گلوکار مکیش شاعر آہ سیتا پوری اور ہدایتکار و اداکار مظہر خان
انڈین فلم انڈسٹری کے پہلے سنگر جو پلے بیک سنگر اور اداکارکے طور پر مشہور ہوئے وہ کے ایل سہگل تھے
انڈین فلم انڈسٹری کے پہلے سنگر جو پلے بیک سنگر اور اداکارکے طور پر مشہور ہوئے وہ کے ایل سہگل تھے، پھر گلوکار محمد رفیع اور مکیش۔ مکیش نے اپنا پہلا گیت فلم ''پہلی نظر'' میں گایا جس کے بول تھے:
دل جلتا ہے تو جلنے دے، آنسو نہ بہا فریاد نہ کر
تُو پردہ نشیں کا عاشق ہے، یوں نامِ وفا برباد نہ کر
یہ گیت فلم میں ہیرو موتی لال پر فلمایا گیا تھا اور منور سلطانہ کی بطور ہیروئن یہ پہلی فلم تھی۔ مکیش کے گائے ہوئے گیت کے شاعر آہ سیتاپوری تھے۔ آہ سیتا پوری کا پورا نام ڈاکٹر صفدر سیتا پوری تھا۔وہ اسٹیج کے لیے ڈرامے لکھا کرتے تھے۔ فلم پہلی نظر اس گیت کی وجہ ہی سے فلم بینوں کی پسند بن گئی تھی اور نئے گلوکار مکیش کے لیے فلمی دنیا میں ترقی کی راہیں کھل گئی تھیں۔ پھر اس فلم کے بعد آہ سیتا پوری کی بیش تر فلموں کے لیے گیت لکھنے کی آفرز ہونے لگی تھیں۔
انھوں نے پھر اسٹیج ڈراموں سے کنارہ کشی اختیارکرتے ہوئے بحیثیت فلمی شاعر فلم پہلی نظرکے بعد اس دور کے کامیاب فلم سازوہدایت کار محبوب خان کی طرف سے اپنی فلم روٹی کے لیے گیت لکھنے کی آفر کی۔ روٹی ایک سماجی پہلو کو اجاگر کرتی تھی۔ روٹی جو ہر انسان کی پہلی ضرورت ہے، روٹی اگر انسان کو میسر نہ آئے تو وہ اللہ سے بھی باغی ہوتا ہے۔ روٹی کے حصول کے لیے انسان اپنی عزت اور آبرو بھی بیچنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔
اس پروگریسیو فلم کے لیے آہ سیتاپوری سے اچھا شاعر اس وقت ہدایت کار محبوب خان کو کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ پھر آہ سیتاپوری نے فلم روٹی کے لیے ایک منفرد انداز کا بڑا جاندار گیت لکھا تھا۔ یہ فلم کا تھیم سانگ تھا جو چند بھوک میں مبتلا انسانوں پر فلمایا گیا جو اپنے نامساعد حالات کی وجہ سے ایک روٹی کے لیے ترستے رہتے تھے۔ بھوک سے ستائے ہوئے انسانوں کی ترجمانی کرتے ہوئے آہ سیتاپوری نے جو گیت لکھا تھا اس کے بول بھی بڑے کرب انگیز اور طنز میں ڈوبے ہوئے تھے:
ہمت تیری چھوٹی آ
بھوکے گگن کے تارے کھا
یہ گیت ایک کورس کی صورت میں فلمایا گیا تھا۔ گیت میں بے حس معاشرے اور ظالم سماج کو ایک آئینہ دکھایا گیا تھا۔ محبوب خان کی فلم روٹی نے بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔ پھر محبوب نے بعد میں مدر انڈیا جیسی زبردست فلم بھی بنا کر بین الاقوامی شہرت حاصل کی تھی۔ فلم روٹی کے بعد صفدر آہ سیتاپوری نے بہت سی فلموں کے لیے گیت لکھے تھے اور ان تمام گیتوں کو اپنے دور میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔
آہ صفدر سیتاپوری نے فلمی گیتوں سے بڑا پیسہ کمایا پھر ان کو فلم سازی کا بھی خیال آیا اور انھوں نے اپنی پہلی فلم '' بھوک'' کے نام سے بنائی تھی جس کی کہانی، مکالمہ اورگیت بھی ان کے لکھے ہوئے تھے۔
یہ جیساکہ نام سے ظاہر ہے ایک کمرشل انداز کی فلم نہیں تھی بس یہی ان کی غلطی تھی کہ وہ بھی سماجی موضوع پر ہدایت کار محبوب خان کی طرح کامیابی حاصل کریں گے مگر فلم کی ہدایت کاری میں بڑے جھول تھے، اسکرین پلے بھی کمزور تھا، کہانی ضرور اچھی تھی مگر فلم جب ریلیز ہوئی تو تجارتی کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی تھی اور پہلے ہی ہفتے میں فلاپ ہوگئی تھی۔ فلم کو اس دورکے فلمی ناقدوں نے ایک معیاری فلم ضرور قرار دیا تھا مگر جو پیسہ صفدر آہ سیتاپوری اس فلم میں لگا چکے تھے وہ کسی صورت میں واپس نہ آ سکا تھا اور پھر ان کی فلم بھوک پہلی اور آخری فلم ثابت ہوئی تھی۔
یہاں میں ایک اور بات بتاتا چلوں جب گلوکار مکیش کا دیہانت (انتقال) ہو گیا تھا تو یہ خبر فلم ساز، ہدایت کار و اداکار راج کپور پر بجلی بن کر گری تھی اس نے چند دنوں کے لیے اپنی ساری فلمی مصروفیات ترک کردی تھیں اور مکیش کی موت پر ایک بیان دیتے ہوئے کہا تھا، مکیش دنیا سے کیا گیا میری آواز بھی ساتھ لے گیا۔ وہ چلا گیا تو میری آواز بھی چلی گئی۔
انڈیا کی نام ور اور لیجنڈ گلوکارہ لتا منگیشکر نے گلوکار مکیش کی موت کے بعد اس کا فلم پہلی نظر کا پہلا گیت اپنی آواز میں ریکارڈ کرا کر گلوکار مکیش کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔ شاعر صفدر آہ سیتاپوری نے یوں تو بے شمار گیت لکھے تھے مگر مکیش کی آواز میں ریکارڈ پہلا گیت آہ سیتاپوری کی زندگی کا سرمایہ تھا۔ وہ ایک ایسا گیت تھا جو دوسرے شاعروں کے لکھے ہوئے بے شمار گیتوں پر بھاری تھا۔
ہیرو مظہر خان فلمی دنیا میں آنے سے پہلے پولیس کے محکمے میں ملازم تھا۔ وہ 18 اکتوبر 1905 کو انڈیا کے شہر بریلی میں پیدا ہوا تھا۔ مظہر خان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ قانون کی ڈگری حاصل کرے۔ وہ پولیس کے محکمے میں گھوڑوں کو بھی ٹریننگ دیتا تھا۔ اسے فلمیں دیکھنے کا بھی بڑا شوق تھا اور پھر یہی شوق اس کو فلمی دنیا میں لے کر آیا تھا۔
وہ ایک کڑیل جوان تھا، اس میں ایک ہیرو بننے کی تمام صلاحیتیں موجود تھی۔ اس کو پہلی بار بہ طور اداکار ہدایت کار بھگواتی پرشاد مشرا نے اپنی فلم Haiyan No Hear میں پیش کیا تھا، جس میں اس کا کردار ایک شہزادے کا تھا۔ پھر جن چند فلموں میں کام کر کے شہرت حاصل کی ان فلموں کے نام تھے درگیش نندنی، حورِ بغداد، وصل کی رات، بے دھاری تلوار، رام رحیم اور ہمارا ہندوستان قابل ذکر تھیں۔ یہ تمام فلمیں 1926 سے لے کر 1931 کے دوران ریلیز ہوئی تھیں۔
1930 میں اس نے یکے بعد دیگرے ساگر فلمی کمپنی کی چھ فلموں میں کام کیا تھا جن میں فلم ماڈرن گرل کو بڑی شہرت ملی تھی۔ جب یہ فلم سازی کے میدان میں آیا تو اس نے پہلی فلم بنائی اس کا نام تھا ''بڑی بات'' جو 1944 میں ریلیز ہوئی، پھر 1945 میں پہلی نظر پروڈیوس کی تھی جس نے سارے ہندوستان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے اور پھر اداکارہ منور سلطانہ کامیاب ہیروئن کی صورت میں منظر عام پر آئی تھی۔
دل جلتا ہے تو جلنے دے، آنسو نہ بہا فریاد نہ کر
تُو پردہ نشیں کا عاشق ہے، یوں نامِ وفا برباد نہ کر
یہ گیت فلم میں ہیرو موتی لال پر فلمایا گیا تھا اور منور سلطانہ کی بطور ہیروئن یہ پہلی فلم تھی۔ مکیش کے گائے ہوئے گیت کے شاعر آہ سیتاپوری تھے۔ آہ سیتا پوری کا پورا نام ڈاکٹر صفدر سیتا پوری تھا۔وہ اسٹیج کے لیے ڈرامے لکھا کرتے تھے۔ فلم پہلی نظر اس گیت کی وجہ ہی سے فلم بینوں کی پسند بن گئی تھی اور نئے گلوکار مکیش کے لیے فلمی دنیا میں ترقی کی راہیں کھل گئی تھیں۔ پھر اس فلم کے بعد آہ سیتا پوری کی بیش تر فلموں کے لیے گیت لکھنے کی آفرز ہونے لگی تھیں۔
انھوں نے پھر اسٹیج ڈراموں سے کنارہ کشی اختیارکرتے ہوئے بحیثیت فلمی شاعر فلم پہلی نظرکے بعد اس دور کے کامیاب فلم سازوہدایت کار محبوب خان کی طرف سے اپنی فلم روٹی کے لیے گیت لکھنے کی آفر کی۔ روٹی ایک سماجی پہلو کو اجاگر کرتی تھی۔ روٹی جو ہر انسان کی پہلی ضرورت ہے، روٹی اگر انسان کو میسر نہ آئے تو وہ اللہ سے بھی باغی ہوتا ہے۔ روٹی کے حصول کے لیے انسان اپنی عزت اور آبرو بھی بیچنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔
اس پروگریسیو فلم کے لیے آہ سیتاپوری سے اچھا شاعر اس وقت ہدایت کار محبوب خان کو کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ پھر آہ سیتاپوری نے فلم روٹی کے لیے ایک منفرد انداز کا بڑا جاندار گیت لکھا تھا۔ یہ فلم کا تھیم سانگ تھا جو چند بھوک میں مبتلا انسانوں پر فلمایا گیا جو اپنے نامساعد حالات کی وجہ سے ایک روٹی کے لیے ترستے رہتے تھے۔ بھوک سے ستائے ہوئے انسانوں کی ترجمانی کرتے ہوئے آہ سیتاپوری نے جو گیت لکھا تھا اس کے بول بھی بڑے کرب انگیز اور طنز میں ڈوبے ہوئے تھے:
ہمت تیری چھوٹی آ
بھوکے گگن کے تارے کھا
یہ گیت ایک کورس کی صورت میں فلمایا گیا تھا۔ گیت میں بے حس معاشرے اور ظالم سماج کو ایک آئینہ دکھایا گیا تھا۔ محبوب خان کی فلم روٹی نے بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔ پھر محبوب نے بعد میں مدر انڈیا جیسی زبردست فلم بھی بنا کر بین الاقوامی شہرت حاصل کی تھی۔ فلم روٹی کے بعد صفدر آہ سیتاپوری نے بہت سی فلموں کے لیے گیت لکھے تھے اور ان تمام گیتوں کو اپنے دور میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔
آہ صفدر سیتاپوری نے فلمی گیتوں سے بڑا پیسہ کمایا پھر ان کو فلم سازی کا بھی خیال آیا اور انھوں نے اپنی پہلی فلم '' بھوک'' کے نام سے بنائی تھی جس کی کہانی، مکالمہ اورگیت بھی ان کے لکھے ہوئے تھے۔
یہ جیساکہ نام سے ظاہر ہے ایک کمرشل انداز کی فلم نہیں تھی بس یہی ان کی غلطی تھی کہ وہ بھی سماجی موضوع پر ہدایت کار محبوب خان کی طرح کامیابی حاصل کریں گے مگر فلم کی ہدایت کاری میں بڑے جھول تھے، اسکرین پلے بھی کمزور تھا، کہانی ضرور اچھی تھی مگر فلم جب ریلیز ہوئی تو تجارتی کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی تھی اور پہلے ہی ہفتے میں فلاپ ہوگئی تھی۔ فلم کو اس دورکے فلمی ناقدوں نے ایک معیاری فلم ضرور قرار دیا تھا مگر جو پیسہ صفدر آہ سیتاپوری اس فلم میں لگا چکے تھے وہ کسی صورت میں واپس نہ آ سکا تھا اور پھر ان کی فلم بھوک پہلی اور آخری فلم ثابت ہوئی تھی۔
یہاں میں ایک اور بات بتاتا چلوں جب گلوکار مکیش کا دیہانت (انتقال) ہو گیا تھا تو یہ خبر فلم ساز، ہدایت کار و اداکار راج کپور پر بجلی بن کر گری تھی اس نے چند دنوں کے لیے اپنی ساری فلمی مصروفیات ترک کردی تھیں اور مکیش کی موت پر ایک بیان دیتے ہوئے کہا تھا، مکیش دنیا سے کیا گیا میری آواز بھی ساتھ لے گیا۔ وہ چلا گیا تو میری آواز بھی چلی گئی۔
انڈیا کی نام ور اور لیجنڈ گلوکارہ لتا منگیشکر نے گلوکار مکیش کی موت کے بعد اس کا فلم پہلی نظر کا پہلا گیت اپنی آواز میں ریکارڈ کرا کر گلوکار مکیش کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔ شاعر صفدر آہ سیتاپوری نے یوں تو بے شمار گیت لکھے تھے مگر مکیش کی آواز میں ریکارڈ پہلا گیت آہ سیتاپوری کی زندگی کا سرمایہ تھا۔ وہ ایک ایسا گیت تھا جو دوسرے شاعروں کے لکھے ہوئے بے شمار گیتوں پر بھاری تھا۔
ہیرو مظہر خان فلمی دنیا میں آنے سے پہلے پولیس کے محکمے میں ملازم تھا۔ وہ 18 اکتوبر 1905 کو انڈیا کے شہر بریلی میں پیدا ہوا تھا۔ مظہر خان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ قانون کی ڈگری حاصل کرے۔ وہ پولیس کے محکمے میں گھوڑوں کو بھی ٹریننگ دیتا تھا۔ اسے فلمیں دیکھنے کا بھی بڑا شوق تھا اور پھر یہی شوق اس کو فلمی دنیا میں لے کر آیا تھا۔
وہ ایک کڑیل جوان تھا، اس میں ایک ہیرو بننے کی تمام صلاحیتیں موجود تھی۔ اس کو پہلی بار بہ طور اداکار ہدایت کار بھگواتی پرشاد مشرا نے اپنی فلم Haiyan No Hear میں پیش کیا تھا، جس میں اس کا کردار ایک شہزادے کا تھا۔ پھر جن چند فلموں میں کام کر کے شہرت حاصل کی ان فلموں کے نام تھے درگیش نندنی، حورِ بغداد، وصل کی رات، بے دھاری تلوار، رام رحیم اور ہمارا ہندوستان قابل ذکر تھیں۔ یہ تمام فلمیں 1926 سے لے کر 1931 کے دوران ریلیز ہوئی تھیں۔
1930 میں اس نے یکے بعد دیگرے ساگر فلمی کمپنی کی چھ فلموں میں کام کیا تھا جن میں فلم ماڈرن گرل کو بڑی شہرت ملی تھی۔ جب یہ فلم سازی کے میدان میں آیا تو اس نے پہلی فلم بنائی اس کا نام تھا ''بڑی بات'' جو 1944 میں ریلیز ہوئی، پھر 1945 میں پہلی نظر پروڈیوس کی تھی جس نے سارے ہندوستان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے اور پھر اداکارہ منور سلطانہ کامیاب ہیروئن کی صورت میں منظر عام پر آئی تھی۔