معاشی بحران غیرمعمولی اقدامات کی ضرورت
پاکستان کو سرزمین بے آئین نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی اسے غیرملکیوں کے لیے فری فار آل بنانے کی اجازت دی جانی چاہیے
پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے گزشتہ روزکراچی کا دورہ کیا، آئی ایس پی آر کے مطابق انھوں نے سندھ کے نگراں وزیراعلیٰ جسٹس (ر) مقبول باقر کے ہمراہ صوبائی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی۔ اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران انھیں بریفنگ دی گئی۔
اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان، کچے کے علاقے میں آپریشن، سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے غیر ملکی شہریوں کی حفاظت، غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی واپسی، غیرملکی کرنسی کو ریگولرائز کرنے کے اقدامات پر غور کیا گیا۔
اجلاس میں کراچی ٹرانسفارمیشن پلان، سندھ میں ایس آئی ایف سی کے اقدامات پر پیش رفت اور گرین سندھ کے اقدامات بھی زیر غور آئے، پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے اس بات پر زور دیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور دیگر سرکاری محکمے غیر قانونی سرگرمیوں کے اسپیکٹرم کے خلاف کارروائیوں کو پوری طاقت کے ساتھ جاری رکھیں گے تاکہ وسائل کی چوری اور غیر قانونی سرگرمیوں کی وجہ سے ملک کو ہونے والے معاشی نقصانات سے روکا جا سکے، آرمی چیف نے تاریخی اقدامات کے اثرات کے لیے تمام متعلقہ محکموں کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا۔
پاکستان ارتقاء کے جس موڑ پر کھڑا ہے، یہاں سے ترقی وخوشحالی کے راستے پر چلنے کے لیے غیرمعمولی اور غیرروایتی اقدامات کرنا لازم ہیں ۔نئے دور کے تقاضے روایتی پالیسیوں پر عمل کرنے سے پورے نہیں کیے جاسکتے ، کراچی میں ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں جن امور پر غور کیا گیا اور بریفنگ دی گئی، ان کے حوالے سے ٹھوس پالیسی کی ضرورت ہے اور اس پر عملدرآمد بھی ہونا چاہیے۔
حکومت نے معاشی بحران کی تہہ میں موجود حقائق کو سمجھا ہے اور اب ان خرابیوں کو دور کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کی معیشت زوال پذیر ہوئی ہے اور پاکستان میں بے روزگاری اور غربت کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد پاکستان کی معیشت تیزی سے زوال پذیر ہوئی ہے۔ ڈالر اور روپے کی شرح تبادلہ بری طرح تبدیل ہوئی اور پاکستان کی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی۔
بلاشبہ پاکستان کے معاشی بحران کی کئی اور وجوہات بھی ہیں جن میں غیرملکی قرضوں کا حجم حد سے بڑھنا شامل ہے۔ اسی طرح آئی پی پیز کے گردشی قرضے اور کیپسٹی پیمنٹس بھی ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن یہ ایسے مسائل ہیں، جن کا سامنا پاکستان کی معیشت برسوں سے کرتی چلی آ رہی ہے لیکن گزشتہ پانچ برس کے دوران پاکستانی معیشت جس تیزی سے بحران کا شکار ہوئی ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کی شمال مغربی سرحد سے ملحق ملکوں کے اندرونی معاشی بحران ہیں۔ اس بارڈر ٹریڈ سے پاکستان کو جس تیزی سے نقصان پہنچا ہے اس کی مثال ماضی میں ملنا مشکل ہے۔
پاکستان سے ڈالر اسمگل ہوا، پاکستانی اوپن مارکیٹ سے ڈالر غیرمعمولی حجم میں خریدا گیا۔ اس وجہ سے پاکستانی درآمد اور برآمد کنندگان کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے جب کہ پاکستان کے لیے بیرونی ادائیگیاں کرنا مشکل ہو گیا۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کو اس صورت حال کا پورا ادراک ہونے کے باوجود اسے روکنے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ پاکستان میں آٹے، گندم، چینی اور گھی کا بحران بھی پیدا ہونا شروع ہوا کیونکہ یہ اشیاء بھی سرحد پار غیرقانونی طور پر بھیجی جا رہی تھیں۔
ایک جانب یہ معاشی بدحالی کا معاملہ تھا تو دوسری جانب ملک میں دہشت گردی، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور قتل وغارت کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔ اب پاکستان نے اس حوالے سے راست اقدامات شروع کر دیے ہیں اور اس کے خاطرخواہ نتائج نکل رہے ہیں۔
ادھر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت 222 مشکوک اشیاء پر پابندی عائد کیے جانے اور انسداد کرنسی اسمگلنگ کے ساتھ دیگر تمام اشیا کی اسمگلنگ پر قابو پانے کے سخت انتظامی اقدامات کے باعث ڈالر کی قیمت میں مسلسل کمی ہو رہی ہے، جمعے کو ڈالر کا انٹربینک 3ماہ کے وقفے کے بعد 283 روپے سے بھی نیچے آگیا جب کہ اوپن مارکیٹ بھی گھٹ کر 282روپے سے نیچے آگیا۔
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت ان 222 اشیاء کی درآمدات پر پابندی عائد کی گئی ہے جن کی ادائیگیوں کا ایک بڑا ذریعہ حوالہ ہنڈی یا گرے مارکیٹ ہوتا تھا، ان اشیاء کے عوض ڈالر میں ادائیگیاں رکنے سے اوپن مارکیٹ میں سپلائی بڑھ گئی ہے ۔ ابھی حکومت کو بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ بات کسی ملک کے ساتھ لڑائی یا دشمنی کی نہیں ہے بلکہ بات اپنے ملک کے عوام کے مالی مفادات اور ان کی جان کے تحفظ کی ہے۔
پاکستان پر سب سے زیادہ حق اس کے شہریوں کا ہے۔ کوئی ایسا کام یا قانون سازی جو پاکستان کے عوام کے مفادات کے خلاف ہو، اسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان کے ساتھ تجارت ضرور ہونی چاہیے کیونکہ افغانستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان یہ تجارت عالمی قوانین کے مروجہ طریقے کے تحت ہونی چاہیے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحد بھی ہو اور وہاں قانون بھی نافذ نہ ہو۔
افغانستان کے تاجر اور سرمایہ کار اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ جتنا چاہیں کاروبار کریں۔ اسی طرح پاکستان کا سرمایہ کار اور تاجر افغانستان کے ساتھ جتنی چاہے تجارت کرے لیکن یہ سب کچھ ڈاکومنٹڈ ہونا چاہیے، جو چیز افغانستان سے آنی ہے، اس پر ہر قسم کا ٹیکس ادا ہونا چاہیے اور اسی طرح پاکستان سے کوئی چیز افغانستان جاتی ہے تو افغان حکومت کا یہ حق ہے کہ وہ اس چیز پر ٹیکس وصول کرے۔ پوری دنیا میں تجارت کا یہی چلن ہے۔
پاکستان کے لیے ایک حوصلہ افزاء خبر یہ بھی ہے کہ یورپی پارلیمنٹ نے تجارتی رعایت میں چار سال کی توسیع کر دی۔ یورپی پارلیمنٹ کے ممبران نے جی پی ایس پلس کے تحت پاکستان سمیت دوسرے ممالک کے حق میں ووٹ دے دیا ہے جس سے اس تجارتی رعایت میں چار سال کے لیے توسیع کر دی گئی ہے۔ اس منظوری سے قبل جی ایس پی ریگولیشن کی میعاد 2023 کے آخر میں ختم ہونے والی تھی تاہم اب ووٹنگ کے بعد موجودہ قواعد کو 31 دسمبر 2027 تک بڑھا دیا گیا ہے۔
ادھر یہ بھی ایک اچھی خبر ہے کہ پاکستان کی چین کو اشیاء اور خدمات کی برآمدات میں رواں مالی سال (24-2023) کے پہلے دو ماہ کے دوران گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 5.16 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ا سٹیٹ بینک کے مطابق جولائی سے اگست (2023-24) کے دوران چین کو مجموعی طور پر 350.297 ملین ڈالر کی برآمدات ریکارڈ کی گئیں جب کہ جولائی سے اگست (2022-23)کے دوران 333.077 ملین ڈالر کی برآمدات کی گئی اس طرح رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ کے دوران5.16 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
مشرقی ایشیا کے ممالک کے ساتھ پاکستان کے تجارتی خسارہ میں جاری مالی سال کے دوران کمی ریکارڈکی گئی ہے،جاری مالی سال کے دوران مشرقی ایشیا کے ممالک کوپاکستانی برآمدات میں سالانہ بنیادوں پر3.25 فیصدکی نمو جب کہ ان ممالک سے درآمدات میں 21.32 فیصدکی کمی ریکارڈکی گئی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق جاری مالی سال کے پہلے دوماہ میں چین ،جاپان، جنوبی کوریا اور مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک کو برآمدات سے ملک کو469.55 ملین ڈالرکازرمبادلہ حاصل ہواجوگزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلہ میں 3.25 فیصدزیادہ ہے۔
پاکستان کی معیشت کا پوٹینشل آج بھی اس قابل ہے کہ اگر غیرمعمولی اقدامات کیے جائیں اور ان پر مسلسل عمل ہو تو پاکستانی معیشت ایک دو برس میں دوبارہ ٹریک پر واپس آ جائے گی۔ پاکستان کو اب غیرملکیوں سے نجات حاصل کرنی پڑے گی۔ پاکستان کو سرزمین بے آئین نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی اسے غیرملکیوں کے لیے فری فار آل بنانے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ افغانستان کی طالبان حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ ان کی معیشت بہتر ہو رہی ہے۔
یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہاں امن وامان قائم ہے۔ غیرملکی کمپنیاں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ افغانستان کی کرنسی پاکستانی روپے کی نسبت مستحکم ہے۔ جب یہ ساری چیزیں موجود ہیں تو پھر افغانستان کی حکومت کو اپنے شہریوں کو واپس لینے میں کیا مشکل ہے۔ اسی طرح پاکستان کے اندر موجود ایسے گروہ اور طبقے جن کے مفادات غیرقانونی تجارت اور غیرملکی مہاجرین سے جڑے ہوئے ہیں، ان کی طاقت کو ختم کرنا بھی لازم وملزوم ہو چکا ہے۔
اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان، کچے کے علاقے میں آپریشن، سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے غیر ملکی شہریوں کی حفاظت، غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی واپسی، غیرملکی کرنسی کو ریگولرائز کرنے کے اقدامات پر غور کیا گیا۔
اجلاس میں کراچی ٹرانسفارمیشن پلان، سندھ میں ایس آئی ایف سی کے اقدامات پر پیش رفت اور گرین سندھ کے اقدامات بھی زیر غور آئے، پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے اس بات پر زور دیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور دیگر سرکاری محکمے غیر قانونی سرگرمیوں کے اسپیکٹرم کے خلاف کارروائیوں کو پوری طاقت کے ساتھ جاری رکھیں گے تاکہ وسائل کی چوری اور غیر قانونی سرگرمیوں کی وجہ سے ملک کو ہونے والے معاشی نقصانات سے روکا جا سکے، آرمی چیف نے تاریخی اقدامات کے اثرات کے لیے تمام متعلقہ محکموں کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا۔
پاکستان ارتقاء کے جس موڑ پر کھڑا ہے، یہاں سے ترقی وخوشحالی کے راستے پر چلنے کے لیے غیرمعمولی اور غیرروایتی اقدامات کرنا لازم ہیں ۔نئے دور کے تقاضے روایتی پالیسیوں پر عمل کرنے سے پورے نہیں کیے جاسکتے ، کراچی میں ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں جن امور پر غور کیا گیا اور بریفنگ دی گئی، ان کے حوالے سے ٹھوس پالیسی کی ضرورت ہے اور اس پر عملدرآمد بھی ہونا چاہیے۔
حکومت نے معاشی بحران کی تہہ میں موجود حقائق کو سمجھا ہے اور اب ان خرابیوں کو دور کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کی معیشت زوال پذیر ہوئی ہے اور پاکستان میں بے روزگاری اور غربت کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد پاکستان کی معیشت تیزی سے زوال پذیر ہوئی ہے۔ ڈالر اور روپے کی شرح تبادلہ بری طرح تبدیل ہوئی اور پاکستان کی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی۔
بلاشبہ پاکستان کے معاشی بحران کی کئی اور وجوہات بھی ہیں جن میں غیرملکی قرضوں کا حجم حد سے بڑھنا شامل ہے۔ اسی طرح آئی پی پیز کے گردشی قرضے اور کیپسٹی پیمنٹس بھی ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن یہ ایسے مسائل ہیں، جن کا سامنا پاکستان کی معیشت برسوں سے کرتی چلی آ رہی ہے لیکن گزشتہ پانچ برس کے دوران پاکستانی معیشت جس تیزی سے بحران کا شکار ہوئی ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کی شمال مغربی سرحد سے ملحق ملکوں کے اندرونی معاشی بحران ہیں۔ اس بارڈر ٹریڈ سے پاکستان کو جس تیزی سے نقصان پہنچا ہے اس کی مثال ماضی میں ملنا مشکل ہے۔
پاکستان سے ڈالر اسمگل ہوا، پاکستانی اوپن مارکیٹ سے ڈالر غیرمعمولی حجم میں خریدا گیا۔ اس وجہ سے پاکستانی درآمد اور برآمد کنندگان کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے جب کہ پاکستان کے لیے بیرونی ادائیگیاں کرنا مشکل ہو گیا۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کو اس صورت حال کا پورا ادراک ہونے کے باوجود اسے روکنے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ پاکستان میں آٹے، گندم، چینی اور گھی کا بحران بھی پیدا ہونا شروع ہوا کیونکہ یہ اشیاء بھی سرحد پار غیرقانونی طور پر بھیجی جا رہی تھیں۔
ایک جانب یہ معاشی بدحالی کا معاملہ تھا تو دوسری جانب ملک میں دہشت گردی، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور قتل وغارت کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔ اب پاکستان نے اس حوالے سے راست اقدامات شروع کر دیے ہیں اور اس کے خاطرخواہ نتائج نکل رہے ہیں۔
ادھر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت 222 مشکوک اشیاء پر پابندی عائد کیے جانے اور انسداد کرنسی اسمگلنگ کے ساتھ دیگر تمام اشیا کی اسمگلنگ پر قابو پانے کے سخت انتظامی اقدامات کے باعث ڈالر کی قیمت میں مسلسل کمی ہو رہی ہے، جمعے کو ڈالر کا انٹربینک 3ماہ کے وقفے کے بعد 283 روپے سے بھی نیچے آگیا جب کہ اوپن مارکیٹ بھی گھٹ کر 282روپے سے نیچے آگیا۔
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت ان 222 اشیاء کی درآمدات پر پابندی عائد کی گئی ہے جن کی ادائیگیوں کا ایک بڑا ذریعہ حوالہ ہنڈی یا گرے مارکیٹ ہوتا تھا، ان اشیاء کے عوض ڈالر میں ادائیگیاں رکنے سے اوپن مارکیٹ میں سپلائی بڑھ گئی ہے ۔ ابھی حکومت کو بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ بات کسی ملک کے ساتھ لڑائی یا دشمنی کی نہیں ہے بلکہ بات اپنے ملک کے عوام کے مالی مفادات اور ان کی جان کے تحفظ کی ہے۔
پاکستان پر سب سے زیادہ حق اس کے شہریوں کا ہے۔ کوئی ایسا کام یا قانون سازی جو پاکستان کے عوام کے مفادات کے خلاف ہو، اسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان کے ساتھ تجارت ضرور ہونی چاہیے کیونکہ افغانستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان یہ تجارت عالمی قوانین کے مروجہ طریقے کے تحت ہونی چاہیے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحد بھی ہو اور وہاں قانون بھی نافذ نہ ہو۔
افغانستان کے تاجر اور سرمایہ کار اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ جتنا چاہیں کاروبار کریں۔ اسی طرح پاکستان کا سرمایہ کار اور تاجر افغانستان کے ساتھ جتنی چاہے تجارت کرے لیکن یہ سب کچھ ڈاکومنٹڈ ہونا چاہیے، جو چیز افغانستان سے آنی ہے، اس پر ہر قسم کا ٹیکس ادا ہونا چاہیے اور اسی طرح پاکستان سے کوئی چیز افغانستان جاتی ہے تو افغان حکومت کا یہ حق ہے کہ وہ اس چیز پر ٹیکس وصول کرے۔ پوری دنیا میں تجارت کا یہی چلن ہے۔
پاکستان کے لیے ایک حوصلہ افزاء خبر یہ بھی ہے کہ یورپی پارلیمنٹ نے تجارتی رعایت میں چار سال کی توسیع کر دی۔ یورپی پارلیمنٹ کے ممبران نے جی پی ایس پلس کے تحت پاکستان سمیت دوسرے ممالک کے حق میں ووٹ دے دیا ہے جس سے اس تجارتی رعایت میں چار سال کے لیے توسیع کر دی گئی ہے۔ اس منظوری سے قبل جی ایس پی ریگولیشن کی میعاد 2023 کے آخر میں ختم ہونے والی تھی تاہم اب ووٹنگ کے بعد موجودہ قواعد کو 31 دسمبر 2027 تک بڑھا دیا گیا ہے۔
ادھر یہ بھی ایک اچھی خبر ہے کہ پاکستان کی چین کو اشیاء اور خدمات کی برآمدات میں رواں مالی سال (24-2023) کے پہلے دو ماہ کے دوران گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 5.16 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ا سٹیٹ بینک کے مطابق جولائی سے اگست (2023-24) کے دوران چین کو مجموعی طور پر 350.297 ملین ڈالر کی برآمدات ریکارڈ کی گئیں جب کہ جولائی سے اگست (2022-23)کے دوران 333.077 ملین ڈالر کی برآمدات کی گئی اس طرح رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ کے دوران5.16 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
مشرقی ایشیا کے ممالک کے ساتھ پاکستان کے تجارتی خسارہ میں جاری مالی سال کے دوران کمی ریکارڈکی گئی ہے،جاری مالی سال کے دوران مشرقی ایشیا کے ممالک کوپاکستانی برآمدات میں سالانہ بنیادوں پر3.25 فیصدکی نمو جب کہ ان ممالک سے درآمدات میں 21.32 فیصدکی کمی ریکارڈکی گئی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق جاری مالی سال کے پہلے دوماہ میں چین ،جاپان، جنوبی کوریا اور مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک کو برآمدات سے ملک کو469.55 ملین ڈالرکازرمبادلہ حاصل ہواجوگزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلہ میں 3.25 فیصدزیادہ ہے۔
پاکستان کی معیشت کا پوٹینشل آج بھی اس قابل ہے کہ اگر غیرمعمولی اقدامات کیے جائیں اور ان پر مسلسل عمل ہو تو پاکستانی معیشت ایک دو برس میں دوبارہ ٹریک پر واپس آ جائے گی۔ پاکستان کو اب غیرملکیوں سے نجات حاصل کرنی پڑے گی۔ پاکستان کو سرزمین بے آئین نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی اسے غیرملکیوں کے لیے فری فار آل بنانے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ افغانستان کی طالبان حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ ان کی معیشت بہتر ہو رہی ہے۔
یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہاں امن وامان قائم ہے۔ غیرملکی کمپنیاں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ افغانستان کی کرنسی پاکستانی روپے کی نسبت مستحکم ہے۔ جب یہ ساری چیزیں موجود ہیں تو پھر افغانستان کی حکومت کو اپنے شہریوں کو واپس لینے میں کیا مشکل ہے۔ اسی طرح پاکستان کے اندر موجود ایسے گروہ اور طبقے جن کے مفادات غیرقانونی تجارت اور غیرملکی مہاجرین سے جڑے ہوئے ہیں، ان کی طاقت کو ختم کرنا بھی لازم وملزوم ہو چکا ہے۔