اسلام آباد میں سرکاری رہائش کیلیے خالی ہونے سے مشروط لیٹرز غیر قانونی قرار
سرکاری رہائش گاہ کے منتظر جنرل ویٹنگ لسٹ میں شامل وفاقی ملازمین کا ڈیٹا تیار کرنے کی ہدایت
اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسلام آباد میں سرکاری رہائش کے لیے 'سبجیکٹ ٹو ویکنسی' (خالی ہونے سے مشروط) الاٹنمنٹ لیٹرز کا اجرا غیر قانونی قرار دے دیا۔
جسٹس بابر ستار نے کنٹریکٹ ملازم سمیرا صدیقی کی الاٹمنٹ منسوخی کیخلاف درخواست خارج کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔
ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ 'سبجیکٹ ٹو ویکنسی' تمام الاٹمنٹ لیٹرز منسوخ تصور ہوں گے ، اٹارنی جنرل اور وزارت ہاؤسنگ نے تسلیم کیا رولز میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ، وفاقی حکومت سرکاری رہائش گاہوں کی الاٹمنٹ میں اکاموڈیشن رولز کی خلاف ورزی کرتی رہی ہے۔
عدالت نے سیکرٹری ہاؤسنگ کو سرکاری رہائش گاہ کے منتظر جنرل ویٹنگ لسٹ میں شامل وفاقی ملازمین کا ڈیٹا تیار کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ڈیٹا کی تیاری نادرا اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے تصدیق کے ساتھ کی جائے، وزارت ہاؤسنگ کی ویب سائٹ پر ویٹنگ لسٹ اور اکاموڈیشن لسٹ کی 30 دن میں دستیابی کو یقینی بنائے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ڈیٹا تیاری میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، وزارت آئی ٹی، فنانس ڈویژن اور نادرا معاونت فراہم کریں، سیکرٹری ہاؤسنگ نے انڈرٹیکنگ دی کہ وہ سروے کرائیں گے کہ کون ہیں جنہوں نے الاٹمنٹ کرا کے رہائش رینٹ پر دے رکھی ہے، سیکریٹری ہاؤسنگ رہائشیں رینٹ پر دینے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کر سکتے ہیں۔
ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ وزارت ہاوسنگ کو ایک ماہ میں جنرل ویٹنگ لسٹ اور دیگر ترجیحی فہرستیں منسٹری ویب سائٹ پر آویزاں کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ از خود نوٹس کا اختیار نہیں رکھتی۔ مذکورہ درخواست پر وزارت ہاوسنگ کی رپورٹ میں الاٹمنٹ کے سلسلے میں بے شمار بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ یہ عدالت رہائش کے قوانین کے دائرہ کار یا حکومت کو ہدایات جاری کرنے کیلئے از خود اختیارات کا استعمال نہیں کر رہی ، تحمل کا مظاہرہ کیا اور کسی فریق کے الاٹمنٹ استحقاق متعلق کوئی قطعی فیصلہ نہیں دیا ، حتمی فیصلہ صرف درخواست گزار کی حد تک ہے۔ سماعت کے دوران الاٹمنٹ متعلق سامنے آنیوالی بے ضابطگیوں کا معاملہ متعلقہ حکام پر چھوڑ دیا۔
جسٹس بابر ستار نے کنٹریکٹ ملازم سمیرا صدیقی کی الاٹمنٹ منسوخی کیخلاف درخواست خارج کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔
ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ 'سبجیکٹ ٹو ویکنسی' تمام الاٹمنٹ لیٹرز منسوخ تصور ہوں گے ، اٹارنی جنرل اور وزارت ہاؤسنگ نے تسلیم کیا رولز میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ، وفاقی حکومت سرکاری رہائش گاہوں کی الاٹمنٹ میں اکاموڈیشن رولز کی خلاف ورزی کرتی رہی ہے۔
عدالت نے سیکرٹری ہاؤسنگ کو سرکاری رہائش گاہ کے منتظر جنرل ویٹنگ لسٹ میں شامل وفاقی ملازمین کا ڈیٹا تیار کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ڈیٹا کی تیاری نادرا اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے تصدیق کے ساتھ کی جائے، وزارت ہاؤسنگ کی ویب سائٹ پر ویٹنگ لسٹ اور اکاموڈیشن لسٹ کی 30 دن میں دستیابی کو یقینی بنائے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ڈیٹا تیاری میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، وزارت آئی ٹی، فنانس ڈویژن اور نادرا معاونت فراہم کریں، سیکرٹری ہاؤسنگ نے انڈرٹیکنگ دی کہ وہ سروے کرائیں گے کہ کون ہیں جنہوں نے الاٹمنٹ کرا کے رہائش رینٹ پر دے رکھی ہے، سیکریٹری ہاؤسنگ رہائشیں رینٹ پر دینے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کر سکتے ہیں۔
ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ وزارت ہاوسنگ کو ایک ماہ میں جنرل ویٹنگ لسٹ اور دیگر ترجیحی فہرستیں منسٹری ویب سائٹ پر آویزاں کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ از خود نوٹس کا اختیار نہیں رکھتی۔ مذکورہ درخواست پر وزارت ہاوسنگ کی رپورٹ میں الاٹمنٹ کے سلسلے میں بے شمار بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ یہ عدالت رہائش کے قوانین کے دائرہ کار یا حکومت کو ہدایات جاری کرنے کیلئے از خود اختیارات کا استعمال نہیں کر رہی ، تحمل کا مظاہرہ کیا اور کسی فریق کے الاٹمنٹ استحقاق متعلق کوئی قطعی فیصلہ نہیں دیا ، حتمی فیصلہ صرف درخواست گزار کی حد تک ہے۔ سماعت کے دوران الاٹمنٹ متعلق سامنے آنیوالی بے ضابطگیوں کا معاملہ متعلقہ حکام پر چھوڑ دیا۔