میاں صاحب کی واپسی اور ملکی حالات

پالیسی ساز مقتدر حلقوں کو اپنی سوچ اورطرزفکر پرنظرثانی کرنا ہوگی

mnoorani08@hotmail.com

قطع نظر اس کے کہ میاں نواز شریف کے خلاف 2017 میں بنائے جانے والے مقدمات درست تھے یاغلط لیکن بہر حال اس وقت کی عدالتوں نے اپنی صوابدید کے مطابق جو فیصلے لکھے اُن کے حساب سے وہ سزا یافتہ ہیں اور وہ دو ماہ کی ضمانت پر ملک سے علاج کے لیے باہرتشریف لے گئے تھے۔

اب جب وہ واپس آرہے ہیں تو انھیں پہلے اس کا انتظام بھی کرنا ہوگا کہ وہ ملک کی عدالتوں سے راہداری ضمانت حاصل کرلیں، وہ اگر اس کے بغیر واپس آئے تو اُصولاً اورقانوناً انھیں ایئر پورٹ سے سیدھے جیل جانا ہوگا۔

21 اکتوبرء کی تاریخ بھی ایسے دن پڑ رہی ہے جس روزہماری عدالتیں عام طور سے بند ہوتی ہیں تو فوری ضمانت بھی حاصل کرنا اُن کے لیے بہت مشکل ہوسکتا ہے۔ ایسا نہ ہوکہ وہ ایک بار پھرمشکلات میں پھنس جائیں۔میاں صاحب جیسے راحت پسندآدمی کے لیے جیل کی زندگی بہت ہی مشکل اورناگوار ہواکرتی ہے۔

صرف ایک چھوٹے سے کمرے میں اکیلے زندگی گذارنا ہم جیسوں کے لیے بھی کوئی آسان نہیں ہوتا، وہ تو پھر اس ملک کے تین دفعہ منتخب وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں اورایک شاہانہ زندگی کے عادی بھی رہے ہیں۔ اُن کے لیے چند لمحوں کے لیے بھی قید گزارنا بہت تکلیف دہ ہوتاہے۔

یہی وجہ ہے کہ مشرف دور میں بھی وہ کسی ڈیل کے ساتھ سعودی عرب نکل گئے تھے اور2019 میں بھی علاج کے لیے لندن روانہ ہوگئے۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اُنکی واپسی اوردوبارہ سیاست کرنا کوئی اتنا آسان نہیں ہوگا۔

آج حالات بہت کٹھن ہیں، شہباز شریف دور کے 16 ماہ کا حساب انھیں دوبارہ وزیراعظم بننے کی راہ میں روڑے اٹکا سکتا ہے۔ اس مدت کا بوجھ پی ڈی ایم میں سے کوئی بھی جماعت اُٹھانے کو تیار نہیں ہے۔

پیپلزپارٹی جس کے کہنے پر شہباز شریف وزیراعظم بننے اور یہ بوجھ اُٹھانے پرتیار ہوئے تھے وہ بھی آج منحرف ہوچکی ہے اورعوام کے سامنے جوابدہی سے انکاری ہے، لہٰذا ایسی صورت میں صرف مسلم لیگ نون ہی عوام کے سامنے اس دور کی صفائیاں پیش کرتی نظر آرہی ہے۔

عوام کی اکثریت اتحادی حکومت کے دور میں ہونے والی مہنگائی پر بہت نالاں ہیں،وہ یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں ہے کہ یہ سب کچھ پی ٹی آئی کی حکومت کا شاخسانہ تھا،وہ تو صرف یہی جانتے ہیں کہ وہ اس عرصے میں راحت حاصل کرنے کے بجائے مزید مشکلات کا شکار ہوئے ہیں۔

شہبازشریف کو اول تو یہ ذمے داری قبول کرنا ہی نہیں چاہیے تھی۔ مگر وزیراعظم بننے کی خواہش میں اگر انھوں نے یہ اہم ذمے داری قبول کرلی تھی تو پھرعوام کی سہولتوں کاسامان بھی کرناچاہیے تھا۔ ریاست بچانے کی باتیں عوام کوسمجھ نہیں آتیں۔

جب عوام ہی نہ رہیں گے تو ریاست کیسے بچے گی۔ عوام کا جینا اس محدود مدت میں جتنا دوبھر کردیا گیا ملک کے 76 برسوںمیں کبھی بھی نہیں کیا گیا، جو کام آج ہماری نگراں حکومت کررہی ہے وہی کام اتحادی حکومت کرجاتی تو پھربھی چھٹکارا ممکن تھا، یعنی ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت اورسرحدوں پرسے اشیائے ضروریہ کی اسمگلنگ ہی کوروک لیتے تو شاید ہمارے یہ حالات نہ ہوتے۔


اس دور کے وزیرخزانہ اسحق ڈار لندن سے آئے تھے تو یہ کہتے ہوئے کہ وہ اس قوم کو معاشی مشکلات سے باہر نکالیں گے اورڈالر کو اس کی اصل ویلیو یعنی 200 روپے پرلے آئیںگے، مگرہوا اس کے بالکل برعکس۔ ڈالر 224 سے بڑھ کر300تک جاپہنچا اورروزمرہ کی چیزوں کے دام عوام کی پہنچ سے مکمل طور پرباہر ہوگئے۔

ایسے میںعوام کس کوذمے دار قرار دیں۔ خان صاحب کے دور میں وہ جس عذاب سے گزر رہے تھے شہبازشریف اوراسحق ڈار کے دور میں وہ اس سے نجات حاصل کرنے کے بجائے مزید مشکلات سے دوچار ہوگئے۔

میاں نوازشریف کو وطن واپس آنے سے پہلے یہ سوچ لینا ہوگا کہ عوام اُن کے بھائی سے سخت ناراض ہیں جس کا ایک ہلکا سا اظہار پچھلے دنوں لاہور میں دیکھا گیا ہے۔ ایسا نہ ہوایئر پورٹ پرجہاز سے اتر کرمیاں صاحب کو بھی عوام کے کسی ایسے ہی ردعمل کاسامنا ہوجائے اوروہ یہاں قیام کرنے کے بجائے ڈاکٹروں کے مشورے پردوبارہ لندن روانہ ہوجائیں۔

استقبال کے لیے چار، پانچ لاکھ افراد کا آنا ایک خواب ہی ثابت ہو۔ پتا نہیں انھیں کس نے مشورہ دیا ہے کہ ایون فیلڈ کے اپارٹمنٹس میں ایک سہل اورآرام دہ زندگی چھوڑکردوبارہ جیل کی کال کوٹھریوں میں واپس آجائیں۔ ہماری نظر میں میاں صاحب درست نہیں کر رہے ۔ اُن کے لیے حالات اب پہلے جیسے نہیں رہے ہیں۔ عوام اپنی نظریں اب ان کی راہ میں نہیں بچھائیں گے۔ وہ پہلے ہی دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہیں۔ملک کے معاشی حالات بھی اتنے اچھے نہیں ہیں کہ کوئی شخص بھی اُنھیں دوتین سالوں میں سدھار سکتا ہے۔

اس کے لیے بڑا وقت درکار ہوگا۔ میاں صاحب کو صرف ملک کے حالات ہی بہتر بنانے نہیں ہیں بلکہ پہلے اپنے خلاف مقدمات سے بھی نمٹنا ہے۔ ایسا نہ ہووہ دباؤ برداشت نہ کرسکیں اورپھرصحت کے مسائل سے دوچار ہوجائیں۔ بہتر یہی ہے کہ جنھوں نے اس ملک کا یہ حال کیاہے انھیں ہی اسے سدھارنے کا کہاجائے۔ جب اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا ہے تو پھراس طرح کی بیان بازی سے خود اپنے لیے کیوں مسائل پیداکرتے ہیں۔

ایک متنازعہ بیان دے کرساری پارٹی کو مشکل میں ڈال دیا۔میاں شہباز شریف کی دوڑ بھی لگوا دی اورسب کوصفائیاں پیش کرنے پرمجبور بھی کردیا۔ساتھ ہی ساتھ اپنی واپسی کاراستہ بھی محدود کردیا،وہ اگرسمجھتے ہیں کہ آج مقتدر قوتوں کی انھیں حمایت حاصل ہے اوروہ شاید دوبارہ وزیراعظم بھی بن سکتے ہیں لیکن یہ حالات کب تک موافق رہ سکتے ہیں کسی کو بھی پتا نہیں۔

دوسری جانب عوام کے دلوں سے سابق وزیراعظم چیئرمین پی ٹی آئی کی محبت ابھی ختم بھی نہیں ہوئی ہے، وہ اس وقت اپنے گناہوں کی سزا ضرور بھگت رہے ہیں لیکن جس طرح یہاں سیاستدانوں کی زندگی میں اتارچڑھاؤ آتارہتا ہے اوروہ کبھی مجرم اورکبھی بے گناہ بنتے رہے ہیں کیا پتا چیئرمین پی ٹی آئی بھی کل دوبارہ کسی کی آنکھوں کاتارا بن جائیں اورایک پیج کی کہانی پھر سے شروع ہوجائے۔اس ملک میں کوئی بھی شے حتمی نہیں ہوتی۔

یہاں کسی کو بھی عوام کاانتہائی مقبول اورمحبوب رہنما بننے ہی نہیں دیا جاتا۔ کسی کو مقبولیت کے اس درجہ پر پہنچنے ہی نہیں دیاجاتاکہ وہ مطلق العنان بن جائے یا پھر خمینی اورطیب اردگان بنکر طاقتور حلقوں کے لیے مسائل پیدا کر دے۔ ہمارے موجودہ حالات اورمعاشی مشکلات کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہاں کسی کو بھی اپنی پالیسیوں پرعملدرآمد کے لیے مناسب وقت اورموقعہ ہی نہیں دیاجاتا ہے۔ پھریہ ملک ترقی کرے توکیسے کرے۔

ہرتین چار سال بعد کی اکھاڑ پچھاڑنے آج اس ملک کی یہ حالت بنادی ہے کہ ہم کسی کومنہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہے۔ قرضے اورامداد مانگ مانگ کروقت گزار رہے ہیں۔امداد دینے والے جوچند ممالک رہ گئے ہیں وہ بھی اب ہم سے نظریں چرانے لگے ہیں۔

پالیسی ساز مقتدر حلقوں کو اپنی سوچ اورطرزفکر پرنظرثانی کرنا ہوگی۔ یہ ملک اب اس طرح مزید نہیں چل سکتا۔ تمام خرابیوں کا ذمے دار صرف اکیلا سیاستداں نہیں ہے، وہ بھی ہیں جوکسی حکمراں کو چلنے نہیںدیتے۔
Load Next Story