زباں فہمی نمبر192 روہِیل کھنڈیرام پوری اردو حصہ اول
یہ علاقہ موجودہ اُترپردیش (سابق یوپی) کا شمال مغربی حصہ ہے
کیا کنائے، کیا اشارے ، کیسا اندازِبیاں
ہر جگہ پہچانی جاتی ہے زبانِ رام پور
(رئیسؔ رام پوری)
نئی نسل کے لیے شاید ''روہیلِ کھنڈی'' یا ''رام پوری'' اردو کی تراکیب نامانوس ہوں، مگر پرانی نسل اس سے بخوبی واقف ہے، یہ اور بات کہ اُن کی اکثریت بھی محض نام ہی سے واقف ہے اور بڑی مشکل ہوجاتی ہے جب کوئی پوچھ لے کہ اس لہجے یا بولی ٹھولی کی کوئی مثال تو بتائیں۔ اس بولی کی مشہور مثالوں میں 'اُٹنگا' 'اچکن' ،'انٹ شنٹ'،'بدھنا'،'ٹُنٹا' جیسے بے شمار الفاظ شامل ہیں۔
یہاں یہ نکتہ بھی مدنظر رکھیں کہ یہ بولی ہو یا کسی اور علاقے کی بولی ٹھولی، فطری طور پر معیاری، رسمی وادبی زبان میں کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں داخل اور شامل ہو ہی جاتی ہے۔
اسی طرح اگر اس مخصوص لہجے کی بولی کے الفاظ معیاری لغات میں شامل ہیں تو اس کے اپنے مخصوص علاقوں میں معیاری زبان بھی جوں کی توں یا اضافوں کے ساتھ بولی جاتی ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ معیاری لہجہ کم نظر آئے یا سرے سے مفقود ہو۔
روہیلِ کھنڈ [Rohilkhand] کے مخصوص لہجے میں پشتو کے متعدد الفاظ وتراکیب جوں کے توں یا متبدل شکل میں موجود ہیں اور اس قسم کی بولی کی مثال کم از کم غیرمنقسم ہندوستان میں کہیں اور ملنا مشکل تھی، ماسوائے 'سرحد' کے جو اَب ہمارا صوبہ خیبرپختون خوا ہے۔ ناواقفین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ روہیل کھنڈ سے مراد غیرمنقسم ہندوستان کا وہ حصہ ہے جس میں موجودہ بریلی، رام پور اور بدایوں شامل تھے۔
یہ علاقہ موجودہ اُترپردیش (سابق یوپی) کا شمال مغربی حصہ ہے، جہاں آبادی کی اکثریت مسلمان تھی اور ہے۔ مغل عہد میں اس علاقے میں امروہہ، باہجوئی [Bahjoi]، بجنور، ککرالہ[Kakrala] ،کھٹار[Khutar]، مرادآباد ، نجیب آباد، پیلی بھِیت اور شاہجہاں پور بھی شامل تھے۔ یوسف زئی پٹھانوں نے اس خطے میں روہیلہ سلطنت کی بِناء ڈالی اور آج بھی ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے اردوگو طبقے میں ایک بڑا حصہ ایسے افراد پر مشتمل ہے جن کی جڑیں اسی روہیل کھنڈ میں ہیں۔
اس سلطنت کی ابتداء یوں ہوئی کہ مغل تاجدار اورنگزیب عالمگیر کے حکم پر داؤدخان نے کٹیہار کے باغی ہندو راجپوتوں سے مقابلہ کرتے ہوئے وہاں فتح کے بعد، اپنی بستی قائم کی۔ اُس وقت یوسف زئی، غوری، عثمانی، غِل زئی، بڑیچ، مَروَت، ترین، کاکڑ، ناغڑ، آفریدی اور خٹک قبائل سے بیس ہزارسپاہی بھرتی کرکے مغل فوج میں شامل کیے گئے تھے۔
ان پٹھانوں کی کارکردگی سے خوش ہوکر اورنگزیب نے مزید پچیس ہزار سپاہی بھرتی کیے، جبکہ ان پختونوں کی ہندوستان کے اس علاقے میں موجود آبادی میں بھی وقتاً فوقتاً توسیع ہوتی رہی۔
قدیم ہندو کتب مہابھارت اور رامائن میں اسے مدھیادیش [Madhyadesh] اور پنچالا [Panchala] کہاگیا۔ لغوی اعتبارسے، روہیل کھنڈ کا مطلب ہے، روہیلہ یا روہیلوں کی سرزمین، یہ وہ لوگ تھے جو پشتو بولتے تھے اور 'روہ' سے ہجرت کرکے ہندوستان میں آباد ہوئے تھے۔ روہ کا اطلاق سُوات، باجوڑ، سبی، حسن ابدال، کابل اور قندھار /قندہار تک پھیلے ہوئے وسیع وعریض 'پشتو ن/پختون' علاقے پر ہوتا ہے۔ روہیل کھنڈ کی اصطلاح سترہویں صدی میں عام ہوئی۔
خاکسار کے فیس بک دوست محترم محمدفرقان سنبھلی کی ایک تحریر سے اقتباس پیش خدمت ہے:''روہیل کھنڈ صوبہ اتر پردیش کے شمال مغربی خطے میں واقع ہے۔ زمانہ قدیم میں یہ علاقہ پانچال اور کٹھیر جیسے ناموں سے مشہور رہا۔ سمراٹ اشوک، مِتر راجاؤں، گپت خاندان، ہرش وردھن، پریہار راجاؤں سے ہوتا ہوا یہ علاقہ تومروں کے قبضے میں چلا گیا۔
مسلمانوں کے فتح دہلی کے بعد عرب، ایران، افغانستان، ترکستان وغیرہ سے بڑی تعداد میں مسلم خاندان شمالی ہند میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ ان میں اسلامی مبلغین کی خاصی بڑی تعداد بھی تھی۔ حالانکہ اس سے قبل سید سالار مسعود غازی (رحمۃ اللہ علیہ) کی روہیل کھنڈ میں آمد ہوچکی تھی۔ 1742 میں نواب سید علی محمد خاں نے روہیلہ فوج اور افغان سرداروں کے دم پر کٹھیر یہ راجپوتوں کے جس علاقے پر قبضہ کرکے اپنی خود مختار حکومت کے قیام کا اعلان کیا اس کو روہیل کھنڈ کے نام سے موسوم کیا گیا۔
یہ نام علاقے میں روہیلوں کی کثیر جمعیت کی بنیاد پر رکھا گیا تھا۔ دورحاضر میں روہیل کھنڈ بریلی مراد آباد کمشنریوں کے 9 اضلاع پر مشتمل ہے۔ ان اضلاع میں بجنور، بریلی، امروہہ، مرادآباد، سنبھل، رامپور، بدایوں، پیلی بھیت اور شاہ جہانپور شامل ہیں۔'' {مختصرتاریخ رامپور۔ روہیل کھنڈ، صوبجات متحدہ اَز مولوی فیروزالدین کے بیان کے مطابق، کھٹیر (کٹھیر) پہلے اضلاعِ مرادآباد وغیرہ کو کہا جاتا تھا۔
اسی کتاب کی رُو سے روہیلوں کے جد اَمجد، سردارداؤ دخان1707ء میں موضع تو رشہامت، مُلک روہ (غالباً افغانستان) سے مع 100ہمراہی، مغل سپاہ میں شامل ہونے کے لیے یہاں آئے}۔ تفصیل کے اجمال میں یہ بات بہرحال شامل نہیں کہ پختون یا پشتون یا افغان فاتحین نے کب سے کب تک اور کتنا عرصہ خطۂ ہند پر حکومت کی۔ ظاہر ہے کہ اردو اور پشتو کے لسانی روابط، اشتراک و ہم آہنگی کے موضوع پر لکھتے ہوئے یہ اہم گوشہ بھی دیکھنا ہوگا۔ فی الحال ہم ایک محدود علاقے تک ہی اپنی طبع آزمائی محدود کرتے ہیں۔
اس وسیع وعریض خطے میں اردوزبان وادب کی پرداخت کا عمل صدیوں جاری رہا اور آج بھی لوک ادب کے باب میں روہیل کھنڈ کا حصہ نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب اردو کے قدیم لوک ادب کی بات ہوتی ہے تو روہیل کھنڈ سے متعلق بعض محققین کی تحقیق یقیناً پیش نظر رہنی چاہیے۔ ''روہیل کھنڈ کے مسلم معاشرے میں گائے جانے والے لوک گیتوں کو مندرجہ ذیل زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(1)خانگی (گھریلو) زندگی کے گیت (2) اعتقاد پر مبنی لوک گیت (3)موسمی لوک گیت (4)رزمیہ لوک گیت۔
(1)خانگی (گھریلو) زندگی کے گیت: (اقتباس)
روہیل کھنڈ کے ضلع پیلی بھیت میں حمل ٹھہرنے اور گود بھرائی کے موقع پر گائے جانے والے ایک گیت کا مکھڑا ملاحظہ کیجیے۔ اس گیت میں دوران حمل کی کیفیتوں اور حاملہ کی خواہشات کا اظہار کیا گیا ہے:
راجا رتنا رے، کنور رتنا رے/جامن موہے لادو
پہلا مہینہ جب لاگے زچہ رانی
پھول گئے پھل لاگے
میں واری جاؤں رے واری رے واری
جامن موہے لادو
روہیل کھنڈ میں بچے کی پیدائش پر رشتوں کے اعتبار سے خوشیاں منانے، مبارکبادیاں دینے اور رشتوں کی مناسبت سے عائد ہونے والی ذمے داریوں کو منکشف کرنے والے گیت محلے، کنبے کی خواتین، ڈومنیاں اور مراثنیں گاتی ہیں۔
پیدائش کے تعلق سے منعقد ہونے والی تقریبات میں 'چھٹی' کو بڑی اہمیت حاصل ہے اس دن زچہ کو نندیں غسل کراتی ہیں اور اپنا نیگ وصولتی ہیں۔ ضلع شاہجہاں پور کے دیہات میں 'چھٹی' کا یہ گیت بہت گایا جاتا ہے:
اِدھر بیٹھی نند اُدھر بیٹھی بھاوج
دونوں منھ دھوویں
بھاوج جی جایا للنا، کنگن میں تو لے لوں گی
شام ہوئی رین بیتی پو پھاٹی
بھاوج جایا للنا، کنگن میں تو لے لوں گی''۔ (روہیل کھنڈ کے مسلم معاشرہ میں لوک گیتوں کی روایت: محمد فرقان سنبھلی)۔ یہ تو فقط ایک جھلک ہے، مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:
https://ncpulblog.blogspot.com/2019/03/blog-post_56.html
موضوع پر مزید گفتگو سے قبل ایک نہایت عجیب انکشاف بھی ضروری ہے۔ صدیوں تک زبان کی خدمت کرنے والے اس خطے کے مخصوص 'اہل زبان ' شعراء و اُدَباء کی کوئی فہرست یا اُن کے متعلق کوئی ایک مستقل، جداگانہ کتاب مجھے انٹرنیٹ پر نظر نہیں آئی۔ بجنور، بریلی، امروہہ، مرادآباد، سنبھل، رامپور، بدایوں، پیلی بھیت اور شاہ جہانپور نیز فرخ آباد کے اہل قلم کی ایک طویل فہرست ہے جسے یکجا کرکے ''روہیل کھنڈ کے شاعر، ادیب، صحافی'' کے موضوع پر مرتب کرتے ہوئے کوئی تحقیقی مقالہ لکھا جاسکتا ہے۔
انھی بے شمار شعرائے کرام کی فہرست میں شامل، ہمیں نامورشاعر، ماہر غالبیات، پرتوؔ روہیلہ صاحب کے متعلق ادھوری معلومات انٹرنیٹ پر ملتی ہیں جو 23 نومبر 1932ء کو بریلی میں پیدا ہوئے، 1950 ء میں اپنے گھرانے کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی اور 29 ستمبر2016ء کو اسلام آبادمیں فوت ہوئے۔ پرتو روہیلہ کی چوبیس کتب میں ''غالب اور غمگینؔ کے فارسی مکتوبات'' (اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان)، نامہ ہائے فارسیِ (غالب)، کلیاتِ عطا (مرتب)، اِک دیا دریچے میں (شاعری)، آواز (شاعری)، دامِ خیال (کلیات)، شکست رنگ (شاعری)، سفر دائروں کا (شاعری)، سفر گزشت (امریکا کا سفرنامہ)، رین اجیارا (دوہے)، نوائے شب (شاعری)، پرتوِ شب (شاعری) بطورخاص قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے فارسی شاعرہ فروغ فرخ زاد کی منظومات بھی اردو میں منتقل کیں۔ لطف کی بات ہے کہ جناب پرتوؔ نے بجائے بریلوی نسبت اختیار کرنے کے، حافظ رحمت خاں، والی ٔ روہیل کھنڈ کے نسب سے ہونے کی بناء پر، روہیلہ لکھنا پسند کیا۔
اس سے اندازہ لگائیں کہ جو لوگ یہ کہتے اور سمجھتے ہیں کہ سب کچھ انٹرنیٹ پر موجود ہے اور اَب کتاب کی اہمیت صفر ہوگئی یا ہوجائے گی، وہ کس قدر غلطی پر ہیں۔ مزید بَرآں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ روہیل کھنڈی ادب کا سرمایہ کسی ایک مقالے یا کتاب میں بالتحقیق جمع کرنا بھی اہل ادب پر لازم ہے۔ یہاں ایک مثال اپنے نجی حلقہ احباب سے پیش کرتا ہوں۔
میرے عزیز دوست نویدالظفر سہروردی نے انکشاف کیا کہ اُس کے خالو، جناب محمد ظریف خاں نے روہیل کھنڈی لہجے میں کچھ افسانے لکھے تھے جو اُس کے پاس تو نہیں، البتہ ہوسکتاہے کہ موصوف کے پاس محفوظ ہوں۔ میری اُن بزرگ سے صاحب سلامت تھی اور اُن کے اخیر دور میں خاکسار نے اُن سے اس بابت دریافت کیا تو اُنھوں نے بھی یہی کہا کہ اب نمعلوم کہاں ہیں، دوتین ہی لکھے تھے، کہیں شایع نہیں کروائے۔ کچھ عرصے کے بعد اُن کی وفات بھی ہوگئی۔ یوں یہ منفرد نمونہ نگارشات محفوظ نہ رہ سکا۔
''دارالسرور'' کے لقب سے موسوم ہندوستان کے دوسرے شہر، سابق ریاست رامپور (ماقبل 'دارالسرور' برہان پور کے متعلق 'زباں فہمی' میں مضمون لکھ چکا ہوں) کا نام کبھی مصطفی آباد ہوا کرتا تھا۔ ادبی لحاظ سے نہایت زرخیز، اس ریاست کا ظہور1774ء میں ہوا اور اس کے پہلے حکمراں نواب فیض اللہ خاں تھے جن کی علمی خدمات میں مدرسہ عالیہ اور رَضا لائبریری کا قیام شامل ہے۔
ریاست رامپور کی تاریخ بھی متعدد ماہرین کے قلم سے منصہ شہود پر آچکی ہے۔ ابھی انٹرنیٹ پر ایک تازہ نام دیکھا، محترمہ سعدیہ سلیم شمسی کی کتاب ''رامپور۔ منظرنامہ تاریخ وتہذیب وادب'' پر ایک تبصرہ بہت عمدگی سے بلکہ تنقید لکھی گئی۔ کاش یہ کتاب بھی میری دسترس میں ہوتی۔ ذکر ہوا، رامپور کے پرانے نام مصطفٰی آباد (عرف مصطفی باد) کا تو لگے ہاتھوں یہ قطعہ بھی دیکھتے چلیں:
ہے عجب شہر مصطفٰی باد
اس کو رکھنا مِرے خدا آباد
سب اسے رامپور کہتے ہیں
ہم تو آرام پور کہتے ہیں
(داغ دہلوی)
رامپور سمیت تمام روہیل کھنڈ کے شعراء واُدباء کی بابت سرسری سرسری گفتگو بھی ہمارے سلسلہ زباں فہ می کی کئی اقساط پرمشتمل ہوسکتی ہے۔ فی الحال پیش خدمت ہیں، روہیل کھنڈی یا رام پوری اردو کے ذخیرہ الفاظ سے کچھ نمونے:
آپا: بڑی بہن، ہمشیرہ اور آ پ خود (یعنی)اپنی ذات: اسی طرح رامپور میں بھی بولا جاتا ہے۔
اُبّو: بھرم، عزت اور حیثیت کے مفہوم میں بولا جاتا ہے ; اب تیری اُبّو بن گئی ہے تو بنی ہی رہنے دے۔
اُتّو: صحیح بلاتشدید اُتوُ، مگر رامپور میں مشدّد ہی بولا جاتا ہے۔ وہ شکنیں یا نقوش جو کسی دھات کے ٹکڑے سے کپڑے پر آرائش کے لیے ڈالے جائیں۔ وہ دھات کا ٹکڑا یا آلہ جو اِس کے لیے استعمال کیا جائے۔
(دیگر تفصیل کے لیے لغت کا مطالعہ مفید ہے: س ا ص) دیگر معانی: مارمار کر لہولہان کرنا، اُتّوُ کرتے ہوئے چلنا، گھِسٹواں (گھسٹ گھسٹ کر: س ا ص) چلنا، زمین پر رگڑتے ہوئے پاؤں رکھنا۔
اُٹنگا: اونچا، خاص طور پر ٹخنوں سے بہت اونچا پاجامہ جو دیکھنے میں بُرا معلوم ہو۔(یہ ہمارے یہاں بھی مستعمل ہے: س اص)
اُجبَک [Ujbak]: مذکر;اُزبَک یا اُزبِک کا بگاڑ یعنی اُزبکستان کا باشندہ۔ رامپوری اصطلاح میں خبط الحواس (مخبوط الحواس: س اص)
اَمبڑ چمبڑ: بیکار کی باتیں اور زبانی جھگڑے کی ایک قسم۔
اچکن: شیروانی (ہمارے یہاں اچکن سے مراد چھوٹی شیروانی ہے جو گھٹنوں سے ذرا نیچے تک آتی ہے: س ا ص)
اختہ، آختہ: پشتو میں مبتلا، مصروف اور شیدا یعنی عاشق۔ لغت میں اس سے مراد بدھیا، خصّی اور خواجہ سرا۔
اَخور: میلا کچیلا، بہت خراب، گندہ۔
اَدَگّا: غیرمتوقع، اچانک
اُڈّوڈیلا: خبط الحواس (مخبوط الحواس: س ا ص)
اَڑیَل: چلتے چلتے راہ میں رُک جانے والا گھوڑا، نیز ضدّی شخص (دیگر علاقوں میں بھی مستعمل: س اص)
اُلّا پَلّا: اِدھر اُدھر کا، یہ اور وہ (یعنی دو مختلف، متضاد یا برعکس باتیں یا چیزیں: س اص);ایسے ہی اُلّی طرف، پَلّی طرف یعنی اِس طرف اور اُس طرف (ہمارے یہاں اس کا اصل یعنی اُرلی طرف اور پرلی طرف بھی مستعمل ہے اور یہ بلاتخصیص یوپی والوں میں عام ہوگا: س اص)
الغو' : کلمہ تحقیر۔ پرلے درجے کا احمق ، بے وقوف۔
اَلَلّے تَلَلّے: انتہائی بے فکری کے ساتھ کسی معاملے میں زیادتی کرنا جیسے ''وہ اَلَلّے تَلَلّے سے اپنا مال لُٹا رہا ہے''۔ (ہمارے یہاں استعمال قدرے مختلف ہے جیسے فُلاں کے اَلَلّے تَلَلّے دیکھے؟ اُن کے تو اَلَلّے تَلَلّے ہی ختم نہیں ہوتے وغیرہ : س ا ص)
اَلَّم غَلَّم: بغیر سوچے سمجھے کی جانے والی باتیں، اِدھر اُدھر کی، مختلف، بے جوڑ، فضول باتیں (ہمارے یہاں یوں بھی بولاجاتا ہے: اسے دیکھو، الم غلم کھائے جارہا ہے، کچھ پروا ہی نہیں صحت کی: س ا ص)
( جاری ہے )
ہر جگہ پہچانی جاتی ہے زبانِ رام پور
(رئیسؔ رام پوری)
نئی نسل کے لیے شاید ''روہیلِ کھنڈی'' یا ''رام پوری'' اردو کی تراکیب نامانوس ہوں، مگر پرانی نسل اس سے بخوبی واقف ہے، یہ اور بات کہ اُن کی اکثریت بھی محض نام ہی سے واقف ہے اور بڑی مشکل ہوجاتی ہے جب کوئی پوچھ لے کہ اس لہجے یا بولی ٹھولی کی کوئی مثال تو بتائیں۔ اس بولی کی مشہور مثالوں میں 'اُٹنگا' 'اچکن' ،'انٹ شنٹ'،'بدھنا'،'ٹُنٹا' جیسے بے شمار الفاظ شامل ہیں۔
یہاں یہ نکتہ بھی مدنظر رکھیں کہ یہ بولی ہو یا کسی اور علاقے کی بولی ٹھولی، فطری طور پر معیاری، رسمی وادبی زبان میں کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں داخل اور شامل ہو ہی جاتی ہے۔
اسی طرح اگر اس مخصوص لہجے کی بولی کے الفاظ معیاری لغات میں شامل ہیں تو اس کے اپنے مخصوص علاقوں میں معیاری زبان بھی جوں کی توں یا اضافوں کے ساتھ بولی جاتی ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ معیاری لہجہ کم نظر آئے یا سرے سے مفقود ہو۔
روہیلِ کھنڈ [Rohilkhand] کے مخصوص لہجے میں پشتو کے متعدد الفاظ وتراکیب جوں کے توں یا متبدل شکل میں موجود ہیں اور اس قسم کی بولی کی مثال کم از کم غیرمنقسم ہندوستان میں کہیں اور ملنا مشکل تھی، ماسوائے 'سرحد' کے جو اَب ہمارا صوبہ خیبرپختون خوا ہے۔ ناواقفین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ روہیل کھنڈ سے مراد غیرمنقسم ہندوستان کا وہ حصہ ہے جس میں موجودہ بریلی، رام پور اور بدایوں شامل تھے۔
یہ علاقہ موجودہ اُترپردیش (سابق یوپی) کا شمال مغربی حصہ ہے، جہاں آبادی کی اکثریت مسلمان تھی اور ہے۔ مغل عہد میں اس علاقے میں امروہہ، باہجوئی [Bahjoi]، بجنور، ککرالہ[Kakrala] ،کھٹار[Khutar]، مرادآباد ، نجیب آباد، پیلی بھِیت اور شاہجہاں پور بھی شامل تھے۔ یوسف زئی پٹھانوں نے اس خطے میں روہیلہ سلطنت کی بِناء ڈالی اور آج بھی ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے اردوگو طبقے میں ایک بڑا حصہ ایسے افراد پر مشتمل ہے جن کی جڑیں اسی روہیل کھنڈ میں ہیں۔
اس سلطنت کی ابتداء یوں ہوئی کہ مغل تاجدار اورنگزیب عالمگیر کے حکم پر داؤدخان نے کٹیہار کے باغی ہندو راجپوتوں سے مقابلہ کرتے ہوئے وہاں فتح کے بعد، اپنی بستی قائم کی۔ اُس وقت یوسف زئی، غوری، عثمانی، غِل زئی، بڑیچ، مَروَت، ترین، کاکڑ، ناغڑ، آفریدی اور خٹک قبائل سے بیس ہزارسپاہی بھرتی کرکے مغل فوج میں شامل کیے گئے تھے۔
ان پٹھانوں کی کارکردگی سے خوش ہوکر اورنگزیب نے مزید پچیس ہزار سپاہی بھرتی کیے، جبکہ ان پختونوں کی ہندوستان کے اس علاقے میں موجود آبادی میں بھی وقتاً فوقتاً توسیع ہوتی رہی۔
قدیم ہندو کتب مہابھارت اور رامائن میں اسے مدھیادیش [Madhyadesh] اور پنچالا [Panchala] کہاگیا۔ لغوی اعتبارسے، روہیل کھنڈ کا مطلب ہے، روہیلہ یا روہیلوں کی سرزمین، یہ وہ لوگ تھے جو پشتو بولتے تھے اور 'روہ' سے ہجرت کرکے ہندوستان میں آباد ہوئے تھے۔ روہ کا اطلاق سُوات، باجوڑ، سبی، حسن ابدال، کابل اور قندھار /قندہار تک پھیلے ہوئے وسیع وعریض 'پشتو ن/پختون' علاقے پر ہوتا ہے۔ روہیل کھنڈ کی اصطلاح سترہویں صدی میں عام ہوئی۔
خاکسار کے فیس بک دوست محترم محمدفرقان سنبھلی کی ایک تحریر سے اقتباس پیش خدمت ہے:''روہیل کھنڈ صوبہ اتر پردیش کے شمال مغربی خطے میں واقع ہے۔ زمانہ قدیم میں یہ علاقہ پانچال اور کٹھیر جیسے ناموں سے مشہور رہا۔ سمراٹ اشوک، مِتر راجاؤں، گپت خاندان، ہرش وردھن، پریہار راجاؤں سے ہوتا ہوا یہ علاقہ تومروں کے قبضے میں چلا گیا۔
مسلمانوں کے فتح دہلی کے بعد عرب، ایران، افغانستان، ترکستان وغیرہ سے بڑی تعداد میں مسلم خاندان شمالی ہند میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ ان میں اسلامی مبلغین کی خاصی بڑی تعداد بھی تھی۔ حالانکہ اس سے قبل سید سالار مسعود غازی (رحمۃ اللہ علیہ) کی روہیل کھنڈ میں آمد ہوچکی تھی۔ 1742 میں نواب سید علی محمد خاں نے روہیلہ فوج اور افغان سرداروں کے دم پر کٹھیر یہ راجپوتوں کے جس علاقے پر قبضہ کرکے اپنی خود مختار حکومت کے قیام کا اعلان کیا اس کو روہیل کھنڈ کے نام سے موسوم کیا گیا۔
یہ نام علاقے میں روہیلوں کی کثیر جمعیت کی بنیاد پر رکھا گیا تھا۔ دورحاضر میں روہیل کھنڈ بریلی مراد آباد کمشنریوں کے 9 اضلاع پر مشتمل ہے۔ ان اضلاع میں بجنور، بریلی، امروہہ، مرادآباد، سنبھل، رامپور، بدایوں، پیلی بھیت اور شاہ جہانپور شامل ہیں۔'' {مختصرتاریخ رامپور۔ روہیل کھنڈ، صوبجات متحدہ اَز مولوی فیروزالدین کے بیان کے مطابق، کھٹیر (کٹھیر) پہلے اضلاعِ مرادآباد وغیرہ کو کہا جاتا تھا۔
اسی کتاب کی رُو سے روہیلوں کے جد اَمجد، سردارداؤ دخان1707ء میں موضع تو رشہامت، مُلک روہ (غالباً افغانستان) سے مع 100ہمراہی، مغل سپاہ میں شامل ہونے کے لیے یہاں آئے}۔ تفصیل کے اجمال میں یہ بات بہرحال شامل نہیں کہ پختون یا پشتون یا افغان فاتحین نے کب سے کب تک اور کتنا عرصہ خطۂ ہند پر حکومت کی۔ ظاہر ہے کہ اردو اور پشتو کے لسانی روابط، اشتراک و ہم آہنگی کے موضوع پر لکھتے ہوئے یہ اہم گوشہ بھی دیکھنا ہوگا۔ فی الحال ہم ایک محدود علاقے تک ہی اپنی طبع آزمائی محدود کرتے ہیں۔
اس وسیع وعریض خطے میں اردوزبان وادب کی پرداخت کا عمل صدیوں جاری رہا اور آج بھی لوک ادب کے باب میں روہیل کھنڈ کا حصہ نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب اردو کے قدیم لوک ادب کی بات ہوتی ہے تو روہیل کھنڈ سے متعلق بعض محققین کی تحقیق یقیناً پیش نظر رہنی چاہیے۔ ''روہیل کھنڈ کے مسلم معاشرے میں گائے جانے والے لوک گیتوں کو مندرجہ ذیل زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(1)خانگی (گھریلو) زندگی کے گیت (2) اعتقاد پر مبنی لوک گیت (3)موسمی لوک گیت (4)رزمیہ لوک گیت۔
(1)خانگی (گھریلو) زندگی کے گیت: (اقتباس)
روہیل کھنڈ کے ضلع پیلی بھیت میں حمل ٹھہرنے اور گود بھرائی کے موقع پر گائے جانے والے ایک گیت کا مکھڑا ملاحظہ کیجیے۔ اس گیت میں دوران حمل کی کیفیتوں اور حاملہ کی خواہشات کا اظہار کیا گیا ہے:
راجا رتنا رے، کنور رتنا رے/جامن موہے لادو
پہلا مہینہ جب لاگے زچہ رانی
پھول گئے پھل لاگے
میں واری جاؤں رے واری رے واری
جامن موہے لادو
روہیل کھنڈ میں بچے کی پیدائش پر رشتوں کے اعتبار سے خوشیاں منانے، مبارکبادیاں دینے اور رشتوں کی مناسبت سے عائد ہونے والی ذمے داریوں کو منکشف کرنے والے گیت محلے، کنبے کی خواتین، ڈومنیاں اور مراثنیں گاتی ہیں۔
پیدائش کے تعلق سے منعقد ہونے والی تقریبات میں 'چھٹی' کو بڑی اہمیت حاصل ہے اس دن زچہ کو نندیں غسل کراتی ہیں اور اپنا نیگ وصولتی ہیں۔ ضلع شاہجہاں پور کے دیہات میں 'چھٹی' کا یہ گیت بہت گایا جاتا ہے:
اِدھر بیٹھی نند اُدھر بیٹھی بھاوج
دونوں منھ دھوویں
بھاوج جی جایا للنا، کنگن میں تو لے لوں گی
شام ہوئی رین بیتی پو پھاٹی
بھاوج جایا للنا، کنگن میں تو لے لوں گی''۔ (روہیل کھنڈ کے مسلم معاشرہ میں لوک گیتوں کی روایت: محمد فرقان سنبھلی)۔ یہ تو فقط ایک جھلک ہے، مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:
https://ncpulblog.blogspot.com/2019/03/blog-post_56.html
موضوع پر مزید گفتگو سے قبل ایک نہایت عجیب انکشاف بھی ضروری ہے۔ صدیوں تک زبان کی خدمت کرنے والے اس خطے کے مخصوص 'اہل زبان ' شعراء و اُدَباء کی کوئی فہرست یا اُن کے متعلق کوئی ایک مستقل، جداگانہ کتاب مجھے انٹرنیٹ پر نظر نہیں آئی۔ بجنور، بریلی، امروہہ، مرادآباد، سنبھل، رامپور، بدایوں، پیلی بھیت اور شاہ جہانپور نیز فرخ آباد کے اہل قلم کی ایک طویل فہرست ہے جسے یکجا کرکے ''روہیل کھنڈ کے شاعر، ادیب، صحافی'' کے موضوع پر مرتب کرتے ہوئے کوئی تحقیقی مقالہ لکھا جاسکتا ہے۔
انھی بے شمار شعرائے کرام کی فہرست میں شامل، ہمیں نامورشاعر، ماہر غالبیات، پرتوؔ روہیلہ صاحب کے متعلق ادھوری معلومات انٹرنیٹ پر ملتی ہیں جو 23 نومبر 1932ء کو بریلی میں پیدا ہوئے، 1950 ء میں اپنے گھرانے کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی اور 29 ستمبر2016ء کو اسلام آبادمیں فوت ہوئے۔ پرتو روہیلہ کی چوبیس کتب میں ''غالب اور غمگینؔ کے فارسی مکتوبات'' (اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان)، نامہ ہائے فارسیِ (غالب)، کلیاتِ عطا (مرتب)، اِک دیا دریچے میں (شاعری)، آواز (شاعری)، دامِ خیال (کلیات)، شکست رنگ (شاعری)، سفر دائروں کا (شاعری)، سفر گزشت (امریکا کا سفرنامہ)، رین اجیارا (دوہے)، نوائے شب (شاعری)، پرتوِ شب (شاعری) بطورخاص قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے فارسی شاعرہ فروغ فرخ زاد کی منظومات بھی اردو میں منتقل کیں۔ لطف کی بات ہے کہ جناب پرتوؔ نے بجائے بریلوی نسبت اختیار کرنے کے، حافظ رحمت خاں، والی ٔ روہیل کھنڈ کے نسب سے ہونے کی بناء پر، روہیلہ لکھنا پسند کیا۔
اس سے اندازہ لگائیں کہ جو لوگ یہ کہتے اور سمجھتے ہیں کہ سب کچھ انٹرنیٹ پر موجود ہے اور اَب کتاب کی اہمیت صفر ہوگئی یا ہوجائے گی، وہ کس قدر غلطی پر ہیں۔ مزید بَرآں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ روہیل کھنڈی ادب کا سرمایہ کسی ایک مقالے یا کتاب میں بالتحقیق جمع کرنا بھی اہل ادب پر لازم ہے۔ یہاں ایک مثال اپنے نجی حلقہ احباب سے پیش کرتا ہوں۔
میرے عزیز دوست نویدالظفر سہروردی نے انکشاف کیا کہ اُس کے خالو، جناب محمد ظریف خاں نے روہیل کھنڈی لہجے میں کچھ افسانے لکھے تھے جو اُس کے پاس تو نہیں، البتہ ہوسکتاہے کہ موصوف کے پاس محفوظ ہوں۔ میری اُن بزرگ سے صاحب سلامت تھی اور اُن کے اخیر دور میں خاکسار نے اُن سے اس بابت دریافت کیا تو اُنھوں نے بھی یہی کہا کہ اب نمعلوم کہاں ہیں، دوتین ہی لکھے تھے، کہیں شایع نہیں کروائے۔ کچھ عرصے کے بعد اُن کی وفات بھی ہوگئی۔ یوں یہ منفرد نمونہ نگارشات محفوظ نہ رہ سکا۔
''دارالسرور'' کے لقب سے موسوم ہندوستان کے دوسرے شہر، سابق ریاست رامپور (ماقبل 'دارالسرور' برہان پور کے متعلق 'زباں فہمی' میں مضمون لکھ چکا ہوں) کا نام کبھی مصطفی آباد ہوا کرتا تھا۔ ادبی لحاظ سے نہایت زرخیز، اس ریاست کا ظہور1774ء میں ہوا اور اس کے پہلے حکمراں نواب فیض اللہ خاں تھے جن کی علمی خدمات میں مدرسہ عالیہ اور رَضا لائبریری کا قیام شامل ہے۔
ریاست رامپور کی تاریخ بھی متعدد ماہرین کے قلم سے منصہ شہود پر آچکی ہے۔ ابھی انٹرنیٹ پر ایک تازہ نام دیکھا، محترمہ سعدیہ سلیم شمسی کی کتاب ''رامپور۔ منظرنامہ تاریخ وتہذیب وادب'' پر ایک تبصرہ بہت عمدگی سے بلکہ تنقید لکھی گئی۔ کاش یہ کتاب بھی میری دسترس میں ہوتی۔ ذکر ہوا، رامپور کے پرانے نام مصطفٰی آباد (عرف مصطفی باد) کا تو لگے ہاتھوں یہ قطعہ بھی دیکھتے چلیں:
ہے عجب شہر مصطفٰی باد
اس کو رکھنا مِرے خدا آباد
سب اسے رامپور کہتے ہیں
ہم تو آرام پور کہتے ہیں
(داغ دہلوی)
رامپور سمیت تمام روہیل کھنڈ کے شعراء واُدباء کی بابت سرسری سرسری گفتگو بھی ہمارے سلسلہ زباں فہ می کی کئی اقساط پرمشتمل ہوسکتی ہے۔ فی الحال پیش خدمت ہیں، روہیل کھنڈی یا رام پوری اردو کے ذخیرہ الفاظ سے کچھ نمونے:
آپا: بڑی بہن، ہمشیرہ اور آ پ خود (یعنی)اپنی ذات: اسی طرح رامپور میں بھی بولا جاتا ہے۔
اُبّو: بھرم، عزت اور حیثیت کے مفہوم میں بولا جاتا ہے ; اب تیری اُبّو بن گئی ہے تو بنی ہی رہنے دے۔
اُتّو: صحیح بلاتشدید اُتوُ، مگر رامپور میں مشدّد ہی بولا جاتا ہے۔ وہ شکنیں یا نقوش جو کسی دھات کے ٹکڑے سے کپڑے پر آرائش کے لیے ڈالے جائیں۔ وہ دھات کا ٹکڑا یا آلہ جو اِس کے لیے استعمال کیا جائے۔
(دیگر تفصیل کے لیے لغت کا مطالعہ مفید ہے: س ا ص) دیگر معانی: مارمار کر لہولہان کرنا، اُتّوُ کرتے ہوئے چلنا، گھِسٹواں (گھسٹ گھسٹ کر: س ا ص) چلنا، زمین پر رگڑتے ہوئے پاؤں رکھنا۔
اُٹنگا: اونچا، خاص طور پر ٹخنوں سے بہت اونچا پاجامہ جو دیکھنے میں بُرا معلوم ہو۔(یہ ہمارے یہاں بھی مستعمل ہے: س اص)
اُجبَک [Ujbak]: مذکر;اُزبَک یا اُزبِک کا بگاڑ یعنی اُزبکستان کا باشندہ۔ رامپوری اصطلاح میں خبط الحواس (مخبوط الحواس: س اص)
اَمبڑ چمبڑ: بیکار کی باتیں اور زبانی جھگڑے کی ایک قسم۔
اچکن: شیروانی (ہمارے یہاں اچکن سے مراد چھوٹی شیروانی ہے جو گھٹنوں سے ذرا نیچے تک آتی ہے: س ا ص)
اختہ، آختہ: پشتو میں مبتلا، مصروف اور شیدا یعنی عاشق۔ لغت میں اس سے مراد بدھیا، خصّی اور خواجہ سرا۔
اَخور: میلا کچیلا، بہت خراب، گندہ۔
اَدَگّا: غیرمتوقع، اچانک
اُڈّوڈیلا: خبط الحواس (مخبوط الحواس: س ا ص)
اَڑیَل: چلتے چلتے راہ میں رُک جانے والا گھوڑا، نیز ضدّی شخص (دیگر علاقوں میں بھی مستعمل: س اص)
اُلّا پَلّا: اِدھر اُدھر کا، یہ اور وہ (یعنی دو مختلف، متضاد یا برعکس باتیں یا چیزیں: س اص);ایسے ہی اُلّی طرف، پَلّی طرف یعنی اِس طرف اور اُس طرف (ہمارے یہاں اس کا اصل یعنی اُرلی طرف اور پرلی طرف بھی مستعمل ہے اور یہ بلاتخصیص یوپی والوں میں عام ہوگا: س اص)
الغو' : کلمہ تحقیر۔ پرلے درجے کا احمق ، بے وقوف۔
اَلَلّے تَلَلّے: انتہائی بے فکری کے ساتھ کسی معاملے میں زیادتی کرنا جیسے ''وہ اَلَلّے تَلَلّے سے اپنا مال لُٹا رہا ہے''۔ (ہمارے یہاں استعمال قدرے مختلف ہے جیسے فُلاں کے اَلَلّے تَلَلّے دیکھے؟ اُن کے تو اَلَلّے تَلَلّے ہی ختم نہیں ہوتے وغیرہ : س ا ص)
اَلَّم غَلَّم: بغیر سوچے سمجھے کی جانے والی باتیں، اِدھر اُدھر کی، مختلف، بے جوڑ، فضول باتیں (ہمارے یہاں یوں بھی بولاجاتا ہے: اسے دیکھو، الم غلم کھائے جارہا ہے، کچھ پروا ہی نہیں صحت کی: س ا ص)
( جاری ہے )