نئے چیلنجز
دراصل اس ملک میں عوام کا ارتقاء فطری طور پر نہیں ہوا ہے۔ ملک بننے کے بعد ان کو ایک مخصوص بیانیہ دے دیا گیا
پاکستان کی سیاست سوالات کا مجموعہ ہے۔ عدلیہ، اسٹبلشمنٹ اور سیاست دان ارتقاء کے اس موڑ پر کھڑے ہیں جب اس ملک کا نظام بیٹھ چکا ہے۔
یہ ادارے اس ریاست کے مستند اور مضبوط ادارے ہیں لیکن ان اداروں کے اندر ایسے لوگ بھی بیٹھے ہیں جو ذہنی طور پر خودغرض اور مفاد پرست ہیں۔ ان اداروں کے اندر جو ذمے دار اور سنجیدہ لوگ ہیں، ان کی سوچ کے اثرات، ان اداروں کی مجموعی سوچ اور کارکردگی پر اب واضح اثرات چھوڑ رہی ہے۔
ان مثبت اثرات کو زائل کرنے کے لیے بہت سے لوگ سرگرم ہیں کہ کسی طرح ادارے اپنے ہدف تک نہ پہنچ سکیں۔ اس ہنگامی صورتحال میں جہاں پاکستان اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے، وہاں انتخابات کا ہونا بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ انتخابات وقت پر ہوتے ہیں یا نہیں؟ یہ بھی ایک بہت بڑا سوال ہے۔
ہماری پوری معیشت بلیک اکانومی بن گئی ہے۔ افغان ٹریڈکے زیرِ اثر درآمدات ہوتی رہیں، جو ڈیوٹی اور ٹیکسز اس ملک نے کمائے وہ الگ مگر جو ڈالرکمائے وہ بھی ان لگژری چیزوں کی درآمد سے گنوانے پڑے۔
ایران سے تیل اسمگل ہوتا ہے، افغانستان سے منشیات اور اسلحہ، اغواء برائے تاوان، دہشت گردی، انسانی اسمگلنگ، انسانی اعضاء کی اسمگلنگ، سرکاری زمینوں پر قبضے،گیس اور بجلی کے کنکشنز پرکنڈے لگانا، سرکاری ٹھیکوں اور تبادلوں پرکمیشن، ترقیاتی بجٹ میں غبن، غرض کہ بری حکمرانی کو لوگوں کے شعور پر مسلط کرنا تاکہ ان کے کاروبارکامیابی سے چلتے رہیں، یہ تھیں، وہ معاشی سرگرمیاں ) (Activityجن پر ہماری سیاست چلتی تھی۔
بنیادی طور پر اس پس منظر کے پیچھے تھی، ہماری افغان پالیسی! وہ ہی افغان پالیسی جس کی بنیاد پر ہمیں امریکا سے امداد ملتی تھی اور جس کی وجہ سے ہمیں ایک مخصوص بیانیہ دیا گیا جو ہماری داخلی اور خارجی پالیسی کا ستون بنا اور ہم ٹھہرے ایک نظریاتی ریاست۔ یہ سوچ وفہم اور بیانیہ جس تیزی سے ٹوٹ رہا ہے، خدشہ ہے کہ کہیں وہ حالات نہ پیدا ہوجائیں جو گوربا چوف کے زمانے میں سوویت یونین میں پیدا ہوگئے تھے۔
سوویت یونین میں کمیونسٹ پارٹی کی پالیسیوں نے پورے ملک کی معیشت میں جمود طاری کردیا تھا۔ ایک بہت بڑے بحران کی صورتحال میں سوویت یونین گوربا چوف کے حوالے کیا گیا تھا۔ گوربا چوف نے سوویت یونین کی ساخت کو بحال کرنے کے لیے بہت مضبوط اقدامات کیے لیکن چونکہ بہت دیر ہوچکی تھی اور ملک میں ہنگامی صورتحال تھی تو کچھ غلط فیصلے بھی کیے گئے۔
گوربا چوف کے خلاف فوجی انقلاب بھی لا یا گیا جو ناکام ہوا۔ یہ خدشات، پاکستان میں تبھی جڑیں پکڑسکتے ہیں جب یہ ملک ڈیفالٹ کرجائے۔ اب یہ ملک ڈیفالٹ کرے گا یا نہیں؟ یہ ایک الگ موضوع ہے۔
ہاں! مگر اس نگراں حکومت کے ذریعے بڑے نڈر اقدامات کا آغازہوچکا ہے۔ ہماری معیشت میں موجود بلیک اکانومی کو تیزی سے بند کیا جا رہا ہے۔ جرائم میں ملوث وہ لوگ جن کی جڑیں افغانستان میں ہیں، ان کے خلاف گرینڈ آپریشن شروع ہوچکا ہے۔ نگراں حکومت کے وزیرِخزانہ ، اسحاق ڈار سے زیادہ مثبت نکات پیش کر رہے ہیں۔
بات نگراں حکومت کی بھی نہیں چاہے وہ نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ ہوں یا پھرکوئی وزیر لیکن اس وقت غیرروایتی اقدامات کی ضرورت ہے اور وہ کیے بھی جارہے ہیں۔ اس وقت افراط ِزر پر قابو پانا ناممکن ہے ، مگر جب سے ڈالرکی اسمگلنگ کوکنٹرول کیا گیا ہے، ہنڈی کے کاروبار میں مندی آگئی ہے۔ ڈالر اور روپے کی قدرمیں توازن میں پیدا ہو رہا ہے۔
ذخیرہ اندوزی کے خلاف آپریشن شروع ہوچکا ہے جس کی وجہ سے اشیاء کی قیمتوں میں استحکام آرہا ہے اور امید نظر آرہی ہے کہ افراطِ زر پرکسی حد تک قابو پایا جا سکے گا۔
شہباز شریف کی حکومت میں کریک ڈاؤن کی کارروائیاں کرنا اس لیے ممکن نہ تھیں کہ اس وقت عمران خان نے ملک میں ایک ہنگامی صورتحال برپا کردی تھی اور اب یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ ملک میں افراتفری کے ذمے دار کون لوگ تھے، جیسے ہی یہ لوگ ریٹائرڈ ہوئے، نئی سوچ ابھری اور دوسری طرف جن جج صاحبان کو ہمیشہ دیوار سے لگایا گیا اورکبھی فل کورٹ نہیں بیٹھا، وہ اب ممکن ہوا۔ اب وہ تمام فیصلے جو میرٹ پر نہیں کیے گئے، اپنے منطقی انجام کو پہنچیں گے۔
چند لوگوں کا احتساب ہونا اب لازمی ہے اور ہونا چاہیے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر یہ ملک صحیح ڈگر پر چل نہیں پائے گا، احتساب کا عمل قوم کے اعتماد کو بحال کرے گا، اگر احتساب نہ کیا گیا تو پھر ماحول میں بے اعتمادی اور ڈپریشن بڑھے گا جو ایسے بحران کو جنم دے سکتا ہے جس کا خاتمہ صرف اس ملک کے خاتمے کے ساتھ ہی ہوگا۔
ان تباہیوں کے دہانے ہم اس لیے پہنچے ہیں کہ کسی کااحتساب تو فوری طور پر کیا جاتا ہے مگر لاڈلوں کا احتساب نہیں کیا جاتا۔ ہمارے سپریم کورٹ کے جج صاحبان جن کو عمر عطا بندیال کے دور میں سائیڈ لائن کر دیا گیا تھا وہ اپنی پوزیشن بحال کرچکے ہیں۔ اب ہمیں تاریخ ساز فیصلے سننے کو ملیں گے۔
اس وقت جو مبہم معاملہ ہے وہ ہے انتخابات کا، ان کا وقت مقررہ پر ہونا، نواز شریف کا پاکستان واپس آنا اور ملک کی باگ ڈور منتخب حکومت کے سپرد کرنا۔ ان سوالوں پر مکمل نہ سہی مگرکچھ ابہام پائے جاتے ہیں۔ اب جو پالیسیز بنائی گئی ہیں، ان پالیسیزکے بنانے میں سیاسی لوگوں کی رائے ضرور شامل کی گئی ہوگی اور منتخب حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد ان پالیسیز میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ہاں! مگر جو ان پالیسیز کا ہدف ہیں، وہ اپنا ردَ عمل دیتے آئیں گے۔
عمران خان کا حکومت میں آنا اور پھر جانا اس کے پیچھے کیا حکمتِ عملی تھی یا اس کے پیچھے حقیقت کیا تھی ؟ اس راز سے بھی پردہ جلد ہی اٹھایا جائے گا کہ کس مصنوعی انداز میں ان کو حکومت میں لایا گیا،کس طرح ایک مخصوص بیانیہ مرتب کیا گیا اورکس طرح سے یہاں مقامی لو گوں کو دیوار سے لگایا گیا۔اس ملک و قوم کی بقاء کے لیے صرف جمہوریت ہی واحد حل ہے۔
اگر اس ملک میں پچھلے 76 سالوں میں جمہوریت اپنے فطری انداز میں ارتقاء کی منازل طے کرتی، پھلتی پھولتی توآج یہاں جمہوریت پر ڈاکا مارنا اتنا آسان نہ ہوتا۔ آج ہمارے سیاستدان جو ملک میں جمہوریت کے حامی ہیں وہ بھی فطری انداز میں سیاسی میدان میں نہیں اترے تھے، کہیں نہ کہیں انھوں نے بھی ان اقدارکو نقصان پہنچایا ہے، ہاں، مگر اب انھوں نے اپنی جڑیں عوام میں مضبوط کر لی ہیں۔
دراصل اس ملک میں عوام کا ارتقاء فطری طور پر نہیں ہوا ہے۔ ملک بننے کے بعد ان کو ایک مخصوص بیانیہ دے دیا گیا، مسخ شدہ تاریخ دے دی گئی۔ اسی لیے اس ملک کی عوام حقائق سے بہت دور ہے۔ آمریت نے ہمارے اداروں اور ہماری اعلیٰ عدالتوں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، وہ بھی فطری ارتقاء نہیں کرسکے۔آئین کے اندر آرٹیکل 58(2)(b) اور آرٹیکل 2A شامل کیے گئے۔ آرٹیکل184(3) کے تناظر میں سوموٹو لے کر اپنے مقاصد حاصل کیے گئے، وہ کام کیے گئے جوآمرحکمران بھی کرسکے ۔
یہ تمام سوالات جو آپس میں جڑے ہوئے بھی ہیں اور الگ الگ بھی، یقینا اپنے مرکز کی طرف رجوع کر رہے ہیں، ہمارا مرکز آئین ہے۔ اسٹبلشمنٹ کا آئین میں کوئی ذکر نہیں۔ ہاں مگر ریاست میں اسٹیلبشمنٹ ڈیفیکٹو پوزیشن رکھتی ہے اور اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے آرڈر میں اس سوچ کو اجاگرکیا جائے کہ وہ آہستہ آہستہ سیاست سے جدا ہوجائیں۔
یہ ادارے اس ریاست کے مستند اور مضبوط ادارے ہیں لیکن ان اداروں کے اندر ایسے لوگ بھی بیٹھے ہیں جو ذہنی طور پر خودغرض اور مفاد پرست ہیں۔ ان اداروں کے اندر جو ذمے دار اور سنجیدہ لوگ ہیں، ان کی سوچ کے اثرات، ان اداروں کی مجموعی سوچ اور کارکردگی پر اب واضح اثرات چھوڑ رہی ہے۔
ان مثبت اثرات کو زائل کرنے کے لیے بہت سے لوگ سرگرم ہیں کہ کسی طرح ادارے اپنے ہدف تک نہ پہنچ سکیں۔ اس ہنگامی صورتحال میں جہاں پاکستان اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے، وہاں انتخابات کا ہونا بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ انتخابات وقت پر ہوتے ہیں یا نہیں؟ یہ بھی ایک بہت بڑا سوال ہے۔
ہماری پوری معیشت بلیک اکانومی بن گئی ہے۔ افغان ٹریڈکے زیرِ اثر درآمدات ہوتی رہیں، جو ڈیوٹی اور ٹیکسز اس ملک نے کمائے وہ الگ مگر جو ڈالرکمائے وہ بھی ان لگژری چیزوں کی درآمد سے گنوانے پڑے۔
ایران سے تیل اسمگل ہوتا ہے، افغانستان سے منشیات اور اسلحہ، اغواء برائے تاوان، دہشت گردی، انسانی اسمگلنگ، انسانی اعضاء کی اسمگلنگ، سرکاری زمینوں پر قبضے،گیس اور بجلی کے کنکشنز پرکنڈے لگانا، سرکاری ٹھیکوں اور تبادلوں پرکمیشن، ترقیاتی بجٹ میں غبن، غرض کہ بری حکمرانی کو لوگوں کے شعور پر مسلط کرنا تاکہ ان کے کاروبارکامیابی سے چلتے رہیں، یہ تھیں، وہ معاشی سرگرمیاں ) (Activityجن پر ہماری سیاست چلتی تھی۔
بنیادی طور پر اس پس منظر کے پیچھے تھی، ہماری افغان پالیسی! وہ ہی افغان پالیسی جس کی بنیاد پر ہمیں امریکا سے امداد ملتی تھی اور جس کی وجہ سے ہمیں ایک مخصوص بیانیہ دیا گیا جو ہماری داخلی اور خارجی پالیسی کا ستون بنا اور ہم ٹھہرے ایک نظریاتی ریاست۔ یہ سوچ وفہم اور بیانیہ جس تیزی سے ٹوٹ رہا ہے، خدشہ ہے کہ کہیں وہ حالات نہ پیدا ہوجائیں جو گوربا چوف کے زمانے میں سوویت یونین میں پیدا ہوگئے تھے۔
سوویت یونین میں کمیونسٹ پارٹی کی پالیسیوں نے پورے ملک کی معیشت میں جمود طاری کردیا تھا۔ ایک بہت بڑے بحران کی صورتحال میں سوویت یونین گوربا چوف کے حوالے کیا گیا تھا۔ گوربا چوف نے سوویت یونین کی ساخت کو بحال کرنے کے لیے بہت مضبوط اقدامات کیے لیکن چونکہ بہت دیر ہوچکی تھی اور ملک میں ہنگامی صورتحال تھی تو کچھ غلط فیصلے بھی کیے گئے۔
گوربا چوف کے خلاف فوجی انقلاب بھی لا یا گیا جو ناکام ہوا۔ یہ خدشات، پاکستان میں تبھی جڑیں پکڑسکتے ہیں جب یہ ملک ڈیفالٹ کرجائے۔ اب یہ ملک ڈیفالٹ کرے گا یا نہیں؟ یہ ایک الگ موضوع ہے۔
ہاں! مگر اس نگراں حکومت کے ذریعے بڑے نڈر اقدامات کا آغازہوچکا ہے۔ ہماری معیشت میں موجود بلیک اکانومی کو تیزی سے بند کیا جا رہا ہے۔ جرائم میں ملوث وہ لوگ جن کی جڑیں افغانستان میں ہیں، ان کے خلاف گرینڈ آپریشن شروع ہوچکا ہے۔ نگراں حکومت کے وزیرِخزانہ ، اسحاق ڈار سے زیادہ مثبت نکات پیش کر رہے ہیں۔
بات نگراں حکومت کی بھی نہیں چاہے وہ نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ ہوں یا پھرکوئی وزیر لیکن اس وقت غیرروایتی اقدامات کی ضرورت ہے اور وہ کیے بھی جارہے ہیں۔ اس وقت افراط ِزر پر قابو پانا ناممکن ہے ، مگر جب سے ڈالرکی اسمگلنگ کوکنٹرول کیا گیا ہے، ہنڈی کے کاروبار میں مندی آگئی ہے۔ ڈالر اور روپے کی قدرمیں توازن میں پیدا ہو رہا ہے۔
ذخیرہ اندوزی کے خلاف آپریشن شروع ہوچکا ہے جس کی وجہ سے اشیاء کی قیمتوں میں استحکام آرہا ہے اور امید نظر آرہی ہے کہ افراطِ زر پرکسی حد تک قابو پایا جا سکے گا۔
شہباز شریف کی حکومت میں کریک ڈاؤن کی کارروائیاں کرنا اس لیے ممکن نہ تھیں کہ اس وقت عمران خان نے ملک میں ایک ہنگامی صورتحال برپا کردی تھی اور اب یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ ملک میں افراتفری کے ذمے دار کون لوگ تھے، جیسے ہی یہ لوگ ریٹائرڈ ہوئے، نئی سوچ ابھری اور دوسری طرف جن جج صاحبان کو ہمیشہ دیوار سے لگایا گیا اورکبھی فل کورٹ نہیں بیٹھا، وہ اب ممکن ہوا۔ اب وہ تمام فیصلے جو میرٹ پر نہیں کیے گئے، اپنے منطقی انجام کو پہنچیں گے۔
چند لوگوں کا احتساب ہونا اب لازمی ہے اور ہونا چاہیے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر یہ ملک صحیح ڈگر پر چل نہیں پائے گا، احتساب کا عمل قوم کے اعتماد کو بحال کرے گا، اگر احتساب نہ کیا گیا تو پھر ماحول میں بے اعتمادی اور ڈپریشن بڑھے گا جو ایسے بحران کو جنم دے سکتا ہے جس کا خاتمہ صرف اس ملک کے خاتمے کے ساتھ ہی ہوگا۔
ان تباہیوں کے دہانے ہم اس لیے پہنچے ہیں کہ کسی کااحتساب تو فوری طور پر کیا جاتا ہے مگر لاڈلوں کا احتساب نہیں کیا جاتا۔ ہمارے سپریم کورٹ کے جج صاحبان جن کو عمر عطا بندیال کے دور میں سائیڈ لائن کر دیا گیا تھا وہ اپنی پوزیشن بحال کرچکے ہیں۔ اب ہمیں تاریخ ساز فیصلے سننے کو ملیں گے۔
اس وقت جو مبہم معاملہ ہے وہ ہے انتخابات کا، ان کا وقت مقررہ پر ہونا، نواز شریف کا پاکستان واپس آنا اور ملک کی باگ ڈور منتخب حکومت کے سپرد کرنا۔ ان سوالوں پر مکمل نہ سہی مگرکچھ ابہام پائے جاتے ہیں۔ اب جو پالیسیز بنائی گئی ہیں، ان پالیسیزکے بنانے میں سیاسی لوگوں کی رائے ضرور شامل کی گئی ہوگی اور منتخب حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد ان پالیسیز میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ہاں! مگر جو ان پالیسیز کا ہدف ہیں، وہ اپنا ردَ عمل دیتے آئیں گے۔
عمران خان کا حکومت میں آنا اور پھر جانا اس کے پیچھے کیا حکمتِ عملی تھی یا اس کے پیچھے حقیقت کیا تھی ؟ اس راز سے بھی پردہ جلد ہی اٹھایا جائے گا کہ کس مصنوعی انداز میں ان کو حکومت میں لایا گیا،کس طرح ایک مخصوص بیانیہ مرتب کیا گیا اورکس طرح سے یہاں مقامی لو گوں کو دیوار سے لگایا گیا۔اس ملک و قوم کی بقاء کے لیے صرف جمہوریت ہی واحد حل ہے۔
اگر اس ملک میں پچھلے 76 سالوں میں جمہوریت اپنے فطری انداز میں ارتقاء کی منازل طے کرتی، پھلتی پھولتی توآج یہاں جمہوریت پر ڈاکا مارنا اتنا آسان نہ ہوتا۔ آج ہمارے سیاستدان جو ملک میں جمہوریت کے حامی ہیں وہ بھی فطری انداز میں سیاسی میدان میں نہیں اترے تھے، کہیں نہ کہیں انھوں نے بھی ان اقدارکو نقصان پہنچایا ہے، ہاں، مگر اب انھوں نے اپنی جڑیں عوام میں مضبوط کر لی ہیں۔
دراصل اس ملک میں عوام کا ارتقاء فطری طور پر نہیں ہوا ہے۔ ملک بننے کے بعد ان کو ایک مخصوص بیانیہ دے دیا گیا، مسخ شدہ تاریخ دے دی گئی۔ اسی لیے اس ملک کی عوام حقائق سے بہت دور ہے۔ آمریت نے ہمارے اداروں اور ہماری اعلیٰ عدالتوں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، وہ بھی فطری ارتقاء نہیں کرسکے۔آئین کے اندر آرٹیکل 58(2)(b) اور آرٹیکل 2A شامل کیے گئے۔ آرٹیکل184(3) کے تناظر میں سوموٹو لے کر اپنے مقاصد حاصل کیے گئے، وہ کام کیے گئے جوآمرحکمران بھی کرسکے ۔
یہ تمام سوالات جو آپس میں جڑے ہوئے بھی ہیں اور الگ الگ بھی، یقینا اپنے مرکز کی طرف رجوع کر رہے ہیں، ہمارا مرکز آئین ہے۔ اسٹبلشمنٹ کا آئین میں کوئی ذکر نہیں۔ ہاں مگر ریاست میں اسٹیلبشمنٹ ڈیفیکٹو پوزیشن رکھتی ہے اور اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے آرڈر میں اس سوچ کو اجاگرکیا جائے کہ وہ آہستہ آہستہ سیاست سے جدا ہوجائیں۔