انور ظہیر ادیب شاعر افسانہ نویس اور کالم نگار
مصنف کا ایک تازہ کالم بھی پڑھنے کا اتفاق ہوا، یہ کالم دلچسپ اور تحیر آمیز ہے
انور ظہیر کا پورا نام سید انور ظہیر ہے وہ عرصہ دراز سے جرمنی میں مقیم ہیں، انھوں نے ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی، انٹر آدم جی سائنس کالج اور بی ایس سی ڈی جے سائنس کالج کراچی سے جب کہ ماسٹر میڈیسن فزکس اپلائیڈ یونیورسٹی برلن سے کیا۔
جرمنی میں رہتے ہوئے علم و ادب کے حوالے سے فعال کردار ادا کرنے والے انور ظہیر رہبر کو کئی زبانوں پر عبور حاصل ہے وہ کام اور مثبت کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں، اس ہی جذبے نے انھیں متحرک رکھا ہے، تشنگی علم کی پیاس بجھانے کے لیے وہ کئی اہم علمی و فلاحی اداروں سے وابستہ ہیں، جرمنی کے محکمہ وزارت داخلہ سے منسلک ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ایک اہم ادارے '' ایک چھت کے نیچے '' کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں، جہاں مختلف رنگ و نسل کے لوگوں کو ان کی مادری اور دوسری زبانوں میں تعلیم دی جاتی ہے ۔
انور ظہیر ہمہ جہت ادیب ہیں، وہ شاعر ہیں، افسانہ نویس اور کالم نگار ہیں، ان کی شاعر ی اور افسانوں کے کئی مجموعے شایع ہوچکے ہیں، اس کے علاوہ ان کی زنبیل میں ادبی سرمایہ اس قدر محفوظ ہے کہ مزید کتابیں زیر طبع ہیں، اس بات کا بھی انھیں اعزاز حاصل ہے کہ برلن میں سب سے پہلا مشاعرہ 1987 میں منعقد کروایا اور بھی کئی ادبی تنظیموں سے وابستہ ہیں، ہندو پاک اور عالمی کانفرنس دوحہ کی ادبی تنظیموں نے انھیں ایوارڈ و اسناد سے نوازا، وہ عرصہ دراز سے پاکستان و ہندوستان اور جرمنی میں '' پردیسی کے قلم سے '' کے عنوان سے کالم لکھ رہے ہیں ۔
انور ظہیر رہبر کے کالم حالات حاضرہ کے عکاس ہیں، انھیں مختلف علوم پر دسترس حاصل ہے، خاص طور پر سائنس اور جغرافیہ ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں، کوئی بھی قلمکار اس وقت تک کالم نہیں لکھ سکتا جب تک کہ معاشرتی حالات اور دنیا کے بدلتے ہوئے منظر نامے پر اس کی گہری نگاہ نہ ہو۔
کالم نگار اپنے تجربے، مشاہدے، معلومات، فہم و ادراک اور علم و آگہی کی روشنی میں اپنی تحریریں قلمبند کرتا ہے، دنیا کو دل و دماغ کی آنکھوں سے دیکھتا ہے، انھی خوبیوں کی بناء پر وہ پردہ چاک کرتا ہے اور ان باتوں کی نشاندہی جرا ت اظہار سے کرتا ہے جن سے بے شمار حضرات ناواقف ہیں، وہی کالم نگار اوج ثریا پر قدم رکھتے ہیں، جو نڈر ہیں اور بے باکی سے اپنا کام کرتے ہیں۔
انور ظہیر ایک ایسے ہی فنکار ہیں جو بلند حوصلہ بھی ہیں اور وسیع و وقیع معلومات کا خزانہ بھی ان کے پاس موجود ہے جسے وہ حالات و واقعات کی مناسبت سے جستہ جستہ خرچ کر کے قارئین کے لیے استفادے کے مواقع فراہم کررہے ہیں۔
انور ظہیر کے کالموں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ ماضی کو نہیں بھولے ہیں، حال میں رہتے ہوئے مستقبل سے بھی بے فکر نہیں ہیں، اس کی وجہ ایک باشعور ادیب اس بات کا ادراک رکھتا ہے کہ آج کی ہونی، انہونی کل کیا رنگ لاسکتی ہے۔ کالم نگار کی تحریروں میں سنجیدگی اور شگفتگی نے اسے دو آشتہ بنادیا ہے، بعض جملوں کو مزاح کی چاشنی میں اس انداز سے لکھا ہے کہ اسلوب بیان پر لطف ہوگیا ہے۔
اتفاق سے جو سب سے پہلا جو کالم میری نگاہوں کے حصار میں آیا اس کا عنوان تھا '' کیا امریکا کرسٹوفر کولمبس نے دریافت کیا '' کالم پڑھنے کے بعد اصل حقیقت سامنے آئی کہ یہ تو سراسر جھوٹ اور غلط تھا۔ مصنف نے کولمبس کی حقیقی کہانی کو دلچسپ پیرائے میں تحریر کیا ہے، انھوں نے مذکورہ مضمون میں اس بات سے پردہ اٹھایا ہے کہ '' امریکا کی دریافت ایک حساب کی غلطی پر مبنی تھی چونکہ وہ امریکا دریافت کرنے نکلا تھا اور نہ ہی اس کا سفر اس جانب تھا۔''
مصنف نے تاریخی غلطی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک خوبصورت کالم لکھا ہے، بے شک ایک نہ ایک دن حقائق کو سامنے آنا ہی ہوتا ہے، یونانی دیو مالائی کہانی کے اندراج نے کالم کو دلکش بنا دیا ہے ۔ ''یورپی پارلیمنٹ کے انتخاب '' اس کالم کو پڑھنے کے بعد فکر کے در وا ہوتے ہیں کہ یورپ کے لوگ کس طرح سوچتے ہیں اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو راغب کرنے کا انداز کس قدر انوکھا ہے، لڑائی اور جھگڑا ، نہ دنگا فساد، سکون کے ساتھ اپنے مقاصد کا حل سامنے آجاتا ہے۔
مصنف کی یہ تحریر جرمنی میں پارلیمنٹ کے انتخاب کی تیاری اور اس کے پس منظر میں ہونے والی رونق اور گہما گہمی کو ظاہر کرتی ہے اور ایک نعرہ بہت بامعنی اور دلاآویز ہے جو برلن کے بارونق ڈیجیٹل دیوار پر نمایاں ہے، نعر ہ ہے '' یورپ کا مطلب ہے خوف کے بغیر مختلف ہونا '' اس نعرے نے ہی مصنف کو کالم لکھنے پر مجبور کیا، نعرے کی دلکشی نے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کیا ہے، یعنی یورپ میں ہر خوف سے آزاد ہوکر اپنا حق استعمال کرنا ہے ، زبان و بیان، رنگ و نسل کی قید سے بالاتر ہو کر، کاش ہمارے لوگ بھی ایک دوسرے کی تذلیل کرنے کے بجائے علم و شرافت کی زبان میں بات کر کے اپنا جائز مقصد حاصل کرتے تو آج پاکستان کہاں سے کہاں ہوتا؟
'' انسان اور انسانیت '' مذکورہ کالم میں پاکستانی اسپتالوں اور معالجین کے ناروا سلوک کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ کس طرح محض حصول زر کے لیے انسانی جانوں سے کھیلا جاتا ہے، کسی بھی ادارے میں نظم و نسق اور انصاف کی پسپائی اس کی پہچان بن گئی ہے ، جب کہ اس کے برعکس دیار غیر میں انسان کی قدر و قیمت قابل رشک ہے۔
انور ظہیر نے برلن ایئر پورٹ پر پیش آنے والے واقعے کو بیان کیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسانیت ، تہذیب اور ہمدردی ان کے یہاں بے مثال ہے، دوسرے لفظوں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اسلامی قوانین پر وہ لوگ عمل کرتے ہیں اور ہمارے یہاں سب کچھ برعکس ہے، ایک ایسے شخص کا علاج کرنا جو غیر قانونی طور پر سفر کر رہا تھا، اس کا پاسپورٹ جعلی تھا، لیکن جب پوچھ گچھ کے دوران اسے خوف کے مارے ہارٹ اٹیک ہوا تو اس کے جرم کو بھلا کر اس کا تندہی کے ساتھ علاج کیا گیا کہ وہ صحت مند نظر آنے لگا۔
'' کورونا اور قرنطینہ کا سفر'' مصنف نے کووڈ 19کی بیماری اور اس کے اثرات کا بھرپور جائز ہ لیا ہے، 1340ء میں پھیلنے والے طاعون کا بھی تفصیلی ذکر کیا ہے اور اس عذاب نما بیماری نے لوگوں کو مختلف جگہوں پر مقیدکر دیا تھا، تاریخ کے حوالے سے انور ظہیر نے بتایا ہے کہ لفظ قرنطینہ پہلی بار 1377میں ملک کروشیا کے ایک جزیرے جسے اس وقت لا گوزہ اور آجکل '' ڈوبرو تک '' کہا جاتا ہے، اس علاقے میں طاعون کی وباء پھیلنے کے بعد استعمال کیا گیا تھا، کالم نگار نے مکمل تحقیق کے بعد کالم لکھے ہیں جو قابل تحسین ہیں۔
مصنف کا ایک تازہ کالم بھی پڑھنے کا اتفاق ہوا، یہ کالم دلچسپ اور تحیر آمیز ہے، جن باتوں کا ذکر کیا گیا ہے، وہ ممکن بھی ہیں اور ناممکن بھی، ممکن اس صورت میں کہ جب سب کچھ ختم ہوجائے گا تو اس کا مطلب قیامت کا برپا ہونا اور ناممکن اس لیے کہ جب تک کائنات کا ہر کام اللہ کے حکم سے چل رہا ہے وہ چلتا ہی رہے گا۔ آخر میں اتنا ہی کہوں گی کہ انور ظہیر کے کالم نما مضامین یا مضامین نما کالم آگہی کے چراغوں کی لو بڑھانے میں مددگار ہیں، میری دعا ہے کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
جرمنی میں رہتے ہوئے علم و ادب کے حوالے سے فعال کردار ادا کرنے والے انور ظہیر رہبر کو کئی زبانوں پر عبور حاصل ہے وہ کام اور مثبت کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں، اس ہی جذبے نے انھیں متحرک رکھا ہے، تشنگی علم کی پیاس بجھانے کے لیے وہ کئی اہم علمی و فلاحی اداروں سے وابستہ ہیں، جرمنی کے محکمہ وزارت داخلہ سے منسلک ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ایک اہم ادارے '' ایک چھت کے نیچے '' کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں، جہاں مختلف رنگ و نسل کے لوگوں کو ان کی مادری اور دوسری زبانوں میں تعلیم دی جاتی ہے ۔
انور ظہیر ہمہ جہت ادیب ہیں، وہ شاعر ہیں، افسانہ نویس اور کالم نگار ہیں، ان کی شاعر ی اور افسانوں کے کئی مجموعے شایع ہوچکے ہیں، اس کے علاوہ ان کی زنبیل میں ادبی سرمایہ اس قدر محفوظ ہے کہ مزید کتابیں زیر طبع ہیں، اس بات کا بھی انھیں اعزاز حاصل ہے کہ برلن میں سب سے پہلا مشاعرہ 1987 میں منعقد کروایا اور بھی کئی ادبی تنظیموں سے وابستہ ہیں، ہندو پاک اور عالمی کانفرنس دوحہ کی ادبی تنظیموں نے انھیں ایوارڈ و اسناد سے نوازا، وہ عرصہ دراز سے پاکستان و ہندوستان اور جرمنی میں '' پردیسی کے قلم سے '' کے عنوان سے کالم لکھ رہے ہیں ۔
انور ظہیر رہبر کے کالم حالات حاضرہ کے عکاس ہیں، انھیں مختلف علوم پر دسترس حاصل ہے، خاص طور پر سائنس اور جغرافیہ ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں، کوئی بھی قلمکار اس وقت تک کالم نہیں لکھ سکتا جب تک کہ معاشرتی حالات اور دنیا کے بدلتے ہوئے منظر نامے پر اس کی گہری نگاہ نہ ہو۔
کالم نگار اپنے تجربے، مشاہدے، معلومات، فہم و ادراک اور علم و آگہی کی روشنی میں اپنی تحریریں قلمبند کرتا ہے، دنیا کو دل و دماغ کی آنکھوں سے دیکھتا ہے، انھی خوبیوں کی بناء پر وہ پردہ چاک کرتا ہے اور ان باتوں کی نشاندہی جرا ت اظہار سے کرتا ہے جن سے بے شمار حضرات ناواقف ہیں، وہی کالم نگار اوج ثریا پر قدم رکھتے ہیں، جو نڈر ہیں اور بے باکی سے اپنا کام کرتے ہیں۔
انور ظہیر ایک ایسے ہی فنکار ہیں جو بلند حوصلہ بھی ہیں اور وسیع و وقیع معلومات کا خزانہ بھی ان کے پاس موجود ہے جسے وہ حالات و واقعات کی مناسبت سے جستہ جستہ خرچ کر کے قارئین کے لیے استفادے کے مواقع فراہم کررہے ہیں۔
انور ظہیر کے کالموں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ ماضی کو نہیں بھولے ہیں، حال میں رہتے ہوئے مستقبل سے بھی بے فکر نہیں ہیں، اس کی وجہ ایک باشعور ادیب اس بات کا ادراک رکھتا ہے کہ آج کی ہونی، انہونی کل کیا رنگ لاسکتی ہے۔ کالم نگار کی تحریروں میں سنجیدگی اور شگفتگی نے اسے دو آشتہ بنادیا ہے، بعض جملوں کو مزاح کی چاشنی میں اس انداز سے لکھا ہے کہ اسلوب بیان پر لطف ہوگیا ہے۔
اتفاق سے جو سب سے پہلا جو کالم میری نگاہوں کے حصار میں آیا اس کا عنوان تھا '' کیا امریکا کرسٹوفر کولمبس نے دریافت کیا '' کالم پڑھنے کے بعد اصل حقیقت سامنے آئی کہ یہ تو سراسر جھوٹ اور غلط تھا۔ مصنف نے کولمبس کی حقیقی کہانی کو دلچسپ پیرائے میں تحریر کیا ہے، انھوں نے مذکورہ مضمون میں اس بات سے پردہ اٹھایا ہے کہ '' امریکا کی دریافت ایک حساب کی غلطی پر مبنی تھی چونکہ وہ امریکا دریافت کرنے نکلا تھا اور نہ ہی اس کا سفر اس جانب تھا۔''
مصنف نے تاریخی غلطی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک خوبصورت کالم لکھا ہے، بے شک ایک نہ ایک دن حقائق کو سامنے آنا ہی ہوتا ہے، یونانی دیو مالائی کہانی کے اندراج نے کالم کو دلکش بنا دیا ہے ۔ ''یورپی پارلیمنٹ کے انتخاب '' اس کالم کو پڑھنے کے بعد فکر کے در وا ہوتے ہیں کہ یورپ کے لوگ کس طرح سوچتے ہیں اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو راغب کرنے کا انداز کس قدر انوکھا ہے، لڑائی اور جھگڑا ، نہ دنگا فساد، سکون کے ساتھ اپنے مقاصد کا حل سامنے آجاتا ہے۔
مصنف کی یہ تحریر جرمنی میں پارلیمنٹ کے انتخاب کی تیاری اور اس کے پس منظر میں ہونے والی رونق اور گہما گہمی کو ظاہر کرتی ہے اور ایک نعرہ بہت بامعنی اور دلاآویز ہے جو برلن کے بارونق ڈیجیٹل دیوار پر نمایاں ہے، نعر ہ ہے '' یورپ کا مطلب ہے خوف کے بغیر مختلف ہونا '' اس نعرے نے ہی مصنف کو کالم لکھنے پر مجبور کیا، نعرے کی دلکشی نے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کیا ہے، یعنی یورپ میں ہر خوف سے آزاد ہوکر اپنا حق استعمال کرنا ہے ، زبان و بیان، رنگ و نسل کی قید سے بالاتر ہو کر، کاش ہمارے لوگ بھی ایک دوسرے کی تذلیل کرنے کے بجائے علم و شرافت کی زبان میں بات کر کے اپنا جائز مقصد حاصل کرتے تو آج پاکستان کہاں سے کہاں ہوتا؟
'' انسان اور انسانیت '' مذکورہ کالم میں پاکستانی اسپتالوں اور معالجین کے ناروا سلوک کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ کس طرح محض حصول زر کے لیے انسانی جانوں سے کھیلا جاتا ہے، کسی بھی ادارے میں نظم و نسق اور انصاف کی پسپائی اس کی پہچان بن گئی ہے ، جب کہ اس کے برعکس دیار غیر میں انسان کی قدر و قیمت قابل رشک ہے۔
انور ظہیر نے برلن ایئر پورٹ پر پیش آنے والے واقعے کو بیان کیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسانیت ، تہذیب اور ہمدردی ان کے یہاں بے مثال ہے، دوسرے لفظوں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اسلامی قوانین پر وہ لوگ عمل کرتے ہیں اور ہمارے یہاں سب کچھ برعکس ہے، ایک ایسے شخص کا علاج کرنا جو غیر قانونی طور پر سفر کر رہا تھا، اس کا پاسپورٹ جعلی تھا، لیکن جب پوچھ گچھ کے دوران اسے خوف کے مارے ہارٹ اٹیک ہوا تو اس کے جرم کو بھلا کر اس کا تندہی کے ساتھ علاج کیا گیا کہ وہ صحت مند نظر آنے لگا۔
'' کورونا اور قرنطینہ کا سفر'' مصنف نے کووڈ 19کی بیماری اور اس کے اثرات کا بھرپور جائز ہ لیا ہے، 1340ء میں پھیلنے والے طاعون کا بھی تفصیلی ذکر کیا ہے اور اس عذاب نما بیماری نے لوگوں کو مختلف جگہوں پر مقیدکر دیا تھا، تاریخ کے حوالے سے انور ظہیر نے بتایا ہے کہ لفظ قرنطینہ پہلی بار 1377میں ملک کروشیا کے ایک جزیرے جسے اس وقت لا گوزہ اور آجکل '' ڈوبرو تک '' کہا جاتا ہے، اس علاقے میں طاعون کی وباء پھیلنے کے بعد استعمال کیا گیا تھا، کالم نگار نے مکمل تحقیق کے بعد کالم لکھے ہیں جو قابل تحسین ہیں۔
مصنف کا ایک تازہ کالم بھی پڑھنے کا اتفاق ہوا، یہ کالم دلچسپ اور تحیر آمیز ہے، جن باتوں کا ذکر کیا گیا ہے، وہ ممکن بھی ہیں اور ناممکن بھی، ممکن اس صورت میں کہ جب سب کچھ ختم ہوجائے گا تو اس کا مطلب قیامت کا برپا ہونا اور ناممکن اس لیے کہ جب تک کائنات کا ہر کام اللہ کے حکم سے چل رہا ہے وہ چلتا ہی رہے گا۔ آخر میں اتنا ہی کہوں گی کہ انور ظہیر کے کالم نما مضامین یا مضامین نما کالم آگہی کے چراغوں کی لو بڑھانے میں مددگار ہیں، میری دعا ہے کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔