کپتان ذرا سوچنا

کپتان نے قوم کو اتنی بڑی خوشی دی تو قوم بھی کپتان کی خواہش پر تن من دھن لٹانے کے لیے میدان عمل میں کود گئی ۔۔۔

عمران خان ہمارا ہیرو ہے۔ اس کی ولولہ انگیز قیادت میں ہم نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا، وہ فاتح بن کر اپنے وطن لوٹا تو اہل وطن راہوں میں بچھ گئے، پھر اس نے کہا ''میں اپنی والدہ کے نام پر شوکت خانم کینسر اسپتال بناؤں گا'' ساری دنیا سے انتہائی ماہر لوگ آئے اور انھوں نے کینسر اسپتال کے منصوبے کو ناممکن قرار دیا۔ مگر فولادی عزم والے کپتان نے کسی کی نہ سنی اور سر اٹھاکر کہا ''شوکت خانم کینسر اسپتال ضرور بنے گا۔''

1992 کے ورلڈ کپ میں کپتان نے کہا تھا ''ابھی بھی ہم ورلڈ کپ سے باہر نہیں ہوئے'' جب کہ ہماری ٹیم آگے پیچھے میچ ہار کے ٹورنامنٹ سے باہر ہوچکی تھی، اور ہماری بقا کسی معجزے کی مرہون منت ہوکر رہ گئی تھی۔ اور پھر کپتان کی اللہ نے سن لی، بارش نے ہمیں یقینی شکست سے بچاکر ایک قیمتی پوائنٹ دلا دیا۔ اگلا معجزہ بھی ہوگیا ، ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے میچ کا نتیجہ ہماری ٹیم کو ٹورنامنٹ میں واپس لے آیا اور پھر نوجوان بولر وسیم اکرم، نوجوان بلے باز انضمام الحق نے تجربہ کار کھلاڑی جاوید میانداد کے ساتھ مل کر ہر حالت میں کپ جیتنے کا جنون پورا کردیا۔

کپتان نے قوم کو اتنی بڑی خوشی دی تو قوم بھی کپتان کی خواہش پر تن من دھن لٹانے کے لیے میدان عمل میں کود گئی۔ اسکولوں کے بچوں نے کپتان کو سب سے زیادہ پیسہ جمع کرکے دیا۔ فاتح کپتان دنیا میں جس بھی ملک میں گیا، جھولیاں بھر بھر کے لوٹا، اور پھر ایک اور ناممکن کام کپتان کے جنون کا شکار ہوگیا شوکت خانم اسپتال بن گیا۔ عوام کے علاوہ حکومت نے بھی اسپتال بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ غرض کہ شوکت خانم کینسر اسپتال کے لیے چھوٹا بڑا ہر دروازہ کپتان کے لیے کھلا تھا۔

خود سر، جنونی، ضدی، ہٹ دھرم، بڑے بڑوں کو خاطر میں نہ لانے والے کپتان کی ہر ادا پر عوام و خواص فریفتہ تھے۔ ایسا ہی عمران خان سب کو اچھا لگتا تھا۔ پھر ایکا ایکی کپتان نے ایک اور بھاری پتھر کو ہاتھ لگادیا، اس بار کپتان کے چاہنے والوں کو ذرا تشویش سی ہوئی، سب کا ماتھا ٹھنکا۔

نہیں نہیں کپتان! یہ نہ کرنا...یہ تمہارے شایان شان کام نہیں ہے۔

مگر وہ عمران ہی کیا جو بھاری پتھر پر ہاتھ نہ ڈالے۔ وہ عمران ہی کیا جو ناممکن کو ممکن نہ بنائے۔ سو کپتان ملک سدھارنے کے لیے چل پڑا۔ اس نے اپنی جماعت کا نام پاکستان تحریک انصاف رکھا۔ کئی سال گزرگئے لوگوں کو کپتان کی سیاست سمجھ میں نہیں آرہی تھی، مگر کپتان کا جنون اسے آگے بڑھاتا رہا۔ نئے راستے، نئی منزلیں، چلتے چلتے کپتان سے کچھ غلطیاں بھی ہوئیں، جس کا اس نے کھلے دل سے اعتراف بھی کیا۔ بڑے آدمی کی یہ بھی ایک پہچان ہوتی ہے کہ وہ اپنی غلطیوں، خامیوں کا معترف ہوتا ہے اور پھر کپتان نے اپنے جنون کے ذریعے پورے ملک میں انقلاب کی جوت جگادی۔

خیبرپختونخوا سے کراچی کے ساحل تک اور بلوچستان کے پہاڑوں، سبزہ زاروں میں کپتان کے نعرے گونجنے لگے۔ خصوصاً نوجوان لڑکے لڑکیاں بے خوف و خطر کپتان کے ساتھ سڑکوں پر، میدانوں میں، جہاں کپتان بلاتا، لاکھوں کی تعداد میں جمع ہونے لگے۔ لاہور میں مینار پاکستان پر ایک بڑا جلسہ ہوا، جسے بلاشبہ لاہور کے چار پانچ بڑے جلسوں میں شامل کیا جاسکتا ہے کراچی میں بھی کپتان کو لاہور والا عروج ملا۔

اہل کراچی نے ایسی شان، آن اور بان سے جلسہ سجایا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ اور جب 11 مئی 2013 کا دن آیا، تو پہلی بار۔۔۔۔ہاں ہاں پہلی بار یہ منظر سب نے دیکھا کہ پولنگ اسٹیشنوں کے باہر ووٹ ڈالنے والوں کی قطاروں میں نوجوان لڑکے لڑکیاں بہت بڑی تعداد میں کھڑے ہوئے تھے۔ یہ کپتان کا جنون ہی تھا کہ الیکشن کے نتائج نے کپتان کی تحریک انصاف کو ملک کی دوسری بڑی جماعت بنادیا تھا۔ کراچی میں بھی شہر کی سیاست لرز کر رہ گئی۔ اور صوبہ خیبر پختونخوا میں کپتان اپنی حکومت بنانے کا حقدار ٹھہرا۔

الیکشن 2013 ختم ہوا اور کپتان نے ٹیسٹ کیس سمجھ کر صوبہ خیبر پختونخوا میں مستقل ڈیرے ڈال دیے۔ کپتان کے صوبے میں بہت بڑے بڑے مسائل تھے۔ سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی تھا اور دیگر مسائل، بے روزگاری، غربت، تعلیم، بیماری، گندگی، ٹوٹی سڑکیں اور اپنی عادت کے مطابق کپتان دن رات کام سے لگ گیا۔ اب اس کے ساتھ جاوید میانداد کی جگہ تجربہ کار جاوید ہاشمی تھا، سلیم ملک اور معین خان کی صورت جہانگیر ترین اور خورشید قصوری تھے۔


نوجوان وسیم اکرم، انضمام الحق کی جگہ اسد عمر، ولید اقبال تھے۔ وہ 1992 تھا اور یہ 2013۔ کپتان نے اپنی ٹیم کو لیا اور صوبہ خیبرپختونخوا میں ڈیرے ڈال دیے۔ اب کپتان کبھی اپنی ٹیم کے ساتھ مانسہرہ کی غریب بستیوں میں نظر آتا تو کبھی بنوں، مردان کی سڑکوں پر۔ اپنی ٹیم کے ساتھ ریت کے ڈھیر پر بیٹھا انجینئر اور مزدوروں کے ساتھ صلاح مشورے میں مصروف نظر آتا۔ کبھی کہیں دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کے جنازے اٹھائے کپتان اور اس کی ٹیم کے لوگ نظر آتے۔

لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ کپتان اپنی صوبائی حکومت کے وزرا پر شیر کی نظر رکھتا تھا مجال ہے جو کوئی ذرا بھی ہیرا پھیری کرجائے۔ کراچی، لاہور، ملتان، راولپنڈی ، اسلام آباد سے کپتان کے ووٹرز بلاوے بھجواتے تھے کہ ایک آدھ دن کو ہمارے شہر آجائیں اور کپتان جواباً کہتا تھا ''صوبہ خیبر پختونخوا کے لوگ بڑے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں، جہاں میری جماعت کی حکومت بنی ہے میں ان لوگوں کو چھوڑ کر نہیں آسکتا، یہ صوبہ میرے لیے ایک امتحان ہے، مجھے اور میری ٹیم کو اس امتحان میں کامیاب ہونا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ پورے صوبہ خیبرپختونخوا کو پیرس بنادوں۔ تعلیم، اسپتال جگہ جگہ موجود ہوں، غربت، بے روزگاری کا خاتمہ ہوجائے، دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے، اس کے لیے مجھے اسی صوبے میں رہنا ہے۔ میں کہیں نہیں آؤں جاؤں گا۔

اور پھر کپتان تصویروں میں نظر آتا، حویلیاں کے ٹوٹے پھوٹے کواڑوں کے اندر رہنے بسنے والوں کے ساتھ بیٹھا ہے۔ ان کو تسلی دے رہا ہے۔ انصاف اور فوری انصاف عوام کو کیسے مہیا کیا جائے، اس بارے میں اپنی ٹیم کے ساتھ سوچ بچار میں مبتلا، کبھی ایبٹ آباد کے نالے پر پل کی تعمیر کے مراحل میں سیمنٹ بجری کا تناسب دیکھتے ہوئے، کبھی کسی تھانے میں کہیں مظلوم کی پکار پر موجود۔

سارا پاکستان کپتان سے خوش، اس کے جنوں پر خوش۔

میں کپتان اور اس کی ٹیم کی کارکردگی میں محو تھا کہ میرے بیٹے نے مجھے جگادیا ''پشاور میں خودکش حملہ، پانچ افراد موقعے پر ہی شہید، کئی زخمی'' میں بھی ٹی وی دیکھ رہا تھا اور اپنے کپتان کو اس کی ٹیم کو میری آنکھیں ڈھونڈ رہی تھیں، مگر مجھے کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔ سینئر کھلاڑی مخدوم جاوید، مخدوم شاہ محمود، خورشید محمود، اعظم سواتی، پرویز خٹک، اور نوجوان کھلاڑی اسد عمر، ولید اقبال، کوئی بھی نہیں تھا۔ جلد ہی میں خواب کی کیفیت سے باہر آگیا اور اب ٹی وی پر کپتان تقریر کر رہا تھا۔

پارلیمنٹ کے عین سامنے ڈی چوک پر۔ اور میں سوچ رہا تھا ''کاش میں خواب ہی دیکھتا رہتا''۔ کپتان کہہ رہا تھا ''اب اگلے جمعہ فیصل آباد میں سونامی آئے گی'' کپتان! تمہیں کیا ہوگیا؟ تم بھی سیاست کے مکر، فریب میں آگئے، کپتان! اپنے جنون کے ساتھ اپنے صوبے خیبر پختونخوا لوٹ جاؤ۔ وہاں انتہائی دکھ اور تکلیف میں مبتلا لوگوں کو تمہاری ضرورت ہے، اور یاد رکھو! اسلام آباد کی حکمرانی کا راستہ بھی تمہارے لیے خیبر پختونخوا سے ہی جاتا ہے۔ جاؤ! واپس چلے جاؤ! سیاست نہیں جنون میں مبتلا رہو۔ فنا کانپور کا شعر لکھ کر بات ختم کرتا ہوں:

غیرت اہل چمن کو کیا ہوا!

چھوڑ آئے آشیاں جلتا ہوا

کپتان! ذرا سوچنا۔۔۔۔!
Load Next Story