حجرے پختونوں کی عوامی اسمبلیاں بھی ویران ہوتی جارہی ہیں

معاشرتی اور تہذیبی زندگی کی دیگر چیزوں اور اقدارکا حلیہ بگاڑکر رکھ دیا ہے


Rokhan Yousufzai October 08, 2023
معاشرتی اور تہذیبی زندگی کی دیگر چیزوں اور اقدارکا حلیہ بگاڑکر رکھ دیا ہے ۔ فوٹو : فائل

اپنا تو بچپن اور لڑکپن جس معاشرتی ماحول میں گزرا اس دور میں حجرہ کلچر عام تھا۔ رات گئے تک حجرہ میں اپنے بزرگوں سے سبق آموز باتیں سنا کرتے تھے۔

ان کی زندگی، تجربات اور دیگر سماجی اور سیاسی معاملات پر ان کے تجزیے اور دانش سے بھری ہوئی گفتگو سے مستفید ہوتے رہے، بڑوں کا ادب کیا ہوتا ہے ،کسی مجلس میں بات کیسی کی جاتی ہے، روایات، اخلاق اور اقدار کس شے کا نام ہے اور سب سے بڑھ کر ''پختون ولی'' (جسے پختونوں کا ضابطہ حیات کہا جاتا ہے)کیا ہے؟ یہ علم اور اسباق ہماری عمر کے لوگوں نے اپنے اپنے حجرے میں بیٹھ کر ہی حاصل کیے ہیں، مطلب کہ حجرہ اس زمانے میں پختون ولی کا پہلا مدرسہ ہوا کرتا تھا مگر جیسا کہ رفتہ رفتہ حجرہ کلچر ختم ہوتا جا رہا ہے اس طرح '' پختون ولی'' بھی متاثر ہوتی جا رہی ہے ۔

کیونکہ روایت اور جدت کے معاملے میں ہم نے بیک وقت دو رواں کشتیوں پر پاؤں رکھے ہوئے ہیں جس کانتیجہ ظاہر ہے کہ کشتی سے گرکر دریا میں ڈوبنا ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی ترقی نے یقینًا ہمیں کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا ہے ، ہمیں کتنی آسانیاں اور سہولتیں فراہم کی ہیں اور ہم دن رات سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعریف ، اہمیت اور افادیت کے بارے میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے نہیں تھکتے ۔ لیکن کچھ دیرکے لیے اگر ہم غیرجانب داری سے اپنے گریبانوں میں جھانکیں اپنے احساسات اور جذبات کی جانب اپنے کان دھریں تو اندرکی دنیا میں یعنی روحانی طور پر اپنی اقدار و روایات اور ثقافت کے حوالے سے ہم ایک عجیب خوف ناک قسم کا خلا محسوس کرتے ہیں ۔

زندگی میں ہر قسم کی آرائش و زیبائش کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی سہولتوں اور آسانیوں کے باوجود پھر بھی اجتماعی و معاشرتی اور ثقافتی لحاظ سے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں کہ

'' جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی'' ؟

اور وہ چیز ہماری روایات واقدار اور روحانی زندگی کی رگ رگ میں وہ روح اور اطمینان ہے جو آج کے اس مشینی اور بڑھتے ہوئے اجارہ دار سرمایہ دارانہ و استحصالی نظام، عالمگیریت اور صارفیت کے عہد نے ہم سے زبردستی چھینا ہے اور جہاں سرمایہ پرستی کی تیز دھار نے آج ہمارے درمیان سماجی ، خاندانی اور قبائلی رشتوں کاگلاکاٹ رکھا ہے اور تمام تعلقات اور رشتے سر کے بغیر ایک لاش کی مانند پڑے نظرآرہے ہیں ، کیوںکہ دیکھنے ، سننے اور سوچنے کی تمام صلاحیتیں اور طاقتیں تو سر میں موجود ہوتی ہیں۔

اس لیے آج ہمارے معاشرے میں قائم ہر قسم کے رشتوں ناطوں میں وہ جوش ، خلوص ، محبت اورگرمی نہیں رہی جو آج سے کئی برس پہلے نظر بھی آتی اور محسوس بھی کی جاتی تھی ۔ ذات پسندی ، مقابلہ بازی حد سے بڑھ کر فیشن پرستی، نمود ونمائش کے کھوکھلے کلچر اور اپنی خواہشات کو ضروریات سمجھ کر ہم ایک ایسے تہذیبی ویرانے میں کھڑے نظرآرہے ہیں جہاں نہ ایک دوسرے کی آواز سن سکتے ہیں اور نہ ایک دوسرے کی مکمل شناخت کر سکتے ہیں ۔

انفرادیت ، سرمائے کی دوڑ اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے رجحان نے جہاں ہماری معاشرتی اور تہذیبی زندگی کی دیگر چیزوں اور اقدارکا حلیہ بگاڑکر رکھ دیا ہے ، وہاں ہماری اشتراکی اور مساوی زندگی کا اعلی ترین نمونہ اور یادگار'' حجرہ'' کی شکل بھی مسخ کر کے رکھ دی ہے۔ آگے جانے دور نکلنے اور تیز چلنے کے اس عمل اور رجحان نے ہمیں کبھی اس بات پر سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا کہ مادی لحاظ سے تو ہم بہت آگے جا رہے ہیں لیکن روحانی یا تہذیبی طور پر ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔

ترقی کی نئی سوچ ، سائنسی ایجادات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کلچر نے حجرے کا تصور بھی ماند کر دیا ہے۔ اور یہ کتنے افسوس اور شرم کی بات ہے کہ اب ایک پڑوسی کو اپنے دوسرے پڑوسی کے دکھ درد کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا ۔ ایک ہی محلے اور ایک ہی گلی میں ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن چکے ہیں ۔ ذاتی زندگی کا مفہوم ہی کچھ اس انداز سے بدل چکا ہے کہ الیکٹرانک و سوشل میڈیا کے ذریعے آپ کو پوری دنیا کے بارے میں علم بھی ہو گا، جانتے بھی ہوںگے لیکن اپنے پڑوسی کے بارے میں آپ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ کہاں کا رہنے والاہے اور کیا کام کرتا ہے؟

ایک زمانہ تھا کہ لوگوں کے لیے حجرے تعلیمی درسگاہیں ہوا کرتی تھیں جہاں بغیر کسی تفریق اور سماجی رتبے کے ہرکسی کو حجرے میں بیٹھنے ، سونے اور بحث ومباحثے میں شریک ہونے کا مکمل اختیار حاصل تھا ، حجرے ہی میں پختونوں کی نوجوان نسل کو علم ودانش کی باتیں سنائی اور سکھائی جاتی تھیں اور اسے'' پختون ولی'' کا پہلا سبق اور تربیت حجرے ہی میں دی جاتی تھی ، حجرے کو افغانستان کے صوبہ قندہار میں کوٹہ، کابل میں سراچہ ، خوست میں جمہ ، ڈیرہ اسماعیل خان اور لکی مروت کے لوگ چوک، ننگرہار اورخیبرپختون خوا کے اکثرعلاقوں میں حجرہ اور ڈیرہ کہا جاتا ہے ۔

پختون اورحجرہ دونوں ایک دوسرے کے لیے ہاتھ اور آستین کی مانند سمجھے جاتے تھے ۔ پختونوں کی زندگی رسم و رواج اور تہذیب و ثقافت میں حجرہ کو ایک کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے۔ خیبرپختون خوا ، بلوچستان اور افغانستان میں اب بھی آپ کسی ایسے گاؤں کاتصور ہی نہیں کر سکتے جہاں پختونوں کا مشترکہ حجرہ یا ڈیرہ موجود نہ ہو ۔ حجرہ نہ صرف پختونوں کی اجتماعی زندگی مساوات ، اشتراکیت ، مشاورت ، مہمان نوازی ، کلب، پارک ، جنرل اسمبلی ،عدالت ، روایتی کھیل کود، نشانہ بازی اورعلم وہنر کا مرکز رہا ہے ۔ بلکہ اسی حجرے نے ایک زمانے میں ابتدائی مدرسہ ، سکول کالج اور یونی ورسٹی کا کردار بھی ادا کیا ہے ۔

برطانوی آئین کی طرح چوںکہ ''پختون ولی'' کاکوئی لکھا ہوا آئین کسی مسودے یا کتاب کی شکل میں موجود نہیں بل کہ یہ ایک عملی زندگی کا نام ہے اور اس ضابطہ حیات کو سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کے تمام اصول و قواعد گاؤں اور محلے کے حجرے میں اپنے بزرگوں اور بڑوں سے سیکھے جا رہے تھے ۔

 

حجرہ تمام محلے اورگاؤں والوں کی مشترکہ ملکیت ہوتی ہے اور کوئی بھی فرد، خان، نواب یا ملک اس حجرے پراپنا ذاتی دعویٰ نہیں کر سکتا اور نہ اس میں کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک کر سکتا ہے ۔ پشتو عوامی شاعری کی مقبول صنف ٹپہ میں ایک پختون دوشیزہ حجرے کی مشترکہ ملکیت کو ظاہر کرتے ہوئے کہتی ہے کہ

حجرہ دقام کلی دسرہ

ترنیموشپو منگے زمالالے وھینہ

(حجرہ تو پوری قوم اور گاؤں کی ملکیت ہے جب کہ آدھی راتوں تک رباب کے ساتھ گھڑ ا اکیلے میرا محبوب ہی بجاتا ہے)

پختونوں کی سماجی زندگی میں رائج کھیل کود ، کبڈی ، آنکھ مچولی ، انگئی مل دے سوک دے'' یا دیگر روایتی کھیل بٹیربازی ، مرغ بازی ، مشاعرے ، جلسے ، رقص وسرور کی محفلیں ، نشانہ بازی کے تمام گر حجرہ ہی میں سکھائے جاتے تھے۔ حجرہ پختونوں کا مشترکہ مہمان خانہ (گیسٹ ھاؤس) رہا ہے۔ حجرے کا ماحول مردانہ زندگی کا ماحول ہوتا ہے یہاں پختون بچہ مردانہ صفات سیکھتا تھا جو کچھ دیکھتا اور جوکچھ اپنے بزرگوں اور بڑوں سے سنتا رہا وہ سب باتیں اس کی شخصی تعمیرمیں اپناکردارادا کرتی رہیں ۔

حجرے نے پختونوں کی روایات، رسم ورواج، تاریخ، جمہوریت ، اشتراکیت، مساوات، کھیل، موسیقی، سٹیج ، تھیٹر ، تاریخ ، ادب، شطرنج، سیاست، دست کاری اور دیگر فنون کو زندگی اور تربیت بخشی ہوئی تھی ۔ آج سے کئی برس پہلے ہمارے دیہاتوں میں عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر لوگ اپنے اپنے حجرے کا رُخ کیا کرتے تھے ۔

وہاں بیٹھ کر نہ صرف حالات حاضرہ پر سیر حاصل بحث مباحثے اور تبصرے کیا کرتے تھے بل کہ ایک دوسرے کے حال احوال ، مال مویشیوں ، کھیتوں کھلیانوں کے بارے میں بھی اپنے آپ کو باخبر رکھتے تھے ۔ مقامی سیاست سے لے کر ملکی اور بین الاقوامی سیاست کے بارے میں اپنا اپنا نقطہ نظرپیش کیا کرتے تھے اورحجرہ میں بیٹھے ہوئے نوجوان ان تمام بحث و مباحثوں کو بڑے انہماک سے سنتے اور ان باتوں پرغور و حوض کیا کرتے تھے ۔

حجرے نے آج سے کئی برس پہلے نہ صرف ایک پارک ،کلب، لنگرخانے ، قلعہ اور مورچہ کاکردارادا کیا ہے بل کہ یہی حجرہ پختونوں کی عدالت ، جنرل اسمبلی ، تفریح کی جگہ اور ایک دوسرے پرتنقید کرنے کا مرکز ومحور بھی رہا ہے ۔

حجرے کو'' پختون ولی'' میں اتنا اہم مقام اور مرتبہ حاصل رہا کہ آج بھی کسی پختون سے ایسا ویسا کوئی کام سرزد ہو جائے تو اسے یہی ایک طعنہ دیا جاتا ہے کہ'' حجرہ جماعت خو نہ پیژنے'' (حجرہ مسجدکے آداب سے ناواقف ہو ) یا دحجرے پاس خونہ ئے کنہ'' (حجرہ پاس تو نہیں ہو۔ نا) چرتہ حجرہ جماعت کے ناست ئے''؟ (کبھی حجرہ مسجد میں بھی بیٹھے ہو؟ )

حجرے میں ہر چیز کا بندوبست کیا جاتا تھا ۔خصوصاّ چلم (حقہ) اور حجرہ تو دونوں لازم وملزوم رہے ہیں یہاں تک کہ پختونوں کے بعض علاقوں میں چلم کو دحجرے مشر (حجرے کا سرپنچ ) بھی کہا جاتا ہے ۔ رباب ، ستار، مٹی کا گھڑا یہاں تک کہ روایتی نشوںکا پورا سازوسامان یعنی نسوار بنانے اور دیگر اشیاء پینے کے تمام آلات بھی حجرے کے کسی کونے میں پڑے رہتے تھے ۔

پختونوں کی ثقافتی سرگرمیوں کو پروان چڑھانے میں حجرے نے ریڈیو سٹیشن ، ہال اورکلب کا کردارادا کیا ہے ۔

لیکن افسوس کہ جہاں ہمارے آبا و اجداد پختون ولی ،انسانیت ،اچھے اخلاق، بحث ومباحثے ،کھیل کود علم و ہنر اور دیگر فنون وعلوم سیکھتے تھے اور جس جگہ اور مکان نے انہیں محبت ، بھائی چارے ، اتفاق ، برادری، رشتہ داری اور ایک دوسرے کے ساتھ خلوص اور صداقت کا عظیم سبق سکھایا ہے ۔

ہماری اشتراکی اور مساوی زندگی کے وہ اعلی نمونے آج ویران و سنسان نظرآرہے ہیں ۔ گھرمیں موجود ذاتی بیٹھک، ڈرائنگ روم، ٹیلی وژن، موبائل اور سوشل میڈیا نے ہم میں اجتماعیت کی جگہ انفرادیت اور ذات پسندی کی ایک ایسی بیماری پیدا کی ہوئی ہے ۔ جس کی وجہ سے ہم اپنی ذات اور اپنے گھر کی دیواروں سے باہر نہ کچھ دیکھ سکتے ہیں اور نہ کچھ سن سکتے ہیں ۔ حجرہ جیسے دیگر اجتماعی مقامات ، اور ان مقامات سے وابستہ اقدار و روایات کے زوال نے ہمیں معاشرتی اور تہذیبی زوال کی راہ پرڈال رکھا ہوا ہے آج ہماری سماجی زندگی پر خودغرضی، اناپرستی، لالچ ، تعصب پسندی اور خواہش پرستی نے ڈیرے ڈال دیے ہیں ۔

ہم آج اپنی اپنی ذات کے ایک ایسے خیالی زندان میں مقید ہوکر رہ گئے ہیں کہ جہاں ہجوم کے شور میں بھی ہم اپنے آپ کو تنہا اورذہنی طور پر جلا وطن محسوس کرتے ہیں ۔ آئیں ایک بار پھر اپنے ویران، وسنسان، حجروں کو آبادکریں ۔

اپنی بیٹھکوں اور ڈرائنگ رومز کے دروازے اپنے پڑوسیوں، رشتہ داروں اور دوستوں کے لیے کھلے رکھیں، ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر نفرتوں اورکدورتوں کو منفی کریں ، خوشیوں کو جمع کر کے انہیں ضرب دیں۔ اورپھرآپس میں ایک دوسرے پرتقسیم کریں ۔ بھلا اتنی مختصر ترین زندگی میں سے ایک دوسرے سے نفرت کرنے کے لیے وقت نکالنے کاکیا جواز بنتا ہے ۔ حمزہ خان شینواری اپنے ایک شعرمیں فرماتے ہیں کہ ۔

لادزڑہ حجرہ کے م پختوکوربنہ خکاری

وی کہ تنگ دستی ھم میلمنو تہ خوشحالیگم

(تاحال میرے دل کے حجرے میں پشتومیزبانی دیکھی جاسکتی ہے چاہے کتنی ہی تنگ دستی بھی ہو،تب بھی مہمانوں کی آمد پرخوش ہوتا ہوں )

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں