل کیے جا سکتے ہیں جو آپ کو 19500 میں پڑتا ہے۔ ہم یہ انتظام کرنے کے باوجود خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ کیو نکہ یہ محلہ غیر محفوظ ہے، یہ شہر غیر محفوظ ہے۔ اس ملک کی حکومتوں اور ریاست نے مل کر اس وطن کو غیر محفوظ کر دیا ہے ہم یہ انتظام کر رہے ہیں۔ آپ بھی کچھ سوچیں کوئی نظام بنائیے۔ حکومت اور ریاست کی طرف نہ دیکھیں یہ ہمارے کسی کام کے نہیں ہے۔
والسلام،