مسئلہ فلسطین اسرائیلی ظلم کا خاتمہ ضروری

اسرائیلی مظالم کم ہوئے نہ اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالی جاسکی


Editorial October 09, 2023
اسرائیلی مظالم کم ہوئے نہ اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالی جاسکی۔ فوٹو: فائل

اسرائیل کے غزہ پر حملے جاری ہیں، بمباری میں 250 سے زیادہ فلسطینی شہید جب کہ 1700 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔حماس اور اسرائیلی فوج کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں،اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے رات بھر غزہ پر بمباری کی گئی، جس میں غزہ کا کثیر منزلہ فلسطین ٹاور ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا۔

فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے حملوں میں اسرائیلی فوج کے بریگیڈ کمانڈر سمیت 500 سے زائد اسرائیلی ہلاک ہو گئے۔اسرائیل نے غزہ کو بجلی، ایندھن اور دیگر اشیاء کی سپلائی روک دی، جب کہ حماس کے حملے کے بعد اسرائیل نے ایک اور محاذ کھول لیا ہے، اسرائیلی فوج نے لبنان کے سرحدی علاقے پر گولا باری کی ہے۔

بلاشبہ مزاحمت کرنا اور اپنی آزادی کے لیے لڑنا فلسطینیوں کا بنیادی حق ہے۔ موجودہ صورتحال پر بات کریں تو یہ انتہائی کرب ناک ہے، اسرائیل کی نہایت مضبوط اور جدید ہتھیاروں سے لیس فوج فلسطینی معصوم شہریوں، عورتوں اور بچوں کے خلاف جارحیت کررہی ہے، اگر اسرائیل اپنے ظلم اور جارحیت پر پردہ ڈالنے اور عالمی برادری کو دھوکا دیتے ہوئے یہ باور کرا رہا ہے کہ وہ فلسطینی حملوں کے خلاف فقط اپنادفاع کر رہا ہے، تو ہر کوئی جانتا ہے کہ اس تنازعہ کا اصل شکار کون بن رہا ہے مگر بدقسمتی سے جب اسرائیل اور فلسطین کی بات آتی ہے، عالمی برادری دہرے معیارات اختیار کرتی ہے۔ دنیا کے ہر باضمیر شخص کے لیے اسرائیل ظلم، استحصال، جھوٹ اور مکر کی علامت ہے۔ یہودی ریاست انھی بنیادوں پر قائم ہوئی ہے اور انھی ستونوں پر کھڑی ہے۔

مسئلہ فلسطین کا آغاز 1917 میں معاہدہ بالفور سے ہوا تھا ۔اسرائیل نے فلسطین پر برطانیہ اور مغرب کی حمایت سے قبضہ کیا تھا،جب اس ناجائز ریاست اسرائیل کو وجود میں لایا گیا اس وقت بھی فلسطینیوں پر ظلم ڈھا کر انھیں ان کے وطن سے نکالا گیا تھا۔

یہودی ہمیشہ جھوٹ بولتے رہے ہیں کہ فلسطینیوں نے رضاکارانہ طور پر اپنے قصبوں اور دیہات سے ترک وطن کیاتھا لیکن آج خود اسرائیل کے مورخین اعتراف کر رہے ہیں کہ یہودیوں نے ایک سوچے سمجھے اور ماہرانہ منصوبے کے ذریعے فلسطینی سرزمین پر نسلی صفائی کا عمل انجام دیا تھا، جس کا مقصد فلسطینیوں کو جلاوطن کر کے ان کے متروکہ علاقوں میں پوری دنیا اور خصوصی طور سے روس، مشرقی یورپ اور جرمنی سے یہودیوں کو لاکر بسانا تھا۔

اپنے اس مقصد کی تکمیل کے لیے یہودی دہشت گردوں نے فلسطینیوں پر حملے کیے اور مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو خوف زدہ کر کے ہجرت پر مجبور کر دیا، جب کہ اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کے سیکڑوں گاؤں اور قصبے تباہ و بربادکر دیے۔مغربی اور امریکی انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کی مسلسل حمایت اب تک جاری ہے۔

اب تک جتنی بھی قراردادیں فلسطین کے لیے پاس کی گئی ہیں ،ان میں سے کسی ایک پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا ہے، کیونکہ اقوامِ متحدہ بہت محدود حیثیت رکھتی ہے کہ وہ اپنے طور پرکرے بھی تو کیا کرے؟جب 1938 میں سعودی عرب میں تیل کے سب سے بڑے عالمی ذخیرے کی دریافت کی اطلاع ملی تواس کے بعد مغربی طاقتوں کو اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کا معیار زندگی اور ترقی عرب کے اس تیل پر منحصر ہو جائے گی۔

چنا نچہ اس تیل پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کی غرض سے انھوں نے ایک نئے منصوبہ پر کام کرنا شروع کردیا اور پھر انھوں نے عربوں کو پریشان کرنے کے لیے ایک ناسور خطہ کی بنیاد ڈال دی جس کے نتیجے میں یہودیوں کی ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ عرب ریاستیں، اسرائیل سے مسلسل خوفزدہ رہ کر مغربی طاقتوں کے کنٹرول میں رہ سکیں اور یہی وجہ ہے عرب ریاستوں کی دولت کا ایک بڑا حصہ اس اسلحے کی خریداری پر خرچ ہوتا ہے جو وہ مغربی حکومتوں سے خریداری کرتی ہیں اور جسے گاہے گاہے اسرائیل کی یہودی حکومت اپنی جارحیت سے عربوں کو خوفزدہ کراتی رہتی ہے اورخطے میں اپنی موجودگی کا انھیں احساس دلاتی رہتی ہے اوراس طرح تیل پر خرچ ہو نے والی ایک کثیر رقم اسلحے کی تجارت سے واپس مغربی اقوام کو مل جاتی ہے۔چنا نچہ مغرب اور خاص کر امریکا کی اسرائیلی حمایت کا سبب مغرب کی وہ پالیسی ہے جس کے تحت وہ جس رقم کو تیل خرید نے پر خرچ کرتے ہیں، اس سے زیادہ اسلحہ بیچ کر کما لیتے ہیں۔

1967سے قبل غزہ کی پٹی مصر کے زیر انتظام تھی اور مغربی کنارہ اُردن کے زیر انتظام تھا مگر ان دونوں میں کوئی جغرافیائی رابطہ نہیں تھا ،اسی لیے آج غزہ میں لاکھوں لوگ دُنیا سے الگ تھلگ یعنی کٹے ہوئے ہیں وہ اسرائیلی محاصرے میں ہیں اور اُن سے ایساسلوک کیا جاتا ہے جیسا ایک بڑے قیدخانے میں قیدیوں کے ساتھ ڈیڑھ ملین(پندرہ لاکھ) فلسطینیوں کا باہر کی دُنیا سے کوئی رابطہ نہیں ،ماسوائے رفاہ کراسنگ کے جو کہ مصر کے زیرِکنٹرول ہے۔

اِسی طرح مغربی کنارہ کے لوگوں کا بھی باہر کی دُنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہے سوائے اُردن کے بارڈر کے جہاں وہ غزہ کی نسبتاً بہتر طریقے سے آ جا سکتے ہیں۔ موجودہ اسرائیلی حکومت کسی بھی امن معاہدہ کے سخت خلاف ہیں جس سے فلسطین اور اسرائیل کے مابین تعلقات معمول پر آسکیں اور آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آئے اور خطے میں پائیدار امن ممکن ہو۔

پاکستان کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تشدد سے دل شکستہ ہیں، حالیہ واقعات مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن دو ریاستی حل میں موجود ہے، 1967 سے پہلے والے بارڈرز کے تحت قابل عمل، خودمختار ریاست فلسطین ہونی چاہیے، فلسطین کی ایسی ریاست ہو جس کا دل القدس الشریف ہو۔ پاکستان اقوام متحدہ، او آئی سی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کا اعادہ کرتا ہے۔

اسرائیلی فوج نہتے فلسطینیوں کو کچلنے کے لیے سرگرم رہی ہے، پوری دنیا سے یہودی اکٹھے کر کے فلسطین میں بسانے اور فلسطینیوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے جرم میں امریکا اورمغربی ممالک برابر کے شریک ہیں،یورپی ممالک میں جانوروں کے حقوق پر توبہت بات ہوتی ہے لیکن فلسطینیوں کی داد رسی کر نے والا کوئی نہیں۔

اسرائیل چاہے بم برسائے، ناکہ بندی کرے، فلسطینیوں کی نسل کشی کرے، ان کا معاشی قتل کرے، ناجائز دیوار کی تعمیر کرے، مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کرے، اسے کوئی روکنے والا ہے نہ باز پرس کر نے والا بلکہ اسرائیل کو خطے کا پولیس مین بنانا اور پھر اس کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کا حصول عالمی قوتوں کا پسندیدہ فارمولہ بن چکا ہے۔

اسی لیے ہزاروں جانیں گنوانے کے باوجود اور باعزت و پر سکون زندگی کے لیے ترستے فلسطینی دنیا کی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ مظلوم فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت پر انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار ممالک کی اکثریت نے اسرائیل جیسی ناجائز ریاست کو تسلیم کر رکھا ہے۔ مشرقی تیمورمیں آزادی کے مطالبے کی عالمی برادر ی نے جس سرعت کے ساتھ حمایت کی کاش ایسی پھرتی فلسطین کے نہتے عوام پر اسرائیلی مظالم کے جواب میں بھی نظر آتی۔

کیا غزہ میں بہنے والا بچوں کا لہو کسی دوسرے رنگ کا ہے؟ کیا فلسطینی مظلوموں کی چیخیں عالمی برادری کے دل دہلانے کے لیے ناکافی ہیں؟ کیا بے گھر فلسطینیوں کی تکالیف سے عالمی ضمیر پر کوئی اثر نہیں پڑا؟ سوالات تو اوربھی بہت سے ہیں لیکن جن سوالات کا پہلے سے ہی علم ہو ان کا کیا پوچھنا۔آج کا اسرائیل صرف فلسطینی سر زمین پر ہی قابض نہیں بلکہ اس کی ریشہ دوانیوں اور عالمی طاقتوں کی ہلا شیری کی وجہ سے ہمسایہ ممالک شام، اردن، لبنان سمیت پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہے۔

1947کی فلسطین جنگ اور1967کی 6روزہ جنگ سے لے کر 1993کے اوسلومعاہدے تک ذرا ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی مظالم کم ہوئے نہ اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالی جاسکی۔ ہاں یہ ضرور ہواکہ مزید ممالک جن میں کچھ اسلامی ممالک بھی شامل ہیں، نے ناجائز ریاست کو جائز تسلیم کر لیا بلکہ اب تو امریکا سمیت کئی ممالک بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بھی تسلیم کرچکے ہیں۔

دراصل اسرائیل شمالی غزہ میں بارڈر کے قریب کے علاقہ کو خالی کروانا چاہ رہا ہے تا کہ وہاں سے اسرائیل کے خلاف راکٹ نہ چلائے جا سکیں، چنانچہ وہ غزہ کی پٹی اور اسرائیل کی سرحد کا درمیانی علاقہ خالی کروانا چاہ رہے ہیں،اسرائیل کی حالیہ جارحیت کے عزائم میں سے ایک یہ بھی ہے، اسرائیل چاہتا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کی مزاحمتی قوت کم سے کم ہو جائے اور اسرائیل پر راکٹ نہ داغے جا سکیں۔ جہاں تک موجودہ بحران کے حل کا تعلق ہے تو اس میں بعض قوتیں موثر اور تعمیری کردار ادا تو کر سکتی ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ وہ اِس مسئلے کے حل کے لیے کتنی مخلص ہیں؟ مثلاً امریکا ہے، اقوامِ متحدہ ہے اور اسلامی دُنیا ہے ۔

امریکی انتظامیہ اُن طاقتوں میں سے ہے جو اسرائیل پر دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ غزہ میں مظالم ڈھانا بند کرے مگر جب ہم امریکا کو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا حق ہے تو ایسے میں اس سے کسی تعمیری اور منصفانہ کردار کی اُمید کیسے رکھی جا سکتی ہے؟ اصل مسئلہ عالمی قیادت کا ہے، بالخصوص انسانی بنیادوں پرمظلوم فلسطینی عوام کا قتل عام بند کروایا جائے فوری طور پر جنگ بندی کو ممکن بنایاجائے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں