لوگ بدل گئے زمانے بدل گئے دوسرا اورآخری حصہ

خاندان بدل گئے، رشتے دار بدل گئے ہیں دور کہیں دور رہ رہے ہیں، کہانی تو بڑی لمبی ہے

پچھلے کالم میںان ٹریڈ یونین رہنماؤں، سیاسی اور روشن خیال دانشوروں، شاعروں، ادیبوں، کالم نگاروں کا ذکر کیا تھا، جنھوں نے نئے ملک پاکستان بننے کی حمایت کی تھی۔

سرخ پوش اور خدائی خدمت گار کے بانی خان عبدالغفار خان اور سندھ کے جی ایم سید جنھوں نے سندھ اسمبلی میں ایک قرارداد کے ذریعے پاکستان میں شامل ہونے کے لیے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ ہم ایک آزاد پاکستان کے ساتھ رہیں گے اور ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے بھی پاکستان کی حمایت کی تھی جس کے ساتھ ہی مزدور رہنما مرزا محمد ابراہیم، ساحر لدھیانوی اور فیض احمد فیض نے بھی اپنے لندن اور یورپ میں رہنے والے دوستوں سے کہا تھا کہ'' اب پاکستان بن گیا ہے بہتر ہے کہ آپ بھی پاکستان آ جائیں ''اور پھر دانیال لطیفی کے گھر پر جوکہ کمیونسٹ پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ میں لیاقت علی خان کے ساتھ شامل ہو گئے تھے، مزدور تحریک کے رہنما مرزا محمد ابراہیم کے انھی گھر پر وزیر اعظم لیاقت علی خان اور مرزا ابراہیم کی ملاقات ہوئی تھی، مگر مرزا محمد ابراہیم مسلم لیگ میں شامل نہیں ہوئے تھے اور پھر انھیں جیل جانا پڑا تھا اور وہ جیل سے صوبائی الیکشن کی ایک سیٹ پر مسلم لیگ کے رکن احمد سعید کرمانی سے الیکشن لڑ کر جیت بھی گئے تھے مگر بعد میں ان کے ہارنے کا اعلان کر دیا گیا۔

یہ دسمبر 1945 تھا، سٹی ریلوے کالونی میں پلا بڑھا، کتنے اچھے لوگ تھے، کتنے اچھے بچے اور ہمارے دوست تھے، ہم لوگ اپنے گھروں میں لال ٹین جلایا کرتے تھے، اچھی روشنی ہوتی تھی، شام کو باہر چار پائیاں نکال کر رات 10 یا 11 بجے سو جایا کرتے تھے اور پھر 6 سال کی عمر میں اسکول میں داخل ہو گئے، کتنے اچھے اور بہتر استاد ہوتے تھے جو ہمیں سندھی اور اردو میں دنیا اور ہندوستان کی تاریخ پڑھاتے تھے چار جماعت پڑھنے کے بعد والد صاحب نے سندھ مدرستہ الاسلام میں داخل کرا دیا تھا، اس وقت یہ اسکول سندھ سمیت کراچی کا بہت بڑا اور نامی گرامی اسکول تھا۔

گیٹ سے داخل ہوتے ہی ایک بہت بڑا میدان تھا جو اب بھی ہے، 2 مسجدیں تھیں ایک اہل سنت اور دوسری اثناعشری شیعہ حضرات کے لیے مخصوص تھی جو تاحال موجود ہے ہم سٹی ریلوے کالونی سے اسکول اور پھر اسکول سے پیدل گھر آتے جاتے تھے ،اسکول میں کوئی کینٹین نہ تھی بس ہاف ٹائم میں اپنی پسند کی چیزیں کھا لیا کرتے تھے کالونی میں تمام ریلوے ملازمین کے کوارٹرز تھے۔

سب مل جل کر رہتے تھے، ہمارے پڑوس میں پٹھان، سندھی، پنجابی بھی رہتے تھے ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے اور جب ملک 1947 میں تقسیم ہوا تو بہت سے مہاجرین بھی کراچی میں آ کر آباد ہو گئے اور کراچی شہر بڑھتا چلا گیا، ملک کے بنانے والے محمد علی جناح قائد اعظم 1948 میں انتقال کر گئے، اس وقت میری عمر تین سال تھی اور پھر جب میں6 برس کا ہوا تو ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے ایک جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے گولیاں مار کر شہید کردیا گیا، مگر ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ایسا کیوں ہوا۔

خیر بعد میں پتا چلا کہ ایک ملزم اکبر خان نے انھیں گولیاں مار کر شہید کر دیا، مگر پولیس کے ایک افسر نے قاتل اکبر خان کو بھی گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ خیر وقت گزرتا گیا اور ہم تھوڑے بڑے ہوگئے تھے اور سندھ مدرسہ سے میٹرک پاس کر لیا۔ ہمارے سامنے میکلوڈ روڈ پر ایک 10 منزلہ عمارت جسے محمودی ہاؤس کہا جاتا ہے یہ سب سے پہلے ایک اونچی عمارت بنی تھی جسے دیکھ کر ہم سب طالبعلم بڑے خوش ہوتے تھے۔ خیر 1958 میں ریلوے ملازم ہو گئے۔

شاعری اور فلمی دنیا کا شوق تھا اس دور میں انڈین فلمیں بڑی مقبول تھیں اور پاکستانی فلمی دنیا بھی عروج پر تھی۔ ایوب خان صدر تھے جب کہ ملک کے ایک ہی گورنر نواب امیر محمد خان آف کالا باغ تھے جو بڑے سخت مزاج تھے۔ اتنی مہنگائی نہ تھی، پھر آٹا اور چینی کی قیمتوں میں چار آنے فی کلو اضافہ ہوا تو عوام سڑکوں پر نکل آئے، ایوب خان کی حکومت کو 11سال ہوگئے پورے دور میں ایوب خان کے خلاف ہڑتالیں اور مظاہرے ہو رہے تھے، لاہور میں ریلوے ملازمین نے ملک بھر میں ٹرینیں بند کر دیں، کراچی تا پشاور ٹرینیں 13 دن بند رہیں۔

ہمارے کچھ دوست جوکہ کمیونسٹ پارٹی چین نواز گروپ سے تعلق رکھتے تھے جن کے رہنما پی آئی اے کے طفیل عباس تھے ہمیں ان کے دوست منشور اور ایک لال کتاب جو ماؤزے تنگ کی لکھی ہوئی ہمیں دیتے تھے میرے رابطے میں تھے ہڑتال کو تین دن گزر چکے تھے وہ مجھے بھی ہڑتالی ملازمین کے جلسے میں لے گئے حالانکہ میرا اس ہڑتال سے کوئی تعلق نہ تھا میں تو بس شاعری اور فلمی دنیا کی طرف راغب تھا۔


انھوں نے مجھے اسٹیج پر چڑھا دیا کہ ایک نوجوان شاعر آپ کو انقلابی نظم سنائے گا جب کہ میں نے ویت نام کی حمایت اور امریکا کے خلاف وہ نظم لکھی تھی اس نظم کا ان ہڑتالی مزدوروں سے کوئی تعلق نہ تھا خیر میں نے اسٹیج پر کھڑے ہو کر پہلا مصرع ہی پڑھا تھا کہ فوج آ گئی اور انھوں نے لاٹھی چارج کرتے ہوئے مجھ سمیت 13 کارکنوں اور ایک لیڈر کو بھی گرفتار کر لیا اور پھر آرٹلری میدان تھانے میں 14 روز اور پھر ایک ماہ کے لیے کراچی سینٹرل جیل بھیج دیا گیا، پوری جیل بھری ہوئی تھی، کراچی میں شپ یارڈ ہاؤس میں ہڑتال، کے پی ٹی اور کے ایم سی میں بھی ہڑتال تھی، یہ 1968 کا واقعہ ہے۔

اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں بن چکی تھی، پھر ایوب خان کو جانا پڑا اور صدر جنرل یحییٰ خان بن گئے مجھ سمیت تمام لیڈروں کو ملازمت سے نکال دیا گیا بعد میں ہم سب چین نواز گروپ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے اور چار آنے کی ممبر شپ بھی حاصل کرلی پھر بعد میں ذوالفقار علی بھٹو سے کراچی میں 70 کلفٹن میں ملاقات ہوئی اور انھوں نے وعدہ کیا کہ یہ پارٹی آپ کی ہوگی اس طرح ملک بھر میں 1970 میں الیکشن کا اعلان ہوا۔ الیکشن ہوا بھی مگر ہمارا مشرقی پاکستان 1971 میں الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ بعد کی کہانی پرانے دوستوں کو یاد ہوگی لیکن بھٹو صاحب نے مزدوروں کو کئی حقوق دیے۔

میں دوبارہ والد صاحب کی کوشش سے ریلوے میں بطور کمرشل کلرک یعنی بکنگ کلرک بھرتی ہو گیا۔ 6 ماہ والٹن میں ٹریننگ لے کر کراچی آگئے اور پھر کراچی سرکلر ریلوے کراچی سٹی تک 1910 میں مکمل ہو چکی تھی میں نے سرکلر ریلوے کا پہلا ٹکٹ پلیٹ فارم نمبر 56 سے ریلوے افسران کی قطار میں کھڑے ہو کر 25 پیسے میں خریدا۔ کیا زمانہ تھا کتنے اچھے افسر تھے کتنے اچھے ملازمین تھے اور کتنی اچھی ریلوے، پی آئی اے، کے پی ٹی، کے ایم سی اور کے ای ایس سی تھی لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے۔

لوگ بدل گئے ہیں ملک بدل گیا ہے پچھلے دنوں مجھے ہری پور ہزارہ ایک سینئر ٹریڈ یونین لانڈھی لیبر آرگنائز کمیٹی کے رہنما جعفر خان کا فون آیا جو اب 76سال کے ہیں کہنے لگے ۔'' آپ کے کالم پڑھے، اب ٹریڈ یونین کہاں ہے؟ سب کچھ بدل گیا ہے میں اپنے گاؤں میں اپنی بیوی کے ساتھ رہتا ہوں۔ ایک بیٹا ڈاکٹر ایک انجینئر اور ایک آئی ٹی میں ہے سب الگ الگ اپنے اپنے کمروں میں رہتے ہیں خاندان بھی بدل گیا ہے ۔''اسی طرح کامریڈ علی ناصر اسلام آباد سے کہہ رہے تھے کہ'' میں بھی اپنے کمرے میں اکیلا رہتا ہوں۔''

گلشن اقبال سے ہمارے ریلوے کے ہیڈ ٹکٹ چیکر جو بڑے شاندار ڈریس میں ڈیوٹی پر آتے تھے اور بڑے خوبصورت انداز میں گفتگو کرتے ہوئے مجھے قاضی محمد یونس نے کہا کہ'' آپ کے کیا حالات ہیں؟'' میں نے کہا ''جو حالات آپ کے ہیں سو میرے بھی وہی حالات ہیں، البتہ میں ہفتے میں تین دن کراچی سٹی، پھر آرٹس کونسل اور پھر پریس کلب اور پھر اپنے کمرے میں اخبارات اور کتابیں پڑھتا رہتا ہوں۔ ''

سب اکیلے اکیلے ہوگئے۔ لوگ بدل گئے، زمانہ بدل گیا، سیاست بدل گئی، مذہبی جماعتیں بدل گئیں، لسانی تنظیمیں بن گئیں، خاندان بدل گئے، رشتے دار بدل گئے ہیں دور کہیں دور رہ رہے ہیں، کہانی تو بڑی لمبی ہے۔ پھر لکھیں گے۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت:

خاندان سے میرے حالات نہیں ملتے

خون ملتا ہے ، خیالات نہیں ملتے
Load Next Story