کھیل کیا ہے
جنرل یحییٰ اورجنرل ضیا نے پورے سیاسی وجمہوری ڈھانچہ اور ادارے مکمل طورسے من پسند تعیناتیوں کی وجہ سے تباہ و برباد کیے
اس سے قبل پہلی قسط میں ملک کی سیاسی ہلچل کے حوالے سے یہ کہا جا چکا ہے کہ جنرل ایوب خان کے مارشل لا سے لے کر جنرل یحییٰ،جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے مارشل لا دراصل جنرل ایوب خان کے مارشل لا کا وہ تسلسل رہے ہیں جس کی ممکنہ کوشش یہی رہی کہ ملک میں عوامی جمہوری راج کی بنیادیں کسی بھی طرح مضبوط نہ ہو پائیں اور جمہوریت کے نام پر جو بھی نظام لایا جائے وہ ہمیشہ اسی قوت کے زیر اثر رہے تاکہ جمہوری نظام کسی طور بھی عوام کے منتخب ارکان کے ہاتھ میں نہ آسکے اور نہ ہی عوام کے منتخب نمایندوں کے ذریعے پارلیمانی نظام حکومت مضبوط ہو سکے۔
یہ کام اقتدار کی باگیں اپنے ہاتھ میں رکھنے کی خاطربہت منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا اور جہاں جہاں محسوس ہوا کہ نا دیدہ قوتوں کے بنائے ہوئے جمہوری وڈیرے، چوہدری، سردار اور خان عوام کے ووٹ کی طاقت سے مضبوط ہونے لگے، تو وہاں منتخب نمایندوں کے مقابل انھی قوتوں کے تراشے ہوئے عوامی نمایندے سیاسی پارٹیوں میں داخل کیے گئے، تو ان سیاسی پارٹیوں پر نظر بھی رکھی گئی کہ جہاںاگر انھی قوتوں کے داخل کیے ہوئے افراد کمزور ہونے لگیں یا سیاست کے نشیب و فراز جاننے کی طرف جانے لگیں تو آخری ہتھیار کے طور پر ملک میں اقتصادی زبوں حالی اور عوام میں بے چینی کے سبب کا مضبوط بیانیہ بنا کر ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا جائے۔
ملک کی سیاسی تاریخ پر اجمالی نگاہ ڈالی جائے تو ملک میں مارشل لا کی آمد کا سبب عوام کی بے چینی اور منتخب حکومت کی ناقص پالیسی ہی بتایا گیا تاکہ مارشل لا کی راہ ہموار کی جائے،یہی وجہ رہی کہ قیام پاکستان کے بعد ریاست چلانے کی بنیادی دستاویز یعنی''ملکی آئین'' کو ہر صورت بننے سے روکا گیا،ملکی تاریخ کے پیش نظر ملک کے منتخب نمایندوں نے عبوری آئین کو جب 1956میں ریاست کے آئین کی باقاعدہ شکل دینے کی کوشش کی تو اس آئین بنانے کی کوشش کو بھی ایک یا دوسرے بہانے سے یا تو معطل کر دیاگیا یا پھر کوشش کرکے ریاست چلانے کی بنیادی آئینی دستاویز کو بننے ہی نہ دیا گیا۔
یہاں پر یہ سوال بہت اہم ہے کہ ریاست کے امور باضابطگی سے چلانے کی ان تمام تر کوششوں کو کیوں اور کن مقاصد کے تحت تہہ و بالا کیا گیایا کہ آئینی طور سے ملک کو چلانے میں وہ کونسی رکاوٹ تھی جو ریاستی امور میں باضابطگی لانے سے روک رہی تھی،حالات و حقائق کے مطالعے کی روشنی میں آئین کی دستاویز کو روکنے کی کوشش کے پیچھے آخر وہ کیا مقاصد یا نفسیات تھی جو ریاست کابنیادی دستاویز بنانے سے 'اشرافیہ' کو روک رہی تھی؟
یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ جنرل ایوب نے اقتدار پر جب قبضہ کیا تو سب سے پہلے ملک میں حقیقی جمہوریت لانے کی نظریاتی کمیونسٹ اور سوشلسٹ پارٹیوں کو کام کرنے نہیں دیا اور ملک میں جمہوری راج لانے میں عوام کو ان کے حقوق سے متعلق باشعور سیاسی و نظریاتی کمیونسٹ یا سوشلسٹ فکر کی جماعتوں پر 'ریاستی پابندی 'لگائی ،بلکہ عوام کے جمہوری حقوق کے لیے عوام کے مختلف طبقوں کومتحرک کرنے والی سیاسی طاقت ''کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان''پر ریاستی جبر کے تحت پابندی لگا کر کمیونسٹوں کو ملک دشمن اور غدار قرار دیا۔
یہی کچھ قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح اور وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کے ساتھ کیا گیا اور ان دو سیاسی قوتوں کو بھی ملک دشمن بنا کر پیش کیا،اسی وقت آمر جنرل ایوب نے امور مملکت پر گرفت کی ایک نئی ''ڈاکٹرائن'' کی بنیاد رکھی جس کے تحت جنرل ایوب نے بہت چابکدستی سے یہ بات راسخ کردی کہ وہی اس ملک کے سب کچھ ہیں۔
آمرجنرل ایوب کی ڈاکٹرائن کے اصول کے تحت جہاں جہاں عوامی راج یا سیاست میںجب کبھی سنجیدگی آنے لگی یا دکھائی دی تو وہیں طاقت کی بنیاد پر ملک کو غیر قانونی اور غیر آئینی مارشل لا میں بہت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دھکیلا گیا۔
تاریخی طور سے ہمارے ملک کی سیاست میں وقتی طور سے سرد جنگ اورعالمی دبائو کے نتیجے میں طاقتور اشرافیہ کو آمر جنرل ایوب کی ڈاکٹرائن کو نہ چاہتے ہوئے تبدیل کرنا پڑا جس میں اندرونی دبائو کے تحت بظاہرملک کے مشرقی حصے کی علیحدگی تھا ۔ جنرل یحییٰ نے پاکستان کے بچے کچھے حصے میں مجبورہوکر حکومت منتخب نمایندوں کے حوالے کی ،جس کی کمان مغربی پاکستان کی اکثریتی پارٹی پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے سنبھالی اور اپنے دور اقتدار کے پہلے دو سالوں میں ملک کو پہلی مرتبہ ایک متفقہ آئین دیا اور آئینی طور سے جمہوری نظام چلانے کی کوشش کی۔
آئین کے بعد جونہی بھٹو نے قوت پکڑنے کی کوشش کی تو بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک چلائی گئی اور یوں بھٹو کو اقتدار سے الگ کرکے ملک میں جنرل ضیا نے پھر غیر آئینی مارشل لا نافذ کیا اور مذہبی نعرے کی آڑ میں ملک پر غیر آئینی طور سے اقتدار پر قابض رہا، اسی دوران ملک کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو نہ صرف عدالتی پھانسی دلوائی گئی بلکہ سپریم کورٹ کے ذریعے اپنے غیر آئینی اقتدار کو تحفظ بھی دیا۔
جنرل ضیانے یہی نہیں بلکہ غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کے ذریعے آئین میں ترامیم کے ذریعے تمامتر اختیارات اپنے پاس رکھے اور ملک میں قوم پرستی،مذہبی انتہا پسندی اور برادری سسٹم کا زہر پورے سماج میں داخل کرکے قوم پرست اور تنگ نظر نظریات کے ذریعے سماج کے پورے جمہوری اور سماجی نظام کو تہہ و بلا کیا۔
اس پورے سیاسی اور سماجی منظر نامے میں آمر جنرل ایوب کی ڈاکٹرائن کو چلانے کے لیے جنرل یحییٰ اور جنرل ضیا نے پورے سیاسی و جمہوری ڈھانچہ اور ادارے مکمل طور سے من پسند تعیناتیوں کی وجہ سے تباہ و برباد کیے اور سیاسی محاذ پر جہادہ مذہبی تحریکوں سمیت قوم پرستی کی آڑ میں طالبان کو مضبوط کیا جس کی مدد کے لیے بنائے گئے سیاست دانوں کو کسی حد تک جمہوریت پسندوں کے خلاف لا کھڑا کیا، اور سماج کی سیاسی قدروں میں ان افراد کی مدد سے اپنے ''اشرافیائی اہداف''کی تکمیل کرکے سماج میں جمہوریت اور سیاست کو گالی بنا دیا گیا،ان ہی سیاستدانوں کی سوچ کے ذریعے سماج سے در گذر، شائستگی اور برداشت کے سیاسی کلچر کو دانستہ طور پر ختم کیا گیااورجنرل ایوب کی غیر جمہوری سماج بنانے کی ڈاکٹرائن کو زندہ رکھاگیا،سرد جنگ کے خاتمے اور افغان جنگ کے بعد ایک مرتبہ پھر عالمی سامراج کا کردار جب تبدیل ہوا توجنرل ضیا کے بنائے گئے سیاستدانوں نے ایسے سیاسی حالات بنائے اور روشن خیال دائیں بازو کی سوچ کے ساتھ سیاست کی۔
یہ کام اقتدار کی باگیں اپنے ہاتھ میں رکھنے کی خاطربہت منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا اور جہاں جہاں محسوس ہوا کہ نا دیدہ قوتوں کے بنائے ہوئے جمہوری وڈیرے، چوہدری، سردار اور خان عوام کے ووٹ کی طاقت سے مضبوط ہونے لگے، تو وہاں منتخب نمایندوں کے مقابل انھی قوتوں کے تراشے ہوئے عوامی نمایندے سیاسی پارٹیوں میں داخل کیے گئے، تو ان سیاسی پارٹیوں پر نظر بھی رکھی گئی کہ جہاںاگر انھی قوتوں کے داخل کیے ہوئے افراد کمزور ہونے لگیں یا سیاست کے نشیب و فراز جاننے کی طرف جانے لگیں تو آخری ہتھیار کے طور پر ملک میں اقتصادی زبوں حالی اور عوام میں بے چینی کے سبب کا مضبوط بیانیہ بنا کر ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا جائے۔
ملک کی سیاسی تاریخ پر اجمالی نگاہ ڈالی جائے تو ملک میں مارشل لا کی آمد کا سبب عوام کی بے چینی اور منتخب حکومت کی ناقص پالیسی ہی بتایا گیا تاکہ مارشل لا کی راہ ہموار کی جائے،یہی وجہ رہی کہ قیام پاکستان کے بعد ریاست چلانے کی بنیادی دستاویز یعنی''ملکی آئین'' کو ہر صورت بننے سے روکا گیا،ملکی تاریخ کے پیش نظر ملک کے منتخب نمایندوں نے عبوری آئین کو جب 1956میں ریاست کے آئین کی باقاعدہ شکل دینے کی کوشش کی تو اس آئین بنانے کی کوشش کو بھی ایک یا دوسرے بہانے سے یا تو معطل کر دیاگیا یا پھر کوشش کرکے ریاست چلانے کی بنیادی آئینی دستاویز کو بننے ہی نہ دیا گیا۔
یہاں پر یہ سوال بہت اہم ہے کہ ریاست کے امور باضابطگی سے چلانے کی ان تمام تر کوششوں کو کیوں اور کن مقاصد کے تحت تہہ و بالا کیا گیایا کہ آئینی طور سے ملک کو چلانے میں وہ کونسی رکاوٹ تھی جو ریاستی امور میں باضابطگی لانے سے روک رہی تھی،حالات و حقائق کے مطالعے کی روشنی میں آئین کی دستاویز کو روکنے کی کوشش کے پیچھے آخر وہ کیا مقاصد یا نفسیات تھی جو ریاست کابنیادی دستاویز بنانے سے 'اشرافیہ' کو روک رہی تھی؟
یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ جنرل ایوب نے اقتدار پر جب قبضہ کیا تو سب سے پہلے ملک میں حقیقی جمہوریت لانے کی نظریاتی کمیونسٹ اور سوشلسٹ پارٹیوں کو کام کرنے نہیں دیا اور ملک میں جمہوری راج لانے میں عوام کو ان کے حقوق سے متعلق باشعور سیاسی و نظریاتی کمیونسٹ یا سوشلسٹ فکر کی جماعتوں پر 'ریاستی پابندی 'لگائی ،بلکہ عوام کے جمہوری حقوق کے لیے عوام کے مختلف طبقوں کومتحرک کرنے والی سیاسی طاقت ''کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان''پر ریاستی جبر کے تحت پابندی لگا کر کمیونسٹوں کو ملک دشمن اور غدار قرار دیا۔
یہی کچھ قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح اور وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کے ساتھ کیا گیا اور ان دو سیاسی قوتوں کو بھی ملک دشمن بنا کر پیش کیا،اسی وقت آمر جنرل ایوب نے امور مملکت پر گرفت کی ایک نئی ''ڈاکٹرائن'' کی بنیاد رکھی جس کے تحت جنرل ایوب نے بہت چابکدستی سے یہ بات راسخ کردی کہ وہی اس ملک کے سب کچھ ہیں۔
آمرجنرل ایوب کی ڈاکٹرائن کے اصول کے تحت جہاں جہاں عوامی راج یا سیاست میںجب کبھی سنجیدگی آنے لگی یا دکھائی دی تو وہیں طاقت کی بنیاد پر ملک کو غیر قانونی اور غیر آئینی مارشل لا میں بہت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دھکیلا گیا۔
تاریخی طور سے ہمارے ملک کی سیاست میں وقتی طور سے سرد جنگ اورعالمی دبائو کے نتیجے میں طاقتور اشرافیہ کو آمر جنرل ایوب کی ڈاکٹرائن کو نہ چاہتے ہوئے تبدیل کرنا پڑا جس میں اندرونی دبائو کے تحت بظاہرملک کے مشرقی حصے کی علیحدگی تھا ۔ جنرل یحییٰ نے پاکستان کے بچے کچھے حصے میں مجبورہوکر حکومت منتخب نمایندوں کے حوالے کی ،جس کی کمان مغربی پاکستان کی اکثریتی پارٹی پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے سنبھالی اور اپنے دور اقتدار کے پہلے دو سالوں میں ملک کو پہلی مرتبہ ایک متفقہ آئین دیا اور آئینی طور سے جمہوری نظام چلانے کی کوشش کی۔
آئین کے بعد جونہی بھٹو نے قوت پکڑنے کی کوشش کی تو بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک چلائی گئی اور یوں بھٹو کو اقتدار سے الگ کرکے ملک میں جنرل ضیا نے پھر غیر آئینی مارشل لا نافذ کیا اور مذہبی نعرے کی آڑ میں ملک پر غیر آئینی طور سے اقتدار پر قابض رہا، اسی دوران ملک کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو نہ صرف عدالتی پھانسی دلوائی گئی بلکہ سپریم کورٹ کے ذریعے اپنے غیر آئینی اقتدار کو تحفظ بھی دیا۔
جنرل ضیانے یہی نہیں بلکہ غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کے ذریعے آئین میں ترامیم کے ذریعے تمامتر اختیارات اپنے پاس رکھے اور ملک میں قوم پرستی،مذہبی انتہا پسندی اور برادری سسٹم کا زہر پورے سماج میں داخل کرکے قوم پرست اور تنگ نظر نظریات کے ذریعے سماج کے پورے جمہوری اور سماجی نظام کو تہہ و بلا کیا۔
اس پورے سیاسی اور سماجی منظر نامے میں آمر جنرل ایوب کی ڈاکٹرائن کو چلانے کے لیے جنرل یحییٰ اور جنرل ضیا نے پورے سیاسی و جمہوری ڈھانچہ اور ادارے مکمل طور سے من پسند تعیناتیوں کی وجہ سے تباہ و برباد کیے اور سیاسی محاذ پر جہادہ مذہبی تحریکوں سمیت قوم پرستی کی آڑ میں طالبان کو مضبوط کیا جس کی مدد کے لیے بنائے گئے سیاست دانوں کو کسی حد تک جمہوریت پسندوں کے خلاف لا کھڑا کیا، اور سماج کی سیاسی قدروں میں ان افراد کی مدد سے اپنے ''اشرافیائی اہداف''کی تکمیل کرکے سماج میں جمہوریت اور سیاست کو گالی بنا دیا گیا،ان ہی سیاستدانوں کی سوچ کے ذریعے سماج سے در گذر، شائستگی اور برداشت کے سیاسی کلچر کو دانستہ طور پر ختم کیا گیااورجنرل ایوب کی غیر جمہوری سماج بنانے کی ڈاکٹرائن کو زندہ رکھاگیا،سرد جنگ کے خاتمے اور افغان جنگ کے بعد ایک مرتبہ پھر عالمی سامراج کا کردار جب تبدیل ہوا توجنرل ضیا کے بنائے گئے سیاستدانوں نے ایسے سیاسی حالات بنائے اور روشن خیال دائیں بازو کی سوچ کے ساتھ سیاست کی۔