آؤ برصغیر کو زندہ کریں
بسم اﷲ خان مرحوم شہنائی تو بجاتے تھے مگر تھے وہ دل سے کانگریسی، روی شنکر ہو یا کوئی اور کیسے انتہا پرست ہوسکتے ہیں۔
ISLAMABAD:
بات ہوگی آج مودی سرکار کی۔ گاندھی اور جناح کے گجرات کی۔ کس طرح اپنے ابا کے چائے کے ٹھیلے پر بیراگیری کرتا ہوا ایک لڑکا طویل ترین وزیر اعلیٰ گجرات کی ریاست میں ریکارڈ قائم کرنے کے بعد اب دلی پر راج کرنے کو جا رہا ہے۔ وہ اس طرح ہندوستان کو اندر سے کھوکھلا کرنے جا رہا ہے، شاید جس طرح ہٹلر نے جرمنی کو کیا تھا۔ بہت کچھ ایک جیسا ہے ان دونوں میں، وقت مگر بدلا بدلا سا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ داستان رقم کروں، میں جانا چاہتا ہوں بہت دور تاریخ کے ان اوراق میں جب امیر خسرو ہندوستان میں انسان تراشنے جا رہے تھے، جب کبیر بانی لکھ رہے تھے اور میرا بھجن گاتی تھی۔ ادھر ویدوں کا ہندوستان تھا۔
قدیم سندھ کی پنجاب سے اتنی رفاقت نہیں تھی، بس ایک دریا تھا جو بہتا ہوا وہاں سے گزر کے یہاں آتا تھا۔ اکبر نے 1592 میں پہلے بنگال اور پھر ٹھٹھہ پر حملہ کرکے مرزا جانی سے سندھ لے کے اسے ہندوستان کے ملتان صوبے سے ملا دیا تو سندھ کا گورنر بھی ملتان میں بیٹھتا تھا۔ باقی سارا سندھ گجرات، راجستھان سے راجپوتوں و ٹھاکروں سے جڑا ہوا تھا۔ اکبر کو سندھ سے لگاؤ تھا، وہ خود یہاں پیدا ہوا تھا۔ بھٹائی کو گجرات سے پیار تھا۔ ہر سال اونٹوں پر بیٹھ کر بہت دنوں کے لیے تھر کے راستے گجرات کو نکل پڑتے تھے۔ ''شاہ جو رسالو'' میں گجرات کے شہر کھنبات کے نام سے پورا ایک باب رقم کیا۔
ہندوستان کو اہنسا سکھائی تو سندھ نے سکھائی، کیوں کہ اکبر نے عظیم ہندوستان کو پہلی مرتبہ بتایا کہ ریاست اور مذہب دو الگ حقیقتیں ہیں اور ان کو گڈمڈ کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ وہ بنیادیں اس طرح ہندوستان میں مسلمانوں کی سلطنت کی ڈالیں جو ڈیڑھ صدی تک بڑے اطمینان کے ساتھ مسلمانوں کا دور چلتا رہا۔ مگر پھر اورنگزیب مذہب کو اس طرح بیچ میں لائے جس طرح ضیا الحق پاکستان میں لائے اور ہندوستان بکھر گیا۔ اسی ہندوستان کے جب دولخت ہوئے تو یہی گجرات تھا جس نے اس طوفان کی قیادت کی۔
ولبھ بھائی بھی گجرات سے تھے۔ وہ امیر خسرو نے جو کلاسیکل موسیقی کی داغ بیل ڈالی وہ ہندوستان نہ جانے کہاں رہ گیا۔ ''پیار نہیں سر سے جس کو وہ مورت انسان نہیں''۔ وہ روی شنکر کا ستار، وہ ہری پرساد کی بانسری، وہ بسم اﷲ خان کی شہنائی، وہ ذاکر حسین کا طبلہ، وہ پروین سلطانہ کا ''خیال'' گانا، وہ بھیرویاں، وہ تان سین، وہ استاد بڑے غلام علی نہ جانے کیا ہوئے۔ وہ قرۃ العین حیدر کا ہندوستان، وہ اس کا پاکستان۔ آئی تو تھی مگر ایوب کی آمریت آئی تو واپس دلی کو چل پڑی۔
کون جانے خسرو کیا تھے، مسلمان تھے یا ہندو تھے، بس ایک بات تھی کہ وہ انسان تھے اور موسیقی کے سہارے انسان تراشنا چاہتے تھے۔ برصغیر سے وہ حساس من جو امیرخسرو پیدا کرنے جا رہے تھے، جو کبیر نے ایک آفاقی انسان برصغیر کے لیے مانگا تھا، جس کینوس پر ٹیگور نے رنگ بھرے تھے۔ جو فیضی کا انسان تھا۔ بلا، باہو، فریدہ، امرتا پریتم کا انسان تھا، وہ نہ جانے کہاں رہ گیا؟ اب برصغیر میں انسان نہیں تراشے جاتے۔ انسانوں کے قاتل تراشے جاتے ہیں، نفرتوں کا بازار لگایا گیا ہے۔ یہاں کلاشنکوف اور وہاں خنجر گھونپ خوب چلتے ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی سانس سینے میں دبکی ہوئی ہے اور یہاں مسلمانوں میں تفریق کردی گئی ہے، کوئی شیعہ، کوئی بریلوی ہے تو کوئی دیوبندی، وہ ایک دوسرے کو مسلمان نہیں مانتے۔ میرا برصغیر کس ڈگر پر چل پڑا ہے۔
بسم اﷲ خان مرحوم شہنائی تو بجاتے تھے مگر تھے وہ دل سے کانگریسی، روی شنکر ہو یا کوئی اور کیسے انتہا پرست ہوسکتے ہیں۔ اور تو اور ایک مسلمان ہندوستان میں کس طرح مودی کی RSS کا حمایتی ہوسکتا ہے۔ وانسوانی میں راہول گاندھی کا جلسہ تھا، اس میں بسم اﷲ خان کے بیٹے نے جو خود شہنائی نواز تھے، شہنائی بجائی تو مودی بہت برہم ہوئے اور کہا کہ ''جب ہمارا وہاں جلسہ تھا تو تم نے ہماری دعوت کیوں قبول نہیں کی اور شہنائی کیوں نہیں بجائی؟'' اور پھر جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ان کو ملیں۔ بسم اﷲ خان صاحب کے بیٹے نے کہا وہ ہمارا سیاسی و انسانی حق ہے کہ ہم کہاں گائیں گے اور کہاں نہیں کہ وہ بھی اپنے ابا کی طرح کانگریسی ہیں۔
کہتے ہیں ہٹلر ناکام مصور تھے، مصور نہ بن سکے تو انتقام پر اتر آئے۔ جرمن بھی نہیں تھے، آسٹریا سے تعلق تھا، اور وہ جرمنی کا حصہ تھا (آج کل الگ ملک ہے)۔ شراب خانوں کی وہ کلاس جہاں غریب لوگ جایا کرتے تھے تقریر کے فن سے بہت خوب واقف تھے۔ غریبوں کو جنگی جنون و نفرتوں کی خبریں سناتے تھے، اور یہودیوں کے خلاف اکساتے تھے۔ جب بولتے تھے تو سناٹا چھا جاتا تھا۔
سارے شرابیوں جو نچلے طبقے سے تھے، بہت سے ان میں چوری چکاری بھی کرتے تھے مسلح رہتے تھے، ان کے ہر دل عزیز تھے۔ شادی کی مگر فوری ہی علیحدگی اختیار کی، یوں کرتے کرتے 1933 میں جرمنی کے چناؤ میں جیتے، صدر ہینڈسبرگ کو اسے چانسلر کرنا ہی پڑا۔ وہ جرمنی کے آئین میں ترامیم اکثریت ہونے کی وجہ سے کراتے گئے اور صدر ہینڈسبرگ دستخط کرتے گئے۔ ہینڈسبرگ رحلت کرگئے، اور پھر ایسا بھی ہوا یہ قانون بھی پاس ہوگیا کہ اب قانون بنانے کے سارے اختیار ہٹلر کے پاس ہیں (جس طرح ظفر علی شاہ کیس میں آئین میں ترامیم کرنے کا اختیار جنرل مشرف کو دیا گیا تھا)۔
اور پھر سارے مسلح نازی، جو لٹیرے بھی تھے، جیلوں میں سزائیں کاٹ رہے تھے، ان کو ہٹلر نے جیل سے رہا کردیا۔ ہٹلر نے بھی PPO جیسا قانون بنایا اور اسے اپنے مخالفین کے خلاف غداری کا الزام لگانے کے لیے استعمال کیا، یہاں تک کہ خود اپنی پارٹی کے پارلیمانی نمائندوں کو بھی نہ چھوڑا۔ ادھر آزاد ہوتے نازی پھر سے مسلح ہوئے۔ یہودیوں کا گھیرا تنگ کیا۔ جرمنی کے پڑوسی یہ سب ہوتا ہوا دیکھ رہے تھے اور اسے جرمنی کا اندرونی معاملہ سمجھ رہے تھے۔ جب چیکوسلواکیہ پر قبضہ کیا تب بھی برداشت کیا اور جب پولینڈ پر کیا تو دنیا اٹھ گئی۔ ہٹلر خود جرمنی میں آئی ہوئی خطرناک افراط زر کی وجہ سے بھی مقبول ہوئے۔ قوم سے وعدے کرنے میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ ان کو احساس ہوا کہ وہ دنیا کی سپر قوم ہیں اور انھیں دنیا پر حکمرانی کرنے کا حق ملا ہوا ہے اور وہ یہ حق چھین کر لیں گے۔
مودی بھی کہتے ہیں لفاظی میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ اعلیٰ مقرر ہیں۔ RSS کے پرچارک تھے۔ ان کے شاگرد تنظیم کے رہنما بنے۔ ولبھ بھائی پٹیل کا اپنے آپ کو روحانی اولاد سمجھتے ہیں۔ ہندوستان میں اپنی مقبولیت کے لیے مسلمانوں سے نفرت کو ہوا دی۔ پورے گجرات میں آگ لگادی۔ وہ یہی بی جے پی ہی ہے لیکن اس بی جے پی کے اندر انتہا پرست RSS کے مرکزی رہنما ہیں۔ یہ وہ RSS ہے جس کی بنیادیں ڈالنے والوں میں اسی سندھ سے تعلق رکھنے والے ایل کے ایڈوانی بھی ہیں۔
مودی نے شادی کی مگر بیوی کے ساتھ رہ نہیں پائے۔ دو سال ہمالیہ کے پہاڑوں میں سنیاس بھی کیا۔ واپس آئے، اب کے چائے کے ٹھیلے پر کام بھی کیا۔ بالکل بہت ہٹلر کی طرح پاپولر ہوئے، اپنی زہر آلود تقاریر سے ہندوستان کے لوگوں میں مقبولیت بھی حاصل کی۔ ہندوستان کے آج سیکولرزم کو پہلی بار کوئی خطرہ لاحق ہوا ہے تو وہ مودی سے ہوا ہے اور اگر جیت گئے جس کے قوی امکان ہیں تو پورے برصغیر میں نئے سرے سے نفرتوں کی آگ بھڑکنے کے قوی امکانات ہیں۔
ٹھیک ہے وہ تاریخ کے ایک بڑے بحران سے گزر رہے ہیں۔ لیکن وہ ہٹلر کی طرح بنیادوں کو ہلا نہیں سکے گا۔ مودی ہٹلر نہیں بن سکتا۔ اور اب کی بار دنیا بھی وہ دوسری عظیم جنگ والی نہیں ہے۔ہاں مگر وہ جو امیر خسرو ایک برصغیر کا انسان راگ کے ذریعے حساس کرنا چاہتے تھے، وہ کبیر، وہ میرا بائی، بلا، باہو والا برصغیر وہ انسان پیدا نہیں کرسکا۔ ایک ایسا انسان جو دنیا کے انسان بنانے کے کام کا ہر اول دستے والا کام کرے گا۔
ڈر ہے کہ کہیں اس پاکستان میں جو ماتم کی گھڑی ہے، مسلمان، مسلمان کی جان لینے پر تلا ہوا ہے۔ ہر طرف خون کی پچکاریاں ہیں، وہ طبلہ وہاں ٹوٹا پڑا ہے، وہ شہنائی، وہ بانسری خون میں لت پت ہے اور امیر خسرو کا ستار پھر بھی درد کی تندوں کو سجائے بج رہا ہے، کوئی کتھک ناچ کر رہا ہے، تو اس کے پیروں میں پازیب سے لہو ٹپک رہا ہے۔ یہ کیا ہوا ہے کہ دل میرا رشید رحمان کے قتل سے بھر گیا ہے اور آنکھ ہے کہ آنسو نہیں روتی۔ برصغیر جل رہا ہے، اٹھو اب گاندھی، جناح تمہارا گجرات بنجر ہوگیا ہے۔ اٹھو اب پھر امیر خسرو کے راگ سے برصغیر کو زندہ کریں اور انسان تراشنے کا پھر سے دھندہ کریں۔
بات ہوگی آج مودی سرکار کی۔ گاندھی اور جناح کے گجرات کی۔ کس طرح اپنے ابا کے چائے کے ٹھیلے پر بیراگیری کرتا ہوا ایک لڑکا طویل ترین وزیر اعلیٰ گجرات کی ریاست میں ریکارڈ قائم کرنے کے بعد اب دلی پر راج کرنے کو جا رہا ہے۔ وہ اس طرح ہندوستان کو اندر سے کھوکھلا کرنے جا رہا ہے، شاید جس طرح ہٹلر نے جرمنی کو کیا تھا۔ بہت کچھ ایک جیسا ہے ان دونوں میں، وقت مگر بدلا بدلا سا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ داستان رقم کروں، میں جانا چاہتا ہوں بہت دور تاریخ کے ان اوراق میں جب امیر خسرو ہندوستان میں انسان تراشنے جا رہے تھے، جب کبیر بانی لکھ رہے تھے اور میرا بھجن گاتی تھی۔ ادھر ویدوں کا ہندوستان تھا۔
قدیم سندھ کی پنجاب سے اتنی رفاقت نہیں تھی، بس ایک دریا تھا جو بہتا ہوا وہاں سے گزر کے یہاں آتا تھا۔ اکبر نے 1592 میں پہلے بنگال اور پھر ٹھٹھہ پر حملہ کرکے مرزا جانی سے سندھ لے کے اسے ہندوستان کے ملتان صوبے سے ملا دیا تو سندھ کا گورنر بھی ملتان میں بیٹھتا تھا۔ باقی سارا سندھ گجرات، راجستھان سے راجپوتوں و ٹھاکروں سے جڑا ہوا تھا۔ اکبر کو سندھ سے لگاؤ تھا، وہ خود یہاں پیدا ہوا تھا۔ بھٹائی کو گجرات سے پیار تھا۔ ہر سال اونٹوں پر بیٹھ کر بہت دنوں کے لیے تھر کے راستے گجرات کو نکل پڑتے تھے۔ ''شاہ جو رسالو'' میں گجرات کے شہر کھنبات کے نام سے پورا ایک باب رقم کیا۔
ہندوستان کو اہنسا سکھائی تو سندھ نے سکھائی، کیوں کہ اکبر نے عظیم ہندوستان کو پہلی مرتبہ بتایا کہ ریاست اور مذہب دو الگ حقیقتیں ہیں اور ان کو گڈمڈ کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ وہ بنیادیں اس طرح ہندوستان میں مسلمانوں کی سلطنت کی ڈالیں جو ڈیڑھ صدی تک بڑے اطمینان کے ساتھ مسلمانوں کا دور چلتا رہا۔ مگر پھر اورنگزیب مذہب کو اس طرح بیچ میں لائے جس طرح ضیا الحق پاکستان میں لائے اور ہندوستان بکھر گیا۔ اسی ہندوستان کے جب دولخت ہوئے تو یہی گجرات تھا جس نے اس طوفان کی قیادت کی۔
ولبھ بھائی بھی گجرات سے تھے۔ وہ امیر خسرو نے جو کلاسیکل موسیقی کی داغ بیل ڈالی وہ ہندوستان نہ جانے کہاں رہ گیا۔ ''پیار نہیں سر سے جس کو وہ مورت انسان نہیں''۔ وہ روی شنکر کا ستار، وہ ہری پرساد کی بانسری، وہ بسم اﷲ خان کی شہنائی، وہ ذاکر حسین کا طبلہ، وہ پروین سلطانہ کا ''خیال'' گانا، وہ بھیرویاں، وہ تان سین، وہ استاد بڑے غلام علی نہ جانے کیا ہوئے۔ وہ قرۃ العین حیدر کا ہندوستان، وہ اس کا پاکستان۔ آئی تو تھی مگر ایوب کی آمریت آئی تو واپس دلی کو چل پڑی۔
کون جانے خسرو کیا تھے، مسلمان تھے یا ہندو تھے، بس ایک بات تھی کہ وہ انسان تھے اور موسیقی کے سہارے انسان تراشنا چاہتے تھے۔ برصغیر سے وہ حساس من جو امیرخسرو پیدا کرنے جا رہے تھے، جو کبیر نے ایک آفاقی انسان برصغیر کے لیے مانگا تھا، جس کینوس پر ٹیگور نے رنگ بھرے تھے۔ جو فیضی کا انسان تھا۔ بلا، باہو، فریدہ، امرتا پریتم کا انسان تھا، وہ نہ جانے کہاں رہ گیا؟ اب برصغیر میں انسان نہیں تراشے جاتے۔ انسانوں کے قاتل تراشے جاتے ہیں، نفرتوں کا بازار لگایا گیا ہے۔ یہاں کلاشنکوف اور وہاں خنجر گھونپ خوب چلتے ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی سانس سینے میں دبکی ہوئی ہے اور یہاں مسلمانوں میں تفریق کردی گئی ہے، کوئی شیعہ، کوئی بریلوی ہے تو کوئی دیوبندی، وہ ایک دوسرے کو مسلمان نہیں مانتے۔ میرا برصغیر کس ڈگر پر چل پڑا ہے۔
بسم اﷲ خان مرحوم شہنائی تو بجاتے تھے مگر تھے وہ دل سے کانگریسی، روی شنکر ہو یا کوئی اور کیسے انتہا پرست ہوسکتے ہیں۔ اور تو اور ایک مسلمان ہندوستان میں کس طرح مودی کی RSS کا حمایتی ہوسکتا ہے۔ وانسوانی میں راہول گاندھی کا جلسہ تھا، اس میں بسم اﷲ خان کے بیٹے نے جو خود شہنائی نواز تھے، شہنائی بجائی تو مودی بہت برہم ہوئے اور کہا کہ ''جب ہمارا وہاں جلسہ تھا تو تم نے ہماری دعوت کیوں قبول نہیں کی اور شہنائی کیوں نہیں بجائی؟'' اور پھر جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ان کو ملیں۔ بسم اﷲ خان صاحب کے بیٹے نے کہا وہ ہمارا سیاسی و انسانی حق ہے کہ ہم کہاں گائیں گے اور کہاں نہیں کہ وہ بھی اپنے ابا کی طرح کانگریسی ہیں۔
کہتے ہیں ہٹلر ناکام مصور تھے، مصور نہ بن سکے تو انتقام پر اتر آئے۔ جرمن بھی نہیں تھے، آسٹریا سے تعلق تھا، اور وہ جرمنی کا حصہ تھا (آج کل الگ ملک ہے)۔ شراب خانوں کی وہ کلاس جہاں غریب لوگ جایا کرتے تھے تقریر کے فن سے بہت خوب واقف تھے۔ غریبوں کو جنگی جنون و نفرتوں کی خبریں سناتے تھے، اور یہودیوں کے خلاف اکساتے تھے۔ جب بولتے تھے تو سناٹا چھا جاتا تھا۔
سارے شرابیوں جو نچلے طبقے سے تھے، بہت سے ان میں چوری چکاری بھی کرتے تھے مسلح رہتے تھے، ان کے ہر دل عزیز تھے۔ شادی کی مگر فوری ہی علیحدگی اختیار کی، یوں کرتے کرتے 1933 میں جرمنی کے چناؤ میں جیتے، صدر ہینڈسبرگ کو اسے چانسلر کرنا ہی پڑا۔ وہ جرمنی کے آئین میں ترامیم اکثریت ہونے کی وجہ سے کراتے گئے اور صدر ہینڈسبرگ دستخط کرتے گئے۔ ہینڈسبرگ رحلت کرگئے، اور پھر ایسا بھی ہوا یہ قانون بھی پاس ہوگیا کہ اب قانون بنانے کے سارے اختیار ہٹلر کے پاس ہیں (جس طرح ظفر علی شاہ کیس میں آئین میں ترامیم کرنے کا اختیار جنرل مشرف کو دیا گیا تھا)۔
اور پھر سارے مسلح نازی، جو لٹیرے بھی تھے، جیلوں میں سزائیں کاٹ رہے تھے، ان کو ہٹلر نے جیل سے رہا کردیا۔ ہٹلر نے بھی PPO جیسا قانون بنایا اور اسے اپنے مخالفین کے خلاف غداری کا الزام لگانے کے لیے استعمال کیا، یہاں تک کہ خود اپنی پارٹی کے پارلیمانی نمائندوں کو بھی نہ چھوڑا۔ ادھر آزاد ہوتے نازی پھر سے مسلح ہوئے۔ یہودیوں کا گھیرا تنگ کیا۔ جرمنی کے پڑوسی یہ سب ہوتا ہوا دیکھ رہے تھے اور اسے جرمنی کا اندرونی معاملہ سمجھ رہے تھے۔ جب چیکوسلواکیہ پر قبضہ کیا تب بھی برداشت کیا اور جب پولینڈ پر کیا تو دنیا اٹھ گئی۔ ہٹلر خود جرمنی میں آئی ہوئی خطرناک افراط زر کی وجہ سے بھی مقبول ہوئے۔ قوم سے وعدے کرنے میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ ان کو احساس ہوا کہ وہ دنیا کی سپر قوم ہیں اور انھیں دنیا پر حکمرانی کرنے کا حق ملا ہوا ہے اور وہ یہ حق چھین کر لیں گے۔
مودی بھی کہتے ہیں لفاظی میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ اعلیٰ مقرر ہیں۔ RSS کے پرچارک تھے۔ ان کے شاگرد تنظیم کے رہنما بنے۔ ولبھ بھائی پٹیل کا اپنے آپ کو روحانی اولاد سمجھتے ہیں۔ ہندوستان میں اپنی مقبولیت کے لیے مسلمانوں سے نفرت کو ہوا دی۔ پورے گجرات میں آگ لگادی۔ وہ یہی بی جے پی ہی ہے لیکن اس بی جے پی کے اندر انتہا پرست RSS کے مرکزی رہنما ہیں۔ یہ وہ RSS ہے جس کی بنیادیں ڈالنے والوں میں اسی سندھ سے تعلق رکھنے والے ایل کے ایڈوانی بھی ہیں۔
مودی نے شادی کی مگر بیوی کے ساتھ رہ نہیں پائے۔ دو سال ہمالیہ کے پہاڑوں میں سنیاس بھی کیا۔ واپس آئے، اب کے چائے کے ٹھیلے پر کام بھی کیا۔ بالکل بہت ہٹلر کی طرح پاپولر ہوئے، اپنی زہر آلود تقاریر سے ہندوستان کے لوگوں میں مقبولیت بھی حاصل کی۔ ہندوستان کے آج سیکولرزم کو پہلی بار کوئی خطرہ لاحق ہوا ہے تو وہ مودی سے ہوا ہے اور اگر جیت گئے جس کے قوی امکان ہیں تو پورے برصغیر میں نئے سرے سے نفرتوں کی آگ بھڑکنے کے قوی امکانات ہیں۔
ٹھیک ہے وہ تاریخ کے ایک بڑے بحران سے گزر رہے ہیں۔ لیکن وہ ہٹلر کی طرح بنیادوں کو ہلا نہیں سکے گا۔ مودی ہٹلر نہیں بن سکتا۔ اور اب کی بار دنیا بھی وہ دوسری عظیم جنگ والی نہیں ہے۔ہاں مگر وہ جو امیر خسرو ایک برصغیر کا انسان راگ کے ذریعے حساس کرنا چاہتے تھے، وہ کبیر، وہ میرا بائی، بلا، باہو والا برصغیر وہ انسان پیدا نہیں کرسکا۔ ایک ایسا انسان جو دنیا کے انسان بنانے کے کام کا ہر اول دستے والا کام کرے گا۔
ڈر ہے کہ کہیں اس پاکستان میں جو ماتم کی گھڑی ہے، مسلمان، مسلمان کی جان لینے پر تلا ہوا ہے۔ ہر طرف خون کی پچکاریاں ہیں، وہ طبلہ وہاں ٹوٹا پڑا ہے، وہ شہنائی، وہ بانسری خون میں لت پت ہے اور امیر خسرو کا ستار پھر بھی درد کی تندوں کو سجائے بج رہا ہے، کوئی کتھک ناچ کر رہا ہے، تو اس کے پیروں میں پازیب سے لہو ٹپک رہا ہے۔ یہ کیا ہوا ہے کہ دل میرا رشید رحمان کے قتل سے بھر گیا ہے اور آنکھ ہے کہ آنسو نہیں روتی۔ برصغیر جل رہا ہے، اٹھو اب گاندھی، جناح تمہارا گجرات بنجر ہوگیا ہے۔ اٹھو اب پھر امیر خسرو کے راگ سے برصغیر کو زندہ کریں اور انسان تراشنے کا پھر سے دھندہ کریں۔