مسقط شہر میں کچھ دن

پاکستانی کمیونٹی یہاں مجلس شعر و ادب کے ذریعے اردو ادب کی پرخلوص خدمت انجام دے رہی ہے

usmandamohi@yahoo.com

ایک طرف پہاڑوں اور تین اطراف سے سمندر سے گھرا مسقط کوئی نیا نہیں صدیوں پرانا شہر ہے۔ یہ اعلیٰ درجے کی مچھلیوں اور قیمتی پتھروں کے لیے پوری دنیا میں شہرت رکھتا تھا۔ اس کی بندرگاہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کے پرانے رہائشیوں کا اہم پیشہ ماہی گیری تھا۔

یہاں کاشتکاری نہیں ہوسکتی کیونکہ زمین بنجر اور ریتلی ہے یہاں بارش بس کبھی کبھی ہی ہوتی ہے، چنانچہ کہیں کہیں صرف کھجور یا ببول کے درخت موجود ہیں۔ آبادی انتہائی کم ہے۔ پرانے زمانے میں یعنی 1967 تک آبادی صرف بندرگاہ کے آس پاس تھی اور یہی مسقط شہرکہلاتا تھا۔ شہر کے باہر کئی کئی میل کے فاصلے پر واقع مختلف وادیوں میں چھوٹے موٹے مٹی کے گارے سے بنے ہوئے کچے مکانوں میں لوگ رہتے تھے۔

آبادی کے کم ہونے کی وجہ یہاں کی سخت گرمی ہے۔ سورج کی تپش آج بھی اتنی تیز ہے کہ گھر سے باہر دو منٹ کے لیے بھی رکنا محال ہے۔ نہ جانے کیا بات ہے یہاں سورج کی شعاعوں میں غیر معمولی تپش ہے۔

1967 تک یہ ایک پسماندہ اور غریب ملک تھا مگر 1968 میں یہاں تیل کے ذخائر دریافت ہونے کے بعد اس کے دن بدلنے کا وقت آگیا تھا مگر اس وقت کے حکمران سعید تیمور 1958 میں ہی گوشہ نشین ہو چکے تھے چنانچہ انھوں نے تیل کی دولت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا، تاہم ان کے ہونہار اور قابل فخر فرزند قابوس بن سعید نے اس ملک کی غربت اور پسماندگی کو دورکرنے کا بیڑہ اٹھایا اور رات دن ایک کر کے اپنے ملک اور قوم کی قسمت چمکا دی۔

اب عمان ایک جدید ترقی یافتہ ملک بن چکا ہے۔ سلطان قابوس اب انتقال کر چکے ہیں۔ ان کے ایک چچا زاد بھائی ہیشم بن طارق سلطنت عمان کے شاہی تخت پر جلوہ افروز ہیں۔ وہ بھی ملک و قوم کی ترقی کے لیے رات دن ایک کر رہے ہیں۔

یہاں دوسرے ممالک سے آئے محنت کشوں کی طرح پاکستانیوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے۔ وہ اس ملک کی ترقی اور خوشحالی میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستانیوں کو قدرت نے نثری اور شعری ادب سے بدرجہ اتم نوازا ہے۔

یہ اپنی ادبی اور شعری محفلوں کے ذریعے اس ملک کی رونق کو دوبالا کرنے میں مصروف ہیں، ان کی محفلوں میں بھارت اور بنگلہ دیش کے اردو سے محبت کرنے والے ادیب اور شاعر بھی ذوق شوق سے حصہ لیتے ہیں اور اپنے ذوق کی تسکین کے ساتھ ساتھ اردو ادب کی دل کھول کر خدمت کر رہے ہیں۔


اس خاکسار کا گزشتہ دنوں مسقط جانا ہوا تھا وہاں میں نے 23 دن گزارے جو انتہائی پرسکون گزرے وہاں سبھی محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ خاص طور پر میں وہاں کے مقامی لوگوں کا ذکر کیے بغیر نہیں رہوں گا کہ جنھوں نے انتہائی اخلاقی اقدار کا اظہار کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو بہت عزت دیتے ہیں۔ مقامی لوگ انھیں اپنا مہمان خیال کرتے ہیں کیونکہ باہر کے لوگ دور دراز کے علاقوں سے ان کے ملک کی خدمت کرنے کے لیے آئے ہیں۔

پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے وہاں آئے لوگ باہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں۔ وہاں کے اس محبت بھرے ماحول سے خاکسار انتہائی خوشی محسوس کرتا رہا۔ وہاں امن و امان کا یہ حال ہے کہ اپنے پورے 23 دنوں میں، میں نے وہاں ایک مرتبہ بھی کہیں کسی پولیس والے کو نہیں دیکھا، لوگ بتاتے ہیں کہ وہاں پولیس ضرور ہے مگر انھیں وہاں کے عوام کبھی زحمت کا کوئی موقعہ ہی نہیں دیتے اس ملک میں جگہ جگہ عالی شان ایئرکنڈیشنڈ عمارات موجود ہیں۔

مسجدیں اکثر نمازیوں سے بھری نظر آتی ہیں پھر جمعے کے دن تو کسی بھی مسجد میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی، وہاں کی سب سے بڑی مسجد سابق مرحوم بادشاہ قابوس کے نام سے موسوم ہے، انتہائی خوبصورت تعمیر کی گئی ہے یہ اسلامی اور مقامی فن تعمیر کا نادر نمونہ ہے۔ اس مسجد کے مین ہال میں کئی ہزار افراد کے نماز پڑھنے کی سہولت موجود ہے۔ اس مسجد کی تعمیر میں بادشاہ سلطان قابوس نے ذاتی دلچسپی لی تھی۔ یہ مسجد اس قدر پرکشش ہے کہ اسے مغربی ممالک کے سیاح جوق درجوق دیکھنے آتے ہیں اور وڈیوز بنا کر لے جاتے ہیں۔

پاکستانی کمیونٹی یہاں مجلس شعر و ادب کے ذریعے اردو ادب کی پرخلوص خدمت انجام دے رہی ہے۔ 23 ستمبر 2023 کی شام یہاں کے سفیر پلازہ ہوٹل میں مجلس شعر و ادب اور سینئر کمیونٹی ممبرز عمان کی جانب سے ایک عظیم الشان مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ اس مشاعرے کے محرک اور روح رواں ناصر معروف اور معاونین کاشف زعیم، ڈاکٹر شرف عطا اللہ، چوہدری عباس اور مقبول احمد شیخ تھے۔

یہ مشاعرہ ان حضرات کی انتھک کوششوں کی بدولت انتہائی کم وقت میں ترتیب و تدوین کے مراحل طے کر کے اسٹیج کی زینت بنا اور بے حد کامیابی اور وقار سے پیش کیا گیا۔ اس مشاعرے میں خاکسار کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا تھا، اس مشاعرے میں مسقط کے مشہور شاعر محمد نسیم نسیم اور ادیب و شاعر ذاکر حسین ذاکر نے بھی شرکت کی۔

اس محفل میں پاکستان سے تشریف لائے مشہور وی لاگر، شاعر، فلم نویس، ڈرامہ رائٹر، ایکٹر اور ادیب افتخار احمد عثمانی نے بھی شرکت کی اور اپنے مخصوص کلام سے حاضرین کو محظوظ فرمایا۔ مشاعرے کے مہمان خصوصی عزت مآب سفیر پاکستان عمران علی چوہدری تھے اور مہمان اعزازی پاکستان کمیونٹی کے شیخ سید فیاض علی شاہ اور پاکستان سوشل کلب کے 6 مرتبہ چیئرمین منتخب ہونے والی شخصیت میاں محمد منیر تھے۔

اس محفل میں سفارت خانہ پاکستان سے عتیق الرحمن، عامر صفدر اور دیگر افسران نے بھی شرکت فرمائی۔ مشاعرے کی نظامت مقبول احمد شیخ نے نہایت مہارت اور عمدگی سے نبھائی اور مقامی شعرا سے مشاعرے کا آغاز کیا جن میں شکیل شہاب، عابد مغل، محمد نعیم، موسیٰ کشیری، قمر ریاض، مقبول شیخ اور ناصر معروف شامل تھے۔ اس کے بعد ذاکر حسین ذاکر، افتخار احمد عثمانی اور خاکسار کو اپنا کلام سنانے کے لیے کافی وقت دیا گیا جس سے سامعین بہت محظوظ ہوئے۔

شرکائے محفل کی کثیر تعداد رات ساڑھے بارہ بجے تک اس مشاعرے سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اس مشاعرے میں پاکستان سوشل کلب مسقط کے سابق ڈائریکٹر شبیر احمد ندیم، عمران، اقبال شکیل، معروف بھٹہ،ارشد علی خان، عثمان سکھن، چوہدری شکور، اختر سلیم، شیخ سجاد، چوہدری جاوید، اقبال جعفر اور کمیونٹی کے دیگر اشخاص نے شرکت کی۔ آخر میں شرکا کی تواضح راوی ہوٹل کے لذیذ کھانوں سے کی گئی۔
Load Next Story