ہوئی ملک و قوم کی تباہی
جب بھی سیاسی اشرافیہ کا ان کے غلط کاموں پر احتساب ہوا تو انھوں نے اسے سیاسی انتقام قرار دیا
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ قوم مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔ پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نے عوام کے لیے نہیں اپنے اور مافیاز کے مفاد کے لیے کام کیا اور یہ سب اپنے اپنے مفادات کے لیے جنگ لڑ رہی ہیں۔
جماعت اسلامی اقتدار میں آ کر اشرافیہ کے اثاثے فروخت کرکے ملک کا قرض ادا کرے گی۔ انھوں نے کرپشن کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ اگر پیپلز پارٹی 1994 میں آئی پی پیز سے مہنگے معاہدے نہ کرتی تو عوام مہنگی بجلی کی سزا نہ بھگت رہے ہوتے۔ اگر یہ سستے ذرایع سے بجلی پیدا کریں تو پانچ روپے فی یونٹ بجلی بن سکتی ہے۔
حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بجلی 56 روپے یونٹ پڑ رہی ہے، اس لیے آئی پی پیز کے ساتھ مہنگے معاہدے کرنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے۔ حکومت ان مہنگے معاہدوں پر نظرثانی کرے اور عوام کو مہنگے بجلی بل بھیجنے کے بجائے بجلی کی چوری، مفت فراہمی اور لائن لاسز پر قابو پائے۔
1994 میں پی پی حکومت کے آئی پی پیز سے مہنگے معاہدے کرنے پر تقریباً تیس سالوں سے مقدمات بھی چل رہے ہیں۔ پی پی دور میں بجلی کا محکمہ غلام مصطفیٰ کھر کے پاس بھی رہا اور اسی عرصے میں (ق) لیگ، (ن) لیگ اور پی ٹی آئی کی حکومتیں بھی رہیں مگر کسی نے آئی پی پیز کے ساتھ کیے جانے والے مہنگے معاہدے منسوخ نہیں کیے۔
اگر حکمران عوام کے مفادات کو مدنظر رکھتے اور ایسے منصوبے تشکیل دیتے جس سے سستی بجلی پیدا ہو تو آج یہ صورت حال نہ ہوتی 'آئی پی پیز سے معاہدے کرنے کے بجائے ڈیم بنائے جاتے' شمسی توانائی کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جاتا تو آج بجلی سستی ہوتی اور مہنگی بجلی کے باعث عوام کا جو حال ہو رہا ہے وہ نہ ہوتا۔
صورت حال یہ ہے کہ عوام بجلی استعمال کریں نہ کریں مگر انھیں مہنگے بل دینے پڑ رہے ہیں اور حکومت بجلی ہوتے ہوئے لوڈ شیڈنگ بھی کر رہی ہے اور نگراں وزیر تجارت مارکیٹیں جلد بند کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں اور عوام سے کہا جا رہا ہے کہ وہ مہنگی بجلی خریدتے رہیں اور مہنگائی بھگتتے رہیں۔ یہ پاکستان ہی میں ہو رہا ہے کہ بجلی وافر مقدار میں موجود بھی ہے لوڈ شیڈنگ بھی چل رہی ہے اور آئی پی پیز سے بجلی لو نہ لو مگر انھیں ادائیگی کرنے کے لیے بجلی کے نرخ مسلسل بڑھائے جا رہے ہیں۔
نئے چیف جسٹس نے خود کہا کہ ریکوڈک کے باعث ملک کو بہت زیادہ مالی نقصان ہوا جس کا غلط فیصلہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے دیا تھا اور سزا ملک نے بھگتی مگر ملک کو اتنے بڑے نقصان سے دوچار کرنے والے اس کے باوجود لاکھوں روپے پنشن وصول کر رہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف 2018 میں ترقی کرتے ملک کو موجودہ حالت پر پہنچنے کا الزام لگا رہے ہیں مگر تمام سابقہ ججز ماہانہ کروڑوں روپے پنشن لے رہے ہیں، وی وی آئی پیز ہونے کے مزے اٹھا رہے ہیں۔ کراچی میں نسلہ ٹاور منہدم کرا کر سیکڑوں افراد کو بے گھر اور برباد کرایا گیا ۔ ملک کی تاریخ اشرافیہ کے بے شمار غلط فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔
سیاسی حکومتوں میں یہ فیصلے بھی ہوئے کہ ملک سے گندم، چینی و دیگر اشیا کم نرخوں پر بیرون ملک بھجوائی گئیں اور جب ملک میں قلت ہوئی تو وہی اشیا مہنگے داموں ملک میں منگوائی گئیں۔ سیاسی اشرافیہ نے اربوں روپے کما لیے اور وہ مہنگی اشیا خریدنا ملک کے عوام کا مقدر ٹھہرا سزا بھی انھیں ہی ملی۔
اشرافیہ کے غلط فیصلوں اور سیاسی و غیر سیاسی بالاتروں نے اپنے اختیارات غیر آئینی طور پر پہلے بھی استعمال کرتے رہے مگر انھیں سزا نہیں ہوتی۔ سیاسی اشرافیہ اقتدار میں رہ کر ہر غیر قانونی فیصلوں کے لیے خود کو آزاد اور خودمختار سمجھتی ہے اور جب اقتدار کے بعد ان کا احتساب ہوتا ہے تو لطیف کھوسہ یہ کہتے ہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل میں رکھنا قوم کی توہین ہے۔
کوئی پوچھے کہ چیئرمین پی ٹی آئی جب توشہ خانہ سے قیمتی گھڑیاں صرف بیس فیصد ادائیگی پر لے کر پہلے فروخت اور بعد میں رقم جمع کرا کر کروڑوں روپے کمائے جا رہے تھے تو کیا ملک اور قوم کی توہین نہیں ہو رہی تھی۔
جب بھی سیاسی اشرافیہ کا ان کے غلط کاموں پر احتساب ہوا تو انھوں نے اسے سیاسی انتقام قرار دیا۔ ملک کا واحد ادارہ فوج ہے جس میں اندرونی احتساب عدلیہ سے بھی مضبوط ہے۔
عدلیہ کی خود احتسابی تو یہ ہے کہ اعلیٰ جج جو چاہیں کریں مگر ان کا معاملہ جب جوڈیشل کمیشن میں ثابت ہو جائے تو جج کی مرضی ہے کہ وہ اگر سچا ہے تو انکوائری کا سامنا کرے اور اگر اس پر الزامات درست ہیں تو وہ ازخود ریٹائرمنٹ لے لے اور سزا سے بچ جائے۔فوج اپنے احتسابی طریقہ کار میں جرم ثابت ہونے پر اپنے حاضر سروس میجر کو پھانسی کی سزا دیتی ہے اور کرپشن پر کسی بھی افسر کو گرفتار کرتی ہے۔
بیورو کریسی اتنی طاقتور ہے کہ وہ سیاستدانوں کو بھی کرپٹ کر دیتی ہے پھر اس کے خلاف ایسے ثبوت بھی نہیں دیتی کہ انھیں سزا ہو ورنہ وہ خود بھی پھنس سکتی ہے اور بیورو کریٹس کے بغیر سیاستدان کرپشن کر ہی نہیں سکتے مگر عدالتوں میں کرپشن کے زیادہ کیس سیاستدانوں ہی کے چلتے ہیں اور بیورو کریسی محفوظ رہ جاتی ہے اور اشرافیہ غلط فیصلے کرکے بھی بچ جاتی ہے۔