تنخواہوں میں اضافہ معیشت پر اثرات

ایپکا کے ایک عہدیدار کے مطابق اگر صرف مہنگائی کے تناسب کو مدنظر رکھا جائے تو کم ازکم 35 فیصد اضافہ ہونا چاہیے ۔۔۔

ikhalil2012@hotmail.com

لوگ اپنی آمدنی کا زیادہ تر حصہ اشیائے صرف اور دیگر ضروریات پر خرچ کردیتے ہیں۔ ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت، تقسیم آمدن میں عدم مساوات اور مہنگی خوراک کے باعث محدود آمدن والا تنخواہ دار طبقہ شدید مشکلات سے دوچار ہے چونکہ مہنگائی عروج پر ہے لہٰذا اشیائے صرف اور ضروریات زندگی کے لیے دونوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے باعث مصنوعات و پیداوار بن بکے بھی پڑی رہتی ہیں جس سے پیداواری عمل بھی متاثر ہوتا ہے اور بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

اگر لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہوتا چلا جائے تو ایسی صورت میں مصنوعات و پیداوار کی طلب میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور لوگ بھی برسر روزگار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کساد بازاری کی صورت میں حکومت ترقیاتی کاموں کی صورت میں سرکاری اخراجات میں اضافہ کردیتی ہے جس سے لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اکثر ممالک سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کردیتے ہیں جس سے اشیائے صرف مصنوعات اور دیگر پیداوار کی طلب بڑھتی ہے لہٰذا ان اشیا کی رسد کو پورا کرنے کے لیے پیداواری اور صنعتی عمل کو تیز کیا جاتا ہے۔ آمدن میں اضافے کے باعث کچھ لوگوں کی بچت میں اضافہ ہوکر بالآخر سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوتا ہے جس سے روزگار کے مواقعے بڑھتے ہیں اور معاشی ترقی کی شرح بڑھتی ہے۔

اگر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں قلیل نہیں بلکہ نمایاں اضافہ کیا جائے تو ایسی صورت میں ملک بھر میں تنخواہ دار طبقے کی اجرتوں، مزدوری اور تنخواہ میں اضافہ ہوکر لوگوں کی آمدن بڑھ جاتی ہے جس سے معاشرے میں آمدن کی تقسیم میں عدم مساوات کو کم کیا جاسکتا ہے کیونکہ تنخواہ دار طبقے کی آمدن میں اضافے سے جہاں مصنوعات کی طلب بڑھتی ہے، ان کی طرف سے تعلیمی اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے، صحت کی سہولیات کی خاطر رقوم خرچ کی جاتی ہے۔ اس طرح پورے ملک کی معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

جہاں تک سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا تعلق ہے گزشتہ عشرے کی بات ہے جب وزیر خزانہ بجٹ تقریر کے بعد گویا ہوئے کہ افسوس حکومت مالی مشکلات کے باعث سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کرنے سے قاصر ہے البتہ ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ جب اعلان کردہ اضافے کی رقم یکم اگست کو ملازمین وصول کرتے ہیں تو یہ رقم انتہائی قلیل ترین ہوتی ہے اور یہ اضافی رقم بھی مختلف مدوں کی صورت میں ان کی جیب سے فوراً واپس بھی چلی جاتی ہے مثلاً بجلی کے نرخوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ گیس کے نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی جب بھی ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اس کے ساتھ ہی کرایے کی شرح بھی بڑھا دی جاتی ہے اور دیگر مصنوعات و خدمات کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا جاتا ہے جب کہ حکومت نے ہاؤس رینٹ جو ملازمین کے لیے ان کے اسکیل کے مطابق مقرر کر رکھا ہے سالہا سال گزرنے کے باوجود اس میں اضافہ نہیں ہوپاتا۔ بعض ملازمین جن کو ہاؤس رینٹ تقریباً ڈھائی ہزار روپے ملتا ہے۔ آج کے دور میں کسی بھی شہر میں کم ازکم دو تین کمرے کا مکان کا کرایہ ہی 5تا 7ہزار روپے یا اس سے بھی زائد ہے جب کہ حکومت ملازمین کو میڈیکل الاؤنس کے طور پر ایک ہزار روپے دیتی ہے۔ اس وقت ایک اسپیشلسٹ کی فیس بھی ایک ہزار روپے سے زائد ہے۔ ایسی صورت میں دواؤں کے اخراجات، کسی بھی بیماری کی تشخیص کے لیے ہزاروں روپے کے ٹیسٹ کرائے جاتے ہیں۔


نیز سرکاری ملازمین کے لیے تعلیمی اخراجات ان کے لیے شدید مشکلات کا باعث بنتا چلا جا رہا ہے۔ چند عشرے قبل جب گورنمنٹ اسکولوں کا معیار بہت بلند تھا اب پرائیویٹ اسکولوں میں ان کا معیار بہتر ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ان اسکولوں کی فیسوں میں بے انتہا اضافہ کردیا گیا ہے جوکہ فی بچہ دو تین ہزار سے شروع ہوکر آٹھ، نو ہزار روپے ماہانہ تک جا پہنچا ہے۔ ہر سرکاری ملازم کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلوائے۔ حکومت ملک میں شرح خواندگی بھی بڑھانا چاہتی ہے۔

اس کے ساتھ ہی معیار تعلیم میں بھی اضافہ کرنا چاہیے۔ 1970 کی دہائی سے قبل یہ کہا جاتا رہا ہے کہ سرکاری ملازم کی تنخواہ ایک تولہ سونے کی قیمت کے بقدر ہونا چاہیے اس وقت سونا تقریباً ڈیڑھ سو روپے تولہ تھا اور ملازمین کی تنخواہیں بھی کم ازکم سو روپے سے زائد تھی لیکن آج یہ اسٹینڈرڈ تسلیم کر لیا جائے تو بات 50 ہزار روپے تک جا پہنچتی ہے لیکن وہ کون سا پیمانہ مقرر کیا جائے کہ ملازمین کو انصاف کے مطابق تنخواہ مل سکے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ سرکاری ملازمین کی مختلف تنظیمیں تنخواہوں میں اضافے کے سلسلے میں اپنے مطالبات حکومت کو پیش کرتی چلی آئی ہیں جس میں ''ایپکا'' تنظیم گزشتہ کئی عشروں سے جدوجہد کر رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ تنخواہوں میں اضافے کے سلسلے میں ان کے مطالبات کو بھی مدنظر رکھا جائے۔

ایپکا کے ایک عہدیدار کے مطابق اگر صرف مہنگائی کے تناسب کو مدنظر رکھا جائے تو کم ازکم 35 فیصد اضافہ ہونا چاہیے لیکن یہاں پر پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مکان کرایہ جو کہ اکثر ملازمین کو 8 تا 10 ہزار روپے ادا کرنا پڑتا ہے پھر بچوں کی فیس کی مد میں بھی ہر ماہ کئی ہزار روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں نیز بیماری کی صورت میں اخراجات الگ ہیں۔ حکومت کے بعض ملازمین جوکہ ''ہائر تک'' کی سہولیات حاصل کر رہے ہیں کیونکہ اس سہولت کے حصول کے مراحل اتنے مشکل ہیں کہ ہر ملازم یہ سہولت حاصل نہیں کر پاتا۔ نیز سرکاری مکانوں کی تعداد اتنی قلیل ہے کہ ہر ملازم کو کوارٹر یا مکان دستیاب نہیں ہوپاتا۔

سالہا سال گزرنے کے باوجود سرکاری مکانوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا جاتا۔ سرکاری مکانوں کی تعمیر کے لیے رقوم مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں نمایاں اضافے کے معیشت پر اثرات کا جائزہ لیں تو پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ جو کہ پہلے ہی مہنگائی، بچوں کی فیس میں اضافے، بڑھتے ہوئے صحت کے اخراجات، کرایہ مکان میں مسلسل اضافے کے باعث کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہا ہے اور غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس میں کمی لانے کے لیے ضروری ہے کہ تنخواہ دار طبقے کی اجرت، یا ان کی تنخواہوں میں اضافہ ہو۔ نجی ادارے اس سلسلے میں مسلسل تساہل سے کام لیتے ہیں البتہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرتے ہیں۔

اس اضافے میں ہر ایک کا معیار الگ ہے البتہ ملک میں مجموعی طور پر سرکاری ملازمین ہوں یا پرائیویٹ اداروں کے ملازمین ان سب کی تنخواہوں میں اضافے سے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ اشیائے صرف کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ ضروریات زندگی کی ہر شے کی مانگ میں اضافہ ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے ملکی مصنوعات کی پیداوار میں اضافہ کرنا پڑتا ہے جس سے کارخانے رواں دواں ہوتے ہیں۔ پیداواری عمل تیز کیا جاتا ہے۔ طلب میں اضافے کے باعث نئے کارخانے قائم کیے جاتے ہیں۔ لوگوں کے لیے روزگار کے مواقعے بڑھتے ہیں، طلب میں اضافے کے باعث وہ پیداوار جو بن بکے پڑی رہتی تھی اب ان کی رسد میں مزید اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح معاشرے میں مجموعی طلب بڑھنے کے باعث مجموعی اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔

اس طرح خرچ کے نتیجے میں عاملین پیدائش کو اپنا اپنا حصہ ملتا ہے اور ملک میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی آتی ہے اور معاشی ترقی کی شرح بڑھتی ہے البتہ یہاں پر ضروری ہے کہ تنخواہوں میں اضافہ قلیل نہ ہو کیونکہ اس سے قبل حکومتیں دعویٰ کرتی رہتی ہیں لیکن بجٹ کے اعلان کے موقعے پر انتہائی قلیل اضافہ کیا جاتا ہے جس سے معیشت پر مثبت اثرات مرتب نہیں ہوتے نیز سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں نمایاں اضافہ کرنے کے علاوہ حکومت کونجی اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں میں نمایاں اضافے کے لیے ترغیب دینا ہوگی کم ازکم اجرت میں مزیداضافہ کرنا ہوگا تاکہ ملک کے تنخواہ دار طبقے کی آمدن بڑھے کیونکہ اس وقت تنخواہ دار طبقہ ہی مسلسل غربت کی جانب بڑھتا چلا جا رہا ہے جس کے باعث ملک میں شدید کساد بازاری پائی جاتی ہے اور معاشی ترقی کی شرح گر گئی تھی۔
Load Next Story