پولیو……پاکستان کا نیا ’’عالمی ریکارڈ‘‘

پاکستان وہ پہلا ملک ہے، جس پر عالمی ادارہ صحت نے پولیو کی روک تھام میں ناکامی کے باعث سفری پابندیاں عائد کی ہیں۔

بھارت پر پابندیاں لگانے سے قبل انہیں دو ماہ کا وقت دیا گیا جبکہ پاکستان پر انہیں فوری نافذ کیا جارہا ہے فوٹو : فائل

ہمارے حکمران وطن عزیز کو عالمی ریکارڈز کا اعزاز دلوانے کے لئے ہر سال مختلف فیسٹیولز کے نام پر اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔لیکن اس بار ہمیں ایک ایسے عالمی ریکارڈ کا ''اعزاز'' بھی حاصل ہوا ہے، جس پر ایک ٹکا نہیں لگا، بس حکمرانوں کی روایتی غفلت اور عدم دلچسپی سے ہی کام چل گیا اور وہ ہے پولیو۔

جی ہاں! دنیا بھر میں پاکستان (شام اور کیمرون سمیت) وہ پہلا ملک ہے، جس پر عالمی ادارہ صحت (WHO) نے پولیو کی روک تھام میں ناکامی اور یہاں سے وائرس دیگر ممالک میں منتقل ہونے کے باعث سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ پابندیاں لگنے کے بعد وزیر مملکت برائے ہیلتھ سروسز نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ ''بھارت پر پابندیاں لگانے سے قبل انہیں دو ماہ کا وقت دیا گیا جبکہ پاکستان پر انہیں فوری نافذ کیا جا رہا ہے''۔

حالاں کہ حقائق یہ ہیں کہ بھارت پر ایسی کوئی پابندی کبھی لگی ہی نہیں، دنیا بھر میں ایسی پابندیوں کا نفاذ سب سے پہلے پاکستان پر ہی کیا گیا ہے۔ سفری پابندیاں یا شرائط لگانے کا اختیار عالمی ادارہ صحت کے تحت کام کرنے والی ایمرجنسی کمیٹی کے پاس ہے، جس میں پاکستانی ماہرین بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس کمیٹی کا اجلاس انتہائی نامساعد حالات ہی میں ہوتا ہے اور آج تک اس کے صرف 3 اجلاس ہوئے ہیں۔ کمیٹی کے اراکین کا پہلا اجلاس کانگو، دوسرا سوائن فلو اور اب تیسرا اور آخری پولیو کے معاملہ پر ہوا، جس میں کہا گیا کہ پاکستان سے وائرس دیگر ممالک منتقل ہو رہا ہے، لہذا اس پر سفری پابندیاں لگائی جائیں۔



پھر یہ پابندیاں ایک دن میں نہیں لگا دی گئیں، بلکہ حکومت کو اس بارے میں پہلے سے ہی آگاہی تھی کہ ہمارے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت فروری اور اس سے قبل بھی ایسے اشارے دے چکا تھا جس سے یوں لگ رہا تھا کہ پاکستانیوں پر سفری پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ آج ماہرین صحت حتی کہ کچھ سیاستدان بھی یہ الزام لگا رہے ہیں کہ پولیو پر قابو پانے میں حکمرانوں کی عدم دلچسپی کے باعث پابندیاں متوقع تھیں۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے ایک اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ ''پی ایم اے عرصہ دراز سے عالمی پابندیوں کے حوالے سے حکومت کو متعدد بار توجہ دلاتی رہی لیکن قومی لیڈروں کی لاتعلقی سے پوری دنیا میں پاکستان کی سْبکی ہوئی''۔ اس کے علاوہ بھارت نے تو پہلے ہی ہم پر ایسی سفری پابندی لگا رکھی ہے اور بعض حلقوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ حالیہ پابندیوں کی ایک وجہ بھارت کا انفرادی اقدام بھی ہے۔



بلاشبہ پولیو ایک مہلک اور متعدی بیماری ہے، جو آج تک ہزاروں افراد کی یا تو جان لے چکی ہے وگرنہ عمر بھر کے لئے معذور تو ضرور کر چکی ہے۔ لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ پولیو کے سامنے ہتھیار پھینک کر اسے اللہ تعالیٰ کی رضا سمجھ کر قبول کر لیا جائے۔ پولیو کا جنم پاکستان میں نہیں ہوا، بلکہ اس کی جائے پیدائش یورپ اور امریکہ ہے، مگر ان ممالک نے اپنے شہریوں کی جان کو حقیقتاً قیمتی جانتے ہوئے آج اس مرض سے مکمل چھٹکارا حاصل کر لیا ہے۔ پوری دنیا نے پولیو کے مسئلہ پر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور آج دنیا کا 80 فیصد سے زائد علاقہ اس سے مکمل طور پر محفوظ ہے۔

پولیو کے نام پر پاکستانیوں کو بدنامی کا جو نیا طوق پہننا پڑا ہے، اس کے متعدد اسباب ہیں لیکن ان سب کی جڑ ہر دور میں آنے والے ہمارے حکمرانوں کی عدم دلچسپی ہی رہی۔ پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنسز کے حالیہ شمارے میں شائع ہونے والے ایک مقالے کے مطابق قیام سے لے کر آج تک پاکستان میں بننے والی حکومتوں نے صحت کے شعبے کو مشترکہ عوامی فلاح سمجھنے کی بجائے ہمیشہ کاروبار ہی سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ 1973ء کے آئین یا بعد میں کی جانے والی ترامیم میں صحت کو بنیادی انسانی حق تسلیم نہیں کیا گیا، حتیٰ کہ گذشتہ دورِ حکومت میں آئین میں ہونے والی 18ویں ترمیم میں پرائمری تعلیم کو تو شامل کیا گیا، لیکن صحت کے حق کو شامل کرنے کا موقع کھو دیا گیا۔



پاکستان میں اب تک حکومتوں کے ترجیحی ایجنڈا میں صحت کہیں نظر نہیں آتی، حالاں کہ دنیا بھر کے کئی ترقی پذیر ممالک میں حکومتوں نے صحت کے شعبے میں اصلاحات کے ذریعے عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کر کے اس کا سیاسی فائدہ بھی اٹھایا ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی اعلانیے مجریہ 1948ء میں بھی یہ کہا گیا کہ ''ہر فرد اور اس کے خاندان کو صحت کی مناسب سہولیات کا حق حاصل ہے''۔ عالمی ادارہ صحت کے آئین کے مطابق ''صحت کے بلند ترین معیار سے استفادہ کرنا ہر فرد کا بنیادی انسانی حق ہے''۔

وطن عزیز میں پولیو کے پھیلاؤ یا اس پر قابو پانے میں ناکامی کی واحد وجہ بچوں تک رسائی نہ ملنا قرار دیا جا رہا ہے لیکن اس کے پیچھے جو محرکات کار فرما ہیں ان پر کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں۔ ان محرکات میں سب سے پہلا اور بڑا محرک پولیو ویکسین کے بارے میں لوگوں کے خدشات ہیں، جنہیں ختم کرنے کے لئے حکومتوں کی طرف سے وہ ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے، جن کی ضرورت تھی۔ پولیو ویکسین کے بارے میں گردش کرنے والی منفی افواہوں کے زیر اثر آج بھی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق 50 ہزار کے قریب والدین اپنے بچوں کو قطرے نہیں پلواتے۔



اس ضمن میں عرض ہے کہ پہلے تو یہ سمجھا جائے کہ ویکسین میں کیا ہوتا ہے( اس کے بارے میں ماہر صحت کے باکس میں تفصیل سے تحریر کر دیا گیا ہے)۔ دوسرا پولیو ویکسین کو غیرمسلموں کی طرف سے تحفے کے لبادے میں لپٹی سازش یعنی مسلمانوں کی نسل کشی کی وجہ قرار دینا نہایت مضحکہ خیز ہے۔ پولیو سے قبل ٹی بی، خسرہ، چیچک، تشنج، ہیپاٹائٹس وغیرہ جیسی بیماریوں کے خلاف مہمات چلانے کے لئے آنے ادویات بھی تو غیرمسلموں کی طرف سے ہی دی گئی تھیں، ان کا نقصان کیوں نہیں ہوا؟۔ پاکستان میں ہر طرح کے مرض کے علاج کے لئے ملنے والی ادویات یا تو بیرون ملک سے براہ راست آئی ہیں یا پھر ان میں موجود کیمیکل باہر سے آیا ہے، ایسی ادویات بہت کم ہیں جو ملکی سطح پر ہی بنائی جاتی ہوں۔

ماہرین صحت کے مطابق پولیو ویکسین کا اول تو کوئی نقصان نہیں، اگر کبھی کچھ غلط ہوا بھی ہو تو کیا بخار کی حالت میں لئے جانے والے اینٹی بائیوٹک کا ری ایکشن نہیں ہوتا؟۔ اینٹی بائیوٹک کے استعمال سے بعض مریضوں کا معدہ متاثر ہو جاتا ہے تو کیا بخار کا علاج ہی نہ کروایا جائے؟۔ راقم کے ایک دوست کو ہڈیوں کی سنگین بیماری لاحق ہوگئی، جس نے کافی دیر تک اس کی زندگی اجیرن بنائے رکھی۔ بعدازاں ایک ماہر ڈاکٹر کے پاس گئے تو اس نے ایک دوائی تجویز کرکے 15 روز بعد ٹیسٹ کروانے کی ہدایت کی۔ پوچھنے پر ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ٹیسٹ اس لئے کروا رہا ہوں کیوں کہ بعض اوقات اس دوائی کے استعمال سے بانجھ پن کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے، لیکن مرض کے علاج کے لئے یہ دوائی استعمال کرنا ضروری ہے کیوں کہ یہ ہڈیوں کی بے جا نشوونما روکے گی، جس سے ہڈیوں کی تکلیف میں واضح کمی ہو جائے گی۔



ڈاکٹر کی ہدایت پر اس نے دوائی استعمال کی اور الحمداللہ اب وہ صحت یاب ہے۔ پولیو ویکسین کے استعمال سے بانجھ پن ہونے کی ایک دلیل دنیا بھر میں پولیو مہم کے لئے عطیات دینے والے بل گیٹس ( یہ دنیا کا امیر ترین شخص ہے، جس نے اپنی دولت کا بڑا حصہ فلاحی کاموں کے لئے وقف کر رکھا ہے) کا وہ بیان پیش کیا جاتا ہے، جس میں مبینہ طور پر اس نے اس ویکسین کے ذریعے دنیا کی آبادی 10فیصد تک کم کرنے کا کہا تھا، حالاں کہ بعد میں بل گیٹس کے فلاحی ادارے کی طرف سے یہ بیان آ چکا ہے کہ بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر تروڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔

ایک اور جگہ پر بل گیٹس کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ''آبادی بڑھنے کے خوف سے معصوم بچوں کو مرنے یا معذور ہونے کے لئے چھوڑ دینے کا تصور انتہائی خوفناک ہے''۔ پولیو ویکسین پر خدشات کے بعد لوگوں خصوصاً قبائیلیوں (جو سب سے زیادہ پولیوسے متاثرہ علاقہ میں رہتے ہیں) کو شکیل آفریدی جیسے کیسز کی وجہ سے بھی تحفظات ہیں۔ شکیل آفریدی نے اسامہ بن لادن کی جاسوسی کے لئے پولیو مہم کو اپنا ہتھیار بنایا تو قبائلی سمجھتے ہیں کہ پولیو مہم کا مقصد جاسوسی کرنا ہے۔



پولیو ویکسین اور مہم پر لوگوں کے خدشات کے بعد ملک میں جاری بدامنی وہ محرک ہے، جو اس وباء پر قابو پانے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ بدامنی کی وجہ سے یہ عالم ہے کہ بچوں کو عمر بھر کی معذوری سے بچانے کے لئے انہیں قطرے پلانے والوں کو ہی موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے، تو ان حالات میں کیسے اور کیوں کر ملک سے پولیو ختم ہو سکتا ہے؟۔ پولیو ورکرز درکنار ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار بھی مارے جا رہے ہیں، پولیو ٹیمیں ڈر اور خوف کے باعث چاہتے ہوئے بھی پورا کام سرانجام نہیں دے سکتیں، یہ ایک حقیقت اور فطری جذبہ ہے، کوئی الزام نہیں۔

پولیو وائرس پر قابو پانے میں ناکامی کا ایک محرک حکومت کا پولیو ورکرز کے ساتھ رویہ ہے۔ ملک بھر میں پولیو ورکرز کے طور پر کام کرنے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز اور ڈسپنسرز وغیرہ (استثنیٰ کے ساتھ) کی بھرتی عارضی بنیادوں پر ہے، انہیں مستقل کرکے ان کا حق ہی نہیں دیا جا رہا تو وہ کیسے دلجمعی کے ساتھ کام کریں؟۔ پھر جان کا خوف لاحق ہونے پر پولیو مہم میں شرکت سے انکار کی صورت میں عارضی ملازمت سے بھی نکالنے کی دھمکی دی جاتی ہے(حالاں کہ حکومت کا یہ فرض ہے کہ انہیں محفوظ ماحول فراہم کرے تاکہ وہ کام کر سکیں، لیکن حکومت اس میں ناکام ہے)۔



پولیو مہم کے دوران سخت موسم کے باوجود بعض علاقوں میں جان ہتھیلی پر رکھ کر ایک ایک دروازے، کھیتوں، ڈیروں اور اڈوں پر جانے والے ان ورکرز کو صرف اڑھائی سو روپے دیہاڑی دی جاتی ہے (صرف کے پی کے میں 5 سو روپے دیہاڑی ہے، وہ بھی اب آکر ورکرز کے احتجاج پر بڑھائی گئی)۔ پھر بعض اوقات پولیو ورکرز کواسی اڑھائی سو روپے میں سے ویکسین کے کولر میں برف بھی ڈالنی پڑتی ہے، موٹرسائیکل میں پٹرول بھی ڈلوانا پڑتا ہے، اور تو اور بعض ورکر تو کولر بھی اپنے گھر سے لے کر جاتے ہیں، حالاں کہ کولر اور برف دینا مکمل طور پر ضلعی و تحصیل انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔

امن و امان کی بحالی، ہموار رائے عامہ، پولیو کے بارے میں شعوری آگاہی، عام شہریوں اور پولیو ورکرز کے تحفظات کو دورکرنا کس کی ذمہ داری ہے اورایسا کب ہو گا؟ کیوں کہ ان مسائل کو حل کئے بغیر ہم کبھی بھی پولیو فری ملک کا درجہ نہیں حاصل کر سکتے۔ عالمی ادارہ صحت کی طرف سے لگائی جانے والی پابندیاں عارضی نوعیت کی ہیں، جو تین ماہ بعد از سر نو جائزہ کے وقت ہٹ سکتی ہیں بشرطیکہ اگر پاکستان میں پولیو کے حوالے سے صورت حال بہتر ہو گئی۔ پولیو پر کنٹرول کوئی بڑی بات نہیں، اگر بھارت اسے زیر کر سکتا ہے تو ہمیں بھی زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ کثیر آبادی اور پولیو متاثرین کے لحاظ سے بھارت دنیا کا وہ سب سے بڑا ملک ہے، جس نے دو ماہ قبل ہی پولیو فری ملک کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا ہے۔ حالاں کہ بڑے بڑے غیر ملکی ماہرین کا یہ کہنا تھا کہ بھارت دنیا کا وہ آخری ملک ہو گا جہاں پولیو ختم ہوگا۔n

پولیو قبل از تاریخ بھی موجود تھا
یوں تو پولیو کا جنم قبل از تاریخ ہی ہو چکا تھا، لیکن 20 ویں صدی تک دنیا اس سے مکمل طور پر آگاہ نہیں تھی۔ قدیم مصر اور رومن بادشاہت کے دور میں ہونے والی پینٹنگ اور نقاشی میں بھی پولیو کی وجہ سے معذور افراد کو دکھایا گیا ہے۔ ایک خیال کے مطابق پولیو کا سب سے پہلا رجسٹرڈ کیس سر والٹر سکاٹ (معروف ناول نگار اور شاعر) کا تھا، 1773ء میں سکاٹ کی دائیں ٹانگ مفلوج ہوئی تو اس وقت انہیں یہ کہا گیا کہ ایسا شدید بخار کی وجہ سے ہوا ہے، حالاں کہ یہ پولیو تھا۔

پولیو کے بارے میں پہلی باقاعدہ رپورٹ 1843ء میں شائع کی گئی۔ 1880ء تک پولیو خاموشی کے ساتھ یورپ میں موجود رہا، لیکن جلد ہی یہ امریکہ پہنچ گیا۔ زیادہ تر موسم گرما میں حملہ آور ہونے والی یہ وباء 1910ء میں دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔


1893ء میں امریکہ میں پولیو کے 132کیس سامنے آئے جن میں سے 18افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ 1907ء میں صرف نیویارک شہر میں پولیو کے 25سو کیس رجسٹرڈ ہوئے۔ 17جون 1916ء کو امریکہ میں ایک سرکاری اعلان میں کہا گیا کہ ملک بھر میں 27ہزار پولیو کیسز رجسٹرڈ ہوئے، جن میں سے 6 ہزار متاثرین ہلاک ہو گئے۔ 1949ء میں امریکہ میں 2720افراد وبائی مرض کے ہاتھوں مارے گئے۔ 1940ء اور 1950ء کی دہائی میں جب پولیو عروج پر تھا، دنیا بھر میں ہر سال 5 لاکھ سے زائد لوگ اس کی وجہ سے مارے گئے یا کم از کم وہ فالج کا ضرور شکار ہوئے۔ یوں یورپ اور امریکہ سے ہوتا ہوا یہ وائرس پوری دنیا میں پھیل گیا اور اس کے خوف نے دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی۔

ان سنگین حالات میں دنیا نے پھر سنجیدگی سے اس مشکل کا حل تلاش کرنے پر غور شروع کردیا۔ 1935ء میں نیویارک یونیورسٹی کے ریسرچ اسسٹنٹ موریس برودے نے بندر کی ریڑھ کی ہڈی سے کچھ اجزاء لے کر پولیو ویکسین بنائی لیکن ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔ پھر 1950ء کے اوائل میں بوسٹن چلڈرن ہسپتال کے محقیقن کی ایک ٹیم نے انسانی ریشوں سے پولیو وائرس کشید کر لیا، یہ کامیابی پھر بعد میں پولیو ویکسین بنانے کا باعث بنی۔ اس کامیابی پر 1954ء میں مذکورہ ٹیم کے سربراہ جان اینڈرز اور ان کی ٹیم کے ارکان تھامس ایچ ویلر اور فریڈیرک سی روبنز کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔

12اپریل 1955ء میں جونس سالک نے باقاعدہ طور پر پولیو ویکسین بنانے کا اعلان کر دیا۔ ویکسین بننے کے بعد 1957ء میں پہلی بار امریکہ میں پولیو مہم چلائی، جس کے نتیجہ میں پولیو کے 58 ہزار کیس صرف 56 سو پر آگئے، یوں 20اگست 1994ء میں امریکہ کو پولیو فری ملک کا اعزاز حاصل ہوگیا۔ 1988ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے دنیا سے پولیو کے خاتمہ کا بیڑا اٹھایا اور آج سوائے چند ممالک کے دنیا میں پولیو ختم ہو چکا ہے۔n

پولیو چھونے یا ہوا سے نہیں بلکہ متاثرہ شخص کے فضلہ سے پھیلتا ہے: سربراہ نیورو ڈیپارٹمنٹ سروسز ہسپتال پروفیسر رضوان مسعود بٹ
سروسز ہسپتال لاہور میں نیورو ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر رضوان مسعود بٹ نے پولیو وائرس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ بچوں کا اعصابی نظام چوں کہ بہت حساس ہوتا ہے تو عموماً پولیو وائرس آسانی سے ان پر حملہ آور ہو جاتا ہے، لیکن کبھی کبھار قوت مدافعت کی کمی کے باعث یہ بڑوں کو بھی اپنا شکار بنا لیتا ہے۔ سو افراد میں پولیو وائرس کی موجودگی صرف ایک یا دو فیصد کو متاثر کرسکتی ہے یا مار سکتی ہے۔

پولیو وائرس سب سے پہلے حرام مغز پر حملہ آور ہو کر اس میں سوزش پیدا کر دیتا ہے، جس کا پھر لازمی نتیجہ فالج کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔ وائرس کے پھیلاؤ پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر رضوان مسعود کا کہنا تھا کہ دیکھیں! یہ وائرس ہوا یا چھونے سے دوسروں کو منتقل نہیں ہوتا بلکہ انسانی فضلہ اس کی منتقلی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، فضلہ گٹر کے پائپوں میں جانے کے بعد پانی میں مکس ہو کر دوسروں کو متاثر کرتا ہے۔

پھر ایسا گندا پانی یا خوراک جس میں وائرس موجود ہو، وہ بھی اس کے پھیلاؤ اور منتقلی کا سبب بنتا ہے۔ اس کی ایک مثال یوں بھی ہو سکتی ہے کہ ایک باورچی، جس میں پولیو وائرس موجود ہو، وہ اچھی طرح ہاتھ دھوئے بغیر جب کھانا بناتا ہے تو اس کھانے کو کھانے والا شخص بھی وائرس سے متاثر ہو جاتا ہے۔



پولیو ویکسین پر لوگوں کے خدشات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے تو آپ لوگوں کو یہ سمجھائیں کہ پولیو ویکسین کیا ہے، اس ویکسین میں دراصل پولیو وائرس ہی ہوتا لیکن یہ انتہائی کمزور اور نیم مردہ شکل میں ہوتا ہے، یہ وائرس جب انسانی جسم میں داخل کر دیا جاتا ہے تو پھر یہ چیز توانا اور مضبوط پولیو وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا کردیتی ہے، اب قوت مدافعت جو ہے وہ بھی دو طرح کی ہوتی ہے، کچھ وائرس کے خلاف قوت مدافعت چند ماہ کے لئے ہوتی ہے لیکن پولیو وائرس کے خلاف پیدا ہونے والی قوت مدافعت ساری زندگی رہتی ہے۔

پولیو ویکسین پر جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے یا افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں، وہ سب جھوٹ ہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں یہ بھارت اور اسرائیل کی سازش ہے کہ پاکستان پولیو سے کبھی نجات حاصل نہ کر سکے اور دنیا اسے خود سے الگ کر دے۔ پولیو قطرے پلانے سے انکار پرآج آپ نے دیکھ بھی لیا کہ عارضی پابندیاں تو ہم پر لگ چکی ہیں۔ ہمارے کچھ نادان پاکستانیوں نے اسے غلط قرار دے کر اپنے ملک کا نقصان کیا، 60 سال سے یہ ویکسین دنیا کے کروڑوں افراد کو پلائی جا چکی ہے، انہیں تو کوئی نقصان نہیں ہوا، آپ کیوں اپنے بچوں کو معذور بنانے پر تلے ہیں؟n

پولیو کے حوالے سے حالیہ پابندیاں حکومتی ناکامی ہے، ہمیں جاگنا ہو گا وزیرصحت خیبرپختونخوا شہرام خان ترکئی
خیبرپختونخوا کے وزیر صحت شہرام خان ترکئی نے پولیو کے حوالے سے پاکستانیوں پر حال ہی میں لگنے والی پابندیوں پر گفتگو کرتے ہوئے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ ہمیں پہلے ہی اندازہ تھا کہ ایسا کچھ ہمارے ساتھ ہو سکتا ہے، اسی لئے ہم نے صحت کا انصاف پروگرام شروع کیا، جس پر پہلے بہت زیادہ تنقید کی گئی لیکن بعد میں لوگ تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔

انسداد پولیو کے لئے ہم پوری جان مار رہے ہیں، جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈبلیو ایچ او ہمارے اقدامات سے خوش اور مطمئن ہے۔ پشاور میں پہلے 4 کیسز رپورٹ ہوئے لیکن الحمداللہ صحت کا انصاف پروگرام شروع ہونے کے بعد اب کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ مسئلہ فاٹا اور قبائلی علاقوں کا ہے، جہاں صوبائی حکومت کی رسائی نہیں بلکہ وہ وفاق کے ماتحت ہیں۔

ہم نے قبائلی علاقوں کے ساتھ 179پوائنٹس بنائے ہیں جہاں بچوں کو ویکسین دی جاتی ہے، لیکن اندر ہم نہیں جا سکتے، وہاں وفاقی حکومت کو ایک حکمت عملی بنا کر جانا ہوگا، جس میں ہم ان سے مکمل تعاون کریں گے۔ خدارا! اس مسئلہ کو سیاست کی بھٹی میں مت جھونکیں، وفاق سرجوڑ کر بیٹھے، کیوں کہ حالیہ پابندیاں تو عارضی ہیں لیکن خدانخواستہ کل ہم دنیا سے پوری طرح کٹ کر ہی نہ رہ جائیں۔ ایئرپورٹس پر ویکسین دینا کوئی مسئلہ نہیں، کے پی کے حکومت کاسنٹر پہلے ہی 2013ء سے وہاں کام کر رہا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے صرف بچوں کو ایئرپورٹ پر ویکسین دی جاتی تھی، اب بڑوں کو بھی دی جائے گی۔

صوبائی وزیر صحت نے اعتراف کیا کہ حالیہ پابندیاں کسی حد تک حکومتی ناکامی اور کمزوری ہے، کیوں کہ اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے نہیں بلکہ ہم نے خود یہ پابندیاں لگوائی ہیں۔ انسداد پولیو مہم کے حوالے سے سب سے بڑا چیلنج کے پی کے حکومت کے لئے ہے اور ہم اس کے لئے تیار ہیں۔ عمران خان اور میرے سمیت ہماری تمام اعلیٰ قیادت خود فیلڈ میں جا کر کام کر رہی ہے۔ پھر آپ نے دیکھا پولیو ورکز اور سکیورٹی اہلکاروں پر حملے ہوئے، کچھ ہمارے لوگ شہید بھی ہوئے لیکن اس کے باوجود ہم نے ایک دن بھی پولیو مہم نہیں روکی۔



پولیو ورکرز کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے، جسے بخوبی سرانجام دے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے۔ اس کے علاوہ لیڈی ہیلتھ ورکز کو مستقل کرنے کے حوالے سے میں نے سمری وزیراعلیٰ کو بھجوادی ہے اور جلد ہی انہیں مستقل کر دیا جائے گا۔ ہم جاگ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی جاگ جائیں۔

انسداد پولیو مہم کو مزید موثر بنایا جائے گا: وزیر مملکت برائے ہیلتھ سروسز سائرہ افضل تارڑ
وزیر مملکت برائے ہیلتھ سروسز سائرہ افضل تارڑ نے پولیو کی وجہ سے پاکستانیوں پر سفری پابندیاں لگنے کے حوالے سے ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کی طرف سے پابندیاں عائد کرنے کے بعد میں نے تمام صوبوں، آزاد کشمیر اور فاٹا کے لوگوں کا اجلاس بلا کر انہیں صورت حال سے مکمل طور پر آگاہ کر دیا ہے۔



شعبہ صحت صوبوں کو منتقل ہونے کے بعد انسداد پولیو کے حوالے سے تمام تر اقدامات کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ صوبوں کو تحریری طور پر بھی کہا گیا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اقدامات کریں، جس پر پنجاب حکومت نے تو ایئرپورٹس پر کاؤنٹر بھی بنا دیئے ہیں اور ویکسی نیشن کارڈ بھی جاری کر دیئے گئے ہیں۔

انسداد پولیو مہم کو سو فیصد کامیاب بنانے کے سوال پر وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ اس سلسلہ میں کام جاری ہے، جسے مزید موثر بنایا جا رہا ہے، جیسے اب صوبوں نے بھی والز (حدود) بنا لی ہیں، اسی طرح فاٹا اور آزاد کشمیر میں بھی بنائی جا رہی ہیں۔ ایئر پورٹس پر مسافروں کی ویکسی نیشن کے لئے فوری طور پر 80کروڑ روپے درکار ہیں۔ ویکسی نیشن حکومت کرے گی یا مسافروں پر مزید بوجھ بڑھایا جائے گا؟ کے سوال پر سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ اس کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا کیوں کہ یہ صوبوں نے طے کرنا ہے کہ ویکسی نیشن کے اخراجات کون اٹھائے گا؟۔n

پاکستان سے دیگر ممالک میں پولیو منتقل ہو رہا ہے، یہاں آج بھی اڑھائی لاکھ بچوں کوویکسین نہیں مل رہی: نمائندہ ڈبلیو ایچ او
پاکستان میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سینئر سرویلینس آفیسر برائے پولیو ڈاکٹر زبیر مفتی نے ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج پاکستان سے دنیا میں پولیو وائرس پھیل رہا ہے۔

سب سے پہلے 2007ء میں پاکستان سے ایک طالبعلم آسٹریلیا گیا تو اس میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی، پھر دسمبر 2012ء میں ایک شخص یہاں سے مصر گیا، جس میں موجود پولیو وائرس وہاں پھیل گیا، پھر یہی وائرس فلسطین، شام اور حتی کہ عراق تک پہنچ گیا۔ ابھی جو افغانستان میں پولیو کے 14کیسز سامنے آئے، ان میں 13کیسز میں پایا جانے والا وائرس پاکستان سے منتقل ہوا ہے۔ پاکستان میں پولیو کیسز بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ بچوں تک رسائی نہ ہونا ہے۔ گو کہ حکومت پاکستان نے پولیو کے حوالے سے ایمرجنسی پلان شروع کر رکھا ہے لیکن آج بھی جون 2012ء سے 2لاکھ 60 ہزار بچوں کو ویکسین نہیں مل رہی، جن کی اکثریت وزیرستان میں ہے۔

پاکستان پر سفری پابندیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر زبیر کا کہنا تھا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ سفری پابندیاں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے نہیں بلکہ عالمی ادارہ کے تحت بننے والی ایمرجنسی کمیٹی نے لگائی ہیں، جس میں پاکستان کے ماہرین بھی شامل ہیں۔



کمیٹی نے حالیہ اجلاس کے بعد ڈبلیو ایچ او کو سفارشات لکھ کر بھجوائیں کہ پولیو خطرناک صورت حال اختیار کر رہا ہے، آپ فوری اقدامات کریں۔ ڈبلیو ایچ او نے ان سفارشات یا آپ کہہ سکتے ہیں پابندیوں کا صرف اعلان کیا ہے۔

دوسرا اب اس میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں کہ ڈبلیو ایچ او کی سفارشات پر عملدرآمد کب سے شروع ہوگا، وزارت ہیلتھ کے پوچھنے پرانہیں بتا دیا گیا ہے کہ 5 مئی سے پاکستان سے جانے والے ہر اس مسافر کے لئے پولیو ویکسی نیشن ضروری ہے جو 4 ہفتوں سے زائد یہاں وقت گزار چکا ہے، البتہ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ فوری طور پر ان سفارشات پر عملدرآمد ناممکن ہے، اسی لئے دو ہفتوں کی مہلت دے دی گئی ہے۔

حکومت سب سے پہلے تخمینہ لگائے اسے کتنی اضافی ویکیسین کی ضرورت پڑے گی کیوں کہ فی الحال موجود ویکیسن سے فوری گزارہ ہو جائے گا لیکن یہ زیادہ عرصہ نہیں چلے گی۔ سفری پابندیاں اٹھانے کے بارے میں بتاتے ہوئے نمائندہ ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ دو چیزوں کی بنیاد پر پابندیاں لگائی گئی ہیں، ایک یہاں سے پولیو وائرس باہر منتقل ہو رہا ہے، دوسرا ملک کے کچھ علاقوں میں صورت حال سنگین ہو رہی ہے۔ 3 ماہ بعد دوبارہ ان دو پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے گا کہ ان میں کیا بہتری آئی، جس کے بعد پابندیاں اٹھانے یا وقت مزید بڑھانے کا فیصلہ ہو گا۔
Load Next Story